بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

1218

افشاں نوید
آفندی صاحب کی عمرے کی مبارک باد دینا تھا کہ وہ پھٹ پڑی۔ پہلے اس کا لہجہ تیز ہوا، پھر نہ معلوم کون کون سی اگلی پچھلی باتیں وہ چلاّ چلاّ کر کرتی رہی، ساتھ ساتھ مجھے بھی موردِ الزام ٹھیراتی رہی۔ پھر اس نے فون بند کردیا۔ شاید بولتے بولتے تھک گئی تھی۔
کس قدر حیران کن تھا ماریہ کا یہ رویہ، جو میری فرسٹ کزن ہی نہیں بہت اچھی دوست بھی ہے۔ پچھلے تیس برس سے کینیڈا میں مقیم ہے، مگر یہ زمینی فاصلے ہمارے درمیان کبھی دوری کا باعث نہ بنے۔ اُس کے فون کا آنا میرے لیے اُس کے آنے کے مترادف ہی ہوتا ہے، خوب باتیں کرتی ہے دل کی، پھر معذرت کے دو رسمی جملے کہ ’’تمہارا وقت بہت قیمتی ہے اس کا مجھے احساس ہے، وقت دینے کا شکریہ‘‘۔ گھنٹوں اس سے باتوں میں صرف ہوتے ہیں لیکن مجھے کبھی وقت کے ضیاع کا احساس ہی نہیں ہوتا، اس لیے کہ اُس کو ہماری اور اس سماج کی ضرورت ہے جہاں وہ پیدا ہوئی، پلی بڑھی۔ اس مٹی سے اس کا بھی وہی ناتا ہے، اس کے بھی روحانی سلسلے جڑے ہیں یہاں کی خزاں اور بہار سے۔ سوچتی ہوں وہ تیس برس سے وہاں ہے مگر اپنا دل ساتھ نہ لے جاسکی، وہ ہمارے بیچ ہی چھوڑ گئی۔ کتنے قریب محسوس کرتی ہوں میں اُس کا دھڑکتا ہوا دل…!!
آج پتا نہیں وہ کیوں اتنی خفا ہوگئی، لب ولہجہ بدل گیا، اول فول سنانے لگی مجھے۔ میں نے کیا بگاڑا ہے اس کا! دل تو بہت غمگین ہوا، پھر ہمت مجتمع کرکے اس کا نمبر ملایا۔ ایک، دو، تین مرتبہ… مگر اس نے ریسیو ہی نہ کیا۔ اللہ خیر کرے۔ دل عجیب وسوسوں کا شکار ہوگیا۔ اگلے دن صبح اس کے شوہر کا فون آیا ’’ماریہ کے موبائل پر آخری ڈائل ہونے والا نمبر آپ کا ہے، آپ سے کیا باتیں ہوئی تھیں کہ پھر اس کی حالت بہت بگڑ گئی۔ بیٹی نے یونیورسٹی سے آکر دیکھا تو یہ بے ہوش تھی۔ اس نے ہسپتال میں ایمرجنسی کال کی، فوراً ایمبولینس آگئی، میں ہسپتال پہنچا تو اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ وہ جلد ہی ہوش میں آگئی مگر حواس بحال نہیں ہوسکے ہیں۔ بہت غصے میں آجاتی ہے، چلاّنے لگتی ہے، پھر نیند کا انجکشن دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ کسی شدید نفسیاتی صدمے سے دوچار ہوئی ہے‘‘۔ یہ سب گفتگو سن کر میرے تو اوسان خطا ہوگئے۔ میں سنبھل نہ پائی تھی صدمے سے کہ اُس کے شوہر نے سوال کیا ’’آپ سے اس کی کیا گفتگو ہورہی تھی؟ ‘‘ مجھے یک دم اپنا آپ مجرم سا لگا۔ میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری معمول کی گفتگو تھی، بس میں نے اس کو آفندی صاحب (سسر) کے عمرے کی مبارک باد دی کہ وہ اللہ کے کتنے مقرب بندے ہیں، اللہ بار بار یہ مواقع مہیا کرتا ہے۔ دونوں میاں بیوی ہر سال ماشاء اللہ عمرہ کر آتے ہیں۔ اللہ نے چار بار حج کی سعادت دی۔ وہ میری بات سنتی رہی، پھر بولی: اس ’’قرب‘‘ کے پیچھے میرے ہجر اور تنہائیوں کی ان کہی ہزاروں داستانیں ہیں۔ اچانک اس کا لہجہ تیز ہوا، پھر وہ چلاّنے لگی۔ میں تو سہم گئی، کچھ بھی نہ بولی، اس نے خود ہی فون بند کردیا‘‘۔ وہ بولے ’’ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس کو فون پر گفتگو نہ کرنے دیں، اسے تنہا نہ چھوڑیں، چھ ماہ لگیں گے اس کو اِس ذہنی کیفیت سے نکلنے میں۔ جیسے ہی اس کی طبیعت بہتر ہوگی میں خود اس کا رابطہ پاکستان میں کرادوں گا‘‘۔ میں نے دعائیہ کلمات کے ساتھ فون بند کردیا۔
یوں تو خونیں رشتوں کا ایک تعلق ہوتا ہی ہے، سب ہی کزنز کے ساتھ ملنا جلنا، خوشی غمی میں شرکت رہتی ہے، لیکن جب سے وہ شادی ہوکر کینیڈا گئی تھی میرے اُس کے تعلقات میں ایک نیا موڑ آگیا تھا۔ اس کے اندر مغربی سماج کی اقدار کا سامنا کرتے ہوئے جو کشمکش پیدا ہوئی تھی اس کو وہ صرف مجھ سے شیئر کرتی تھی۔ کہتی تھی: سسرال میں کہنے سننے کا فائدہ نہیں، بہت خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔ ماں بہنوں سے یوں ذکر نہ کرتی کہ خوامخواہ وہ اس کی طرف سے پریشان ہوتیں کہ وہ خوش نہیں ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ اپنے ذہنی بوجھ کو ان پر منتقل کرے۔ وہ سب تو ویسے ہی اس کی دوری پر بہت حساس ہوگئے تھے۔ اس کی معمولی تکلیفوں پر بھی امی ابو کی راتوں کی نیندیں اڑ جاتی تھیں۔ ابو کہتے: تم کینیڈا کیا گئیں تمہاری ماں تو مصلے کی ہوگئیں۔ حاجتوں اور شکرانے کے سب نفل تمہارے ہی لیے پڑھے جاتے ہیں۔ یہاں بھی پوتی پوتا اور نواسی نواسا بیمار ہوتے ہیں، مگر تمہارے بچوں کی بیماری پر نفلی روزے مانتی ہیں۔ میں کہتا ہوں تم نے اپنا دل مارکر ماریہ کو بھیج ہی دیا ہے، کچھ ہمارا بھی احساس کیا کرو۔
