زندگی سے آزادی

291

زاہد عباس
’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں‘‘… فضائوں میں چاروں طرف گونجتی آواز نے سماں باندھ دیا۔ یہ رات عام رات نہ تھی، آزادی کا جشن منانے والوں نے سڑکوں پر نکل کر اسے آزادی کی چاند رات بنا دیا تھا۔ خوشی کے ان لمحات میں گھر کی چار دیواری میں قید رہنے کے بجائے میں بھی ان حسین مناظر کو اپنی آنکھوں میں قید کرنے سڑک کی جانب چل پڑا، جہاں ہر طرف چراغاں اور لہراتے پرچموں کی بہار تھی۔ سڑک کے کنارے لگے عارضی اسٹالز پر خواتین اور بچے 14 اگست کی مناسبت سے خریداری کرتے دکھائی دیے۔ قدم قدم پر لگائے گئے ان اسٹالز پر بجتے ملّی نغمے لوگوں کا خون گرما رہے تھے، ہر طرف جشن کا سماں تھا۔ رات بارہ بجتے ہی آتش بازی کا شاندار مظاہرہ شروع ہوگیا، جس نے آسمان پر مختلف قسم کے خوبصورت رنگ بکھیر دیے۔ فضائیں پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھیں۔ قریبی عمارتوں پر لگے برقی قمقمے دل کش نظارہ پیش کررہے تھے۔ ان خوبصورت مناظر کو دیکھنے کے لیے لوگ خاصی بڑی تعداد میں گلیوں سے سڑک کی جانب نکل آئے۔ کوئی ڈانس کرتا تو کوئی پرچم لہراتا، کچھ لوگ ورائٹی پروگرام کی تیاریوں میں مشغول تھے تو کہیں براہِ راست ملّی نغمے گاکر ملک سے محبت کا اظہار کیا جارہا تھا۔ نوجوان موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر کبھی اِدھر، تو کبھی اُدھر چکر لگاتے دکھائی دیے۔ اس صورتِ حال میں رائیڈرز بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے! جنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ جشن آزادی منانے کے بجائے اپنی زندگی سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس رات ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں جشن آزادی مناتا دکھائی دیا۔ یہ پُررونق شب کب تمام ہوئی خبر نہیں۔
جذبۂ حب الوطنی سے سرشار منچلے نوجوانوں کا خطرناک انداز میں موٹر سائیکل چلانا نئی بات نہیں، ایسی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں جن کے مطابق شاید ہی کوئی ایسی سڑک ہو جہاں ایک پہیّے پر موٹر سائیکل چلاتا کوئی نوجوان دکھائی نہ دے۔ شام کے اوقات میں جب سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک ہوتا ہے اور گاڑیاں پھنس پھنس کر چل رہی ہوتی ہیں اُس وقت بھی آپ کو اپنی’دھن کے پکے‘ چند ایسے نوجوان ضرور نظر آجائیں گے جو تمام خطروں کو جانتے بوجھتے پیٹ کے بل لیٹ کر موٹر سائیکل چلانا بہت بڑی بہادری سمجھتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ٹریفک کے رش میں انتہائی تیز رفتاری سے، ریس کے انداز میں، وہ بھی لیٹ کر موٹر سائیکل چلانا معولی بات نہیں… یہ انتہائی بہادری کے ساتھ ساتھ دل گردے کا کام بھی ہے۔ سوچیے، جس منظر کو دیکھ کر ہی لوگ اپنی انگلیاں دانتوں تلے داب لیں، وہ کس قدر مشکل ہوگا۔ نوجوانوں کا اس طرح کے کرتب دکھاتے ہوئے، بہادری اور بے وقوفی میں بہت کم فرق رہ جاتا ہے، لیکن کراچی کے نوجوان تو خطروں کے ایسے کھلاڑی بن چکے ہیں کہ وہ کسی صورت بھی ماننے کو تیار نہیں۔ وہ اس خطرناک کام میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اگر انہیں شہر کی مرکزی شاہراہوں پر اپنی فنکاریاں دکھانے کا موقع نہ مل سکے تو اپنے ’شوق‘ کو جِلا بخشنے کے لیے وہ ہر اتوار کلفٹن کے ساحل، دو دریا، ڈیول پوائنٹ یا ڈیفنس پہنچ جاتے ہیں، جو تیز رفتار موٹر سائیکل ریس دیکھنے اور اسٹنٹس کرنے کے لیے مشہور ہیں، جہاں ہر اتوار کی دوپہر سے ہی سینکڑوں نوجوانوں کا رش لگنا شروع ہوجاتا ہے جو مغرب تک جاری رہتا ہے۔ ساحل کے انتہائی قریب ہونے والی اس ریس کے بعض نظارے ایسے ہوتے ہیں جنہیں محسوس کرتے ہی دیکھنے والے کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
موٹر سائیکل پر مختلف کرتب دکھانے والوں کی یہ ریس عموماً شام چار بجے کے آس پاس شروع ہوتی ہے۔ اس ریس میں حصہ لینے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ کبھی چار سو، تو کبھی پانچ سو، اور کبھی اس سے بھی زیادہ۔ چونکہ اس ریس کا باقاعدہ کوئی منتظم نہیں ہوتا، لہٰذا نہ تو ’موت سے کھیلنے والوں‘ اور نہ ہی انہیں دیکھنے والوں کی اصل تعداد کے بارے میں درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ریس عام موٹر سائیکل ریس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ یہاں مقابلہ تیز رفتاری سے جیتنے کا نہیں، بلکہ موٹر سائیکل کو تیزرفتاری سے چلاتے ہوئے مختلف کرتب دکھانے کا ہوتا ہے جن میں ایک پہیے پر موٹرسائیکل چلانا، لیٹ کر چلانا، دونوں ہاتھ چھوڑ کر چلانا، کھڑے ہوکر چلانا، ایک ہاتھ سے چلانا، الٹے بیٹھ کر چلانا، لمبی لمبی چھلانگیں لگانا، موٹر سائیکل کو ہوا میں اچھالنا، گول گول دائروں میں گھمانا، بائیک کو کبھی اگلے پہیے پر توکبھی پچھلے پہیے پر اٹھانا، گھمانا، چلانا، دوڑانا، اور تیزی سے دوڑاتے دوڑاتے اس قدر تیز بریک مارنا کہ ٹائروں سے دھواں نکلنے لگے، یا سائیڈ اسٹینڈ کو سڑک کے ساتھ لگاکر چنگاریاں اڑانا ایسے خطرناک اسٹنٹس ہیں جو دیکھنے والوں کونہ صرف حیرت زدہ کردیتے ہیں بلکہ پہلی مرتبہ اس قسم کے کرتب دیکھنے والے کی تو آنکھیں ہی پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ خطروں کے ان کھلاڑیوں کو نہ تو موت کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے حوصلے ڈگمگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ون ویلنگ یا چلتی ہوئی موٹر سائیکل پر کرتب دکھانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ موت کا کھیل ہے جو اب تک سینکڑوں نوجوانوں کی جان لے چکا ہے۔ کراچی میں رائیڈرز کے لیے موٹر سائیکل تیار کرنے والے کاریگروں کا کہنا ہے کہ ریس کے لیے خصوصی تبدیلیوں کے ساتھ خاص موٹر سائیکل تیار کی جاتی ہے۔ غیر ممالک میں ایسے اسٹنٹس کرنے کے لیے خاصی ٹریننگ لینا پڑتی ہے، لیکن کراچی کے نوجوان خطروں سے بھرے اس کرتب کو بار بار دہراتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اس کام کی انہوں نے کوئی ٹریننگ نہیں لی ہوتی، وہ محض اللہ کے سہارے پر ہی اپنے شوق کی نہ صرف تسکین کرتے ہیں بلکہ اس خطرناک کھیل کی آڑ میں ہزاروں، لاکھوں روپے کی شرطیں بھی لگایا کرتے ہیں۔
میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کراچی کی سڑکوں پر نوجوانوں کا اس انداز میں موٹر سائیکل چلانا معمولی بات نہیں، اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ نوجوانوں کا انتہائی تیز رفتار چلتی موٹر سائیکل پر کرتب دکھانا خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر روزمرہ سفر کرنے والے زیادہ تر لوگ متوازن رفتار سے ہی موٹر سائیکل چلایا کرتے ہیں، ان لاکھوں افراد میں سے چند درجن نوجوانوں کا آپے سے باہر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ان میں پیدائشی طور پر وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے انٹرنیشنل معیار کی اس کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ذریعے انسان میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاتاہے۔ کرکٹ کھیلنے والا فٹ بالر نہیں بن سکتا، اسی طرح اسکواش کی طرف راغب شخص کو ہاکی تھما کر، یا کسی پہلوان سے دنگل کروانے کے لیے اکھاڑے میں اتار کر اچھے نتائج مرتب نہیں کیے جاسکتے، ایسی صورت میں وہ ناکام ہی رہے گا۔ خدا نے ہر انسان کو الگ الگ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ افراد میڈیسن کے بارے میں کیا جانیں! یہ پیدائشی طور پر کی جانے والی وہ تقسیم ہے جس کے تحت ہر شخص اپنی صلاحیتوں کے مطابق ہی کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے۔ انسان کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ وہ کسی شخص کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کردے، اسی کو عام لفظوں میں کوچنگ کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سڑکوں پر اپنے تئیں رائیڈر بنے ان نوجوانوں کے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو کیوں ضائع کیا جارہا ہے؟ کیوں انہیں ان حادثات کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جن کی وجہ سے یہ زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں؟ دنیا بھر میں رائیڈنگ ایک فن ہے، بین الاقوامی طور پر موٹر سائیکل ریس ایک کھیل کا درجہ بھی رکھتی ہے، مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے رائیڈرز کے درمیان ہونے والے موٹر بائیک ریس مقابلوں کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اگر کراچی کے نوجوانوں کو حکومتی توجہ اور تعاون دستیاب ہوجائے تو درجنوں کامیاب رائیڈرز تیار کیے جاسکتے ہیں، اور بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ کے نتیجے میں موٹر سائیکل ریس سے وابستہ نوجوانوں کو نہ صرف اپاہج ہونے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ دوسرے کھیلوں کی طرح اس میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں۔

حصہ