انجیل برناباس

2589

سورۃ الاعراف کے مضامین کا خلاصہ
(52واں حصہ)
آج جو چار انجیلیں اپنے لکھنے والوں متی، لوقا، مرقس اور یوحنا کے نام سے دستیاب ہیں اور عیسائی انہیں مستند مانتے ہیں، ان میں سے کسی کا لکھنے والا بھی حضرت عیسیٰؑ کا صحابی/ حواری نہیں تھا۔ اور ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا ہے کہ اس نے حضرت عیسیٰؑ کے صحابیوں/ حواریوں سے ملاقات کی ہے، اور ان سے حاصل کی ہوئی معلومات اپنی انجیل میں لکھی ہیں۔ بلکہ ان لوگوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ معلومات انہیں کہاں سے حاصل ہوئی ہیں۔ ان کے کسی بیان سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ لکھنے والے نے خود وہ واقعات دیکھے اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کررہا ہے… یا ایک یا کئی واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں۔ جب کہ انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں حضرت عیسیٰؑ پر ایمان لانے والے ابتدائی بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں، شروع سے آخر وقت تک حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے اقوال بیان کررہا ہوں… یا ایک یا کچھ واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں۔ کتاب کے آخر میں وہ کہتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت حضرت عیسیٰؑ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میرے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پھیل گئی ہیں اُن کو صاف کرنا اور صحیح حالات دنیا کے سامنے لانا تیری ذمے داری ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کو جاننے کا ذریعہ یہ چار انجیلیں نہیں بلکہ انجیل برناباس ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات، سیرت اور اقوال کی صحیح ترجمانی کی گئی ہے۔ یہ عیسائیوں کی بدقسمتی ہے کہ انہیں اس انجیل کے ذریعے سے اپنے عقائد کی اصلاح کرنے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات کو جاننے کا جو موقع ملا تھا اسے صرف ضد کی وجہ سے گم کردیا۔
اگر کوئی شخص اسے بغیر تعصب کے پڑھے اور باقی چاروں انجیلوں سے اس کا مقابلہ کرے تو وہ یہ دیکھے گا کہ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، اور اس طرح جیسے کوئی شخص آنکھوں دیکھا حال بیان کررہا ہے، کیونکہ وہ ان واقعات میں خود شریک تھا۔ اس لیے اس میں ایسا ربط اور واقعیت میں تسلسل ہے جو پڑھنے والے کو الجھاتا نہیں بلکہ پورا تاریخی بیان اچھی طرح اس کی سمجھ میں آجاتا ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات واضح، مفصل اور مؤثر طریقے سے بیان ہوئی ہیں۔ توحید کی تعلیم، شریک کی تردید، صفاتِ باری تعالیٰ، عبادات کی روح، اور اخلاقِ فاضلہ کے مضامین اس میں بڑے ہی پُرزور طریقے سے دلیل اور تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ اور بیان کی گئی تمثیلات میں جو اثر ہے وہ کسی اور انجیل میں نہیں۔ اس سے یہ بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کس حکیمانہ طریقے سے فرماتے تھے۔ باقی چاروں انجیلوں کے مقابلے میںانجیل برناباس میں حضرت عیسیٰؑ اپنی اصلی شان میں بہت زیادہ نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آتے ہیں، اور اس میں اُن تضادات کا نام و نشان بھی نہیں ہے جو دوسری انجیلوں میں ان کے مختلف اقوال کے درمیان پایا جاتا ہے۔

حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کا خلاصہ

اس انجیل میں حضرت عیسیٰؑ کی زندگی اور آپؑ کی تعلیمات ٹھیک ٹھیک ایک نبی کی زندگی اور تعلیمات کے مطابق نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں، تمام پچھلے انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں، صاف کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے سوا معرفتِ حق کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے… اور جو انبیاء کو چھوڑتا ہے وہ دراصل خدا کو چھوڑتا ہے۔ توحید، رسالت اور آخرت کے ٹھیک وہی عقائد پیش کرتے ہیں جن کی تعلیم تمام انبیاء نے دی ہے۔ نماز، روزے اور زکوٰۃ کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کی نمازوں کا جو ذکر بکثرت مقامات پر برناباس نے کیا ہے اُس سے پتا چلتا ہے کہ یہی فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشا اور تہجد کے اوقات تھے جن میں وہ نماز پڑھتے تھے، اور ہمیشہ نماز سے پہلے وضو فرماتے تھے۔ انبیاء میں سے وہ حضرت داؤدؑ اور سلیمانؑ کو نبی قرار دیتے ہیں… حالانکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ان کو انبیاء کی فہرست سے خارج کررکھا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کو وہ ذبیح قرار دیتے ہیں اور ایک یہودی عالم سے اقرار کراتے ہیں… یہ کہ فی الواقع ذبیح حضرت اسماعیلؑ ہی تھے… اور بنی اسرائیل نے زبردستی کھینچ تان کرکے حضرت اسحاقؑ کو ذبیح بنا رکھا ہے۔ آخرت اور قیامت، اور جنت و دوزخ کے متعلق ان کی تعلیمات قریب قریب وہی ہیں جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں۔

انجیل برناباس غائب کردی گئی

عیسائیوں نے اسے چھپانے کا بڑا اہتمام کیا ہے۔ صدیوں تک یہ دنیا سے ناپید رہی ہے۔ سولہویں صدی میں اس کے اطالوی ترجمے کا صرف ایک نسخہ پوپ سکسٹس (Sixtus) کے کتب خانے میں پایا جاتا تھا اور کسی کو اسے پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں وہ ایک شخص جان ٹولینڈ کے ہاتھ لگا۔ پھر مختلف ہاتھوں میں گشت کرتا ہوا 1738ء میں ویانا کی امپیریل لائبریری میں پہنچ گیا۔ 1907ء میں اسی نسخے کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ کے کلیرنڈن پریس سے شائع ہوگیا تھا، مگر غالباً اس کی اشاعت کے بعد فوراً ہی عیسائی دنیا میں یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ کتاب تو اس مذہب کی جڑ ہی کاٹے دے رہی ہے جسے حضرت عیسیٰؑ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے پرنٹڈ نسخے کسی خاص تدبیر سے غائب کردیے گئے… اور پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آسکی۔ ایک دوسرا نسخہ اِسی اَطالوی ترجمے سے اسپینی زبان میں منتقل کیا ہوا اٹھارویں صدی میں پایا جاتا تھا، جس کا ذکر جارج سیل نے اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن کے مقدمہ میں کیا ہے۔ مگر وہ بھی کہیں غائب کردیا گیا اور آج اس کا بھی کہیں پتا نشان نہیں ملتا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو آکسفورڈ سے شائع شدہ انگریزی ترجمے کی ایک فوٹو اسٹیٹ کاپی دیکھنے کا اتفاق ہوا اور انہوں نے اسے لفظ بہ لفظ پڑھا ہے۔ ان کا احساس یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس سے عیسائیوں نے محض تعصب اور ضد کی بنا پر اپنے آپ کو محروم کر رکھا ہے۔
عیسائی کہتے ہیں کہ یہ ایک جعلی انجیل ہے جسے کسی مسلمان نے لکھ کر برناباس کا نام دے دیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ اگر یہ کسی مسلمان نے لکھی ہوتی تو مسلمانوں میں مشہور بھی ہوتی اور اس کے نسخے بھی بہت سے مسلمانوں کے پاس ہوتے اور قدیم علماء اور مصنفین اپنی کتب میں اس کا حوالہ دیتے۔ لیکن کسی کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا… اور نہ ہی دنیائے اسلام کے قدیم کتب خانوں کی فہرست میں اس کا نام ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے بھی 75 سال پہلے پوپ گلاسیس اوّل (Gelasius) کے زمانے میں بدعقیدہ اور گمراہ کن (Heretical) کتابوں کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی، اور ایک پاپائی فتوے کے ذریعے سے جن کا پڑھنا ممنوع کردیا گیا تھا، ان میں انجیل برناباس (Evangelium Barrnabe) بھی شامل تھی۔ سوال یہ ہے کہ اُس وقت کون سا مسلمان تھا جس نے یہ جعلی انجیل تیار کی تھی؟ یہ بات تو خود عیسائی علماء نے تسلیم کی ہے کہ شام، اسپین، مصر وغیرہ ممالک کے ابتدائی مسیحی کلیسا میں ایک مدت تک برناباس کی انجیل رائج رہی ہے اور چھٹی صدی میں اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

