امید سحر

322

ناہید عبدالصمد
’’امی امی…‘‘ سبحان گھر میں شور مچاتا ہوا داخل ہوا۔ آج اس کا آخری پیپر تھا اس لیے فائزہ (سبحان کی والدہ) نے اس کی پسند کی بریانی پکائی تھی۔ وہ باورچی خانے میں رائتہ بنا رہی تھی جب سبحان گھر میں داخل ہوا اور ’’امی امی‘‘ کہتا ہوا باورچی خانے میں آگیا اور بولا ’’امی آج میرے امتحانات ختم ہوگئے ہیں… اب مجھے پڑھنے کا نہیں کہیے گا۔‘‘ فائزہ مسکرا دی۔
’’نہیں بیٹا اب بقرعید تک تمہاری پڑھنے کی چھٹی ہے، تم نے امتحان میں بہت محنت کی ہے، اب تم آٹھ دس دن آرام کرو اور بقرعید کے بعد جب اسکول کھلے تب پڑھائی شروع کرو۔‘‘
’’اچھا امی ٹھیک ہے، اب آپ مجھے جلدی سے کھانا کھلا دیں، بریانی کی خوشبو سے تو بھوک اور چمک اٹھی ہے۔‘‘
’’بیٹا تم جلدی سے یونیفارم بدل کر آجائو، میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘ فائزہ بولی۔
کھانا کھاتے ہوئے سبحان نے فائزہ سے کہا ’’امی آج ہم دوستوں نے شام کو اسد کا بیل دیکھنے کا پروگرام بنایا ہے، اسد بہت دنوں سے اپنے بیل کی تعریفوں کے پُل باندھ رہا ہے، اس لیے آج ہم دوستوں نے اُس کے گھر جانے کا پروگرام بنایا ہے۔ ویسے بھی اب بقرعید میں چار دن رہ گئے ہیں۔‘‘ فائزہ نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ شام کو سب دوست اسد کے گھر چلے گئے، مغرب سے کچھ دیر پہلے سبحان گھر آگیا اور نماز پڑھ کر لیٹ گیا۔ فائزہ نے محسوس کیا کہ سبحان کچھ چپ چپ سا ہے، مگر وہ گھر کے کام میں مصروف تھی اس لیے وقت نہ نکال سکی۔ دوسرے دن جب سبحان باہر سے گھر آیا تو اس کی خاموشی نے فائزہ کو پریشان کردیا اور اس نے سوچا کام سے فارغ ہوتے ہی وہ سبحان سے اس کی خاموشی کی وجہ ضرور پوچھے گی۔
شام کو فائزہ نے چائے بنائی اور سبحان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ’’ہاں بھئی سبحان، تم نے اسد کے بیل کا تو مجھے بتایا ہی نہیں، کیسا لگا تم دوستوں کو؟‘‘ فائزہ نے پوچھا۔
سبحان جو کسی سوچ میں گم تھا، ایک دم چونک گیا ’’جی… جی امی آپ کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ فائزہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور کہا ’’پہلے تم بتائو کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’امی وہ اِس بار ہم کس کی قربانی کریں گے؟‘‘
’’بیٹا وہی جو ہر سال کرتے ہیں، تمہارے ابو کہہ رہے تھے کہ ایک چھوٹا بکرا لے آئیں گے۔‘‘ فائزہ بولی۔
سبحان یہ سن کر کچھ دیرخاموش رہا، پھر کہنے لگا ’’امی آپ پوچھ رہی تھیں اسد کے بیل کے بارے میں؟‘‘
’’ہاں بیٹا تم نے بتایا نہیں!‘‘
’’امی اسد کے چاچا اور ابو بہت شاندار بیل لے کر آئے ہیں… بہت مہنگا بھی ہے، جب کہ اُن کے حالات تو ہم سے زیادہ اچھے بھی نہیں۔ میں نے جب اسد سے یہ بات پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ میری امی قربانی کے لیے پورے سال پیسے جمع کرتی ہیں اور بقرعید پر ہم نئے کپڑے نہیں بناتے، ابو کو جو ’’بونس‘‘ ملتا ہے وہ بھی اللہ کی راہ میں قربانی کے لیے جمع کی ہوئی رقم میں شامل کردیتے ہیں کیونکہ اللہ کی راہ میں دینے والی چیز تو اچھی ہونی چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر سبحان خاموش ہوگیا اور اپنی امی کی جانب دیکھنے لگا۔
فائزہ نے کہا ’’بیٹا کوئی بات نہیں، ہم قربانی تو کرتے ہیں ناں، بڑی یا چھوٹی، اس سے کیا فرق پڑتا ہے! اور تمہیں تو معلوم ہے کہ کچھ بچت ہوتی ہی نہیں ہے۔‘‘ اس پر سبحان خاموش ہوگیا لیکن فائزہ نے محسوس کیا کہ وہ کچھ بے چین سا، غیر مطمئن سا ہے۔