مجھے ان تیس برسوں کی کون کون سی باتیں یاد آتی گئیں، میں ان کی کڑیاں آپس میں جوڑتی چلی گئی۔ دل بے حد غمگین ہوجاتا کسی وقت اس کی یاد میں۔ مگر اتنی ہمت ہی نہ تھی کہ اس کو میسج بھی کرسکوں۔ اس کے میکے سے خیریت معلوم کرلیتی۔ پتا چلتا کہ طبیعت بہتر ہورہی ہے، مگر بات کم ہی کرتی ہے۔
چھ مہینے میرے لیے تو قیامت ہی تھے کہ پھر کب ہم دل کی باتیں کریں گے۔ ایک اچھے دوست سے محرومی کوئی چھوٹی بات تو نہیں ہے۔ اچھا شوہر، ذہین بچے… قدرت نے اس کو فراخ دلی سے نعمتوں سے نوازا تھا۔ بظاہر کسی چیز کی کمی نہ تھی، خاندان بھی بھرا پرا تھا۔ سسرال اور میکے میں ہر رشتے کی چاہت اس کے حصے میں آئی تھی۔ جانے کیوں مجھے لگتا تھا کہ میں پھر بھی اس کی ضرورت ہوں۔ بہت سی باتیں مجھ سے کرکے وہ کہتی تھی کہ تم ہی سوچو یہ باتیں میں اور کسی سے کیسے کرسکتی ہوں بھلا…!! اس کی ذہنی الجھنوں کی سلجھن کیا کیا ہوسکتی ہے، میں اس کے فون کے بعد بھی گھنٹوں سوچتی رہتی۔
پورے آٹھ ماہ بعد آج وہ روشن صبح تھی جب فون پر میں نے اس کی چہکتی ہوئی جان دار آواز سنی۔ اس نے خوش خبری سنائی اپنی صحت کی۔ بار بار اللہ کا شکر ادا کررہی تھی کہ اللہ نے اس کے خاندان کو اس تکلیف دہ مرحلے سے نکالا۔ بتاتی رہی کہ اس کے چاروں بچے کتنا پریشان ہوئے۔ اس کے شوہر کی صحت بھی بہت متاثر ہوگئی۔ تینوں شادی شدہ بچے جو دوسری اسٹیٹس میں رہتے ہیں برابر اس کی خدمت کو آتے رہے، دل جوئی میں لگے رہے۔ اب معمولی دوائیں ہیں جو مستقل لینا ہیں دو سال تک…! مجھے تو لگا میری زندگی لوٹ آئی دوبارہ۔ میں نے استفسار کیا کہ اس کی طبیعت کی خرابی کی وجہ کیا تھی؟ وہ اپنی یادوں کے شیشے سے گرد صاف کرتے ہوئے بولی :
’’ تم عمرے کی مبارک باد دیتے ہوئے ان کی خوش بختیوں اور سعادتوں کی باتیں کیے جارہی تھیں۔ پاکستان میں میرے شوہر کا جو خاندان ہے اس کے نصیب میں تو اور بھی بہت سی خوش بختیاں لکھی ہیں، مگر ان خوش نصیبیوں کی قیمت میں نے اور میرے بچوں نے ادا کی ہے۔میں خدانخواستہ کسی کبر میں مبتلا نہیں ہوں، خودستائی کے مرض سے بھی دور ہوں، نہ یہ میری ذاتی کہانی ہے۔ مگر ہر گھر کی کہانی ہونے کے باوجود اس کہانی کا ایک ہی رخ ہے سب کے سامنے۔ اس کہانی کا ایک دوسرا بھی رخ ہے، وہ کسی کی نظر میں کیوں نہیں؟ اس کو میرے ساس سسر کی خوش بختی سمجھا جاتا ہے کہ ان کا بیٹا اتنا لائق ہے کہ دیارِِ غیر سے ان کی ہر خواہش پوری کرتا ہے۔ بے شک ان کی دعائیں ہماری حفاظت کا سبب ہیں۔ ان کی بہنوں کو فخر ہے کہ بھائی باہر ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم یہاں عیش میں ہیں، اور اس عیش کا کچھ حصہ ڈالروں کی شکل میں پاکستان بھی منتقل کردیتے ہیں۔ ان کی تین بہنوں کی شادی ہوئی، دو بھائی تو ان کے پاکستان میں بھی ہیں مگر توقعات تو سب ہمارے ساتھ ہی وابستہ ہیں۔ میاں کو ہر شادی پر بجٹ بتادیا جاتا جس کو بھیجنا ان کی ذمے داری ہوتی۔ بہنوں کی شادی کے اخراجات تو سمجھ میں آتے ہیں، مگر دونوں بھائیوں کی شادی پر بھی جی بھر کے ارمان نکالے گئے۔ میں اور بچے اس حسرت میں ہی رہ گئے کہ ہم بھی جاکر ان خوشیوں میں شریک ہوں۔ مگر شوہر کہتے ہمارے اتنے بڑے خاندان کے جانے سے جو سفری اخراجات ہوں گے ہم وہ پیسہ ان کو بھیج دیں تو وہاں بہت سے اخراجات پورے ہوجائیں گے۔ ہاں البتہ اپنی چھوٹی بہن کی شادی پر میں ضد کرکے اپنی چھوٹی بیٹی کے ہمراہ چلی گئی ایک دو ماہ کے لیے۔ اپنے بھائی کی شادی پر یہ تنہا ہو آئے۔ پچھلے تیس برس میں ہم صرف تین چار مرتبہ ہی پاکستان جاسکے ہیں۔
