شریکِ مطالعہ

485

نعیم الرحمن
فارس مغل کوئٹہ بلوچستان میں پیدا ہوئے۔ جامعہ بلوچستان سے شعبہ سماجی بہبود میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصے ریڈیو ایف ایم 101سے وابستہ رہنے کے بعد درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ بطور افسانہ نگار ان کے افسانے پاک وہندکے مختلف ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ بطور ناول نگار 2012ء میں ان کا پہلا ناول ’’ہمجان‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ ان کی نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ ’’سرخ ہونٹوں کی کُنج گلی میں‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ حال ہی میں ان کا دوسرا ناول ’’سو سال وفا‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اسے بلوچستان کے منفرد افسانہ اور ناول نگار آغا گل نے ایک دلیرانہ ناول قرار دیا ہے۔ جب کہ میں اسے خونِِ دل سے لکھا ناول سمجھتا ہوں۔
’’سو سال وفا‘‘ ایک محب وطن بلوچی کی اپنی قوم اور ملک دونوں سے وفا کا قصہ ہے۔ ہمارا پیارا وطن جس میں اشرافیہ نے ہمیشہ عام لوگوں کو غلام سمجھا اور ان سے غلاموں جیسا ہی سلوک کیا گیا۔ رقبے کے اعتبار سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان معدنیات کی دولت سے مالامال، اور بلوچ قوم اپنے ہزاروں سال قدیم اور شاندار کلچر اور روایات کی حامل ہے، لیکن اس کے ساتھ ہمیشہ ایک نوآبادی جیسا رویہ ہی رکھا گیا۔ فارس مغل ناول میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے میںکوشاں ہیں کہ جو بلوچ پیاس کے وقت ایک پیالہ پانی پلانے والے سے سو سال وفا کرتا تھا، اس کے ہاتھ میں بندوق کس نے تھمائی؟ بے مثال تحریر میں نہ صرف بلوچستان کا مسئلہ بخوبی اجاگر کیا گیا ہے بلکہ مصنف نے اس کا حل بھی پیش کیا ہے۔ انہوں نے مقامی اور غیر مقامی کی تفریق مٹانے کی مثبت کوشش کی ہے، جس کے لیے کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھیرایا بلکہ ہر ایک کی غلطی واضح کرتے ہوئے اس کے تدارک کا علَم اٹھایا ہے۔
’’سو سال وفا‘‘ میں انوکھی محبت کی دھیمی دھیمی آنچ بھی ہے، بلوچستان کی سیاسی صورتِ حال اور اس کا دیگر صوبوں سے موازنہ بھی، اور ایک عام پڑھے لکھے بلوچ نوجوان کے ذہن میں پلتے سوال اور ان کے جواب بھی موجود ہیں۔ ناول کے ہیرو اور اس کی نابینا پنجابی دوشیزہ کے نام داستان اور فاتحہ بھی علامتی نظر آتے ہیں۔ یہ نام بجائے خود ایک پیغام دیتے ہیں۔ کتاب کا قدرے طویل اور دل سوز انتساب موضوع سے قاری کوآگاہ کردیتا ہے:
