تھپڑ سے گونجتا سوشل میڈیا

325

سلمان علی
اس ہفتہ جہاں سوشل میڈیا عمران شاہ کے تھپڑوں کی گونج سے گونجتا رہا، وہاں اُس مظلوم باپ کی آواز بن کر عوام الناس نے بھی خوب ’بینڈ بجایا‘ ۔تحریک انصاف کے بلند و بانگ دعوؤں، پھر کراچی کی مخصوص ماضی کی صورتحال کے تناظر میںاس واقعے نے اہلیان کراچی کو خصوصاً اور پورے ملک میں ’اچھا خاصا بھاری‘پیغام دیا ۔یہ بھی کہا گیاکہ خان صاحب کی وزارت عظمیٰ سنبھالنے سے پہلے کی تقاریر پر پانی پھیر دیا ان تھپڑوں نے ۔سماجی میڈیا کی طاقت نے اُن کے نومنتخب ایم پی اے کو بظاہر’ ناکوں چنے چبوا دیئے ‘۔پہلے مرحلے پر تو اُن کے تھپڑ وں کی برسات کی ویڈیو وائرل ہوئی ،اس کے بعد اُن کی وضاحت منظر عام پر آئی جس میں انہوں نے یہ کہا کہ ’’گاڑی والا مجھے گالیاں دے رہا تھا ،میں نے اُسے مارا نہیں صرف دھکا دیا تھا، میں غیر مشروط معافی مانگتا ہوں‘‘،اس دھکے کی تعریف و توصیف میں یہ ضرور ہوا کہ خود تحریک انصاف کے سپاہیوںکو بھی چپ لگ گئی، جبکہ ہمدردان ِ انصاف نے انصاف کی سائڈ پکڑی۔شہباز برفت نے واقعہ کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے ٹوئیٹ کی کہ ’’کھاؤ چماٹ اور بتاؤ پرانا پاکستان بہتر تھا کہ نیا والا،‘‘۔یہ قول بہت نقل ہوا کہ ’’ آج سے چانٹا، تھپڑ، چماٹ نہیں کہنا۔نئے پاکستان میں اسے پُش کرنا کہتے ہیں۔‘‘یہ واقعہ ملکی الیکٹرانک میڈیا پر بھی خاصا زور پکڑتا چلا گیا۔سوشل میڈیا پر شام تک ہی تحریک انصاف کی جانب سے نو منتخب ایم پی اے کو اس کارروائی پر ایک شو کاز نوٹس پھیلتا نظر آگیا( گو کہ اس شو کاز کو بھی چند گھنٹے میں جعلی ، فوٹو شاپ کا کمال ثابت کر دیا گیا)۔اس کے بعد کچھ ’انصافیوں ‘سانسیںبحال ہوئیں،مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔موقع کون ہاتھ سے جانے دیتا ہے، ن لیگ، پی پی ، ایم کیو ایم کو بھی توہاتھ صاف کرنا تھااور عوا م کو مصالحہ تو مستقل مل رہاتھا۔تبصروں ،چٹکلوں کی بھرمار تھی ۔فراست شاہ لکھتے ہیں کہ ’’ شکر ہے یہ واقعہ تقریب حلف برداری کے بعد نہیں ہوا ، ورنہ مدینہ کی ریاست کے قانون کے مطابق توتھپڑ کا بدلہ تھپڑ ہی ہے ، چاہے مارنے والا لینڈ کروزر میں مسلح گارڈز کے ساتھ ہی کیوں نہ آئے ۔‘‘ اسی طرح ایک جیالا ماضی کے جھروکوں میں سے جھانک کرلکھتا ہے کہ ’’ پی پی کی وحیدہ شاہ ایک تھپڑ مارنے کے نتیجے میں پوری زندگی کے لیے نا اہل ہوئے تھے ۔کیا یہ سہولت نئے پاکستان میں بھی ہوگی؟‘‘معروف مصنف ،ڈرامہ نگار نور الہدی ٰ شاہ نے استعفیٰ کے مطالبے کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں یوںمنظر کھینچا کہ ’ایک عام سفید پوش، باشعور آدمی نے بیچ سڑک پر ذلّت برداشت کی۔تھپڑ کھائے۔سوچا ہوگا کہ گھر پہنچ کر بیوی بچوں سے تھپڑ آلود چہرہ چھپا کر، منہ لپیٹ کر سوتا بن جاؤں گا۔