برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

471

قسط نمبر150
(آٹھواں حصہ)
انتخابی نتائج کی حد تک تو دونوں جیتنے والی پارٹیوں کو مجموعی طور پر زیادہ ووٹ ملے تھے۔ لیکن حیران کن نتائج جماعت اسلامی نے حاصل کیے۔ اگرچہ جماعت اسلامی کے صرف چار ارکان ہی اسمبلی میں پہنچے مگر دونوں جماعتوں کے بعد سب سے کامیاب پارٹی جماعت اسلامی تھی، جس کے کُل ووٹ انیس لاکھ اناسی ہزار چار سو اکسٹھ (1989461) تھے جو کُل ووٹوں کا چھ فیصد بنتے تھے۔
مرکزی حکومت بے اثر ہوچکی تھی۔ مشرقی پاکستان کی صوبائی حکومت عوامی لیگ کے زیراثر تھی۔ یحییٰ خان نے لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کو گورنر مشرقی پاکستان اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ ایم۔ اے۔ صدیقی چیف جسٹس مشرقی پاکستان نے جنرل ٹکا خان کا حلف لینے سے انکار کردیا۔ یحییٰ خان نے کرفیو لگانے کا اعلان کیا، جس کے جواب میں جہاں محبِ وطن غیر بنگالیوں کی آبادی تھی وہاں شیخ مجیب الرحمن نے اپنا کرفیو نافذ کردیا تاکہ غیر بنگالی پاکستانی افواج کی کسی بھی قسم کی مدد نہ کرسکیں۔
اب شیخ مجیب الرحمن نے ’’سول نافرمانی کی تحریک‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص کسی بھی قسم کا کوئی ٹیکس حکومت کو ادا نہیں کرے گا، اور مطالبہ کیا کہ ’’فوجی ٹروپس‘‘ بیرکوں میں واپس بھیجے جائیں اور7 مارچ 1971ء سے قبل عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کردیا جائے۔ اسی دوران مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قومی منتخب سیاست دانوں سے درخواست کی کہ وہ مشرقی پاکستان کا فوری دورہ کریں اور شیخ مجیب کو بات چیت پر راضی کریں۔ چنانچہ مولانا نورانی، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، اصغر خان اور دیگر رہنمائوں نے شیخ مجیب سے ملاقات کی اور حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے ملک بچانے کی درخواست کی۔
7 مارچ1971ء کو ’’رمنا ریس کورس گرائونڈ‘‘ ڈھاکا میں شیخ مجیب الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے ’’جیے بنگلہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا جو درحقیقت نعرۂ آزادی تھا۔ اپنے خطاب میں شیخ مجیب نے کہا کہ ’’نئے آئین سے بنگال کے عوام کو معاشی، سیاسی، کلچرل آزادی اور مکمل خودمختاری مل سکے گی۔ عوام کو اپنے حقیقی حقوق میسر ہوں گے۔ میں (شیخ مجیب الرحمن) نے جنرل یحییٰ خان کو کہا کہ 15 فروری1971ء کو اسمبلی کا اجلاس بلائیں، لیکن انہوں نے میری بات نہ مانی۔ میں نہ صرف بنگال بلکہ پورے پاکستان کی اکثریتی پارٹی کا قائد ہوں لیکن یحییٰ خان نے بھٹو کی بات تسلیم کرتے ہوئے 3 مارچ1971ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا۔ لیکن یکم مارچ1971ء کو یحییٰ خان نے دوبارہ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔‘‘
یحییٰ خان نے دوبارہ اجلاس25 مارچ1971ء کو طلب کیا۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے شیخ مجیب الرحمن نے مندرجہ ذیل مطالبات پیش کیے:
1۔ فوراً مارشل لا ختم کیا جائے۔
2۔ فوج واپس بیرکوں میں جائے اور اس کی آمدو رفت روکی اور بند کی جائے۔
3۔ اب تک جو لوگ ہلاک ہوئے ان کی جوڈیشل انکوائری کی جائے۔
4۔ منتخب نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی پُرامن طریقے سے یقینی بنائی جائے۔
5۔ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کو بھی قانون سازی کے اختیارات دیئے جائیں۔
6۔ پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت مشرقی پاکستان کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی جائے۔