جب مجھے پاکستان سے شادیوں کی خبریں ملتی ہیں، وہاں سے تصاویر اور ویڈیوز آتی ہیں تو دیکھتی ہوں کہ سارا خاندان کتنا خوش ہورہا ہے۔ میری نظریں ایک ایک چہرے پر جم جاتی ہیں کہ زندگی کی کتنی مسرتیں حاصل ہیں انہیں۔ حقیقی خوشی کس چیز کا نام ہے کوئی مجھ سے پوچھے۔ ایک بار ابوجان سخت بیمار ہوئے، امی صبح شام کہتی تھیں: ماریہ تم آجائو شاید تم سے مل کر تمہارے ابو کی صحت پر مثبت اثر پڑے، وہ صحت کی طرف لوٹ آئیں۔ وہ ڈیپ ڈپریشن میں چلے گئے تھے۔ تب میں چھوٹے بیٹے بارہ برس کے فہد کو لے کر پاکستان چلی گئی۔ ہماری بقرعید وہیں ہوئی تھی۔ فہد نے قربانی کے جانوروں کے وہ مناظر پہلی بار دیکھے تھے، وہ اتنا خوش ہوا کہ ایک ایک منظر کی فوٹو لیتا تھا۔ اس کو رشک آتا تھا کہ اس کے کزنز پاکستان میں تہواروں کو کتنا انجوائے کرتے ہیں۔ سات برس ہوگئے ہیں اس بات کو، مگر عیدالاضحی آتے ہی فہد کی عجیب حالت ہوجاتی ہے۔ سارا سارا دن پاکستان میں اپنے کزنز سے رابطے میں رہتا ہے کہ کس کی گائے آئی، کس کے بکرے آئے۔ فوٹو دیکھتا رہتا ہے۔ حسرت سے کہتا ہے: ماما عید بقرعید کا مزا تو پاکستان میں ہی ہے۔ میں تو دل تھام کے رہ جاتی ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ سب کچھ پاکستان میں ہی ہے…!! (جاری ہے)

میں نے تمہیں بتایا تھا ناں کہ میری بڑی بیٹی چار برس کی عمر تک بولتی نہیں تھی۔ کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کرتی، مگر اس کو اپنے ہم عمر بچوں کی طرح جملے بنانا نہ آتے تھے، نہ اس عمر کے بچوں کی طرح اپنے احساسات کا اظہار کرتی تھی۔ میں بہت کوشش کرتی تھی مگر خاطر خواہ رزلٹ نہ آتا تھا۔ ڈاکٹرز، ٹیچرز سب اسے ’’سلولرنر‘‘ بچوں میں شمار کرتے تھے۔ میری چھوٹی بہن کی شادی طے پاگئی، میں نے شوہر سے اجازت لی اور بیٹی کے ساتھ پاکستان چلی گئی۔ دو ماہ میں نے پاکستان میں گزارے۔ میری بچی کی شخصیت میں اتنی حیرت انگیز تبدیلیاں آئیں کہ میں حیران رہ گئی۔ پہلے یہ خاندان کے بچوں کو دیکھ کر گھبراتی، ان سے دور بھاگتی، پھر آہستہ آہستہ ان میں دلچسپی لینے لگی۔ ابتدا میں یہ بچوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے دور سے انہیں دیکھتی، پھر بچوں کی آوازیں سنتے ہی کمرہ کھول کر بھاگ کر ان کے پاس جانے لگی۔ امی کے گھر میں تو دو بہوئوں کے ماشاء اللہ سات بچے تھے، ہر عمر کے۔ پھر خالہ کا گھر بھی قریب تھا اور پھوپھی کا بھی۔ ان کے خاندانوں کے بچے بھی آجاتے تھے۔ یوں ہر شام ایک میلہ لگا ہوتا تھا، بالخصوص ویک اینڈ پر تو الگ ہی بہاریں ہوتی تھیں۔ میں اتنے برس بعد گئی تھی شاید اس کی بھی خوشی تھی۔ تمہارے شوہر کی تو پوسٹنگ ان دنوں دوسرے شہر میں تھی اس لیے ہم مل ہی نہ سکے، مگر معجزہ یہ ہوا کہ چند ہفتوں بعد میری بیٹی فرفر بولنے لگی، اس میں بڑی نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ وہ بالکل اس انداز سے وہ سب شیئر کرنے لگی جیسے اس کے ہم عمر بچے کرتے ہیں۔ اللہ نے میرا دامن خوشیوں سے بھر دیا۔ مجھ سے یہ خوشی سنبھالے نہ سنبھلتی تھی کہ اب میری تسمیہ، میری شہزادی، ’’سلولرنر‘‘(Slow Learner) نہیں ہے۔ یہ پاکستان کا تحفہ تھا میرے لیے۔ جس سوشلائزیشن کے لیے ہم دیارِ غیر میں مرکھپ جاتے ہیں وہ پاکستان کے ہر گھر میں موجود ہے۔ یہاں کے خاندانی نظام، رشتوں کا قریب ہونا، محبت کرنے والوں کا دستیاب ہونا، اکٹھی خوشی، اکٹھے غم، یہ سب کتنی بڑی نعمت ہے۔
وہاں تو ’’ہم وطن‘‘ ہونا ہی اتنی بڑی نعمت ہوتا ہے کہ ہم میلوں کی مسافت پر بھی اپنے ہم وطنوں سے ملنے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی قدر کرتے ہیں۔ خون کے رشتوں کی کمی کس کس طرح پوری کرتے ہیں وہاں۔‘‘
آج ماریہ بے لگام بول رہی تھی اور میں بالکل بھی بور نہیں ہورہی تھی۔ وہ یونہی پہروں باتیں کرتی تھی اور میں سوچا کرتی اگر میری شکل میں اس کو کچھ دیر کے لیے ’’پاکستان‘‘ مل جاتا ہے تو اتنا تو حق ہے اُس کا مجھ پر۔ اس وقت میں ہوں ہاں کررہی تھی۔ اُس کی یادوں کے اس خزانے میں کچھ لعل و گوہر میرے حصے کے بھی تھے۔ کتنی بڑی حقیقت ہے کہ نعمتوں کا احساس ان کے چھن جانے پر ہی ہوتا ہے۔ شاید کچھ چیزوں کو ساری زندگی ہم نعمت سمجھتے ہی نہیں بلکہ اپنا حق سمجھ کر شکر کی توفیق سے بھی محروم رہتے ہیں۔
