بالآخر تبدیلی آگئی

247

محمد انور
قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو نیا بنانے کا نعرہ لگانے والے عمران خان کو جمعہ کے مبارک دن قومی اسمبلی کے ایوان نے وزیراعظم منتخب کرلیا۔ اب آئندہ چند روز میں وزیراعظم کا حلف لینے کے بعد عمران خان کی حکومت پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہوجائے گی۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنے وعدوں کے ساتھ نئے پاکستان کے تقاضے بھی پورے کرسکیں گے ؟ کیا نئے پاکستان کی ضرورتوں سے عمران خان اور ان کی ٹیم واقف ہے ؟
عمران خان کی باتوں سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان ’’کچھ نہ کچھ’‘‘تبدیلی لے ہی آئیں گے۔لیکن قوم کو صرف مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ نو منتخب وزیر اعظم عمران خان کا روایتی پروٹوکول نہ لینے کا اعلان خوش آئند ہے لیکن یہ تبدیلی پاکستان کو نیا ظاہر کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ قوم تو پاکستان تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان سے قومی سطح کے مسائل کے ساتھ مقامی نوعیت کے مسلوں کا سدباب بھی چاہتی ہے۔ قوم کو توقعات ہیں کہ عمران خان انقلابی فیصلے کرتے ہوئے نہ صرف سوئیز بنکوں میں جمع آصف زرداری سمیت دیگر سیاست دانوں کے اربوں ڈالر واپس لائے جائیں گے۔ تمام کرپٹ عناصر کے خلاف بلا رعایت سخت احتسابی کارروائی کے لیے قومی احتساب بیورو کو آزادانہ اور منصفانہ کارروائی کے لیے مکمل آزاد ادارہ بنایا جائے گا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے اور لوگوں کو سستی بجلی فراہم کرنے کے نئے ذرائع نہ صرف تلاش کیے جائیں گے بلکہ اسے متعارف بھی کیا جائے گا۔ قوم چاہتی ہے کہ تمام جاری منصوبے وقت پر مکمل کیے جائیں اور کراچی کی ترقی کے عمل کو اس کی آبادی ور ضرورتوں کے مطابق ڈھالا جائے۔
قوم یہ بھی چاہتی ہے کہ آئین کی 18 ویں ترمیم کے تحت قابل اعتراض فیصلوں کو واپس لیا جائے اس مقصد کے لیے آئنی ترمیم پر نظر ثانی کی جائے۔ خصوصی طور پر صحت اور تعلیم کے شعبوں پر وفاق اپنا کنٹرول دوبارہ یقینی بنائے۔
عوام کو یقین ہے کہ تحریک انصاف کی کے پی کے کی حکومت نے 2013 سے 2018 کے دوران جس طرح پولیس کے نظام کی ریفارم کی ہے اسی طرح ملک کے دیگر صوبوں کے پولیس سسٹم کو تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کرے گی ۔
نئے صدر مملکت کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام کی تجویز !
عوام چاہتے ہیں کہ عمران خان تبدیلی کی بازگشت کو عملی جامہ پہنا کر اپنی پارٹی کی کسی شخصیت کے بجائے ملک کی نامور شخصیت ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صدر مملکت بنانے کے لیے پہلے کریں جس سے نہ صرف نئی روایت کا آغاز ہوگا بلکہ ملک کو ایک قابل اور محب وطن صدر مملکت مل جائے گا۔تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان سے قوم یہ بھی توقع رکھتی ہے کہ وہ نئے اسلام آباد ائیرپورٹ کا نام پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید لیاقت علی خان کے نام سے منسوب کیا جائے۔
تحریک انصاف اور عمران خان کی خوش قسمتی!
عمران خان اور ان کی جماعت کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی کامیابی اور تبدیلی کے نعروں کے ساتھ ایوان میں پہنچتے ہی گرینڈ اپوزیشن میں اتفاق باقی نہیں رہا بلکہ اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے بھی اپنے راستے جدا کرلیے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اس کا اظہار بدھ کو اسمبلی اجلاس کے بعد کر بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے لیے شہباز شریف کی نامزدگی پر انہیں اعتراض ہے۔ اور انہوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم کا ووٹ دینے سے انکار کیا بلکہ اس پر جمعہ کو انہوں نے عمل بھی کردیا۔ حالانکہ ایوان کے اندر شہباز شریف نے بلاول زرداری سے ان کی سیٹ پر جاکر ملاقات کی اور ان سے ان کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے درخواست کی مگر ان کی درخواست مسترد کردی۔ دوسری طرف متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی اتحادی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ: ’’ہم اپوزیشن کے ساتھ ضرور ہیں مگر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی کسی ڈکٹیشن کا حصہ نہیں بنیں گے اور ہم اپنی پالسیوں کو لے کر چلیں گے‘‘۔
انہوں نے دونوں جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ: ’’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اگر نظام کو بہتر کرتے تو آج اپوزیشن کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے‘‘۔ اپوزیشن کی جماعتوں میں اختلافات حکومتی جماعت کے لیے خوش آئند ہوتا ہے اور جب یہ اختلافات ابتدائی ایام ہی میں شروع ہوجائیں تو یقین ہونے لگتا ہے کہ اس طرح کا اتحاد غیر فطری طور پر تھا اور اسے صرف مجبوراً بنایا گیا تھا۔

تبدیلی عمران خان کے ووٹر کو عمران علی شاہ کے تھپڑ مارنے…

’’روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے ‘‘ کی بازگشت میں منتخب ہونے والے کراچی کے ایم پی اے نے سرعام ایک شخص کو تھپڑ مارکر کھلے عام ” منفی ” تبدیلی کا اظہار تو کر ہی دیا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ سرعام جو کچھ ہوا اس کی تلافی اسی صورت میں ہوگی جب تحریک انصاف، انصاف کے تقاضوں کا اظہار کرکے مذکورہ ایم پی اے کو صرف معطل نہیں بلکہ تحریک انصاف سے برطرفی کے ساتھ ان کے خلاف مزید سخت ممکنہ کارروائی کی جائے۔ ایسا اس لیے بھی کرنا چاہیے کہ نو منتخب رکن اسمبلی نے تھپڑ مارکر ایک شخص کے ساتھ زیادتی نہیں کی بلکہ پوری قوم کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جس سے پوری پی ٹی آئی کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ عمران خان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے ایم پی اے نے ان کے حلقے 243 کے ایک ووٹر کو زد وکوب کرکے سب ہی کو خوفزدہ کیا ہے۔ اس لیے اس واقعے کو ہر گز معمولی قصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ یادرہے کہ نو منتخب رکن اسمبلی عمران علی شاہ ممتاز آرتھوپیڈک سرجن محمد علی شاہ کے چھوٹے لیکن پہلی بیوی سے ہونے والے دو بیٹوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی ایک بیٹے جنید علی شاہ ہیں جو نگراں حکومت میں صوبائی وزیر کھیل رہے۔۔ محمد علی شاہ کے دوسری اہلیہ ڈاکٹر ریحانہ شاہ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ عمران علی شاہ اور جنید علی شاہ نے انہیں زد و خوب بھی کیا تھا ان کا کہنا ہے کہ عمران علی شاہ کا ایم کیو ایم سے بھی قریبی تعلق رہا ہے۔ یہ بات بھی قبل ذکر ہے کہ عمران علی شاہ برٹش نیشنلٹی بھی رکھتے ہیں دہری شہریت کی وجہ سے وہ نااہل بھی ہوسکتے ہیں

حصہ