حج اور احرام

1014

مریم شہزاد
حج کا تصور لوگوں نے ازخود بہت پریشان کن بنا رکھا ہے، حالانکہ جس طرح روزہ، نماز، زکوٰۃ فرض عبادات ہیں اسی طرح حج بھی ایک فرض عبادت ہے۔ جس طرح تمام باقی عبادتوں کو اوّل وقت میں کرنے کی افادیت زیادہ ہے اسی طرح حج کے لیے بھی ہے۔ اس کے لیے صاحبِ استطاعت ہونا ضروری ہے۔ پہلے تو لوگ حج کو بڑھاپے کی عبادت سمجھتے تھے، مگر اب اللہ کا شکر ہے لوگوں میں یہ شعور آتا جارہا ہے کہ حج بھی جلدازجلد کرلیا جائے۔
حج کے ساتھ احرام بھی لازمی طور پر ہے، اور احرام کا نام آتے ہی یہ تصور آجاتا ہے کہ احرام نام ہی پابندیوںکا ہے، اور چالیس روز کا حج ہے تو نہ جانے ان پابندیوں کے ساتھ کیسے گزارہ ہوگا! یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جو لوگ حج کرکے آتے ہیں ان کو اپنے اردگرد والوں کو ضرور بتانا چاہیے کہ احرام صرف تین دن کا ہے اور حج پانچ دن کا۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ جب ہم اپنے ملک سے احرام باندھ کر جاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اب چالیس دن احرام میں رہنا ہے، حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے، کیوں کہ جو احرام ہم اپنے ملک سے پہنتے ہیں وہ مکہ جاکر عمرہ کرکے کھول دیا جاتا ہے، اور اس کے بعد اگر دوبارہ عمرہ کرنا ہو تو جب، ورنہ حج کے لیے 7 یا 8 ذی الحج کو پہنا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ احرام دراصل ہے کیا؟ مردوں کے لیے تو احرام نظر آتا ہے کہ وہ دو چادروں پر مشتمل ہے، مگر عورتوں کا احرام کیا ہے؟ اس میں خواتین پریشان ہوجاتی ہیں۔ کچھ سمجھتی ہیں کہ یہ جو ہم نے احرام کے نام پر اسکارف پہنا ہے اب اس کو اتار نہیں سکتے، یہی احرام ہے۔ اب وضو کیسے کریں گے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ حالانکہ احرام دراصل نیت کا نام ہے چاہے مردوں کے لیے ہو یا عورتوں کے لیے۔ مرد بھی اگر دو چادریں پہن لیں مگر نیت نہ کریں تو ان کا بھی احرام نہیں ہوگا۔ اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ سر ڈھک لیں کہ ایک بال بھی نظر نہ آئے اور احرام کی نیت کرلیں۔ اس دوران ہر نماز کے وقت وضو کرنے کے لیے احتیاط سے سر کھول سکتی ہیں کہ بال نہ ٹوٹے، اور مسح کرکے دوبارہ پہن لیں۔ احرام پہننے کے ساتھ ہی احرام کی پابندیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ حج پانچ دن کا اور احرام تین دن کا یعنی 10,9,8 ذی الحج۔ 10 ذی الحج کو قربانی کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے، البتہ احرام کی پابندی طوافِ زیارت کے بعد ختم ہوتی ہے، اور آپ اگر 10 ذی الحج کو کرلیں تو 10 کو ہی، ورنہ 12,11 کو کریں گے تب ہوگی۔ اب ان تین دنوں کے لیے اگر ہم کچھ پابندیاں برداشت کرلیں (جو کوئی ایسی سخت بھی نہیں) تو کیا حرج ہے!
جب ہم اللہ کی رضا کے لیے، اللہ کو خوش کرنے کے لیے حج کررہے ہیں تو اس کی خوشی کے لیے ہی یہ پابندیاں ہنسی خوشی قبول کرنی چاہئیں۔ حج کا اجر بھی تو کتنا ہے۔
7 یا 8 ذی الحج کو احرام باندھنا: 8 ذی الحج منیٰ میں قیام، 9 کو عرفات اور 9 کی رات ہی مزدلفہ میں، 10 کو منیٰ واپس، پھر رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا) قربانی کرنا اور احرام کھول دینا، اور طوافِ زیارت، اور 12 کی رمی سب عام کپڑوں میں کرنی ہے… بس حج مکمل۔ اب اللہ کو راضی کرلیا، گناہ بخشوا لیے، نئی زندگی شروع کردی، اب آگے کیسے اللہ کو راضی رکھنا ہے، یہ کرنا بہت مشکل ہے۔باقی رہے 35 دن جو ہمیں مکہ اور مدینہ میں گزارنے ہیں، ان میں ہم کو دل لگا کر عبادت کرنی ہے، زیادہ سے زیادہ طواف کرنا ہے، نفل اور تسبیحات پڑھنی ہیں۔ آرام اور کھانے کی فکر نہیں کرنی۔ پیٹ تو زم زم اور کھجوروں سے بھی بھر جاتا ہے، کبھی کوئی بھوکا نہیں سوتا، کیونکہ حاجی اللہ کے خاص مہمان ہوتے ہیں۔

حصہ