اس نے دوبارہ میرا نام لے کر پکارا تو میں سوچوں سے باہر آئی۔ وہ بولی ’’تم ہی بتائو یہاں اپنا کیا ہے؟ میں بارہا سوچتی ہوں پاکستان میں جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو جس پر نظر پڑتی ہے وہ ایک مسلمان ہوتا ہے۔ بازاروں میں آپ کے چاروں طرف مسلمان ہوتے ہیں۔ آپ کے پڑوسی، بچوں کے دوست سب مسلمان ہوتے ہیں۔ یہاں تو چاروں طرف لوگ اپنے حلیوں سے اعلان کررہے ہوتے ہیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔ ساری زندگی اسی کرب میں گزر گئی کہ اپنے بچوں کو کیسے سمجھائوں نظروں کی حفاظت کے بارے میں۔ بچوں کا اسکول کا بچپن ہو یا یونیورسٹی کی نوجوانی، سب کچھ ان ہی کے درمیان گزر گیا۔ عورتوں کے اتنے مختصر لباس کہ جو گناہ سے بچ جائے تو سمجھو بس رحمتِ خداوندی ہی کے حصار میں ہے۔ کتنا مشکل تھا وہ دن جب میرے چودہ برس کے بیٹے نے مجھے وائن کے حق میں دلیل دی تھی۔ اُس رات میں تڑپ تڑپ کر روئی تھی اپنے بچوں کی ہدایت کے لیے۔ میری بچیوں کے ساتر لباس ہی انہیں کتنا اجنبی بنادیتے ہیں اس معاشرے میں۔ قدم قدم پر بچوں کو حلال اور حرام کی تمیز دینا۔ ایک خوف زدہ سائے کی طرح پیچھا کیا تمام عمر بچوں کا۔ کتنا مشکل تھا بہت سے موقعوں پر میرے لیے اپنے ایمان کو بچانا۔ شوہر کبھی کبھی مجھے جذباتی دیکھ کر یہی سادہ سا مشورہ پیش کردیتے کہ شدت پسندی سے بچو۔ زیادہ جذباتی ہونے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ میں کتنا خوش نصیب سمجھتی تھی اپنے دیوروں کو کہ ان کے بچے پاکستان میں پلتے ہیں، ان کو وہ سب معاشرتی مسائل نہیں ہیں جو ہمیں ہیں۔ مگر مجھے ہمیشہ افسوس رہا کہ پاکستان میں رہنے والے ہمارے احباب ہمیں خوش نصیب گردانتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم پاکستان واپس جاسکتے تھے۔ مگر اُس وقت میرے شوہر کے پیر بندھے ہوئے تھے، شاید رونگٹا رونگٹا مقروض تھا ان کا، کیوں کہ یہ گھر کے بڑے تھے اور گھر والوں کے خوابوں کی تعبیریں ان سے جڑی تھیں۔ یہ باہر نہ ہوتے تو بہن میڈیکل کی تعلیم پرائیویٹ کالج سے کیسے حاصل کرتی؟ بھائی سیلف فنانس پر کیسے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرتا؟ بہن بھائیوں کی شادی پر جی کھول کے ارمان کیسے پورے کیے جاتے؟ حج تو ایک بار فرض ہے زندگی میں، مگر جب کوئی بیماری یا پریشانی ہوتی امی ابا (ساس اور سسر) عمرے کی نیت کرلیتے۔ یہ خوشی خوشی پیسے بھیجتے کہ میں حج اور عمرے کے لیے کیسے کسی کو روک سکتا ہوں!
میرے پڑوس میں ڈاکٹر رنجیت کی فیملی ہے۔ ان کی بیوی پشپا بھی ڈاکٹر ہے۔ کئی برس سے ہم پڑوسی ہیں۔ دوبار میں نے اس کو سخت ڈپریشن میں دیکھا، ایک بار جب اس کی ماں کا انتقال ہوا، دوسری بار جب اس کے جوان بھائی کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ دونوں بار بوجوہ وہ انڈیا نہ جاسکی۔ مجھے تو وہ اب بھی ذہنی مریض لگتی ہے۔ اس کا اپنے خاندان پر سے کنٹرول ختم ہوگیا ہے۔ بچے حد سے زیادہ خودسر ہیں۔ اس کے شوہر کہتے ہیں کہ وہ ذہنی امراض کی دوا لیتی ہے، اب اس کو نارمل رکھنا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ خانگی امور بھی شوہر کے ذمے آگئے ہیں۔ بری طرح متاثر ہوا ہے ان کا خاندان۔ سوچتی ہوں بہن، بھاوج کوئی تو قریب ہوتا بے چاری کے…!!
سچ پوچھو تو اب میں یہاں لوگوں سے کم ہی ملتی ہوں، جتنے سینے اتنی ہی داستانیں۔ آہ! ہماری تو گزر ہی گئی، جب بچے چھوٹے تھے تو ہم نہ جاسکے، اور جب بچے بڑے ہوگئے تو پاکستانی سماج ان کے لیے اجنبی ہوگیا۔ بڑا بیٹا پانچ برس قبل نانی کے انتقال پر گیا، واپس آیا تو بہت خوش تھا عزیز واقارب سے مل کر۔ اس کی خواہش تھی کہ ہمیں بار بار جانا چاہیے۔ کتنی لذت ہے خونیں رشتوں کی محبت میں۔ میں نے کہا کیوں ناں ہم سب مستقل پاکستان چلیں؟ اس کے باپ نے مجھے چونک کر دیکھا۔ وہ لاپروائی سے کندھے اچکا کر بولا: ماما بی سیریس پلیز۔ وہ گھومنے پھرنے کی جگہ ہے، چھٹیاں گزاری جاسکتی ہیں، مستقل تو نہیں رہا جاسکتا وہاں۔ مسائل دیکھے ہیں آپ نے وہاں کے! پلوشن، لوڈشیڈنگ، ٹریفک کے شدید مسائل، پانی تک پینے کے قابل نہیں، میڈیسن بھی جعلی۔ میں تو زیادہ وقت بیمار ہی رہا اُدھر جاکر۔
میں نے سن کر سر جھکالیا۔ جو وہاں پیدا ہوتے ہیں وہاں جینا بھی جانتے ہیں۔ تم اُس مٹی سے پیدا ہی نہیں ہوئے اس لیے شاید وہ مٹی تمہیں راس بھی نہ آئے۔ میری پلکوں سے دو آنسو گر کر میرے آنچل میں جذب ہوگئے اس وقت۔ میں آنکھیں بند کرتی ہوں تو آنکھوں کے سامنے ان گلیوں کے منظر پھیل جاتے ہیں جہاں کھیلتے، کودتے اور شرارتیں کرتے میرا بچپن گزرا تھا۔ ان گلیوں میں زندگی کے رنگ خوشگوار، سادہ اور پکے تھے‘‘۔