بیوی کھانے کا پوچھے گی تو کہوں گا کہ باہر سے پیٹ بھر آیا ہوں۔طبیعت پوچھے گی تو کہوں گا کہ سینے میں جلن سی ہورہی ہے۔ شاید مرچیں زیادہ تھیں!مگر تمام رات تو انگاروں پر ہی گزرے گی کہ کیوں اتنا بے بس ہوں میں!کیوں اس طاقتور کا منہ نہ نوچ سکا!کیوں اس کا ہاتھ مروڑ نہ سکا!کیوں! آخر کیوں میں اتنا بے بس اور بے وقعت ہوں میں کہ زمین بھی نہ پھٹی میرے لیے کہ اسی میں سما جاتا!انہی انگاروں پر لوٹتے ہوئے آنکھ تو لگ ہی جائے گی اور صبح بھی ہوہی جائے گی!اگلی صبح شاید میں ذلّت کا وہ منظر بھول جاؤں!شاید چہرے پر تھپڑوں کے نشان دھندلے پڑ چکے ہوں تب تک!اور جب دفتر پہنچوںگا تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں!انجان بن جاؤں گا سب سے اور اپنے آپ سے بھی!لیکن رات بھر کے انگاروں نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا تو!مگر اس شخص کو پتہ نہ تھا کہ ایک انسان اس کے اردگرد ایسا بھی تھا جو ذلّت کے ان لمحوں کی وڈیو بھی بنا رہا تھا!وہ وڈیو سماجی میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔ذلّت کے وہ لمحات دنیا کے سامنے آگئے!یہ بھی پتہ چل گیا کہ کتنے طاقتور شخص کے ہاتھوں اس نے ذلّت سہی ہے!بچوں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا ہوگا تو اس نے گھبرا کر اپنے بچوں کا مورال بلند کرنے کے لیے کہا ہوگا کہ اپنے باپ کو کمزور مت سمجھو بیٹا۔ دیکھ لینا میں اس کا کیا حشر کرتا ہوں!مگر پھر بیوی نے سمجھایا ہوگا کہ دیوانے ہو کیا! طاقتوروں سے الجھتے ہو! اپنے بچوں کا سوچو! ریٹائرمنٹ سر پر کھڑی ہے اور وقت کے حاکموں سے پنگا لوگے! کہاں کہاں کے دھکے کھاتے پھروگے! عدالتیں صرف مشہور لوگوں کے مقدموں کا شغل کرتی ہیں اب۔ تمہیں کون جانتا ہے بھلا! جو ہوا، بھول جاؤ۔اس نے بھی سوچا ہوگا کہ صحیح تو کہہ رہی ہے بیوی!مگر میڈیا اس کے سر پر پہنچ گیا، بکا ہوا، کوئلے کا کاروبار کرتا میڈیا!دن بھر اپنے ہاتھ اور دوسروں کے منہ کالے کرتا ہوا میڈیا!اور اس شخص کا جو بیان سامنے آیا ہے، دراصل وہی ہے پاکستان کے ہر عام، سفید پوش اور باشعور آدمی کا بیان!پاکستان کے ہر شناختی کارڈ پر درج آدمی کا بیان!ایک تھپڑ ہے جو اس ملک کے 71 سالہ نظام کے منہ پر دے مارا ہے اس نے!پاکستان کی تاریخ کا دیباچہ ہے یہ بیان۔مگر بات محض تھپڑوں کی نہیں ہے۔بات نئے پاکستان میں پرانے پاکستان کے رٹائرمنٹ کی عمر کے قریب پہنچے ہوئے پرانے پاکستانی کی ہے۔بات اْس نئے پاکستانی کے ہاتھوں ذلّت کی ہے جو پچھلے چند برسوں میں بقول عمران خان، نابالغ سے بالغ ہوا ہے۔ بات اس گھمنڈ کی ہے جس کا اظہار تھپڑ مارنے والے کے لب و لہجے میں ہے کہ میں حق رکھتا ہوں، بیچ چوراہے پر سزائیں سنا کر نیا پاکستان بنانے کا۔