دل ہے کہ مانتا نہیں

418

نون الف
۔ 2018 کے عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جوکھیل کھیلا گیا‘ اُس پر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کے سوا سب ہی تذبذب میں ہیں۔ جماعت اسلامی‘ جو 2013 کے انتخابات کے بائیکاٹ کی وجہ سے پہلے ہی خاصی حد تک انتخابی عمل سے باہر جا چکی تھی‘ مگر پھر بھی اپنے نظریے اور کارکنان کی انتھک محنت اور مسلسل میدان میں رہنے کے با عث کم از کم اجنبی نہیں تھی۔
اب جب کہ نتائج آچکے ہیں اور انتقالِ اقتدار کا عمل اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے‘ جماعت اسلامی کے اندرونی و بیرونی حلقوں میں انتخابات میں ناکامی کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں۔ چناں چہ عام انتخابات کے فوری بعد جماعت اسلامی نے پہلے مرکزی مجلس عاملہ پھر وسیع تر مشاورت کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد کیا جس میں انتخابی نتائج اور ملک کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کو غیر شفاف، غیر جانب دارانہ اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کی بہت بڑی ناکامی ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اپنی پسند کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے سیاست و انتخابات میں مداخلت تو کسی نہ کسی انداز میں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن انتخابات 2018ء کے مطلوبہ نتائج کے لیے گزشتہ کئی سال سے ان کی واضح اور ہر کسی کو نظر آنے والی مداخلت ہوئی ہے‘ جو ملک و قوم کے لیے ہی نہیں‘ خود اداروں کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔
اور پھر ’’مطلوبہ نتائج‘‘ کے آتے ہی امریکا اور پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے پاکستان میں دینی جماعتوں کی شکست پر آنے والے بیانات نے یہ واضح کردیا ہے کہ دینی جماعتوں کے خلاف دھاندلی کے اس کھیل میں ملکی کے ساتھ ساتھ عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل تھی۔ اس منظر نامے کے ساتھ جماعت اسلامی پاکستان نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر ساتھ ہی جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ برسر اقتدار حکومت کے ساتھ جہاں ہم نیکی و تقویٰ اور قومی سلامتی کے کاموں پر تائید و تعاون کریں گے‘ وہیں برائی‘ بے حیائی اور فحاشی کی ڈٹ کر مخالفت کریں گے۔
مرکزی مجلس شوریٰ نے کارکنان کی رائے اور تجاویز لینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے اور ایک چار رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ کمیٹی دعوت و تربیت اور تنظیم کے حوالے سے کام کرے گی کہ کون سی کون سی تبدیلیاں لازم ہیں؟ دعوت اور تربیتی نظام کو کس طرح وسعت دی جائے؟ تنظیم اور دستور میں کس حد تک تبدیلی ممکن ہے؟
کہتے ہیں کہ ’’ہار ہمیشہ یتیم ہوتی ہے اور جیت کے کئی باپ ہوتے ہیں۔‘‘ آج کارکنان جماعت اسلامی میں دبے اور کھلے لفظوں میں ہونے والی گفتگو میں یہ سوال سرفہرست ہے کہ ’’کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کو کامیابی نہیں مل رہی؟‘‘
ہرچند کہ اس سوال کے جواب میں بے شمار تقاریر اور مقالے موجود ہیں مگر اس کے باوجود ’’دل ہے کہ مانتا نہیں‘‘ مسلسل ناکامیاں اپنے ساتھ ہمیشہ شکوک و شبہات اور بددلی کا طوفان بھی لاتی ہیں اور قیادت پر بھی کئی سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہیں۔
1970 کے عام انتخابات‘ جس میں جماعت اسلامی نے اپنی سیاسی انتخابی تاریخ میں سب سے زیادہ امیدوار میدان میں اتارے تھے اور اس میں جماعت اسلامی کو چار نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اور جماعت اسلامی عوامی لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد ووٹوں کے اعتبار سے ملک کی تیسری بڑی جماعت قرار پائی تھی‘ جس نے کُل پڑنے والے ووٹوں کا چھ فیصد ووٹ حاصل کیا تھا‘ مگر اس کے بعد کی صورت حال مسلسل روبہ زوال ہے۔
ایسا ہو نہیں سکتا کہ جماعت اسلامی کی قیادت کو اس بات کا ادراک نہ ہو‘ مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ ہماری قیادت کوئی دلیرانہ فیصلہ نہیں کرتی؟ مجھے اندازہ نہیں ہے کہ ’’دلیرانہ فیصلے‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے۔ مگر کہنے والوں کے اخلاص پر شبہے کے بغیر میں چاہوں گا کہ اس کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ وہ ’’دلیرانہ فیصلے‘‘ کیا ہوسکتے ہیں؟
