کیا عمران خان اپنے وعدے پورے کرسکیں گے؟۔

387

محمد انور
الحمدللہ ملک میں عام انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا۔اس طرح ملک میں مسلسل جاری جمہوریت کا تیسرا دور اب شروع ہونے کو ہے ۔صدر مملکت ممنون حسین کسی بھی وقت قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرسکتے ہیں تاکہ منتخب اراکین حلف اٹھاسکیں ۔اگر چہ یہ انتخابات کراچی سمیت ملک بھر میں مجموعی طور پر امن ماحول میں شفاف، منصفانہ، آزادانہ ہوئے ہیں ۔ جبکہ کراچی کے لوگوں نے دیکھا کہ یہاں 26 سال بعد ریکارڈ شفاف منصفانہ، آزادانہ انتخابات ہوئے الیکشن میں امن و امان کی اطمینان بخش صورتحال کی وجہ سے ووٹرز کی دلچسپی بھی مثالی تھی۔ اس بار ووٹنگ کا تناسب بھی یہاں گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ رہا۔ لیکن انتخابات کے نتائج میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے پورا انتخابی عمل مشکوک ہوگیا اور اس پر سوال اٹھنے لگے ۔اسی وجہ سے مسلم لیگ نواز ، پاکستان پیپلز پارٹی ، متحدہ مجلس عمل ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، پاک سر زمین پارٹی مہاجر قومی موومنٹ اورعوامی نیشنل پارٹی نے نتائج کو مسترد کردیا۔اب یہ پارٹیاں جلد ہی احتجاج کا پروگرام بنارہی ہیں۔انتخابات کے نتائج پر متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہم صرف ایک حلقہ کھولنے کی نہیں الیکشن کالعدم کرانے کی بات کریں گے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور دیگر مجلس عمل کے رہنماؤں کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فارم 45 روک دیے گئے اور انہیں فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔انہوں نے کہا کہ مغرب کے بعد سے نتائج روک دیے گئے تھے۔ایم ایم اے کے صدر کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ پریزائڈنگ افسر، آر اوز اور ڈی آر اوز مکمل بے اختیار تھے، الیکشن تو ضرور ہوا ہے لیکن یہ عوامی مینڈیٹ نہیں ہے،عوامی مینڈیٹ پر بدترین ڈاکا ڈالا گیا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میٹھی میٹھی باتیں نہ کی جائیں، ہم نے ایسی بہت سی تقاریر سنی ہیں، ایم ایم اے الیکشن نتائج سرے سے ہی تسلیم نہیں کرتی، میں 25،25 ہزار کی لیڈ سے الیکشن جیتتا رہا ہوں۔
انتخابات پر صرف سیاسی رہنمائوں کو ہی اعتراض نہیں ہے بلکہ قانونی و آئینی ماہرین نے بھی انتخابات کے بارے میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یہ انتخابات الیکشن ایکٹ اور عدالت عظمیٰ کے حکم کے خلاف ہوئے ہیں جبکہ تاخیر سے نتائج نے پورے انتخابی عمل پر سوال اٹھایا دیے ہیں۔
آئینی و قانونی ماہرحشمت حبیب ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’یہ الیکشن آئین،الیکشن ایکٹ اورعدالت عظمیٰ کے حکم کے خلاف ہوا ہے’’۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ’’ الیکشن کے جو نتائج آئے ہیں یہ طے شدہ تھے یہ انتخابات بھی فری، فیئر اور ٹرانسپیرنٹ نہیں تھے‘‘۔ الیکشن کمیشن نے جج کو آر اوز بھی عدالت عظمیٰ کے حکم کے خلاف بنایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں آرمی کی پولنگ اسٹیشنز کے اندر ڈپلائمنٹ بھی آئین کی خلاف تھی،آئین میں آرمی کو پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لگایا جاسکتا ہے مگر اندر نہیں،ایسا کیے جانے سے شبہ تھا کہ الیکشنز انجینئرز کیے جائیں گے جو اب ایسا ہورہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انتخابات کا فارم 45 اور 48 کی کاپی پولنگ ایجنٹوں کو دی جاتی ہے مگر پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکالنے کی اطلاعات ہیں۔ حشمت حبیب نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ کی کوشش رہی ہے کہ عمران خان کو کلیئر کیا جائے۔انہوں نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ میں انتخابات کے نتائج الیکشن کمیشن کوزیادہ سے زیادہ رات2 بجے تک جاری کرنا لازمی تھا مگر پہلا نتیجہ رات 4بجے جاری کیا گیا۔ ممتاز سماجی کارکن اورماہر قانون ضیااعوان ایڈووکیٹ نے انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ پولنگ کا عمل مثالی تھا مگر نتائج کے حوالے سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ انجینئرڈ ہیں، میں کہتا ہوں کہ یہ نتائج انجینئرڈ سے زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ مختلف پارٹیاں جو کچھ کہہ رہیں ہیں کہ پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا اس بارے میں الیکشن کمیشن کو ایکشن لینا چاہیے اس عمل کا دفاع نہیں کرنا چاہیے اور نہ یہ الزامات مسترد کرینا چاہیے۔ضیااعوان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ان الزامات کی تحقیقات کرانے کا یقین دلانا چاہیے۔ ممتاز وکیل فاروق حیات ایڈووکیٹ نے کہا کہ انتخابات کے نتائج تاخیر سے آنے پر سوالات اٹھ چکے ہیں جو فنی خرابیاں ہوئیں اس کی ذمے داری بھی الیکشن کمیشن پرہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں اسٹبلشمنٹ کا کردار سب کے سامنے ہے،وہ عام لوگوں کی خواہشات کو بھی مدنظر رکھتی ہے۔ اسلامک لائیر فورم کے رہنما عامر ایڈووکیٹ کا مؤقف تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹوں کو نکالنے کا عمل الیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہے،اس عمل سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔

عوم کی اکژیت انتخابات اور اس کے نتائج سے مطمئین کیوں ؟

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عام افراد کی ایک بڑی تعداد انتخابات اور اس کے نتائج پر مطمئین نظر آتی ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ قوم تبدیل چاہتی تھی جو آچکی ۔لوگوں کو خوشی اس بات کی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی باریاں لگنے کا سلسلہ رکا اور ایک نئی پارٹی کو ملک کی حکمرانی کا موقع ملا ۔مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اور ان کی اتحادی پارٹیوں کی کرپشن سے بھی لوگ نالاں تھے ۔جبکہ گزشتہ کئی سال سے سندھ کے شہری علاقوں پر راج کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ بھی ان انتخابات میں اپنی’’ حقیقی اوقات ‘‘میں آگئی ۔ جس سے خصوصی طور پر کراچی کا سیاسی ماحول یکسر تبدیل ہوگیا۔انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی سے بڑی تعداد میں نشستیں جیت کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ اب کراچی اس کا شہر ہے ۔کراچی کا سیاسی ماحول تو کراچی آپریشن کے بعد سے ہی تبدیل ہونے لگ گیا تھا ۔مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ کراچی کی لیڈرشپ اب تحریک انصاف کے پاس چلی جائے گی ۔
پاکستان تحریک انصاف کیا اپنے وعدے پورے کرے گی ؟ کیا عافیہ صدیقی کوامریکی قید سے نجات دلانے کی کوشش کرے گی ؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ایک سو دس سیٹیں حاصل کرکے ملک کی بڑی پارٹی بن چکی ہے ۔اس طرح اس کے چیئرمین عمران خان کو وزیراعظم بننے کا پورا حق حاصل ہے ۔ لیکن قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ عمران خان وزیراعظم بن کر اور تحریک انصاف اقتدار میں آکر کیا واقعی وہ سب تبدیلیاں لے آئے گی جس کے نعرے وہ لگاتی رہی ۔قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ عمران خان اپنے اقتدار کے پہلے سو دن میں کیا کچھ کرتے ہیں۔ کیا وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو بہتر بناسکیں گے ؟کیا وہ اپنے اعلانات اور دعووں کے مطابق پانی و بجلی کی کمی ختم کرنے کے لیے نئے ڈیم کے قیام کے لیے جنگی بنیادوں پر کام شروع کرسکیں گے ؟ کیا وہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کراسکیں گے ؟ قوم کو عمران خان سے یہ بھی توقع ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جلد امریکی جیل سے رہائی کے لیے جنگی اقدامات کریں گے اور پاکستان کی بیٹی کو اذیت ناک قید سے نجات دلائیں گے۔
انتخابات کے نتائج پر سیاسی جماعتوں کا اعتراض کیا عمران خان کی حکومت زیادہ عرصے چلے گی ؟
انتخابات کے نتائج کو سیاسی جماعتوں کی تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کے لیے مشکلات بھی شروع ہوچکی ہیں ۔ یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ اگر عمران خان کسی طرح اپنی حکومت قائم کرچکے تو کیا یہ حکومت گزشتہ دو حکومتوں کی طرح اپنا پانچ سالہ دور پورا کرسکے گی ؟ عام خیال ہے کہ الیکشن کمیشن کو معترض جماعتوں کو انتخابی نتائج کے بارے میں اطمینان دلانا پڑے گا ۔جبکہ تحریک انصاف کو سیاسی حکمت عملی کے ذریعے تمام پارٹیوں کے ساتھ مثالی تعلقات استوار کرنا ہونگے ۔جبکہ انتخابات میں شکست کھاجانے والے مگر بڑے سیاست دانوں سے ترجیحی بنیادوں پر ملاقاتیں کرنی چاہیے ۔عمران خان کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ تمام پرانے سیاستدانوں سے کم تجربہ کار ہیں ۔ اس لیے انہیں ہمیشہ ان کی مشاورت کی ضرورت پڑسکتی ہے ۔