مطالبات منظور ہونے کی شرط لگاتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ وہ قومی اسمبلی کے ہونے والے اجلاس میں شرکت پر غور کرے گا۔ شیخ مجیب الرحمن اور اس کی مذاکراتی ٹیم کے اراکین سید نورالسلام، تاج الدین احمد اور ڈاکٹر کمال حسین نے صدر یحییٰ خان سے ملاقاتیں جاری رکھیں۔ آخر وقت تک مطالبات کو نرم کرنے اور ڈرافٹ میں تبدیلیاں لانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ 19مارچ 1971ء کو ممتاز سیاست دان میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، سردار شوکت حیات خان اور مولانا مفتی محمود نے صدر جنرل یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمن سے ڈھاکا میں ملاقات کی اور حالات کو سدھارنے کی کوششیں کیں۔ شیخ مجیب الرحمن نے اپنے مطالبات کے حق دلائل دینے اور معاونت کے لیے مغربی پاکستان کے قانونی ماہر اے۔ کے۔ بروہی کا نام تجویز کیا جو کہDraft کی درستی کا جائزہ لیں گے۔ 22 مارچ 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، سردار شوکت حیات، مولانا مفتی محمود، خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، مولانا شاہ احمد نورانی و دیگر نے صدر یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کرکے سیاسی تصفیہ کی آخری کوشش کی۔ اسی دوران بھٹو اپنے ساتھیوں محمود علی قصوری، جے۔ اے۔ رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، عبدالحفیظ پیرزادہ اور رفیع رضا کے ہمراہ صدر یحییٰ خان سے ملے اور اس ملاقات کے بعد شیخ مجیب الرحمن اور شیخ مجیب کے دستِ راست تاج الدین سے ملاقات کی۔ دونوں فریق کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ آئینی بحران شدت اختیار کرتا جارہا تھا۔ یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہونے کی تاریخ دوبارہ بڑھا کر 2 اپریل 1971ء￿ کردی۔ اب (یوم پاکستان) 23 مارچ آچکا تھا۔ عوامی لیگ نے 23 مارچ 1971ء کو یوم پاکستان ’’یوم مزاحمت‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کردیا اور کہا کہ عوام اپنے گھروں، دفاتر، کارخانوں، اسکولوں و کالجوں… ہر جگہ بنگلہ دیش کا پرچم آویزاں کریں گے۔ شیخ مجیب الرحمن کے گھر بھی بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا گیا۔ صرف اور صرف محبِ وطن غیر بنگالیوں کی آبادی، گورنر ہائوس، کنٹونمنٹ، ایئرپورٹ پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔ پاکستانی افواج کی مدد اور فوجی ایکشن کی غرض سے بھیجا گیا سامان بحری جہاز M.V. Swat پر چٹاگانگ کی بندرگاہ پر لگ چکا تھا جس میں بڑی تعداد میں اسلحہ، گولہ بارود، مارٹر گولے وغیرہ موجود تھے۔ بنگالی مزدوروں نے جہاز سے اسلحہ اتارنے سے انکار کردیا اور غیر بنگالی مزدوروں پر پابندی لگادی کہ کوئی بھی جہاز کو ان لوڈ نہیں کرے گا۔ پاکستان آرمی کی مداخلت پر کارگو جہاز سے اتار تو لیا گیا مگر اس کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آگے راستہ بلاک تھا۔ سڑکوں کو مختلف طریقوں سے بند کردیا گیا تھا۔
قوم پرستی کے اس جنون میں مبتلا بنگالی قوم پرست کسی کو بھی معاف کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ باغیوں کا خاص ہدف غیر بنگالی پاکستانی سپاہی، پاکستان کے وزارتوں کے دفاتر، جماعت اسلامی کے کارکن یا اراکین اور غیر بنگالی پروفیسر اور دیگر پروفیشنل افراد تھے۔ غیر بنگالی کو کسی بھی طور پر برداشت نہیں کیا جارہا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کے لیے شاید اب بہت مشکل ہوگیا تھا کہ وہ حکومتی نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنے ووٹ کے حق کے لیے جدوجہد کرتا اور یحییٰ خان سے اپنے مطالبے کو منواتا کہ وہ اقتدار جمہوری اداروں کو منتقل کریں۔ اب اس کے پاس ایک ہی راستہ باقی بچا تھا، یعنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھلم کھلا جنگ… اور یہ کام بغیر ہندوستان کی حمایت کے ناممکن تھا۔ جب کہ ہندوستان کی جانب سے یکے بعد دیگرے کئی مرتبہ اس بات کی یقین دہانی کروا دی گئی تھی کہ موقع سازگار جانتے ہی طبل جنگ بجا دیا جائے گا۔ شیخ مجیب الرحمن کے اس اقدام کی مخالفت اپنی جگہ، مگر ذوالفقار علی بھٹو کے اس اعلان کو کیا نام دیا جائے گا جو انہوں نے اس نازک وقت میں کیا کہ ’’اسمبلی کے اجلاس میں جانے والے کو یک طرفہ ٹکٹ لینا ہوگا۔ اور جو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی‘‘۔