’’ریل گاڑی کی آخری المناک سیٹی کے نام، جس کی گونج ابھی تک مہر در کے سینے پر سَر پھوڑتی ہے۔ ہجرتوں کا عذاب کاندھوں پر اٹھائے اُن درختوں کے نام، اپنی مٹی سے جنہیں جڑوں سمیت اُکھاڑ دیا گیا ہے۔ تاریک گوشے میں سمٹے ہوئے شہرِ جاناں کے نام، جس کا امر حُسن بگڑا نہیں، بگاڑا گیا ہے۔ بے کفن مسخ شدہ خوابوں کے نام، جو زندگی کے تعاقب میں اک بند گلی میں گئے اور وہیں کھو گئے۔ چشم براہ ماؤں کے نام، آج پھر جن کے تخیل میں لاپتا بیٹے اُن سے لپٹ کے وہیں سوگئے۔ اُن شہدا کے نام، جنہیں ابھی اور جینا تھا مگر ہوا میں گھلا زہر کھا گیا۔ مسند نشینوں کے نام، جنہیں اورکچھ، ہوا میں زہر گھولنے کا ہنر آگیا۔ سہاگنوں کی زخمی آنکھوں کے نام، جن سے رِستا ہوا اشک وقت کے ہونٹ پر بد دُعا لکھ رہا ہے۔ مورخ کے بے اَدب قلم کے نام، جو عطا کی دھرتی پہ بیٹھا ہے اور اک لہو بھر پیالے کی قیمت سو سال وفا لکھ رہا ہے!‘‘
ایک کہانی نویس کو خضدار کے کباڑی کی بوری میں ٹھنسی ایک سرخ ڈائری ملی جس کے پچھلی طرف جمے خون کے نشانات سے اندازہ ہوتا تھا کہ کسی نے اپنی لہولہان انگلیوں کی پوروں سے تھامنے کی کوشش کی ہے۔ سرسری نگاہ سے کسی سوختہ دل کے ایک ہی قلم سے شب و روزکے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اس ڈائری میں بہت سے واقعات اور سانحات تاریخ اور وقت کے ساتھ انتہائی تفصیل سے درج تھے۔ اسے لکھنے والا کوئی صحافی تھا جسے کہانی نویس نے ناول کی شکل میں پیش کردیا۔ اس ابتدائی تفصیل سے ہی ناول قاری کی مکمل توجہ حاصل کرلیتا ہے جسے ڈائری کی شکل میں لکھا گیا ہے۔
فارس مغل کی کردار نگاری لاجواب ہے۔ یوں تو ناول میں بہت سے کردار ہیں لیکن مرکزی کردار پانچ ہیں جن کے گرد تمام تانا بانا بُنا گیا ہے۔ داستان، نابینا فاتحہ، داستان کا استاد واجہ منصور، اس کا دوست حافظ اور ایک اہم ترین کردار بیلا کا ہے۔ ان کے ساتھ شمسہ، یوسف ماما دربدر کے ذیلی کردار ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔ داستان ایک لا ابالی نوجوان ہے، جو اپنی پُرکشش اور سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے کالج اور یونیورسٹی میں لڑکیوں کا مرکزِ نگاہ رہا اور فلرٹ بھی کرتا رہا۔ لیکن جب اس کا تعارف نابینا فاتحہ سے ہوا تو وہ پہلی ہی نظر میں اس کا اسیر ہوگیا۔ فاتحہ کی منگنی اپنے خاندان ہی میں ہوچکی ہے لیکن داستان کی بے لوث محبت اسے بھی پیار کی ڈور میں جکڑ دیتی ہے۔ یہ انوکھی لو اسٹوری ہے جس میں دونوں محبت کرنے والے پورے ناول میں چند ملاقاتوں اور فون کالز کے سوا کچھ زیادہ وقت ساتھ نہیں گزارتے۔ ہر مرتبہ جب ان کا پیار ملن کے قریب پہنچتا ہے تبھی داستان کسی نئی افتاد میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ لیکن ان کی محبت تمام تر رکاوٹوںکے باوجود قائم و دائم رہتی ہے۔ ’’سوسال وفا‘‘ میں بلوچ رومانی کردار مست توکلی اور سمل کی کہانی ٹکڑوں میں پیش کرکے ناول کو آگے بڑھانے میں بہت خوب صورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔
داستان نے بچپن سے باغیانہ طبیعت پائی تھی۔ گھر کا ماحول بلوچ روایات کا پاسدار، قدامت پسند اور مذہبی تھا۔ مطالعہ کے شوق نے بہت سے مصنفین کے افکار و نظریات کا حامل بنادیا۔ اچھی تصانیف پر گفتگو اس کی عادت بن گئی۔ انقلاب پر مبنی فلمیں دیکھنے کا اسے جنون تھا۔ علمیت سے بھرپور اس کی شخصیت ساتھیوں کے لیے پُرکشش بن گئی۔ پھولوں کی ایک نمائش میں داستان کی دوست شمسہ نے اسے فاتحہ چودھری سے ملوایا جس نے نیرہ نورکا گایا ہوا فیض احمد فیض کا کلام ’’ہم کے ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد‘‘ سناکر حاضرین پر سحر طاری کردیا۔ لیکن یہ جان کر داستان دکھ میں ڈوب گیا کہ فاتحہ نابینا تھی۔ داستان نے پھولوں کی نمائش کا سارا احوال دوست کی دی ہوئی سرخ ڈائری میں لکھ ڈالا۔ دو روز میں اسے فاتحہ سے شدید محبت کا احساس ہوا تو شمسہ سے فون پر اپنے جذبات کا اظہار کردیا اور جلد از جلد دوبارہ ملاقات کا اصرار کرنے لگا۔ لیکن ملاقات پر فاتحہ نے کزن سے رشتہ طے ہونے کا بتا کر داستان کا دل توڑ دیا۔
یہ منفرد پریم کہانی ’’سو سال وفا‘‘ کا صرف ایک پہلو ہے۔ ناول کے اور بہت سے پہلو ہیں۔ تنظیمی ساتھی یوسف سے بحث میں داستان کہتا ہے کہ ’’ہمارے دلیر، غیور، مہمان نواز آبا کی سرزمین جہاں ایک پیالہ پانی کے بدلے ہم سو سال وفا کرتے ہیں، اسی دھرتی پر جب ایک نہتی پنجابی نابینا لڑکی مجھ سے کہتی ہے اسے مجھ سے خوف آتا ہے، اُسے میر نصیر خان کے وارثوں سے خوف آتا ہے تو میں شرمسار ہوجاتا ہوں‘‘۔ یہیں فارس مغل بتاتے ہیں کہ ’’بلوچستان میں تین قسم کی ذہنیت کے بلوچ بستے ہیں۔ ایک وہ جو بلوچستان کی پسماندگی کا ذمے دار پنجابی اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتے ہیں۔ دوسرے وہ جو پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے سرداروں، نوابوں اور صوبے کے کرپٹ سیاست دانوں کو بھی موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ اوّل الذکر لوگ بلوچستان کو اسلام آباد سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ بندوق اٹھا کر آزادی کی تلاش میں پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ موخرالذکر لوگ وفاق میں رہتے ہوئے صوبائی خودمختاری کے حامی ہیں۔ یہ افراد سیاسی، سماجی پلیٹ فارموں پر آزادیٔ اظہار کے ذریعے وفاق کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ لڑائی سیاسی سے زیادہ معاشی ہے۔ بلوچستان کے معدنی ذخائر اور محلِ وقوع عالمی طاقتوں کی نگاہ میں کھٹک رہے ہیں۔ تیسرے وہ افراد ہیں جو اپنے آبا و اجداد کی زمین پر قدیم رسم و رواج کو گلے لگائے چپ چاپ زندگی بسرکررہے ہیں۔‘‘
واجہ منصور ناول کا مضبوط ترین کردار ہے۔ واجہ، داستان کا استاد ہے لیکن ان کا تعلق استاد شاگرد سے کہیں بڑھ کر ہے۔ واجہ اسٹوڈنٹس ونگ کا صدرتھا۔ وہ ریاست کے مقابل لڑتا رہا۔ جوانی کے پانچ سال پہاڑوں پر گوریلا جنگ میں گزارے۔ جب سمجھ آئی تو اس نے ریاست کو گالی دینا چھوڑ دیا۔ چاہتا تو یونیورسٹی میں لیکچرر بن جاتا، مگر اس نے اسکول کا معلم بننا پسند کیا تاکہ ننھے پودوں کی آبیاری کا مشن سنبھال سکے۔ واجہ، داستان سے کہتا ہے کہ پچیس سال قبل اپنے غصے پر قابو نہ پاتا تو کسی وردی والے کو مارکر خود بھی مر کھپ چکا ہوتا، لیکن اب میری میت اس شان سے اٹھے گی کہ لوگ کہیں گے ایک معلم کی سواری آتی ہے۔
