سائنسی خبریں

292

قاضی مظہرالدین طارق
خود کُشی کرنے والے خَلیے!
پال بیگلر رپورٹ کرتے ہیں کہ :
ہمارے جسم میں کُل ستر سے سو کھرب خَلیے موجود ہیں، آپ حیران نہ ہوں ان میں سے پچاس ارب خَلیے گزشتہ کَل مر گئے تھے،آج رات تک پچاس ارب کی گنتی پوری ہو جائے گی،پھر کَل بھی اور پچاس ارب مرجائیں گے۔
مطلب روزآنہ پچاس ارب خَلیے، آپ کی زندگی کی خاطر، اپنی جان اپنے ہی ہاتھوںقربان کردیتے ہیں۔ہر روز،روزآنہ اربوںکے حساب سے اضافی خَلیے پیدا ہو تے ہیں جن کو مار کر صاف کیا جاتا ہے۔خاص کررحمِ مادر میں ،جب ہماری زندگی شروعات ہورہی تھی۔
ایک مکمل خَلیے(ہپلائیڈ سَیل) سے تقسیم در تقسیم ہو کر اربوں کھربوں خَلیے بن جاتے ہیں،اس وقت سب خَلیے ہر طریقہ سے بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں۔مگر ظاہر ہے کہ بعد میں ان میں سے کسی کو ؛دل بننا تھا،تو دوسروں کو خون ، جگر، آنکھ، کان اور دماغ بننا تھا،یہ سب خَلیے نہ ایک جیسے ہو سکتے ہیں نہ ہیں۔
تصور کیجیئے! یہ خَلیے گوندھی ہوئی مِٹّی کاایک تودہ ہے، جو ایک کاریگر کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے،اور وہ اپنے اَوزار سے آہستہ آہستہ گیلی مِٹّی کاایک ایک چھوٹا سا حصہ ہٹاتاجاتاہے،اورہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوبصورت وجود نظر آنے لگتا ہے۔
اسی طرح رحمِ مادر میں ایک تخلیق کارجیسا چاہتا ہے ہم کو بناتا ہے،جس کے لیے، وہ کچھ خَلیوں کو حکم دیتا ہے، کہ ’’ اپنی قربانی خود پیش کرو!‘‘
جیسے اُنگلیاں بنانے کے لیے ، لوتھڑے جیسے ہاتھ میں سے اضافی خَلیے اپنے آپ کو قربان کر لیتے ہیں۔
خود کُشی کا یہ عمل،خَلیوں کی اضافی پود کو قابومیں رکھتا ہے،یہ نہایت نازک میزان ہے،جو اگر کم مریں تو کینسر پیدا ہو جائے،اور اگر زیادہ مر جائیں تو کئی اعضا بننے سے رہ جائیں۔
سائنس کا علم، ہم کو بتا ہی نہیں سکتا ،کہ یہ انتہائی نازک میزان(بیلینس) قائم کرنے والا کون ہے؟
…٭…
مرنے والے خَلیوں کی آخری وصیت۔۔۔۔۔۔۔ !
حالیہ تحقیق کے مطابق،جب خَلیہ(سیل) کی موت قریب آتی ہے تو وہ اپنے اطراف کے خَلیوں کو خبردار کرتی ہے۔
سفید خَلیے اپنی موت کے قریب، دانے پُرے ہوئے ایسے دھاگے بھیج کر اپنے اطراف کے خَلیوں خطرے سے آگاہ کرتے ہیں۔
لاطروب یونیورسٹی کی جارجیہ اطروب کہتی ہیں، آپ تو یہ سُن کر حیران و پریشان ہو جائیںگے کہ جب کوئی خَلیہ ایسا بیمار ہوجاتا ہے کہ اس کی بیماری دوسروں کو لگ سکتی ہے تو پورے جسم کو نقصان سے بچانے کے لیے وہ خود کوہلاک کر لیتاہے۔
…٭…
کیا انسان کائنات میںاپنی مرضی چلا سکتاہے ؟
’کا سمک میگزین‘ کے جناب الفریدو مِطرے صاحب کی وضاحتـ:
یہ میگزین خالص سائنسی ہے،یہ رائے بھی سائنسی ہے، جس کی سائنسی وضاحت مِطرے صاحب کرتے ہیں:
کہتے ہیں کہ نہیں!
طبیعات(فِزِکس)کا ایک بڑا بنیادی سوال یہ ہے کہ’’کیا انسان اس کائنات میں؛یااس کے کسی طبعی نظام میں،یا اس نظام کے کسی حصے میں، اپنی مرضی آزادی سے چلا سکتاہے کہ نہیں؟‘‘
طبیعات کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ’کائنات میکا نائی ہے‘ ،یعنی کائنات کا نظام ایک مشین کی طرح چل رہا ہے۔مشین ایک لگا بندھا نظام ہے، جس کی تعریف یہ ہے کہ وہ کچھ پُرزوں پر مشتمل ہے،یہ پُرزے اپنے اپنے مختلف فرائض انجام دیتے ہیں، سب ایک دوسرے سے منسلک اور ان کے کام ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔
لیکن سب ایک ہی مقصد کے لیے کام کرتے ہیں، اور اپنا ایک مشترکہ حدف حاصل کرتے ہیں۔
جیسے میوزیکل’آرکِسٹرا‘یا ’قوّالی‘،مختلف قسم کے ساز بجانے والے ہوتے ہیں، مگر ایک ڈائریکٹر کے اشارے ایک مشترک لے نکالتے ہیں۔فزکس میں ہم فطرت کا مطالعہ کرتے ہیں،اس کے مختلف نظاموں کے نمونے یاماڈلز بناتے ہیں،اور ان کا موازنہ کرتے ہیں۔
مشین کاہر پُرزہ ایک دوسرے سے منسلک ہے ، سب کے کام ایک دوسرے کے کام پر منحصر ہیں۔ہر ایک انفرادی طور پر کام ہی نہیں کر سکتاتو انفرادی آزادی کیسی؟
جبکہ انسان پوری کائنات کی مشین کا ایک پرزہ ہے،تو انسان بھی اپنے کاموں کے لیے آزاد کیسے ہو سکتا ہے؟
مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرتے ہی اعلان تھا کہ ’’میں اس کو زمین پرکچھ محدود اِختیارات کے ساتھ اپنا نائب بنا کر بھیج رہا ہوں!‘‘
اس اعلان کا علم حاصل کرنے کا انسانی سائنسی علم کے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔
٭…٭
صرف پانچ ممالک مچھلیوں کابڑا حصہ لے اُڑتے ہیں
گیتن جالی رنگنیکر رپورٹ کرتے ہیں:
دنیا کے صرف پانچ ممالک ؛چین ، جاپان ،تائیوان ، جنوبی کوریا اور اسپین سمندری مچھلیوں کی پیداوار کا سب سے زیادہ حصہ چٹ کر جاتے ہیں۔یہ ممالک پیداوار کا ۸۶فیصدشکار کرتے ہیں۔
یہ معلومات سمندری جہازوں کی نقل و حرکت کی انتہائی احتیات کے ساتھ نگرانی کرنے والی دو سال تک کے تجزیہ پر مبنی ہے،جس کے مطابق کھلے سمندر کے علاوہ یہ ممالک کم آمدن والے ملکوں کے سمندری حدود میں بھی مچھلی کا تجارتی پیمانے پر شکار کرتے ہیں۔
کیلیفورنیا کی یونیورسٹی کی تحقیقاتی ٹیم، جس کی سربراہی جناب ڈگولس جے میکالے کر رہے ہیں،سمندر میںدو سال تک بیس ارب خودکار نظاموں سے نتائج حاصل کر کے یہ تجزیہ اخذ کیا ہے۔
بڑی آمدنی والے ممالک اپنے علاقوں میں تجارتی ماہیگیری کے ساتھ ساتھ درمیانی اورکم آمدن والے ممالک کے علاقائی سمندری حدود میں بھی تجارتی ماہی گیری پر حاوی ہیں۔
اس بات کی وجہ سے سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ کھلے سمندر میں اور مختلف ملکوں کے سمندری حدود میں مچھلیاں پکڑنے اور تقسیم کرنے میں انہائی بے قائدگیاں ہو رہی ہیں،جس کی بنا پر ڈر ہے کہ ایک مختصر عرصے کے بعد اس ناانسافی کے خلاف سخت رد عمل ہوگا۔
…٭…
ناسا نے سورج کے دل کو قابو کرنے کے انتظامات کر لیے
ناسا نے ایک خلائی جہاز’پارکراسپیس پروب‘ کے نام سے ہفتہ گیارہ اگست ۲۰۱۸؁ء کو سورج کی سَمت روانہ کیا ہے،جو سورج سے اتنی قریب جا کر اس اندر کا مطالعہ کرے گا،اب تک اتنی قریب کوئی خلائی جہاز نہیں گیا ۔
یہ ایک چھوٹی سی کار کے برابر ہے، یہ جہاز زہرہ کی کششِ ثقل کا استحصال کرکے سات سال کی مدت میں سورج کے مدار میں سورج سے قریب ہوتا جائے گا،عطارد کے مدار سے بہت اندر،اتنی نزدیک کوئی مصنوعی سیّارہ اب تک نہیں پہنچا۔
ناسا ۴۵ منٹ کی کھڑکی سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے، جو امریکہ کی دن کی روشنی کی بچت والے مشرقی وقت کے مطابق صبح کے تین بجکر پینتالیس منٹ سے شروع ہو گا؛ برطانیہ میں اس وقت صبح کے سات بج کر پینتالیس منٹ ہوں گے، پاکستان میں دوپہر کے بارہ بج کر پنتالیس منٹ ، آسٹریلیا کے مشرقی وقت کے مطابق شام کے پانچ بج کر پینتالیس ہو رہے ہوں گے۔
یہ جہاز امریکہ میں فلوریڈا سے روانہ کیا گیا…!

حصہ