برناباس کون تھا؟

بائبل کی کتاب ِاَعمال میں بڑی کثرت سے اس نام کے ایک شخص کا ذکر آتا ہے جو قبرص کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ مسیحیت کی تبلیغ اور پیروانِ مسیح کی مدد و اعانت کے سلسلے میں اس کی خدمات کی بڑی تعریف کی گئی ہے۔ مگر کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کب دینِ مسیح میں داخل ہوا، اور ابتدائی بارہ حواریوں کی جو فہرست ان انجیلوں میں دی گئی ہے اُس میں بھی کہیں اس کا نام درج نہیں ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس انجیل کا مصنف وہی برناباس ہے یا کوئی اور۔ متی، اور مرقس نے حواریوں (Apostles) کی جو فہرست دی ہے، برناباس کی دی ہوئی فہرست اس سے صرف دو ناموں میں مختلف ہے۔ ایک توما، جس کے بجائے برناباس خود اپنا نام دے رہا ہے، دوسرا شمعون قنانی، جس کی جگہ وہ یہوواہ بن یعقوب کا نام لیتا ہے۔ لوقا کی انجیل میں یہ دوسرا نام (شمعون قنانی) بھی موجود ہے۔ اس لیے یہ قیاس کرنا صحیح ہوگا کہ بعد میں کسی وقت صرف برناباس کو حواریوں سے خارج کرنے کے لیے ’توما‘کا نام داخل کیا گیا ہے تاکہ اس کی انجیل سے پیچھا چھڑایا جا سکے۔ اس طرح کی تبدیلیاں اپنی مذہبی کتابوں میں کرلینا اِن حضرات کے ہاں کوئی ناجائز کام نہیں رہا ہے۔