واجہ کے قتل کے بعد داستان نے اس کے مشن کو سنبھالا۔ وہ بخوبی جانتا ہے کہ ’’چین کے ساتھ اقتصادی معاہدوں کے بعد بلوچستان میں پہلے سے موجود احساسِِ محرومی پر کس نے تیل چھڑکا اور کس نے آگ لگائی، اور پھر ساٹھ سال کی پسماندگی سے اٹھتے ہوئے شعلوں میں سیاسی وعدے اورطفل تسلیاں راکھ بن کر وفاقی ایوانوں پر اُڑنے لگیں۔ سرداری اثر رسوخ کو بڑھاوا دیتی سرکاری پالیسیوں میں زبان بندی جسے امن پسندی سے تعبیر کیا جاتا… بالآخر باغی آوازیں زنجیریں توڑ کر پہاڑوں پر چڑھ گئیں۔ ریاست جنہیں ساٹھ سال میں اپنا نہ سمجھ سکی، اغیار نے انہیں ساٹھ دنوں میں اپنا بنا کر ریاست کے ماتھے پرکلنک کا ٹیکا لگا دیا۔ دیر تو شاید اب بھی نہیں ہوئی، محروم ِ محبت دکھیاروں کو اسیرِ محبت بنایا جا سکتا ہے۔ زخموں پر نمک کے بجائے مرہم رکھا جا سکتا ہے۔ سرداروں کی خوشنودی کے بجائے عوام کی بھلائی پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ خالی ہاتھوں میں بندوق سے پہلے قلم تھمایا جا سکتا ہے۔ معدنیات سے مالا مال خطے کی قلیل آبادی میں روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ وفا ہو سکتا ہے۔ لوگ دور ضرور ہوئے ہیں لیکن شاید اب تک اتنی دیر نہیں ہوئی کہ فاصلے قربتوں میں نہ بدل سکیں۔‘‘
ناول کے چند بے مثال اور لاجواب فقرے اور مختصر اقتباسات جن سے میرے تجزیے کی تائید ہوتی ہے:
٭جس سماج میں تعصب کے چشموںکی فروخت عروج پر ہو، اس جگہ ذات برادری کی حدود سے باہر محبت کرنے والوں کے صرف جنازے نکلتے ہیں اور اس سمے دین، دھرم، کلمہ، قرآن کچھ یاد نہیں رہتا۔ رِیت رواج مقدم ٹھیرتے ہیں۔ پگڑیوں اور اونچے شملوں کے آگے خانۂ خدا کے غلاف کی حُرمت ہیچ ہوجاتی ہے۔
٭ عالمی منڈی میں مذہب کی قیمتیں عروج پر ہیں جبکہ لبرل ازم ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے۔ ہم سب جرائم پیشہ افراد ہیں جو روزانہ بھیس بدل کر ایک دوسرے کے جرم سے کنی کتراتے گزر جاتے ہیں۔ من حیث القوم ہماری پہلی ترجیح دولت کمانا ہے۔
٭ ہم مزدور پیشہ لوگ ہیں۔ آپ کے خادم ہیں۔ ہم وہاں دولت کمانے نہیں بلکہ آٹا کمانے آئے تھے تاکہ اپنا اور اپنے بھوکے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔
٭ عام بلوچ ہوکہ پنجابی، انہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا یا ان کی نعشوں پر سیاست کرنا کسی خباثت سے کم نہیں، مگر گلہ اُن پنجابی شاعروں، دانشوروں، کالم نگاروں اور کہانی کاروں سے تو بنتا ہے جوآج بلوچستان کو جلتا دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے قلم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
