بجھتے دیے

387

عظمیٰ ابونصر صدیقی
کسی کی آنکھوں میں چھپی بات پڑھ لینا بھی ایک فن ہے اور آج مجھے اس بات کا بہت اچھی طرح ادراک ہوگیا تھا کہ آنکھیں بولتی بھی ہیں۔ میری بات سن کر جس طرح سبرینہ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی تھیں وہ اس کی سچی دوستی کی خوب غمازی کررہی تھیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے ان چمکتی سیاہ آنکھوں کو میں نے مرجھاتے اور بجھتے ہوئے دیکھا۔ اور وہ جو کچھ بھی چھپانا چاہ رہی تھی، میں نے اس سے اگلوا ہی لیا۔
بات کچھ یوں تھی کہ جیسے ہی ہم دونوں کا پیریڈ فری ہوا مَیں، جو صبح سے سبرینہ کو بتانے کو اُتاولی ہوئی جارہی تھی، اس کو بتا کر ہی دم لیا:
’’رات چچا جان اور چچی جان آئے تھے، حارث کے لیے میرا رشتہ لے کر، اور قوی امکان ہے کہ یہ رشتہ قبول کرلیا جائے گا۔‘‘ میری آواز میں شرماہٹ کم اور خوشی زیادہ تھی۔
’’ازکیٰ کی بچی! اتنی بڑی خوش خبری، وہ بھی مٹھائی کے بغیر!‘‘ سبرینہ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔
’’ہاں تو ابھی میں نے بھی مٹھائی نہیں کھائی، جب کھائوں گی تو تمہیں بھی کھلا دوں گی۔ ایک بات اور بھی تو ہے۔‘‘ میں نے تھوڑا تجسس ابھارتے ہوئے کہا۔
’’اب جلدی بولو ناں!‘‘ سبرینہ مجھ سے بھی زیادہ خوش تھی۔
’’چچا جان نے یہ بھی کہا ہے کہ ازکیٰ کو ہم لیں گے تو شمع کو تمہیں عاصم کے لیے لینا پڑے گا۔‘‘ میں نے بات مکمل کی اور سبرینہ کی آنکھوں میں بجھتے دیوں کو دیکھا۔
’’مگر شمع تو، یعنی وٹہ سٹہ…؟‘‘ سبرینہ نے دانتوں میں انگلی دے لی۔
’’ہاں، وہ عاصم بھائی سے کافی بڑی ہے لیکن… یہ تو کرنا پڑے گا۔ امی ابو کو حارث سے اچھا داماد نہیں مل سکتا۔ جو خوب صورت بھی ہو، اکلوتا بھی ہو اور کینیڈا میں خوب کما بھی رہا ہو… مگر تم کیوں سوچ میں پڑ گئیں؟‘‘ میں نے سبرینہ کی آنکھوں کو مزید پڑھنے کی کوشش کی تو اس نے نظریں ہی جھکا لیں۔
’’بتائو ناں سبرینہ کیا ہوا…؟ ابھی تو تم بہت خوش تھیں؟‘‘ میں بھلا ایسے کیسے پیچھا چھوڑ دیتی۔
’’تمہیں حارث پسند ہے؟‘‘ سبرینہ نے پوچھا۔
’’اتنا نہیں کہ اس کے لیے جان دے دوں۔ مگر اس میں بظاہر کوئی برائی بھی نہیں ہے، بس امی ابو راضی تو میں بھی راضی۔‘‘ میں نے ایک ہی سانس میں جواب دیا۔
’’ازکیٰ پلیز کبھی وٹہ سٹہ مت کرنا۔‘‘ سبرینہ یہ کہہ کر اسٹاف روم سے ہی باہر چلی گئی اور میں اس کی پشت کو گھورتی رہ گئی۔
جیسے ہی چھٹی کی گھنٹی بجی، میں نے سبرینہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’بس تم آج میرے گھر چلو اور اپنی امی کو فون کردو کہ میرے گھر جارہی ہو۔‘‘
وہ بھی شاید کچھ کہنا چاہ رہی تھی اس لیے زیادہ مزاحمت نہیں کی اور میرے ساتھ گھر چلی آئی۔ امی سبرینہ سے پہلے بھی مل چکی تھیں اب اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ وہ تھی ہی اتنی پیاری اور خوش اخلاق، ایک متاثر کن شخصیت کی حامل۔ دوپہر کے کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر ہم دونوں کی باتیں شروع ہوگئیں۔ ’’اچھا اب بولو کیا بات ہے؟ اور خبردار جو کچھ بھی چھپانے کی کوشش کی، کیونکہ تمہاری آنکھیں تم سے زیادہ بولتی ہیں۔‘‘ میں نے اُس کے ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑایا۔
’’نہیں! تم سے کچھ نہیں چھپائوں گی۔ میں ایک اور سبرینہ نہیں دیکھنا چاہتی۔‘‘ اس نے چائے کا گھونٹ بھرا۔ اور میں ایک اچھی سامع کی مانند اس کی باتیں سننے لگی۔
’’ازکیٰ! میرے انٹر کرتے ہی میری شادی غضنفر سے ہوگئی اور ساتھ ہی غضنفر کی بہن سمیرا میری بھابھی بن کر گھر آگئی۔‘‘
’’کیا… کیا تم شادی شدہ ہو؟‘‘ میں تو جیسے اس پر چڑھ دوڑی۔ اتنی بڑی بات اس نے چھپا کر رکھی۔