دنیا بھر میں موجود اسلامی تحریکوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر جگہ کے حالات اور سیاسی حکمتوں کے پیش نظر کچھ ’’آوٹ آف دی باکس‘‘ فیصلے کیے گئے جن کی بہ دولت ان ممالک میں اسلامی تحریکوں کو عوام میں قبول عام حاصل ہوا۔ اب اس قسم کے تجربات کا مطالبہ ہماری قیادت سے بھی کیا جانے لگا ہے۔
ترکی، مصر، الجزائر ، سوڈان اور تیو نس وغیرہ میں تحریک اسلامی نے حکمت کے تحت اپنے کام کا نہ صرف باریک بینی سے جائزہ لیا بلکہ طریقۂ کار میں اہم تبدیلیاں بھی لے کر آئے۔ یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ بنیادی تحریک اسلامی سے علیحدہ پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا گیا (جس کی بڑی اور کامیاب مثال ترکی ہے) ان تمام تحریکوں کو جس حد تک بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے اس میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان تحریکوں نے اپنی ’’بنیادی تحریک اسلامی‘‘ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کام کے نئے راستے تلاش کیے۔
مصر میں امام حسن البنا کے دور کی اخوان اپنی ’’لڑائی‘‘ اور ٹکراؤ والی پالیسی کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار رہی‘‘ چناں چہ بنیادی تبدیلی لائی گئی اور حکومت میں حصہ داری اور مرکزی سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی ترتیب دی گئی مگر جب یہ کامیابی سے ہم کنار ہوئی تو پھر وہی پرانی مخالفانہ ڈگر نے اخوان کو ایک مرتبہ پھر مشکلات سے دوچار کردیا۔ بنگلہ دیش میں بھی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا تجربہ کیا گیا‘ جہاں حسینہ واجد کی حکومت کی طرف سے جماعت اسلامی پر بڑھتے ہوئے جبر اور نمایاں رہنماؤں کی گرفتاریوں اور پھانسیوں کے بعد جماعت اسلامی دوبارہ مشکل میں گھرتی چلی گئی۔
حکمت عملی تبدیل کرنے کی شان دار مثال تیونس کی ’’النہضہ‘‘ نے پیش کی ہے ۔ تیونس کی اسلامی تحریک نے شدت پسندی سے دور ر ہتے ہوئے اپنے کام کو آگے بڑھایا‘ یہاں تک کہ انتخابی مہم میں اعلان کیا کہ ’’اسلام ہمارا بنیادی نعرہ نہیں ہے۔‘‘
تیونس کے حوالے سے رسالہ ’’النہضہ‘‘ میں، جو راشد الغنوشی کی سرپرستی میں نکلتا ہے‘ تحریکِ اسلامی کا یہ تجزیہ آیا ہے کہ تیونس میں صبر سے کام لینے کے بجائے حکومت سے لڑنے کا ارادہ بالکل غلط تھا۔ اگر ہم حکومت کی اذیتوں کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرتے تو بعد کے حالات سے ہم ملک کو بچا سکتے تھے۔ (جس میں وہاں تحریک کے لیے کام کرنا عملاً ناممکن بنا دیا گیا۔)
اب جب کہ مسلسل تیزی کے ساتھ نیچے آتے گراف کو دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی کے قائدین کو اس بات کا ادرا ک ہوچکا ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کسی بھی طور جماعت کو کامیاب نہیں ہونے دے گی تو کیا ان حالات میں جماعت اسلامی اپنے لیے کوئی بڑا فیصلہ کر پائے گی؟
ایسا نہیں ہے کہ ہماری قیادت نے دلیرانہ فیصلے نہیں کیے۔ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم نے نوجوانوں کو ترکی کے ماڈل پر تیار کرنے کا پرگرام بنا یا مگر 1992 میں ’’پاکستان اسلامک فرنٹ‘‘ میں ناکامی کے بعد سارا ملبہ قاضی حسین احمد مرحوم اور ان کی بنائی ہوئی ’’پاسبان‘‘ پر ڈال دیا گیا۔ یہ فیصلہ بھی شوریٰ کی اجتما عیت کا تھا ، جس نے اس تجربے کو وقت سے پہلے ہی گلا گھونٹ کر مار دیا۔
پھر ’’شبا ب ملی‘‘ کا تجربہ ہو ا‘ جو اپنی طبعی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ ان انتخابات سے پہلے ’’جے آئی یوتھ‘‘ کو میدان میں لایا گیا اور ان سے انتخابات میں نمائندگی کے وعدے تک ہوئے مگر دیکھا یہ گیا کہ چند ٹوکن قسم کی نشستوں پر نوجوانوں کو برائے نام حصہ ملا۔
آخر میں یہ مثال دینا بھی ضروری ہے کہ اردن کے پارلیمانی انتخابات میں جب الاخوان المسلمون کی نمائندگی 17 سے کم ہو کر 6 ہو گئی تو الاخوان المسلمون نے اپنی ا نتخابی حکمت عملی کی تیاری میں سرزد ہونے والی غلطیوں کا نہ صرف اقرار کیا بلکہ پوری مجلس شوریٰ ایک ساتھ مستعفی بھی ہوگئی تھی۔
الحمدللہ کارکن نے اپنے حصے کا کام پورا کردیا ہے اور جس کے لیے کیا ہے وہی اس کا اجر بھی دے گا‘ اب یہ قیادت کا امتحان کہ وہ اس بار کس قسم کا دلیرانہ راستہ اختیار کرتی ہے۔

حصہ