عیسائی کیوں انجیل برناباس کے خلاف ہیں؟

(1) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی پیرو آپؑ کو صرف نبی مانتے تھے… اور حضرت موسیٰؑ کی شریعت پر چلتے تھے۔ عقائد اور احکام اور عبادات کے معاملے میں اپنے آپ کو دوسرے بنی اسرائیل سے قطعاً الگ نہ سمجھتے تھے… فرق صرف یہ تھا کہ یہ حضرت عیسیٰؑ پر ایمان لائے تھے، جب کہ یہودی ان کا انکار کرتے تھے۔
(2) حضرت عیسیٰؑ کے بعد جب سینٹ پال اس جماعت میں داخل ہوا تو اس نے رومیوں، یونانیوں اور دوسرے غیر یہودی اور غیر اسرائیلی لوگوں میں بھی اس دین کی تبلیغ و اشاعت شروع کردی، اور اس غرض کے لیے ایک نیا دین بنا ڈالا، جس کے عقائد اور اصول اور احکام اس دین سے بالکل مختلف تھے جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا تھا۔ اس شخص نے حضرت عیسیٰؑ کی کوئی صحبت نہیں پائی تھی، بلکہ ان کے زمانے میں وہ ان کا سخت مخالف تھا اور ان کے بعد بھی کئی سال تک ان کے پیروؤں کا دشمن بنا رہا۔ پھر جب اس جماعت میں داخل ہوکر اس نے ایک نیا دین بنانا شروع کیا اُس وقت بھی اس نے حضرت عیسیٰؑ کے کسی قول کی سند پیش نہیں کی… بلکہ اپنے کشف اور الہام کو بنیاد بنایا۔ اس نئے دین کی تشکیل میں اُس کے پیش نظر بس یہ مقصد تھا کہ دین ایسا ہو جسے عام غیر یہودی (Gentile) دنیا قبول کر لے۔
(3) اس نے اعلان کردیا کہ ایک عیسائی شریعت یہود کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔ اس نے کھانے پینے میں حرام و حلال کی ساری پابندیاں ختم کردیں۔ اس نے ختنہ کے حکم کو بھی منسوخ کردیا جو غیر یہودی دنیا کو خاص طور پر ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ اس نے مسیحؑ کی اُلوہیت اور ان کے ابنِ خدا ہونے اور صلیب پر جان دے کر اولادِ آدمؑ کے پیدائشی گناہ کا کفارہ بن جانے کا عقیدہ بھی تصنیف کرڈالا…کیونکہ عام مشرکین کے مزاج سے یہ بہت مناسبت رکھتا تھا۔
( 4) مسیحؑ کے ابتدائی پیروؤں نے ان بدعات کی مزاحمت کی… مگر سینٹ پال نے جو دروازہ کھولا تھا، اس سے غیر یہودی عیسائیوں کا ایک ایسا زبردست سیلاب اس مذہب میں داخل ہوگیا، جس کے مقابلے میں وہ مٹھی بھر لوگ کسی طرح نہ ٹھیر سکے۔
(5) عیسائیوں نے اسے جعلی قرار دے کر اس لیے غائب کردیاکہ وہ مسیحیت کے اس بنیادی عقیدے کے بالکل خلاف تھی۔ اس کا مصنف کتاب کے آغاز ہی میں اپنا مقصدِ تصنیف یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ان لوگوں کے خیالات کی اصلاح کی جائے جو شیطان کے دھوکے میں آکر یسوع کو ابن اللہ قرار دیتے ہیں، ختنہ کو غیر ضروری ٹھیراتے ہیں، اور حرام کھانوں کو حلال کردیتے ہیں، جن میں سے ایک دھوکا کھانے والا پولوس بھی ہے‘‘۔ وہ بتاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰؑ دنیا میں موجود تھے اُس زمانے میں ان کے معجزات کو دیکھ کر سب سے پہلے مشرک رومی سپاہیوں نے ان کو خدا اور بعض نے خدا کا بیٹا کہنا شروع کیا… پھر یہ چھوت کی بیماری بنی اسرائیل کے عوام کو بھی لگ گئی۔ اس پر حضرت عیسیٰؑ سخت پریشان ہوئے، اُنہوں نے بار بار نہایت شدت کے ساتھ اپنے متعلق اس غلط عقیدے کی تردید کی اور اُن لوگوں پر لعنت بھیجی جو ان کے متعلق ایسی باتیں کہتے تھے۔ پھر انہوں نے اپنے شاگردوں کو پورے یہودیہ میں اس عقیدے کی تردید کے لیے بھیجا… اور ان کی دعا سے شاگردوں کے ہاتھوں بھی وہی معجزے صادر کرائے گئے جو خود حضرت عیسیٰؑ سے صادر ہوتے تھے، تاکہ لوگ اس غلط خیال سے باز آجائیں کہ جس شخص سے یہ معجزے صادر ہورہے ہیں وہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے۔ برناباس اس سلسلے میں حضرت عیسیٰؑ کی مفصل تقریریں نقل کرتا ہے جن میں انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس غلط عقیدے کی تردید کی تھی… اور جگہ جگہ یہ بتاتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اس گمراہی کے پھیلنے پر کس قدر پریشان تھے۔
(6) برناباس اس پولوسی عقیدے کی بھی صاف صاف تردید کرتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے صلیب پر جان دی تھی۔ وہ اپنی آنکھوں دیکھے حالات بیان کرتا ہے کہ جب یہوداہ اسکریوتی یہودیوں کے سردار کاہن سے رشوت لے کر حضرت عیسیٰؑ کو گرفتار کرانے کے لیے سپاہیوں کو لے کر آیا، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار فرشتے آنجنابؑ کو اٹھا لے گئے… اور یہوداہ اسکریوتی کی شکل اور آواز بالکل وہی کردی گئی جو حضرت عیسیٰؑ کی تھی۔ صلیب پر وہی چڑھایا گیا تھا، نہ کہ حضرت عیسیٰؑ۔ اس طرح یہ انجیل پولوسی مسیحیت کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور قرآن کے بیان کی پوری توثیق کرتی ہے۔ حالانکہ نزولِ قرآن سے بہت پہلے اس کے ان بیانات ہی کی بنا پر مسیحی پادری اسے رد کرچکے تھے۔ (جاری ہے)
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین

حصہ