اس کی بند آنکھوں میں گویا قوس قزح کے وہ رنگ جھلمل کرتے اتر آئے ہوں۔ اس نے لمحہ بھر کو سانس لی تو میں نے کہا: ’’بات ہے اپنے اپنے سوچنے کے انداز کی۔ ایسا تو نہیں کہ تم منفی سوچتی ہو اس لیے پریشان رہتی ہو؟ جو اپنی مرضی سے پاکستان سے گیا ہے چاہے حصولِ علم ہی کے لیے سہی، مگر پھر پلٹ کر تو کوئی بھی نہ آیا۔ ایک ترقی یافتہ دنیا میں جاکر کون تیسری دنیا کے ملک میں آنا پسند کرے گا! خاندانوں کی اپنی برکتیں ہیں، مگر بڑے خاندانوں کے اپنے مسائل بھی ہیں۔ یہاں رہنے والوں کو خاندان کے بزرگوں کا اپنے آپ سے زیادہ خیال رکھنا ہوتا ہے۔ پھر ہر طرح کے رشتوں کو نبھانا پڑتا ہے۔ وہاں تو یہ آسودگی ہے کہ آپس کی چپقلش سے بھی دل صاف رہتے ہوں گے۔ وہاں کی زندگی اتنی مشینی ہے کہ فرصت نہیں بہت سے جھمیلوں کو پالنے کی۔ اگر سب کچھ اتنا ہی ناخوشگوار ہے تو پھر جانے والے تو رسیاں تڑا کر واپس آئیں، مگر لوگ تو عیش میں مگن ہوتے ہیں کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتے، جو ایک بار گیا، بس وہیں کا ہوگیا۔‘‘
اس نے تحمل سے میری بات سنی اور گویا ہوئی ’’ سب آنا چاہتے ہیں، مگر واپسی کے سب راستے ایک ایک کرکے بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے پہلے اگر قرض ہو تو وہ اتارنے اور پاکستان میں خاندان کو خوشحالی مہیا کرنے میں وقت گزر جاتا ہے۔ اگر کاروبار ہو تو وقت کے ساتھ ساتھ وہ جم جاتا ہے۔ اگر ملازمت ہو تو سہولتیں بڑھتی جاتی ہیں، پھر جب ہم موازنہ کرتے ہیں کہ اگر سب چھوڑ چھاڑ کر پاکستان چلے گئے تو وہاں محنت کا معاوضہ اتنا کم ہے، پھر امن وامان کی موجودہ صورتِ حال تو اس وقت لوگوں کو مجبور کررہی ہے دیارِ غیر ہجرت کرنے پر۔ جب تک بچے بڑے نہ ہوجائیں اُس وقت تک امکان باقی رہتا ہے واپس جانے کا۔ مگر جو بچے یہاں پیدا ہوئے اور جوان ہوگئے اُن کے لیے پاکستانی سماج بالکل اجنبی ہے۔ پھر معیارِ زندگی سمیت ہر چیز کا فرق۔ بچوں کو تو وہاں کی مٹی کی محبت نہیں ہوتی جو ہمیں ہے۔ انسان اپنے بچوں کی خاطر ہتھیار ڈال دیتا ہے۔‘‘
کیسی عجیب سی شکستگی تھی اس کی باتوں میں۔ میں نے گفتگو کو شگفتہ بناتے ہوئے کہا ’’ارے چھوڑو، ہم جیسوں کو تو دور کے ڈھول سہانے ہی لگتے ہیں۔ اب نہ ہر ایک تمہاری طرح سوچتا ہے ڈیئر، نہ آہیں بھرتا ہے۔ ہم تو تم لوگوں کو خوش باش ہی سمجھتے ہیں اور اپنے سے بہتر۔ سچ بتائوں، میں کبھی سوچتی ہوں کہ اب جو پاکستان میں ہیں شاید اس لیے رہ گئے ہیں کہ ان کو جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ہمارے خاندانوں میں تو جتنے ملک سے باہر ہوں اتنے ہی فخر کی بات ہوتی ہے۔ ایک بیٹا جرمنی میں، ایک آسٹریلیا میں، ایک کینیڈا میں جب ہم سنتے ہیں تو ان والدین کو بغیر پلک جھپکائے حسرت سے دیکھتے ہیں کہ کیا اعلیٰ نصیب ہیں، ماشاء اللہ ماشاء اللہ۔ اب چاہے وہ وہاں پیزا بیچتے ہوں یا برگر، ٹیکسی چلاتے ہوں یا چوکیداری کرتے ہوں، مگر پاکستان میں وہ آئیڈیل سمجھے جاتے ہیں۔‘‘
’’تو محنت کرکے کماتے ہیں، چوریاں تو نہیں کرتے ناں!‘‘ اب کے اس نے میری بات تلخ لہجے میں کاٹی تو میں نے کہا ’’نہیں میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہی کہ محنت سے وقار گھٹتا ہے، مگر پاکستان میں تو گھروں میں اخبار ڈالنا یا مزدوری کرنا لوگ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، جب کہ بیرونِ ملک جاکر ان کے سوچنے کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ ماموں باقر کے چھ بیٹے ملک سے باہر ہیں، سب کے سب امریکا میں۔ دونوں بہنوں کے بر بھی انہوں نے وہیں تلاش کرلیے۔ اب ان آٹھ میں سے دو یا چار بھی کبھی پاکستان آتے تو محلے بھر کے لوگ انہیں تبرکاً دیکھنے آتے تھے۔ وہ جس تقریب میں جاتے، نوجوان ان کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہوجاتے اور صحافیوں کی طرح ان پر سوالات کی بوچھاڑ کردیتے مارے تجسس کے۔ ان کی تو باڈی لینگویج ہی بدل گئی تھی۔ دو بیٹوں نے وہاں انگریز عورتوں سے شادی کرلی تھی تو ان کے گورے گورے بچوں کو سب چھوچھو کر دیکھتے، جیسے یہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوں…!!