یہ ثبوت ہے اس لب و لہجے اور رویّے کا جو پچھلے چند برسوں میں ابھرا ہے اور سوشل میڈیا اور چوراہوں پر نظر آرہا ہے۔پرانا پاکستان تو چلو دفن ہوا 25 جولائی کو اور نئے پاکستان کا جنم ہوا۔مگر جنم لیتے ہی کیا پالنے میں پوت کے یہی پاؤں ہیں؟کیا اب بھی چوراہے پر کسی انسان کو زلیل کرکے معافی تلافی سے مک مکا ہوجائے گا؟یہ مک مکا ہی تو ہے جس نے پرانے پاکستان کو چہرہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ نئے پاکستان کا پہلا اقدام اس واقعے پر اپنے ایم پی اے سے استعفیٰ لینا ہوگا!‘‘ پریشر زیادہ بڑھا تو ایم پی اے صاحب معافی مانگنے مظلوم آدمی کے گھر پہنچ گئے ، ساتھ میں دو اور عہدیداران کو بھی ساتھ لے گئے جنہوں نے ’معافی کے عمل‘ کو انجام دینے کی کوشش کی ۔خورشید عالم ٹوئیٹ کرتے ہیںکہ’ یہ نرم نرم باتیں، مزید ایک زور دار چماٹ کے سوا کچھ نہ تھیں،‘۔مگر ’معافی ‘ کی اس سرگرمی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُس مظلوم نے وہی کہا جو اُس پر بیتی ،وہ میڈیا ٹالک کی ویڈیو دوبارہ وائرل ہو گئی اور عوام کو بہت کچھ سمجھا گئی ۔اُس میں پاکستان کے ایک عام آدمی کے دل کی وہ آواز تھی جو کبھی انصاف کے نہ ملنے کی امید کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ اویس نصیر ویڈیو شیئر کرکے ٹوئیٹ میںلکھتے ہیں کہ ،’انسانیت مر گئی، اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا،تحریک انصاف کے جانور سے تھپڑ کھانے والا رو بھی نہ سکا،انسانیت کی اتنی تذلیل ۔‘‘اگلے روز اُس مظلوم شخص کے بیٹے نے جو پوسٹ ڈالی اُس نے دوبارہ جلتی پر تیل کا کام بلکہ زور دار دھماکہ کر دیا۔اس ضمن میں دو اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ سماجی میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے نو منتخب ایم پی اے سندھ اسمبلی کی ایک والدہ ( سوتیلی) نے بھی اپنے اوپر ظلم کی داستان رپورٹ کر ڈالی ۔وہ ویڈیو بھی خوب وائرل ہوئی اور الیکٹرانک میڈیا کا حصہ بنی۔اس کے بعد لوگ یقینی طور پر عمران خان کی جانب دیکھ رہے تھے کہ ابھی کوئی اہم اعلان آجائے گا۔مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔جو کچھ ہوا اُس پر معروف صحافی و تجزیہ نگار حبیب اکرم لکھتے ہیں کہ ،’’نئے پاکستان میں اگر تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی سڑکوں پر لوگوں کو تھپڑ ماریں گے تو ان کی رکنیت معطل ہوگی نہ کوئی ایف آئی آر درج ہوگی اور علی زیدی جیسے لوگ اس کی مدد کو آجائیں گے۔لہذا عمران علی شاہ جیسے لوگ دندناتے رہیں گے۔ نئے پاکستان میں خوش آمدید۔‘‘فیض اللہ خان لکھتے ہیںکہ ،’اکٹر عمران شاہ نے معافی صرف اس وجہ سے مانگی کہ ویڈیو وائرل ہوگئی تھی ورنہ اس نے معافی مانگنی تھی نہ وضاحتوں پہ آنا تھا۔ یہ عمران خان کی ساری اچھی باتوں کا پہلا اور نہایت بے ضرر سا امتحان ہے، بے ضرر یوں کہ یہ سندھ اسمبلی کا رْکن ہے اس سے استعفٰی لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ سندھ اسمبلی میں آپ حکومت سازی کی پوزیشن میں دور دور تک نہیں لیکن اس ایم پی اے سے استعفیٰ کے عمل کو پورا ملک سراھے گا اور تبدیلی وہی ہوگی۔ رہی معافی تلافی تو ہمارے محترم دوست فیصل حسین کا درست کہنا ہے کہ ایک وفاقی ادارے کا ماتحت افسر آنے والی سرکار کے طاقتور ایم پی اے کے خلاف قانونی جنگ کا حوصلہ رکھتا ہے نہ ان چکر بازیوں کا متحمل ہوسکتا ہے۔ شوکاز ،تحقیقات، معطلی اور گھر جاکر معافی مانگنے والی باتیں کوئی تبدیلی نہیں جب تک پارٹی کڑی تادیبی کارروائی نہیں کرتی، دوسروں اور آپ میں یہی اصل فرق ہوگا۔‘‘بہر حال وائرل ویڈیوز کے باوجود کمیٹی بن کر تحقیقات کا ڈراپ سین خود اہل پاکستان کے نام ’اہم پیغام ‘چھوڑ گیا ہے۔
لیکن بات یہاں رکی نہیں ،اس سارے شور کے اختتامی مراحل میںتحریک انصاف سندھ کے رہنما منصور شیخ (اُمیدوار حلقہ پی ایس 104)کی شارع فیصل کراچی پر واقع گاڑیوں کے شو روم کے مالک اور خاتون سے گاڑی کی ڈلیوری میں تاخیر پر ’’کھلے عام بدمعاشی ‘‘ کی ویڈیوبھی سماجی میڈیا پرلیک ہو گئی ۔یہ غالباً تھپڑ کیس کے وائرل ہونے کی وجہ سے جو ہمت آئی ہوگی اُس کا نتیجہ ہے ۔اس ویڈیو نے بھی خوب درگت بنائی گئی ۔انصافیو کو کچھ نہ ملا تو لگے ایم کیو ایم کے دور میں سیکڑوں قتل و غارت گری کے واقعات سے ان تھپڑوںکا مقابلہ کرنے ، یا ماڈل ٹاؤن سانحہ کو یاد دلانے لگا کہ یہ تھپڑ اُس سے تو کم ہے ، کسی نے پیپلز پارٹی کے نبیل گبول والے واقعہ کی یاد دلائی جو حالیہ دنوں کراچی ایئر پورٹ پر پیش آیا تھا، کسی نے متحدہ والیم ۲کا عنوان دیا تو کسی نے عدالت کے سو موٹو کی جانب دیکھا۔بہر حال اسی شور میں عمران خان کی ایک فوجی وردی میں ملبوس اور ججز کی وگ لگائے ایک (میم )تصویر بھی وائرل رہی جو بغیر کسی کیپشن کے بہت سارے عنوانات رکھی ہوئی تھی۔
اب آگے بڑھتے ہیںٹوئٹر ٹاپ ٹرینڈ میں جہاںمجھے پاکستان ریجن میںسابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی موت پر بھی ٹوئٹر ٹرینڈ نظر آیاجو کہ جمعہ کی صبح بھارت ریجن میں موجود نہیں تھا۔نوے سال کی عمر رکھنے والے ،بھارتی مذہبی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کی گود میں پل کر بڑے ہونے والے یہ وہی بھارتی وزیر اعظم تھے جن کے دور میں بھارت نے پوکھران میںایٹمی دھماکے کیے ۔گجرات کے بدترین مسلم کش فسادات کا سہرا بھی مودی سرکار کی پشت پناہی کی وجہ سے اُن کا ہی کارنامہ گردانا جاتا ہے ۔کارگل کی جنگ بھی انہی کے دور حکومت میں بھارت کو بھگتنی پڑی ۔خاص بات یہ ہے کہ ان کو پاکستان میں میا ں نواز شریف کی انتہائی بھارت نواز حکومت ملی ، جن کے دور میں وہ بس پر سفر کر کے لاہور آئے تھے۔
