اسلام مغرب کشمکش خطرناک پہلو

358

آسیہ عمران
دنیا میں دو تہذیبوں میں ٹکرائو یا کشمکش یا تخالف کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن دور جدید میں یہ ٹکرائو اور کشمکش بتدریج خوفناک جنگ کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ اس ٹکرائو میں اسلام اور مغرب مدمقابل ہیں۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ اسلام اور مغرب میں مشترک قدریں کم ہیں۔ تضاد و تخالف کا عنصر زیادہ ہے۔
دراصل مغرب بنیادی طور پر مادیت پرستی اور قوت پرستی کا دلدادہ ہے۔ جو مذہب سے مکمل ناتا توڑ چکا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کی معراج مادی وسائل کا کسی بھی ذریعے سے حصول ہے۔ وہ کمزور کے لیے غلامی اور ہلاکت کو فطری گردانتا ہے۔ اور بقا کا حق صرف اور صرف طاقتور کو تفویض کرتا ہے۔ اسی لیے وہ طویل مدت تک اپنے غلبہ کو برقرار رکھنے کو زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھتا ہے۔ ترقی کے حصول میں قدیم قدروں کی پامالی اس کے نزدیک ازبس ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بے لگام جنسی آزادی کو زندگی کا تقاضا سمجھتا ہے۔
جبکہ اسلامی تہذیب کا وژن مغربی فکری ڈھانچے سے قطعاً مختلف واقع ہوا ہے۔ اس کا بنیادی سرچشمہ قرآن و سنت ہے، اس کی بنیادی اقدار اور ایمان باللہ و ایمان بالاخرۃ ہے۔ رنگ و نسل کی نفی کرتے ہوئے بھائی چارے، ہم آہنگی اور عدل پر زور دیتا ہے۔ یہ کمزور کے حقوق کی پاسداری ہی نہیں کرتا بلکہ ایک انسانی جان کے زیاں کو پوری انسانیت کا زیاں تصور کرتا ہے۔ حیا کے کلچر کی ترویج اس کی بنیاد ہے۔ بنیادی انسانی قدروں کا احترام اس کی جڑوں میں موجود ہے۔ یہ نہ کسی کو اپنے مذہب کی دستبرداری پر مجبور کرتا اور نہ مخالفین کا بے دریغ قتل رواں رکھتا ہے۔ یہ دفاع بھی قواعد و ضوابط میں کرنے کا روادار ہے۔ یہ تصادم کے بجائے کھلی دعوت کا قائل ہے، یہ کمزوروں کی مدد اور اپنے دفاع کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے دونوں صورتوں میں جہاد کو فرض کرتا ہے۔
مغرب نے اپنے فکری ڈھانچے کی بنیاد پر گزشتہ دو صدیوں سے دنیا کو میدان جنگ بنا رکھا ہے۔ عالمی جنگوں میں دنیا کی چیر پھاڑ کے بعد سپریم پاور کے حصول کے لیے نصف صدی سرد جنگ کے عذاب میں دنیا کو ڈالے رکھتا ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بلا روک ٹوک دنیا پر حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے انسانیت کے خون کی ندیاں ہی نہیں بہاتا، انہیں سانس تک لینے کا حق نہیں دیتا۔ سائنسی اور مادی ترقی کے سیلاب میں انسانیت اور انسانی اقدار بھی بہہ جاتی ہیں۔
وہی مغرب اس وقت دنیا میں اسلامی احیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کو اپنے لیے خطرہ تصور کررہا ہے۔ اور اس کو مختلف عالمی فورمز پر اسلوب بدل بدل کر پیش کررہا ہے۔ اور اس رجحان کو روکنے کے لیے کئی منصوبے قابل غور ہیں اور دنیا کے مختلف مقامات پر پنجے مزید مضبوط کرنے کی تیاریاں ہیں۔ ان میں مغرب عسکریت کے علمبردار سیموئیل پی ہن ٹنگٹن کی کتاب ’’The Clash of aviligatians‘‘ کو بطور مثال لیا جاسکتا ہے۔ وہ اسلام مغرب تصادم کو ناگزیر قرار دے رہے ہیں اور کہتے ہیں ’’اسلام کا عالمی تحرک طاقت کے موجودہ توازن کو درہم برہم کرسکتا ہے‘‘۔ اس کی سوچ مغرب کے ’’فلسفہ طاقت‘‘ اور ’’اندھے غلبے‘‘ کی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے ’’دیگر معاشرے ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں مگر اسلامی معاشرے نہ صرف مزاحمت کرتے بلکہ اقتصادی و فوجی طاقت بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ زور دے کر کہتا ہے ’’اسلام ہی وہ واحد تہذیب ہے جس نے مغرب کی بقا یا سلامتی کو غیر یقینی بنا کر رکھا ہوا ہے‘‘۔ 1994ء میں 35 ہزار امریکیوں سے پوچھا گیا کہ ’’امریکا کو اسلام سے خطرہ ہے‘‘ 61 فیصد کا جواب ہاں میں تھا۔ مغربی مفکرین اسلامی تہذیب کو روکنے کے لیے طاقت کے حربے اور استحصال کی راہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مغرب اس کے عملی نمونے افغانستان، عراق میں دکھا جس کا شام پر وار جاری ہے اور پس پردہ پوری مسلم دنیا کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ جمہوریت، بنیادی حقوق کی علمبرداری کے نعرے بھی ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مغرب کو باور کروایا جائے کہ اسلام کی حقیقی تصویر کیا ہے اور اس تصویر کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کے تمام تک ممکن ذرائع وسائل استعمال کیے جانے چاہئیں۔ مغرب کی تصادم کی طرف بڑھتی روشنی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ بتایا جائے کہ اسلام تصادم کے بجائے کھلی دعوت کا قائل ہے اور اسلام کا احیا مغرب سے سراسر مختلف انسانیت کے تحفظ کا ضامن ہے اور یہ کہ اسلام اور مغرب مخالف پہلوئوں پر جنگ کے بجائے مکالمے اور مفاہمت کی راہ اسلامی کی اقدار میں سے ہے۔
اسلام ہی وہ واحد تہذیب ہے جو دیگر تہذیبوں کے تمام مثبت پہلوئوں کو ضم کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی ہے۔ بصورت دیگر تصادم کی صورت میں اسلام دفاع کے تمام انداز سکھاتا ہے اور مغڑب کے ابتدا کی صورت میں اس کی انتہا لازم ہے۔

حصہ