ماریہ ایک بار ہم نے ان کی بیٹی کو کھانے پر بلایا۔ یوں تو دعوتیں عام سی روایت ہیں، مگر مجھے یاد ہے کہ کس قدر مرعوبیت تھی ہمارے گھر میں کہ سالن میں مرچیں نہ ہوں، میز پر طرح طرح کے جوسز ہوں، کانٹے اور چھریاں بھی رکھی جائیں لازمی۔ فریج کی پانی کی بوتلوں کے بجائے منرل واٹر کی بوتلیں ہوں۔ رشین سلاد بھی، تو چائینز بھی۔ چائے میں کافی کے ساتھ گرین ٹی بھی ہو تو قہو ہ بھی۔ جب وہ ہمارے گھر آئیں تو ان کے بچوں نے جس اجنبیت کا اظہار کیا اس سے ہم سب بہت دل گرفتہ ہوئے۔ ہم نے باتھ روم اور کمرے کے دروازے پر سفید تولیے خرید کر ڈالے ان کے اعزاز میں۔ انہوں نے ہاتھ دھوئے تو بھائی سفید براق تولیہ ان کو پیش کرنے لگا، مگر انہوں نے اپنے گول پرس سے چھوٹا سا تولیہ نکالا اور اس سے ہاتھ صاف کیے۔ کانٹوں سے سلاد کھاتی رہیں اور پاکستانی چیزوں کی ملاوٹ کے بارے میں باتیں کرتی رہیں۔ نہ محنت سے بنائے ہوئے سیخ کباب کو ہاتھ لگایا، نہ قورمے کی طرف التفات کیا۔ چھوٹے چھوٹے نوالوں سے مچھلی کے دوچار ٹکڑے کھائے اور پیالہ بھر کر انناس لیے اور کانٹے سے بڑے شوق سے کھائے۔ جب گرین ٹی کا ساشہ کپ میں ڈالتے ہوئے بہن نے پوچھا شکر کتنی لیں گی؟ تو بولیں: میں سفید شکر نہیں لیتی، برائون شوگر لیتی ہوں۔ ہم تو زمین میں گڑ گئے کہ اب کہاں سے لائیں؟ پہلے دماغ میں آگیا ہوتا تو اس کا بھی بندوبست کرلیتے۔ ارے میں خوامخواہ یادوں کا دریچہ کھول بیٹھی‘‘۔ مجھے اپنی گفتگو کی طوالت پر شرمندگی محسوس ہوئی تو میں نے بات سمیٹتے ہوئے کہا ’’ماریہ مجھے لگتا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ آپ جسمانی طور پر فاصلوں پر چلے جاتے ہیں، بلکہ آپ ایک نئی دنیا میں جاکر کوشش کرتے ہیںکہ پرانی دنیا سے آپ کا رابطہ ہی باقی نہ رہے۔ سب لوگ ایسے نہیں ہیں مگر ایسے بھی ہیں۔ ارسلان بھائی سے میں کہتی ہوں کہ آپ تو عید بقرعید پر بھی فون نہیں کرتے، تو وہ زوردار قہقہہ لگا کر کہتے ہیں کہ رات اور دن کا فرق آڑے آجاتا ہے۔ جب خیال آتا ہے کہ چلو آج بات کریں تو فوراً احساس ہوجاتا ہے کہ اوہو! ہمارے ہاں دن کے چار بج رہے ہوتے ہیں تو تمہارے ہاں رات کا ایک بج رہا ہوتا ہے۔ بس یہ دن رات کا چکر بھی گھما کر رکھ دیتا ہے۔ تب میں دکھ سے سوچ کر رہ جاتی، جہاں تعلقات کی قدر نہ ہو وہاں رات اور دن آڑے آجاتے ہیں، ورنہ تو ساری دنیا کی درآمدات وبرآمدات اور وفود کے تبادلے روزوشب کے اسی سلسلے کے گرد گھوم رہے ہیں۔‘‘ میں کہہ کر خاموش ہوئی اور سوچنے لگی کہ ماریہ کتنی اچھی سامع ہے، طویل ترین بات بھی کتنی یکسوئی سے سنتی ہے۔ باتوں میں سہ پہر ڈھلنے کو آئی۔ ہماری فریکوئنسی ایسی ملتی تھی کہ یونہی پہروں بیت جاتے تھے دل کی باتیں کرتے ہوئے۔ میں نے بات جاری رکھی ’’دیکھو خالہ امی کا دس افراد کا پورا خاندان ہجرت کرگیا امریکا۔ وہ اور خالو جان کتنا دکھی ہوتے تھے کہ اب پاکستان میں اپنا آبائی گھر بھی بیچنا پڑے گا۔ وہ گھر ان کو اتنا پیارا تھا کہ ہر سال محض اس گھر کو دیکھنے وہ بوڑھے میاں بیوی پاکستان آتے تھے۔ ان کے گھر کا بڑا سا لان جہاں بلیوں اور چوزوں کے پیچھے بھاگتے ہمارا بچپن گزرا تھا مجھے بڑا دکھ ہوا تھا جب اس لان پر پکا فرش بنا دیکھا تھا۔ کیوں کہ بچا ہی کون تھا لان کی دیکھ بھال کرنے والا! وہ کتنی حسرت سے کہتی تھیں کہ مجھے لاالٰہ کی مٹی نصیب ہو، بیٹی دعا کیا کرو۔ میں انگریزوں کے دیس میں دفن نہیں ہونا چاہتی۔ مگر وائے قسمت خالو جان اور خالہ جان دونوں کا آخری مرقد اسی لاالٰہ کی مٹی میں نہ بن سکا۔ جس دن ان کے بیٹے نے ان کی تدفین کی ویڈیو مجھے بھیجی میں پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی کہ پیاری خالہ جان ہمیں معاف کردیجیے گا۔ جو مٹی آپ کو پیاری تھی ہم اس مٹی میں آپ کو سلا نہ سکے۔ ہم تو خالو جان کے خاندان کو آئیڈیل سمجھتے تھے کہ کیا نصیب ہے، سب بیٹوں کو تو روزگار ملا ہی، بیٹیوں کو رشتے بھی وہاں نصیب ہوگئے۔ ایک بار وہ پاکستان آئی ہوئی تھیں، ان کا پیغام ملا کہ دو دن بعد جارہی ہوں ملنے آجائو۔ میں گئی، وہ گھر میں تنہا تھیں۔ گھر ہی کیا تھا، دو کمرے اور کچن۔ ان کے وسیع وعریض گھر کو جو بارہ کمروں اور کھلے دالانوں پر مشتمل تھا ان کے بیٹوں نے حصے کرکے علیحدہ علیحدہ کرائے پر چڑھا دیا تھا۔ جہاں ان کا ایک بڑا سا خاندان رہتا تھا اب اس گھر میں آٹھ اجنبی خاندان آباد ہوگئے تھے۔ دو کمرے ان کے بچوں نے ان کی ضد پر ان کے لیے رکھ چھوڑے تھے کہ پاکستان سے رشتہ برقرار رکھنے پر خالہ اور خالو جان بضد تھے، اور پھر ان کے انتقال کے بعد وہ گھر ہی بیٹوں نے فروخت کردیا۔ ہاں اس روز وہ تنہا تھیں، ورنہ ان کی بھاوج اور بچے انہیں تنہا نہ چھوڑتے تھے۔ میں ان کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گئی، انہوں نے یکدم میرے کندھے پر سر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ میں نے بمشکل ان کو سنبھالا اور پریشانی کی وجہ دریافت کی، تو بولیں: ’’ میں سینے پر کتنا بڑا بوجھ لے کر دنیا سے جائوں گی بیٹا کہ میری تیسری نسل مسلمان نہیں ہوگی۔ میں نے بچوں کا ایمان بچا کر رکھا، ان کے ساتھ سائے کی طرح رہی۔ جس کے پاس نہ ہوتی فون پر تفصیلی آگہی رکھتی۔ مگر ان کے بچے تو اسی سماج میں رنگے ہوئے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے ہیں۔ وہ تو انگلش بھی اسی انداز میں بولتے ہیں، ان کے طور طریقے بھی انگریزوں جیسے ہی ہیں۔ مگر میری بہوئیں اور بیٹیاں ان کو دین سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ ان کی اگلی نسل اور پھر ان کی نسل… بس اس سے آگے مجھ سے سوچا نہیں جاتا‘‘۔ ماریہ جب ان کے بیٹے نے وڈیو کلپ مجھے بھیجی جس میں لوگ ان کا جنازہ اٹھائے قبر کی طرف بڑھ رہے ہیں تو میں سوچنے لگی کہ یہ تو ان کے جسم کا بوجھ ہے جو لوگوں کے کاندھوں پر ہے، اگر ان کی روح اور ذہن کا بوجھ ان کے جسم کا حصہ ہوتا تو کئی درجن کاندھے مل کر بھی اس بوجھ کو نہ اٹھاپاتے۔ ‘‘
میں نے سوچا اِس وقت کے لیے اتنا ہی کافی ہے، اور ’’نماز عصر کا وقت ڈھلنے کو ہے‘‘ کہہ کر خدا حافظ کہہ دیا۔ ہمیشہ کی طرح ذہن پر ڈھیروں بوجھ بڑھ گیا۔ نماز کے بعد مصلے پر بیٹھتے ہوئے معاً ایک روشنی سی میرے اندر کودی کہ ہم چیزوں کے روشن پہلو پر بھی تو زیادہ بات کرسکتے ہیں چاہے ہمارے ذاتی معاملات ہوں یا اجتماعی معاملات۔ ہم میں سے اکثر ہمیشہ بات مایوسی سے شروع کرتے ہیں اور نوحے پر ختم کرتے ہیں اور عموماً ہم بے قصور ہوتے ہیں، قصوروار حکومت ہوتی ہے یا میڈیا یا سماج۔ صحت مند افراد اور معاشرے تو وہ ہوتے ہیں جو حقائق کے روشن پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے کی منزلیں تلاش کرتے ہیں۔ چلو ٹھیک ہے اس سات سمندر پار بیٹھی ہوئی سے کل سویرے ہی فون کرکے اس کو کچھ روشن پہلو دکھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم میں سے روشنی کا انعطاف ہو تو ہمیں خود روشنی بننا پڑے گا۔ حقائق تلخ بھی ہوں تو بار بار زیر زبان آنے سے ان کی تلخی کم تو نہیں ہوجاتی، البتہ ہم بار بار تلخ ہوجاتے ہیں ان کو دہرا کر… میں نے فجر کے معمولات سے فارغ ہوکر صبح چھ بجے فون کیا تو وہاں رات کے نو بجے تھے، وہ دن بھر کے معمولات سے فارغ تھی۔ شوہر میسا چوسٹس گئے ہوئے تھے نواسے کی کامیابی پر مبارک باد دینے، جس نے اولیول امتیازی نمبروں سے پاس کیا تھا۔
میں نے سن کر گرم جوش مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ایسے موقعوں پر ’’قرۃ العین‘‘کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے جب وہ ٹھنڈک دل میں اتر جاتی ہے۔ میں نے کہا ’’ردابہ کے بیٹے نے بھی شکاگو میں قرآن حفظ کرلیا۔ میں نے مبارک باد کے لیے فون کیا تو خوشی سے سرشار تھی، بولی ہم دیارِ غیر کے رہنے والے اپنے بچوں کے دین اور اخلاق کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں، جیسے کسی بیماری کا وائرس پھیل جائے تو ہم معمول کی زندگی گزارتے گزارتے ایک دم حساس ہوجاتے ہیں حفظانِ صحت کے اصولوں کے حوالے سے۔ کہہ رہی تھی بچوں کی دینی تعلیم کا وہاں باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ مغربی کلچر بالکل ہی مادہ پرست نہ بنادے۔ اپنے بھائی شہیر کا ذکر کررہی تھی کہ لاس اینجلس میں ان کا بیٹا خطیب بن گیا ہے، انہوں نے ٹیوٹر کے علاوہ مینٹور علیحدہ رکھے اس کے لیے۔ اتنی مثالی تربیت کی ہے بچے کی کہ رشک آتا ہے۔ بھائی کہتے ہیں کہ ہمیں اس سرزمین پر اللہ نے کسی مقصد سے بھیجا ہے۔ ہم قولی اور عملی تبلیغ کے ذریعے اسلام کی خدمت کرسکتے ہیں۔ بھائی ’’بیک ٹو اسکول‘‘ این جی او کے ساتھ نادار بچوں کے لیے اسکول کی فیسوں اور دوسری سہولتوں کا اہتمام کرتے ہیں، وہاں کے سماج میں بڑی معتبر شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔
ماریہ پچھلے دنوں ردابہ پورے پانچ برس بعد پاکستان آئی، مجھ سے بھی ملاقات ہوئی، وہ بولی ہمارے سماج کے مقابلے میں پاکستانی سماج زیادہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ بالخصوص وہ شادی بیاہ کی تقریبات کی فضول خرچی اور یہاں کی لڑکیوں کی بولڈ ڈریسنگ پر بہت حیران ہوئی۔ ایک تقریب میں ملی تو کہنے لگی کہ ٹی وی کے اشتہارات سے لے کر سڑکوں پر لگے فحش اشتہارات اس بات کے غماز ہیں کہ برائی سے کراہت کم ہورہی ہے بتدریج اس معاشرے کی۔ اس کے میاں شرجیل یہاں کی ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، بولی: ان کے رشتے داروں سے مل کر تو بہت ہی میرا دل خراب ہوا ہے کہ جس کے پاس جتنا پیسہ ہے وہ اتنا ہی مذہب سے دور ہے۔ بچوں کو بولڈ بناتے بناتے انہیں خودسر بنادیا ہے۔ وہاں پر بچے پھر بھی کنٹرول میں رہتے ہیں کم از کم ہمارے مسلمان گھرانوں میں۔ یہاں تو موبائل کی دنیا نے بچوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وہ اسٹریٹ فوڈ کلچر سے سخت نالاں تھی کہ گھر سے باہر مہنگے اور غیر معیاری کھانوں پر دولت لٹانا کیسے اسٹیس سمبل بن گیا۔ چند سال پہلے تو اس معاشرے کے یہ اطوار نہ تھے۔‘‘