’’صرف شادی شدہ نہیں ایک تین سالہ بچی کی ماں بھی ہوں۔‘‘ سبرینہ کی بات سے تو جیسے میری آنکھیں ہی ابل پڑیں۔
’’اچھا اب تم خاموشی سے سنو گی یا میں خاموش ہوجائوں؟‘‘ اور میں اتنے سارے سوالات منہ میں دبائے پھر خاموش ہوگئی۔
’’شادی کے اگلے سال معطر میری گود میں آگئی اور دوسری طرف بھائی اور بھابھی کے مزاج کا فرق بھی کھل کر سامنے آگیا۔ ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں سے یہ نوبت آگئی کہ دوسرے سال ہی سمیرا سجاد بھائی سے طلاق لے کر والدین کے گھر واپس آگئی جہاں میں اپنے شوہر اور معطر کے ساتھ بہت خوش تھی اور اس بات سے لاعلم بھی کہ ان خوشیوں کی مدت بہت مختصر ہے۔‘‘ کچھ دیر چپ رہ کر وہ دوبارہ گویا ہوئی:
’’سمیرا کو میری یہ ہنستی بستی زندگی بہت بری لگی اور پھر میری ساس بھی اپنی بیٹی کے ساتھ ہی تھیں۔ غضنفر بہت دبائو میں تھے کیونکہ ہر ایک کا یہی مطالبہ تھا کہ جب تمہاری بہن واپس آگئی تو اسے بھی رخصت کردو۔ اور آخر ایک ’’غیرت مند‘‘ بھائی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے غضنفر مجھے امی کے گھر چھوڑ آئے۔ وہ اپنی امی اور بہن کو تو چھوڑ ہی نہیں سکتے تھے اس لیے ایک ہفتے بعد ہی طلاق نامہ بھی بھیج دیا۔‘‘ سبرینہ کی آنکھیں ایک رستے ہوئے زخم کو یاد کرکے آنسوئوں سے تر ہوگئیں۔
’’اور معطر…؟‘‘ میں نے بڑی مشکل سے پوچھا۔
’’معطر میرے ساتھ ہی ہے، اس معصوم کو تو کچھ خبر ہی نہیں، مگر اب بس یہی سوچتی ہوں وہ بڑی ہوکر کچھ پوچھے گی تو اسے کیا جواب دوں گی؟‘‘ سبرینہ نے آنکھیں رگڑیں۔ میری شکل اب رو دینے والی ہوچکی تھی۔
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘
سبرینہ نے خود کو سنبھالا اور گویا ہوئی ’’ہمارے ایک دور کے رشتے دار ہیں، بیوی وفات پا چکی ہے اور وہ خود نیوی میں ہوتے ہیں، یعنی مہینوں گھر سے باہر۔ ان کے چھ بچے ہیں، ان کو سنبھالنے کے لیے انہیں ایک گھر والی کی ضرورت ہے۔ امی نے مجھ سے مشورہ لیا تو میں امی کا پُرامید چہرہ دیکھ کر کچھ بھی نہ کہہ سکی۔‘‘
’’لیکن تمہاری عمر تو بہت کم ہے ابھی، سات بچے کیسے سنبھالو گی؟‘‘ میں خاموش نہ رہ سکی۔
’’اب جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا!‘‘ اس کی آنکھیں پھر سے بھر آئیں۔
’’یہ سب تو بہت برا ہوا، نہ جانے لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ رکو میں پانی لاتی ہوں۔‘‘
میں تیزی سے دروازے کی جانب بڑھی اور دروازے میں امی کو کھڑا دیکھ کر جم کر رہ گئی جو نہ جانے کب سے ہاتھ میں مٹھائی لیے وہاں کھڑی تھیں۔ شاید میری دوست کو خوشی کی مٹھائی کھلانے کے لیے لائی تھیں۔
’’امی آپ…؟‘‘ میری آواز سن کر سبرینہ نے بھی دروازے کی طرف دیکھا اور تیزی سے کھڑی ہوگئی۔
’’امی کی آنکھوں میں موجود نمی گواہی دے رہی تھی کہ وہ سبرینہ کی باتیں سن چکی ہیں۔ امی آگے بڑھیں اور سبرینہ کو ’’میری بچی‘‘ کہہ کر گلے سے لگا لیا، اور وہ جو کب سے ضبط کی منزلوں سے گزر رہی تھی، ماں کی محبت کی نرمی پاکر پگھل ہی پڑی۔
’’واہ… واہ کیا بات ہے… امی میری ہیں اور گلے کسی اور کو لگایا ہوا ہے۔‘‘ میں نے بمشکل آنسو ضبط کرکے تیز آواز میں کہا۔
’’نہیں، آج سے یہ بھی میری ہی بچی ہے… اتنی پیاری، اتنی بااخلاق بچی کو کیسے رول دیا ہے؟ بھلا ہیرے کی قدر کوئی لوہار کب جانتا ہوگا!‘‘ امی نے اس کا ماتھا چوم لیا۔ ’’اپنی امی کو کہنا اتوار کو ہم آئیں گے اُن سے ملنے۔‘‘ امی یہ کہہ کر واپس کمرے سے باہر چل دیں۔
’’امی امی مٹھائی کی پلیٹ تو دے دیں۔‘‘ میں نے جھٹ ایک گلاب جامن سبرینہ کے حیرت سے کھلے ہوئے منہ میں ڈال دی۔ اب اس کی سیاہ بولتی آنکھیں حیران تھیں، لیکن ان میں روشنی تھی جیسے بجھتے دیے دوبارہ جل اٹھے ہوں۔

حصہ