شاعری، شعور اور شہزاد احمد

784

محمد حمید شاہد
معنیاتی بہاؤ اور شعری جمالیات
وہ شاعری جس سے تخلیقی رشتہ قائم کرنے سے شہزاد احمد مجتنب رہے ، اس کی ایک خوبی یہ رہی ہے کہ اس میں حسی سطح پر پیکر بنتے ہی چلے جاتے ہیں، یوں جیسے آپ باریک سوراخ والی نلی کو صابن گھلے پانی میں ڈبونے کے بعد،اس میں پھونک مار کر رنگ اچھالنے والے بلبلے فضا میں اڑا لیتے ہیں ۔ یہ رنگ پچکاری چھوڑتے پیکر اپنے قاری کو ایک معنیاتی ربط دیں نہ دیں اس کے اندر ابال پیدا کرتے ہیں ۔ تاہم شہزاد احمد کے ہاں جو تخلیقی وتیرہ بنا ہے اس میں معنیاتی سطح پر کچھ صورتیں بنتی ہیں ۔ میں نے محض معنی نہیں کہا معنیاتی پیکر کہا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ شہزاد احمد کے ہاں لفظ کے پیندے سے پیوستہ معنی اور مفہوم سے کہیں زیادہ وہ معنیاتی سلسلہ اہم ہو تا ہے جو فن پارے کی کل سے برآمد ہو رہا ہوتا ہے۔ اچھا یہ معنیاتی سلسلہ کہیں تو معلوم سے نامعلوم کے ساتھ منسلک ہے اور کہیں نامعلوم سے معلوم کے احاطے میں برسنے لگتا ہے ۔ اسی سے کہیں تو ایبزڈ اور کہیں سریلسٹک فضا اور ایک دھند سی بنتی ہے جو متن میں معنوی دبازت کی بصری تشکیل کرتی ہے۔
’’میں ‘‘ سے ’’ میں ‘‘ تک بہت فاصلہ ہے
اگر جاننے کی تمنا بھی ہو
تو یہ ممکن نہیں ہے
کہ ہم اس مسافت کو کم کر سکیں
’’میں ‘‘ سے ’’میں‘‘ کو بہم کر سکیں ‘‘
موجود اور وجود کی دوئی کے اس شعور کا شاخسانہ ہے کہ شہزاد احمد کو محض سائنسی فکر والا اور منطقی نہیں کہا جا سکتا اوراسی قرینے نے اس کے شعور سے جڑے ہوئے علاقے میں متشکل ہونے والی شعری جمالیات کو مختلف کر دیا ہے
کچھ غزل کے باب میں
اپنی غزل میں شہزاد جدید مضامین کی طرف لپکنے کے باوجود، اس صنف کی اپنی مابعد الطبعیاتی روایت اور آہنگ سے الگ نہیں ہوتے ۔ روایت کا لازمی تقاضہ یہ بھی ہے ، کہ ماضی سے ایک صحت مند تعلق استوار کیا جائے ۔ شہزاد احمد اس باب میں کسی الجھن کا شکار نہیں ہے، ایسا تعلق ان کی غزل میں بہ خوبی استوار ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم شہزاد احمد اس روایت کے پیڑ سے پھوٹنے والی کل کی شاخ کو دیکھ رہے ہیں اور ان کا بنیادی قضیہ بھی آج بہ مقابلہ آنے والا کل ہے۔ اپنی بے مائیگی والے آج کے مقابلے میں ہرا بھرا کل۔
اب کہاں وہ نجد کے صحرا میں آواز بلال
مسجدیں ویراں، شکستہ ہو گئے مینار بھی
جس کو عبرت کا نشاں ہم نے بنا رکھا ہے
کل اسی پیڑ سے اک شاخ ہری نکلے گی
کبھی تو لے ہی اڑوں گا قفس کو ساتھ اپنے
ہنوز مجھ کو تمنائے بال و پر ہی سہی
اوس پڑتی نہیں جلتی ہو ئی امیدوں پر
خوں میں گرمی ہو تو احساس جواں رہتا ہے