اسی طرح ترکی پر امریکہ کی جانب سے مصنوعات کے ٹیرف میں اضافے اور اُسے معاشی طور پر کمزور کرنے کے خلاف پاکستان میں بھر پور اظہار یکجہتی کی مہم اس طرح دیکھنے کو ملی کہ سب ایک دوسرے کو ترکی کرنسی خریدنے کا مشورہ دیتے نظر آئے ۔ترکی میں مقیم ایک امریکی پادری کودو سال قبل فوجی بغاوت میں ملوث پایا گیا ، جس پر اُس کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے ۔امریکہ کا مستقل دباؤہے کہ اُسے رہا کیا جائے (شاید اُسے لگا کہ یہ بھی پاکستان ہے)،مگر ترکی نے امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن کو مانگ لیااور امریکی مطالبہ کو رد کر دیا کہ جہاں کا مجرم ہے وہی عدالت مقدمہ چلائے گی ۔امریکہ دھمکی دیتے دیتے معاشی طور پر جھٹکا دینے کی حرکت پت اتر آیااور ایکسپورٹ پر اثر انداز ہو کر ترکی کرنسی کے لیے مسائل پید اکر دیے ۔پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے ترکی کے ساتھ اظہار یکجہتی اپنے اپنے انداز سے کیا سماجی میڈیا پر بھی اس کا شور گونجا’’لیرا خریدنے کا فائدہ بھلے نہ ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ ڈالر کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔‘‘اسی طرح یہ عزائم بھی خوب شیئر ہوتے رہے کہ ،’’میں کل ترک لیرا خریدنے جارہا ہوں کیا آپ ترکی کی حمایت میں 100 لیرا خریدنے کیلئے تیار ہیں؟‘‘ اسی طرح ایک اور دوست لکھتے ہیں،’’جب کوئی قوم اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا ارادہ کرلیتی ہے تو قدرت بھی اسباب پیدا کر دیتی ہے۔ ترکی پر امریکی پابندیوں کے بعد حکومت اور عوام نے ڈالر کو چھوڑ کر اپنی کرنسی لیرا میں عالمی لین دین کا ارادہ کیا ہے۔جس سے مالی بحران کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔قطر نے مدد کرتے ہوئے 15بلین کی سرمایہ کاری کی آفر کردی‘‘۔ناصر شہباز لکھتے ہیںکہ ’’اردوان کی جے ہو…اسے کہتے ہیں آزاد قوم۔ڈالر کا استعمال بند کرکے بس ترکی لیرا کا استعمال…زندہ باد ‘‘۔اسی طرح اس عمل کو سراہتے ہوئے یہ ٹوئیٹ بھی مقبولہوئی کہ ،’’آزاد قوموں کا طرزعمل ترکوں جیسا ہوتا ہے۔ لیرا کی قیمت کم ہونے لگی تو پوری قوم متحد نظر آرہی ہے اور لیرا واپس بہتر ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں ڈالر کو پر لگے تو سب باہم دست و گریباں ایک دوسرے کو الزام دے رہے تھے۔صدر اردوان کی طرف سے امریکی الیکٹرونکس کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد ترکش لیرا مسلسل مضبوط ہو رہا ہے۔‘‘