٭ مجھے کہنے والے کی بے بسی پر ترس آتا ہے جو دراصل مسند نشین پنجابیوں سے نالاں ہے مگر اُن کے عہدے اور ادارے کا نام لینے سے ڈرتا ہے۔ چنانچہ پنجابی کا بے دریغ استعمال کرکے اپنی بھڑاس نکالتا ہے۔ جبکہ میری نظر میں اس ملک کے تمام مسند نشینوں کا قوم، قبیلہ اور فرقہ صرف اقتدار ہے۔
٭ ادب کو دیکھ لو، دو چار گنے چنے شعرا و ادبا کے علاوہ قومی افق پر بلوچستان کے نمائندہ کون ہیں؟ بلوچی، براہوی، پشتو میں عمدہ ادب تخلیق ہوا ہے لیکن انہیں قومی سطح پر کون جانتا ہے؟ بلوچ وطن پر لکھے کتنے ناول منظرِعام پر آئے ہیں؟ کتنا آرٹ تخلیق کیا گیا؟ اس جدید صدی میں جب ہر جانب الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے قومیں اپنی شناخت اور نظریات دنیا میں پھیلا رہی ہیں، ہم کہاں کھڑے ہیں؟
٭ تعصب، نفرت اور جاہلیت کے پھندوں سے نکلے بغیرآزادی کا حصول ناممکن ہے۔
٭ کیا ریاست کو برا بھلا کہنا، کسی سردار کا گریبان پکڑنے سے آسان نہیں؟ کیا ریاست کا جھنڈا جلانا، وڈیروں کے اناج بھرے گوداموں کے دہانے کھولنے سے سہل نہیں؟
٭ اے مست! تُو کس قدرگناہ گار ٹھیرے گا اگر تیری تلوار سے کسی عاشق کا خون ہوگیا، پھر تمام عمر اس کی محبوبہ اپنی دل سوز بددعاؤں کے ساتھ تیرا تعاقب کرے گی۔
٭ عدم برداشت انسان کی مہلک کمزوری ہے اور نا امیدی اس سے بھی خطرناک بیماری۔ حالات سے نتائج اخذ کرنا سیکھو، پسِ پردہ حقائق جاننے کی کوشش کرو۔ انتقام کی عینک پہنی ہو تو ہر چیز دھندلی دکھائی دیتی ہے۔
٭ آزادی کی آرزو ہے تو سب سے پہلے اپنے سامنے والے کی آزادی تسلیم کرو، اگر سامنے والا تمہاری آزادی کو تسلیم نہیں کرتا تو ان محرکات پر غور و فکر کرو جن کی بنیاد پر وہ تمہیں کمزور تصور کرتا ہے۔ گریبان میں جھانک کر اپنا احتساب کرو۔
٭ زندہ ہو تو زندہ نظر بھی آؤ۔ نفرت کی زبان سے محبت کی بولی بہت شیریں اور دلنشین ہے۔ نفرت نقصان کا دروازہ کھولتی ہے جبکہ محبت مسیحائی کا درس دیتی ہے۔
٭ انسانوں کو ذات پات، رنگ، نسل، زبان، مذہب، علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ مہر و وفا کی کسوٹی پر پرکھنا سیکھو۔ اس جہانِ فانی سے انسان کُوچ کرتے ہیں مگر انسانیت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
٭ اس دھرتی کا پانی پینے والوں کو بتانا کہ اس سر زمین پر ہر اُس انسان کا حق ہے جو اس کی مٹی سے سو سال وفا کا عہد باندھ کر جیتا ہے۔ کسی کی وفا پر شک کرنے سے پہلے اپنی وفاکے معیار پر دھیان ضرور رکھنا۔
غرض ہمارے اپنے صوبے بلوچستان کے باسیوں کے دکھ درد اور وفا کا انتہائی دل چسپ اور چشم کشا ناول ہے جسے ہر صاحبِ دل، حساس قاری کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ یہ ناول نصاب میں شامل کیے جانے کے قابل ہے۔ اس کی مدد سے ہم اپنے وطن کے مختلف خطوں کے باسیوں کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں۔ جیو فارس مغل، تمہاری ایسی مزید تحریروں کا انتظار رہے گا۔

حصہ