صحبت کا اثر

1383

شبانہ رمضان جتوئی
ہمارے معاشرے میں صحبت کے اثرات کے پیش نظرصرف نوجوان طبقہ ہی نہیں بلکہ ہر عمر کے لوگ خرابیوں کا شکار ہورہے ہیںہماری پہلی سوچ جو غلط بے حد غلط ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی برے اخلاق و عادات کے حامل شخص سے بول چال رکھیں گے تو ہم اس کی بر ی صحبت میں رنگ کر برے بن جائیں گے لیکن یہ نہی سوچتے کہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے وہ ہماری اچھی صحبت میں اچھا بن جائے گا اور ٹھیک ہو جائے گا۔در حقیقت بری صحبت کے یہ خدشادات بھی درست ہیں۔
بسا اوقات شیطانی خیالات اور وسوسے غالب آجاتے ہیں اور اچھا بھی برا بننے لگتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ارشاد پاک ہے کہ’’اگر تم کسی بھٹی کے پاس بیٹھو گے تویا تو تم آگ سے اٹھنے والی چنگاری سے نقصان اٹھا بیٹھو گے یا پھر بد بو سے تکلیف اٹھاتے رہوگے جبکہ اس کے برعکس اگر کسی کستوری والے کے پاس بیٹھو گے تو پہلے تو وہ تمہیںتھوری سی خوشبو لگا دے گا نہیں تو اس کے پاس سے آنے والی خوشبو سے دل کو لبھاتے رہوگے‘‘۔اس حدیث کے مطابق صحبت کا اثر ہوتا ہے یعنی اگر ہم کسی اچھے سے تعلق رکھیں گے تو اچھی عادات نقل کریں گے اور اگر برے کے ساتھ ر کھیں گے تو بری عادات سیکھیں گے ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگرکسی برے سے اچھے کو دور رکھا جائے تو فائدہ ورنہ نقصان سے دو چار ہونا پڑتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم برے کو اچھے کی صحبت سے ہٹا دیں گے تو وہ برائی کی انتہاء تک پہنچ جائے گا اور پھر یہی برائی معاشرے میں پھیلے گی جسے روکنے کے لیے ہمیں اچھی صحبت دینے کے لیے اچھے شخص کے تعلق میںجوڑنا ہوگا مگر اس کے لئے چند احتیاطوں کا ہونا ضروری ہے بالکل ایسے جیسے کسی بیمار کی بیماری دور کرنے کے لیے احتیاطیں برتنی پڑتی ہیں ۔اس اخلاقی اور معاشرتی نقصانات کی حامل بڑھتی بیماری کو ختم کرنے والے فرد کو اپنے اخلاق کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ الگ اکیلی جگہ اپنے ساتھی کو سمجھائیں تاکہ دیکھنے والے بھی نہ بھڑکا سکیں اور نہ لعنت ملامت کر یں۔ کہانی کے رویے میں برے کو بری باتیں اپنے آپ بری لگیں گی، اپنی غلطیوں کو قبول کرے گا اور انہیں سدھارنے بھی لگے گا۔
اگر ایسا نہ ہو توسمجھو بیماری طول پکڑ چکی ہے ، اس لیے چند دن اور پرکھنے کے بعد اس سے دوری اختیار کرلے کیونکہ یہی وقت ہوتا ہے جب ایکشن کا ری ایکشن ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے یعنی جب کسی برے پر اچھے کا رنگ نہ چڑھ رہا ہوتو اس وقت اچھے پر برے کا رنگ چڑھنے لگتا ہے۔جیساکہ کسی سائیکالوجیسٹ نے کہا کہ جب تک کوئی کسی بات میں محو رہتا ہے تب تک وہ خود بھی اس کے اثر میںمبتلا رہتا ہے اور دوسرں کو بھی اس میں مبتلا کرتا ہے اس لیے ایسے میں ہمیں اپنی اچھی عادات کو محفوظ رکھنے کی فکر کے ساتھ اپنے اس ساتھی سے کنارہ کش ہوجانا چاہیے۔

حصہ