کراچی کے نوجوان صحافی بلال طاہر لکھتے ہیںکہ ،’’ ترک کرنسی لیرا خریدیں۔اس وقت ترکی نے امریکہ کے حکم پر دہشت گرد امریکی پادری کو آزاد نہ کرنے کی وجہ سے سیدھا پنگا لے لیا ہے، جس کی وجہ سے ڈانلڈ ٹرمپ نے ترکی کو معاشی طور پ کمزور کرنے کی سازش رچائی ہے ۔رجب اردوان کی حکومت معاشی دباؤکا شکار ہے۔پاکستانیوں سے اپیل ہے #ترکی سے اظہار یکجہتی کے لیے اُن کی کرنسی کم از کم ایک سو (#لیرا) مارکیٹ سے خرید لیں۔ اس سے ترک معشیت پر ممکن ہے کچھ مثبت اثرات مرتب ہوں ، دوسری جانب پاکستانیوں کا بھی کچھ نقصان نہیں جب چاہیں لیرا کو پاکستانی رپوں میں کیش کرا سکتے ہیں۔کوشش کریں جتنا خرید سکیں خرید لیں۔ہمارے ایک دوست رضوان بھٹی نے تو واٹس ایپ گروپ بنا لیا اُن افراد کے لیے جو اجتماعی طور پر لیرا خریدنے کے خواہشمند تھے۔اسی طرح ترک عوام کی جانب سے ڈالروں کو نظر آتش کرنے اور پھاڑ کر پھینکے کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آگئیں۔
مفتی عدنان کاکا خیل لکھتے ہیں کہ ،’’ترکی اور امریکہ کے درمیان معاشی جنگ عروج پر ہے , ترکش کرنسی لیرا تین چار دن پہلے عالمی مارکیٹ میں گر گیا تھا اور ٹرمپ اپنے مضبوط ڈالر کی وجہ سے ترکی کے خلاف طبل جنگ بحا چکا تھا ۔ایسے حالات میں ایک دور اندیش لیڈر اور ایک عظیم قوم کیا کرتی ہے وہ کوئی ترکی سے سیکھ لے ,ایردوان سرنڈر نہیں ہو گیا اور اس نے امریکی مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے اور چین روس اور ایران سے تجارت بڑھانے کی بات کی، امریکی الیکٹرانکس مصنوعات کے بائیکاٹ کی دھمکی دی , اسکی قوم نے اسکا ساتھ دیا اور بیرون ملک مقیم ترکوں نے لیرا خریدنا شروع کیا ،اسکے علاوہ ترکی کی حمایت میں بعض عرب ممالک خصوصاً قطر کے نوجوانوں نے اپنے لاکھوں ڈالرز بھیج کر ترک لیرا خرید لیا ۔آج ترک لیرا عالمی مارکیٹ میں پھر مضبوط ہو گیا ،کمال کی بات یہ ہے کہ جرمنی اور اٹلی نے کھل کر ترکی کی حمایت کی ہے،یہ معاشی جنگ ترکی جیت رہا ہے اور امریکہ ہار رہا ہے ۔‘‘
سماجی میڈیا پرعالمی منظر نامے کے تناظر میںایک اہم ترین معاملہ ہالینڈ میں نبی کریم ﷺ کے حوالے سے گستاخانہ خاکوںکے مقابلے پر احتجاج اس ٹرینڈ کی صورت ابھرا کہ ’’ڈچ ایمبیسی کو بند کیا جائے‘‘پوری دنیا سے مسلمانوں نے غصہ اور سخت احتجاج کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک میں ہالینڈ کی ایمبیسی بند کر نے کا مطالبہ کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا۔سندھ اسمبلی میں پہلی مرتبہ متحدہ مجلس عمل کے رکن سید عبد الرشید نے اس معاملے پر پوری امت کی بھر پور ترجمانی کی ۔اُن کی اسمبلی فلور کی تقریر اس حوالے سے خوب وائرل بھی ہوئی۔اس حوالے سے تحریک لبیک نے بھی سماجی میڈیا پر بھر پور مہم چلائی ۔شاہ اویس نورانی نے بھی ملک بھرمیںمتحدہ مجلس عمل کی جانب سے مظاہروں اور احتجای ریلیوںکی اطلاعی ٹوئیٹ کر کے مہم چلانے کا عندیہ دیا۔تحریک لبیک نے اسلام آبادمیں ہالینڈ کی ایمبیسی کو تالا لگانے کے لیے آب پارہ پہنچنے کی کال بھی دے ڈالی۔

حصہ