عوامی لیگی اپنے مطالبات کے حق میں مسلح جدوجہد کررہے تھے۔ پاکستانی افواج نے کچھ علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کرکے وقتی طور پر امن و امان کو بحال رکھنے کی کوششیں تو کیں، مگر اس دوران غیر بنگالی آبادی کا بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوچکا تھا۔ جماعت اسلامی کے کئی اراکین اور کارکنان شہید کیے جا چکے تھے۔ مرکز نے ڈاکٹر مالک کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل نیازی کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ ڈاکٹر مالک کو صوبائی حکومت بنانے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر مالک نے دس رکنی کابینہ تشکیل دی جس میں جماعت اسلامی کو دو وزارتیں یعنی وزارت تعلیم جناب عباس علی خان کو، اور وزارتِ مال مولانا ابوالکلام محمد یوسف کو دی گئیں۔ ستمبر میں ہی یحییٰ خان نے پاکستان کے خلاف ہنگاموں میں ملوث افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا جو شرپسندوں کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب بنا۔
قائم مقام امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد(مرحوم) نے اپنی یادداشت ’’جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد‘‘ میں اپنے حوالے سے لکھا ہے کہ یکم اکتوبر سے 3 اکتوبر1971ء تک اسلامی جمعیت طلبہ کا اجلاس ملتان میں ہوا جس میں مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے 17 طلبہ نے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی شدت کے ساتھ مخالفت کی تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شبر) کی صوبائی مرکزی مجلس شوریٰ نے البدر تنظیم قائم کی۔ نا ظمین اضلاع کے اجلاس میں پاکستان کی سالمیت کو بچانے کا عہد کیا۔ اس کے پہلے کمانڈر کامران انٹر سائنس کے طالب علم تھے۔
جماعت اسلامی کیونکہ پاکستان کو ہر قیمت پر متحد رکھنا چاہتی تھی، لہٰذا جماعت اسلامی کی شوریٰ نے کچھ ہنگامی اور تاریخی فیصلے کیے اور مرکزی جماعت کی ہدایت پر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے امیر پروفیسر غلام اعظم نے جنرل ٹکا خان سے ملاقات کی، اور اس ملاقات میں قوم پرست باغیوں اور تخریب کاری کرنے والے ہندوستانی ایجنٹوں کے خلاف افواجِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔
جماعت اسلامی نے نہ صرف افواجِ پاکستان کی حمایت کی بلکہ مسلم ممالک میں پاکستان کو متحد رکھنے اور ملکی سالمیت کی فضا بنانے میں مدد کے لیے ایک وفد یورپ اور دوسرا وفد عرب ممالک کی جانب روانہ کیا۔
مئی1971ء میں قائم مقام امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد نے مغربی پاکستان کے منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد شہید اور دیگر ذمے داران کے ساتھ مشرقی پاکستان کا تفصیلی دورہ کیا۔ مولانا عبدالرحیم، پروفیسر غلام اعظم، خرم جاہ مراد اور میاں طفیل محمد نے ان جلسوں سے خطاب کیا۔
البدر اور الشمس کے نام سے امن کمیٹیاں بناکر غیر بنگالی مسلمان علاقوں میں پاکستانیوں کی جانوں کو محفوظ بنایا گیا۔ مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں نے بھی مجاہد فورس اور مدرسوں کے طلبہ نے ’’غازی‘‘ نامی تنظیمیں بنا رکھی تھیں جو ہندوستانی ایجنٹوں اور باغیوں کے خلاف محب وطن نہتے عوام کی مدد کے لیے بنائی گئی تھیں۔
(جاری ہے)

حصہ