ماریہ جو بیچ میں ہوں ہاں پر اکتفا کررہی تھی، بولی ’’اب ذرا میری بھی بات توجہ سے سننا۔ میں نے بہت انہماک سے سنی ہے ردابہ کی اسٹوری تمہاری زبانی، مجھے تو وہ فون تک نہیں کرتی، اور سچی بات تو یہ ہے کہ فرصت مجھے بھی نہیں ملتی، بہت سے رشتے یوں کمزور پڑتے چلے جارہے ہیں۔ اس کے بھائی نے جو بیٹے پر محنت کی، بہت قابلِ ستائش ہے۔ ایک بچے پر اتنی محنت اور وسائل لگائے جاسکتے ہیں، میں چار بچوں کو اس مہنگے ملک میں کہاں اتنے وسائل سے پال پوس سکتی تھی! اسلامی اسکول ہی اتنے مہنگے ہیں کیوں کہ ان کو گورنمنٹ سپورٹ نہیں کرتی، جب کہ یہاں تعلیم فری ہے، لیکن پبلک اسکول میں داخلہ کرانا تو اپنے بچے کو دریا میں پھینکنا ہے اس نصیحت کے ساتھ کہ دیکھو پانی ہرگز نہ لگے۔ میں نے پبلک اسکولوں کی حالتِ زار دیکھتے ہوئے اپنے وسائل کا بڑا حصہ بچوں کی اسلامی اسکولنگ پر خرچ کیا۔ بچوں پر سماج کا کوئی رنگ نہ چڑھے یہ ممکن ہی نہیں۔ خود سوچو، طاعون کی وبا پھیلی ہو تو کوئی گھر کے دروازے بند کرکے کیسے بچ سکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ہم تبلیغ دین کے لیے یہاں ہیں، تو ریاستی سطح پر نہ سہی خود اپنے خاندان کے لوگوں کا ہی سروے کرلو کہ کتنے دین کی تبلیغ کررہے ہیں اور کتنے یہاں کے رنگ میں رنگ کر صرف نام کی حد تک مسلمان رہ گئے ہیں۔ خود کتنی فیملیز میرے سرکل میں ہیں جو خود کی مسلمان شناخت بھی بہ کراہت ہی بتاتے ہیں۔ لباس اور چال ڈھال سمیت وہ بالکل اس رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ مسلمان ہونا ان کے لیے ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ اصل اہمیت ایک کامیاب اور پُرتعیش زندگی کی ہے۔ کتنی عرب فیملیز ہیں جن کی نسلیں یہاں بوڑھی ہورہی ہیں، وہ اپنی مسلم شناخت تک سے بے نیاز ہیں۔ جن کے بچے یہاں تعلیم کی غرض سے آئے یا ملازمت کے حصول کے لیے، انہوں نے یہاں شادیاں کیں۔ کیا تم سوچ سکتی ہو کہ ان کی نسلیں کتنے فیصد مسلمان رہتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا تو بڑی ہی مختلف دنیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ ہمیں اپنی مسلم شناخت ہی چھپانا پڑے کسی وقت، میں تو یہ سوچ کر لرز جاتی ہوں۔
جو یہاں معاش کے لیے آئے ہیں میرے مشاہدے کی حد تک تو وہ معاش ہی کے بندے ہیں، میں نے تو تبلیغِ اسلام کے لیے اپنے اطراف میں کسی کو فکرمند نہیں پایا۔ جو فکرمند ہیں اُن کا تناسب بہت کم ہی ہوگا۔ یہاں سب مشینیں ہیں۔ یہاں کے طرزِ زندگی نے کسی کو انسان چھوڑا ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے مقصدِ زندگی کے بارے میں سوچے۔ یہاں سماج کے تقاضوں کو آپ مشین بن کر ہی پورا کرسکتے ہیں جب پورا خاندان کمائے۔ ساری زندگی معاش کے گرد ہی گھومتی ہے یہاں، کیوں کہ تعیش زندگی کا بنیادی مقصد ہے، اور اس کے لیے آپ کو وسائل درکار ہوتے ہیں۔ یہاں روبوٹ بستے ہیں۔ دن مصروف ترین ہے اور راتیں طویل ترین۔ اسی لیے ڈرگس کی کثرت ہے، خودکشی کی شرح بہت بلند ہے۔ جنسی بے راہ روی نے معاشروں کو اتنے ہیجان میں مبتلا کررکھا ہے کہ سکون کی تلاش میں وہ منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ اسکول کے بچے سگریٹ نوشی کرتے ہیں، شراب کی اتنی کثرت کہ الامان الحفیظ۔ اب تو ہم جنسی پرستی کی وبا عام ہے۔ اپنے اور اپنے خاندان کے ایمان کو بچانا یہاں بہت بڑی آزمائش ہے۔ جو یہاں خوش ہیں اللہ انہیں خوش رکھے اور ہدایت دے۔ مگر ساری زندگی اس سماج میں گزار کر بہرحال ہم اجنبی ہی ٹھیرے، ایک کشمکش میں گزری زندگی۔ کاش کہ بلند معیارِ زندگی کا حصول ہماری زندگی کا مقصد نہ بنتا۔ میں تو آج تیس برس بعد بھی یہاں کے شاپنگ مالز اور سٹی سینٹرز میں خود کو اجنبی ہی محسوس کرتی ہوں۔ میری نند شہنیلا پاکستان سے آرہی تھی پچھلے دنوں، بولی: بھابھی کچھ منگوانا ہے تو بتائیے۔ میں نے کہا پاکستان کی مٹی لے آنا تھوڑی سی۔ کوئی وہاں سے آتا ہے مجھے تو سچ بڑی سوندھی سی خوشبو آتی ہے اُس کے پاس سے… اپنے دیس کی خوشبو، اپنی مٹی کی خوشبو۔ جو کپڑے میں پاکستان سے پہن کر آئی تھی میں نے ان کو آج تک دھویا نہیں ہے کہ مجھے لگتا ہے اس میں پاکستان کی مٹی کی خوشبو بسی ہے۔
سچ ہے کہ اپنی شناخت کھو کے جینا کوئی جینا نہیں ہوتا۔ پاکستان تو ہماری شناخت ہے، ہمارا مان ہے، ہمارے پرکھوں کا تحفہ… شاید تم کہو کہ میں شدت پسند ہوں، بند گلی میں رہتی ہوں، یہ بے باک سماج مجھے اپنی گلیوں کا اسیر نہ بناسکا۔ جو میں سوچتی ہوں شاید اور بھی بہت سے سوچتے ہوں مگر کہہ نہ پاتے ہوں۔ کوئی مجھ سے مشورہ طلب کرتا ہے کہ ہم پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں، یہاں ملازمت کے مواقع کیا ہیں؟ میں تو یہی کہتی ہوں کہ
جس کو ہو جان و دل عزیز
اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘
اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خدا حافظ کہا اور میں موبائل اسکرین کو دیکھتی رہ گئی کہ بظاہر تو فاصلے گھٹ گئے ہیں مگر فاصلے تو بہرحال فاصلے ہیں۔

حصہ