صحافت ریاست کا پانچواں ستون

1170

محمد اویس سکندر
صحافیوں نے ہمیشہ عوام کی خدمت کے لیے اپنی جان کی پروا کیے بغیر اپنے فرائض ادا کیے ہیں۔ ایک ذمہ دار صحافی بہت مشکل مراحل سے گزر کر چھپے ہوئے حقائق عوام کے سامنے لاتا ہے۔ ایک صحافی ہی یہ جان سکتا ہے کہ اس کے رات اور دن کیسے گزرتے ہیں۔ یہ میں ان صحافیوں کی بات کر رہا ہوں جو صحافت کو عبادت اور اہم فریضہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ایک ذمہ دار صحافی جسے اپنی ذمہ د اریوں کا احساس ہوتا ہے وہ عوام کو ہی اپنی فیملی اور اپنے ملک کو ہی اپنے لیے سب کچھ تصور کرتا ہے۔ صحافی وہ مظلوم طبقہ ہے جو اپنے قلم سے دوست سے زیادہ دشمن پیدا کرتا ہے۔اگر پولیس گردی کے خلاف لکھیں تو پولیس دشمن ہو جاتی ہے اگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف آواز اٹھائیں تو وہ مخالف ہو جاتے ہیں۔ صحافی کرپشن کو بے نقاب کریں تو عتاب کا شکار ہو جاتا ہے اگر صحافی حکمرانوں پہ تنقید کرے تو سازشی قرار دیا جاتا ہے اور اگر صحافی حکمرانوں کی تعریف کرے تو لفافہ صحافی ٹھہرتا ہے۔ ایک ذمہ دار صحافی کی اپنی جان ہتھیلی پر رکھی ہوتی ہے اور کیمرہ، مائیک یا قلم ہاتھ میں کیوں کہ یہی ان کا ہتھیار ہے۔
صحافیوں پر پابندیاں لگتی ہیں، تشدد ہوتا ہے اوران کا قتل ہوتا ہے مگر وہ وطن عزیز کی خاطر کبھی ہڑتال کر کے اخبار یا چینل بند نہیں کرتے اور نہ ہی کبھی کسی صحافی نے کسی احتجاج میں توڑ پھوڑ کی ہے۔ صحافت ریاست کا پانچواں ستون ہے اور اس ستون کو صحافی حضرات اپنی محنت لگن اور جانفشانی کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں صحافیوں کے لیے کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں ہیں۔ ادارے جب چاہیں نوکری سے نکال دیںاور اگر کوئی مرض لا حق ہو جائے تو کوئی پر سان حال نہیں ہوتا۔
کچھ صحافی ایسے ہیں جنھوں نے صحافت کو بدنام کرنا شروع کیا ہے اور صحافت کے نام پر کاروبار کرتے ہیں ۔ جرائم پیشہ افراد صحافیوں کی صفوں میں گھس کرزردصحافت کرتاہے۔ کچھ لوگ صحافت کے لبادے میں کرمینل ریکارڈ صاف کروا تے ہیںاور اچھا کام کرنے والے صحافیوں کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔
گزشتہ روزایک کہانی نظروں سے گزری، جس میں موصوف رائٹر لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے ایک دوست کی گاڑی پر ــ پریس لکھا ہوا دیکھا تو پوچھا کہ آپ صحافی کب سے بن گئے؟ وہ بولے آج سے۔ پوچھا وہ کیسے؟ آپ تو جانتے ہیں کہ میرازرعی ادویات کا کاروبار ہے۔ شہر کے سارے صحافی جعلی ادویات کی دھمکی لگا کر ہراساں کرتے تھے۔ پھر ایک دوست نے مشورہ دیا کہ کسی اچھے سے اخبار کی نمائندگی لے لیں، تو لے لی۔ بس اب ہم بھی صحافی ہیں۔ کوئی ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اور وہ جعلی ادویات کا معاملہ، اس بات کو جانے دیں۔ اب کوئی ہمیں کچھ نہیں کہتا۔
یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ آج کل ہر جگہ ایک سے بڑھ کر ایک صحافتی ادارہ کھل چکا ہے۔ صحافت اب مقصد نہیں بلکہ کاروبار بن چکی ہے۔ ایسے کئی ادارے ہیں جو پریس کارڈ بنا کر دیتے ہیں اور لاکھوں کے حاصل کرتے ہیں۔ ایسے ایسے لوگ بھی صحافی بن کر گھوم رہے ہیں جنہیں الف ب تک نہیں آتی۔ وجہ ہے کہ وہ اپنی نمائندگی چند روپوںکے عوض حاصل کرلیتے ہیں۔ اس سب میں صحافت تو بدنام ہوتی ہے مگر اس میں سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے اس بیچارے سیدھے سادھے اور معصوم محنتی صحافی کا۔
یہ چند الفاظ شایدمیرے موضوع کا احاطہ نہ کرپائیں مگر سلام پیش کرتا ہوں ان محنتی اور حقیقی معنوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو جو واقعی میں صحافت کررہے ہیں۔ میری اس تحریر سے یقینا کچھ صحافی دوستوں کو اعتراض ہوگا مگر کیاکریں جو سچ ہے وہ سچ ہے اس کو بیان کرنا مجبوری ہے۔ اعتراض کریں مگر اس سے قبل اپنی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے۔ بس اتنا کہوں گا اپنے ایسے تمام خریدے ہوئے صحافیوں سے کہ خدارا اس عظیم شعبے کو بدنام نہ کریں، آپ کا جو کام ہے وہ کریں۔ اس کے علاوہ وہ تمام صحافی حضرات جو بلا وجہ دوسروں کو تنگ کرتے ہیں اور بلیک میل کرتے ہیں وہ بھی اپنے شعبے سے مخلص ہوں اور ایسے کام نہ کریں جن سے دوسروں کو تکلیف ہو۔ یاد رکھیں ایک نہ ایک دن آپ کو اس کا حساب دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹا سا مطالبہ ان اداروں کے مالکان سے بھی ہے کہ جو صحافیوں کی تنخواہیں وقت پر نہیں دیتے یا پھر بہت کم دیتے ہیں، خدارا اپنے ان مخلص ملازمین کا خیال رکھیں، ان کی ضروریات پوری کرنا آپ کی ذمے داری ہے۔ اگر آپ ضروریات پوری نہیں کریں گے تو کون کرے گا، ورنہ پھر وہی ہوگا جو یہ کرتے پھر رہے ہیں۔

حصہ