دوسرے دن جب سبحان ظہر کی نماز پڑھ کر گھر واپس آیا تو بہت خوش اور پُرجوش تھا۔ فائزہ سے کہنے لگا ’’امی آج آپ کام سے فارغ ہوجائیں تو ہم دونوں خوب باتیں کریں گے۔‘‘ فائزہ بھی اسے خوش دیکھ کر مطمئن ہوگئی اور کہا ’’ٹھیک ہے میں ابھی نماز سے فارغ ہوجائوں تو پھر ہم دونوں خوب باتیں کریں گے۔‘‘
نماز سے فارغ ہوکر فائزہ نے سبحان کو آواز دی ’’ہاں بیٹا کہو کیا باتیں کرنی ہیں۔‘‘
’’امی آپ کی زندگی کی سب سے قیمتی چیز کیا ہے؟‘‘ سبحان نے پوچھا۔ فائزہ نے فوراً جواب دیا ’’تم اور تمہاری بہنیں، یعنی میری اولاد۔‘‘ اس پر سبحان مسکرا دیا ’’مجھے معلوم تھا امی آپ یہی کہیں گی۔‘‘
’’مگر بیٹا تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’امی آج ہمیں مولانا صاحب نے قربانی کے بارے میں بتایا ہے کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب آیا کہ وہ اپنے بیٹے کو قربان کررہے ہیں، اور پھر وہاں اللہ کی طرف سے ایک دنبہ آگیا۔‘‘
’’ہاں بالکل ٹھیک، انہوں نے بالکل ٹھیک بتایا ہے۔‘‘ فائزہ نے کہا۔
’’تو امی پھر ہم قربانی کرتے وقت کیوں نہیں سوچتے کہ ہم اللہ کی راہ میں اپنی حیثیت کے حساب سے اچھا جانور کریں۔‘‘ سبحان کی یہ بات سن کر فائزہ چپ ہوگئی، پھر بولی ’’بیٹا میں نے تمہیں کل بتایا تو تھا کہ بچت کچھ نہیں ہوتی۔‘‘
سبحان حیرانی سے بولا ’’مگر امی ہم اپنی خواہشوں کو کچھ کم کرلیں تو ہمارے لیے یہ ممکن ہوگا کہ ہم اللہ کی راہ میں اچھی قربانی کرسکیں گے جیسا کہ ہم ہر مہینے میں دو بار ہوٹل جاتے ہیں، آپ ہماری سالگرہ مناتی ہیں، اس کے علاوہ عید، بقرعید پر ہمارے چار، چار جوڑے بناتی ہیں، اور بھی بہت سی جگہوں پر ہم ضرورت سے زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر آپ بھی اسد کی امی کی طرح بچت کرلیں اور ہم اپنی خواہشوں کو کم کرلیں تو کیا یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ جب اللہ کی راہ میں دینے کا وقت آئے تو ہم اللہ کے سامنے سرخرو ہو جائیں۔‘‘
اب بات فائزہ کی سمجھ میں آگئی کہ سبحان کیوں پریشان تھا۔ اس نے فائزہ کی آنکھیں کھول دی تھیں۔ ’’واقعی یہ کیا معاملہ ہے کہ ہم کو تمام ضروریات، فضولیات صرف اُس وقت یاد آتی ہیں جب خدا کے کسی حکم کی پابندی میں روپیہ خرچ ہورہا ہو۔ جب ہمیں اپنے کسی پیارے کو تحفہ دینا ہو تو ہماری ترجیح سب سے بہترین تحفہ ہوتی ہے لیکن جب یہی بات دین کے لیے آتی ہے تو ہماری سوچ اور جیب دونوں تنگ ہوجاتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس مادہ پرست دور میں لوگوں کے دل و دماغ صرف معاشی مفاد کو اہمیت دیتے ہیں، اس کے سوا کسی چیز کی کوئی قدر ان کی نگاہ میں باقی نہیں رہتی۔
سبحان کی باتوں نے جہاں فائزہ کو ’’محبتِ الٰہی‘‘ کا درس دے دیا وہیں ہم سب کی اس سوچ کو بھی بدل دیا کہ ہماری نئی نسل اپنے دین سے دور ہورہی ہے، اور ہمیں ناامیدی کے چنگل سے باہر نکال دیا۔
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ

بے قرار آنکھوں میں

ڈاکٹر عزیزہ انجم
بے قرار آنکھوں میں
انتظار رقصاں تھا
مضطرب سے چہروں پر
اضطراب یکساں تھا
لوگ چائے خانوں میں
اپنی خواب گاہوں میں
منتظر سے بیٹھے تھے
دیکھتے تھے ٹی وی کو
واقعہ جو گزرا ہے
ہر طرف جو چرچا ہے
ہم نے خود جو دیکھا ہے
اہلِ علم بولیں گے
کچھ تو راز کھو لیں گے
سب فریب کے پردے
آج چاک کردیں گے
بت ہیں جتنے قدآور
ان کو خاک کردیں گے
حیرتوں سے تکتے تھے
دیکھتے تھے ٹی وی کو
لوگ چائے خانوں میں
اپنی خواب گاہوں میں
شور تھا شرابا تھا
اک عجب تماشہ تھا
مصلحت کی باتیں تھیں
وقت کا تقاضا تھا
بے سند حدیثوں سے
بے وزن دلیلوں سے
بازیاں پلٹ ڈالیں
ایسی چال چل ڈالی
تجزیہ نگاروں نے
بات ہی بدل ڈالی

حصہ