ماضی، حال اور مستقبل تینوں پر ایک ساتھ نظر رکھنے والے رجائی شہزاد احمد کے اندر جستجو اور طلب کی ایسی شمع روشن ہے جو اس پر منزلوں کو اجالتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی نظم میں در آنے والے بے پناہ بے اطمینانی یہاں اسی جستجو سے مات کھا جاتی ہے ۔
کھو جاتی ہیں تاریکی میں جب آنکھیں
رستہ اپنا کھوج لگانے لگتا ہے
ٓآئینے میں بھی نظر آتی ہے تیری صورت
کوئی مقصود نظر تیرے سوا کیسے ہو
اپنے مقصود کو یوں ہر دم سامنے پانا اور تاریکی میں بھی راستہ کھوج نکالناغزل کی صنف کے اپنے روایتی مزاج ہی سے ممکن ہو پایا ہے ۔ وہ بے پناہ بے قراری جو شہزاد کی نظموں کا حصہ ہو گئی غزل میں وہ ایک نئی راہ کھوج نکالنے میں کامیاب رہی تو اس کا سبب اس صنف کا اپنا مزاج ہے جس میں شہزاد احمد نے اکھاڑ پچھاڑ سے احتراز کیا ہے۔ وہ کہیں بھی غزل میں کوئی نیا تجزبہ کرتے نظر نہیں آتے،اور بدلے میں تنگنائے غزل میں انہیں اماں ملتی ہے ۔
گرچہ اک تیرگی ہیں ہم لیکن
کچھ ستاروں کے درمیاں ہیں ہم
گفتگو زرد ستاروں سے ہوئی آخر شب
بجھ گئی رات تو سینہ ہوا روشن میرا
تاہم غزل میں اگر وہ کوئی تبدیلی لے کر آئے ہیں تو اس کا تعلق اس کے مضامین سے بنتا ہے ، سیاسی اور سماجی معنویت سائنسی اور نفسیاتی معنویت میں آمیز ہو کر جس معنیاتی فضا کو ترتیب دے رہی ہے اس نے شہزاد کی روایت کا احترام کرنے والی غزل مختلف ذائقے والی غزل بنا دیا ہے۔ اب کہکشاں اس سے مکالمہ کرتی ہے یوں کہ اس کی اپنی راہ گذر دور تک روشن ہو جاتی ہے۔
کیا کوئی ماہتاب پھر جلوہ فگن ہے بام پر
سارا جہاں چمک اٹھا اک مری راہ گزر کیا
روشنی کا یہ سمندر ہے کہ تاروں کا ہجوم
یہ ستارے ہیں کہ آنکھیں مری تنہائی کی
شہزاد احمد منطق اور عقل کا آدمی سہی مگر اس منطق اور تعقل نے اس کی آدمیت اور تہذیبی شعور نہیں پچھاڑا ۔ اس کے ہاں تخلیقی سطح پر انفارمیشن کا محض اتنا حصہ صرف ہوتا ہے جو علم بن کر انسانی ضمیر سے جڑ جاتا ہے ۔ اسی وتیرے نے اسے ، موضوعات کو محبوب رکھنے کے باوجود غزل کی تہذیب سے دور نہیں ہونے دیا ۔
آگ سے پھول چنوں ، ریت سے گوہر لاؤں
اپنی نظم میں ریت سے گوہر ڈھونڈ نکالنے اور اپنی غزل میں آگ سے پھول چننے والے شہزاد احمد کو انسانی ذہن بہت عزیز ہے وہ اس کی بابت دعا کرتارہا ہے کہ’’ خدا اسے ہمیشہ زندہ اور تابندہ رکھے‘‘ ، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ انسانی ذہن کو ایسی قوت متخیلہ کا حامل سمجھتا ہے جو کسی اصول کی پابند نہیں ۔ اس باب میں اس نے روشنی کی رفتار کی مثال دے رکھی ہے ، وہ روشنی جو اگر سورج بجھ بھی جائے تو آٹھ منٹ تک ہمیں اجالتی رہے گی ۔ معدوم ہونے والے سورج کی روشنی واہمہ ہوگی یا بجھ چکا سورج جو اگلے آٹھ منٹوں میں ہمارے تصور میں پہلے کی طرح روشن رہے گا ، آپ کا فیصلہ کچھ بھی ہو ، شہزاداحمد کی شاعری توانہی واہموں کی دلداہ ہے۔ یہ تواہم کا کارخانہ سہی مگراس کی شعری کائنات میں ایسی حقیقت ہو جاتی ہے ،کہ اس سے زندگی کی رسائیوں اور نارسائیوں کی بہتر تفہیم ممکن ہو جاتی ہے:
عجب اک سلسلہ ہے
سلسلہ در سلسلہ ہے
اور ہم چھوٹے سے سیارے میں بیٹھے ہیں
سمجھتے ہیں کہ ان پہنائیوں کا مدعا ہم ہیں
مگر ان وسعتوں کے سحر سے نا آشنا ہم ہیں
(کہاں تک ساتھ دے سکتی ہیں آنکھیں)
۔۔۔۔۔۔
کوئی سورج مری مٹی سے پیدا کیوں نہیں ہوتا
ستارے روز ہی کیوں آسمانوں سے نکلتے ہیں
مجموعی طور ہر دیکھا جائے تو اپنی مٹی سے سورج اور ستارے اگانے کی للک رکھنے والا یہ تخلیق کار اعہد حاضر کا انسان ہے اور مستقبل پر نگاہ رکھے ہوئے ہے یوں کہ اس کی نظروں سے اس کا ماضی بھی اوجھل نہیں ہوتا ۔ وہ تکمیل کل اور نور ازل کو انسان کے نور میں ظاہر ہوتے دیکھتا ہے اور اس نور جھپاکے میں اپنی برہنگی کو دیکھ کر شرماتا ہے ۔ ادھورے پیکروں کی برہنگی، نئے نئے ملبوسات کے باوجود ننگا ہو جانے والا ننگا پن۔ غبار دنیا میں اٹا ہوا آدمی شہزاد احمد کی شاعری کے مرکز میں ہے وہی جو اپنا لباس گرا چکا اور اب اپنا وجود بھی گرا رہا ہے ۔ اسی گرے پڑے آدمی پر تنی ہوئی رات میں اس نے اپنی فکر کے چراغ کی لو سے تیشے چلائے اوریوں اپنے لیے ایک شعری آہنگ ڈھال لیا جو قدرے نامانوس اور ہمارے لیے نیا سہی مگر یہ شعری لحن اب اردو ادب میں ایک الگ باب ہو گیا ہے۔
میری آنکھوں میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ تھا
اس خرابے میں یہ کیا شمع جلا دی تو نے
۔۔۔۔۔۔
شگاف ڈال دیے رات کی فصیلوں میں
میں گھر سے لے کے چلا تھا چراغ ٹوٹا ہوا
***
مآخذ
۱۔ شہزاد احمد، ٹوٹا ہوا پل ( غزل، نظم)، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۳ء
۲۔ شہزاد احمد،جلتی بجھتی آنکھیں ( غزل)، لاہور، الحمد پبلی کیشنز، ۱۹۹۴ء
۳۔ شہزاد احمد، ادھ کھلا دریچہ ( غزل، نظم)، لاہور، الحمد پبلی کیشنز، ۱۹۹۵ء
۴۔ شہزاد احمد، خالی آسمان ( غزل، نظم)، لاہور، الحمد پبلی کیشنز، ۱۹۹۵ء
۵۔ شہزاد احمد،معلوم سے آگے ( غزل، نظم)، لاہور، الحمد پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء
۶۔ شہزاد احمد، اندھیرا دیکھ سکتا ہے ( غزل، نظم)، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء
۷۔ شہزاد احمد، آنے والا کل ( غزل، نظم)، لاہور،ملٹی میڈیا افیئرز ، ۲۰۰۵ء
۸۔ شہزاد احمد، مٹی جیسے لوگ ( غزل، نظم)، لاہور،ملٹی میڈیا افیئرز ، ۲۰۰۹ء
۹۔ شہزاد احمد،خطبہ صدارت ، حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد ۲۰۰۷ء

حصہ