انتخابی نتائج کا جائزہ بمطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے جاری کیے گئے غیر حتمی 95 فیصد نتائج کے مطابق قومی پاکستان تحریک انصاف کو کل 114 نشستوں کے ساتھ برتری حاصل ہے۔
الیکشن کمیشن کے غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں 114، پنجاب میں 123، سندھ میں 22، خیبرپختونخوا میں 67 اور بلوچستان میں 4 نشستیں حاصل کیں۔دوسری جانب پی ٹی آئی کی حریف اور سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) مرکز میں دوسرے نمبر پر رہی اور قومی اسمبلی میں 63، پنجاب میں 127، خیبرپختونخوا میں 5 اور بلوچستان میں صرف ایک نشست حاصل کرسکی جبکہ سندھ میں مسلم لیگ (ن) ایک نشست بھی حاصل نہیں کرسکی۔الیکشن کمیشن کے جاری نتائج کے مطابق گزشتہ انتخابات میں دوسرے نمبر پر رہنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) حالیہ انتخابات میں تیسرے نمبر پر رہی اور اس نے قومی اسمبلی کی 43، پنجاب میں 6، سندھ میں 74 اور خیبرپختونخوا میں 4 نشستیں حاصل کیں جبکہ بلوچستان سے پی پی پی ایک نشست بھی حاصل نہیں کرسکی۔
واضح رہے کہ اس تحریر کے لکھے جانے تک الیکشن کمیشن کی جانب سے اس وقت تک جاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی 11، سندھ کی 6، خیبرپختونخوا کی 2 اور بلوچستان کی 5 نشستوں کے نتائج ابھی اعلان نہیں کیا گیا ہے دوسری جانب صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا ذکر کیا جائے تو پنجاب کی 295 نشستوں کے غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو 127 نشستوں کے ساتھ برتری حاصل ہے، جبکہ پاکستان تحریک انصاف 123 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
سندھ سے موصول ہونے والے 129 نشستوں کے غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی 74 نشستوں پر کامیابی حاصل کر چکی ہے تحریک انصاف 22 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ خیبر پختونخوا کی 97 نشستوں کے نتائج میں بھی تحریک انصاف کو واضح برتری حاصل ہے اور اب تک 67 نشستیں وہ اپنے نام کر چکی ہے جبکہ متحدہ مجلس عمل 10 نشستیں حاصل کرچکی ہے۔بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی 50 نشستوں کے نتائج میں بلوچستان عوامی پارٹی 13 نشستوں کے ساتھ پہلے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی 5 نشستوں اور ایم ایم اے نے 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی ہی حکومت بنائے گی ؟

انتخابی نتائج سے اس بات کا امکان ہے کہ پیپلز پارٹی تیسری بار بھی مسلسل اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ ایسی صورت میں اس حکومت کو ماضی کے مقابلے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بنی تو اسے طاقتور اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہاں اپوزیشن میں وفاق کی تحریک انصاف پاکستان کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو ممکنہ طور پر وفاقی حکومت کی اتحادی پارٹی ہوسکتی ہے۔ایسی صورت میں ایم کیو ایم کا صوبائی حکومت میں شامل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

عمران خان دنیا کے پہلے عالمی کرکٹر جو وزیراعظم بنے

عمران خان اس لحاظ سے انفرادیت رکھتے ہیں کہ یہ دنیا کے پہلے کرکٹر ہیں جو اپنے ملک پاکستان کے وزیر اعظم بھی بن رہے ہیں۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ بحیثیت وزیر اعظم ملک اور قوم کے لیے کیسے ثابت ہوتے ہیں۔ یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان اس لحاظ سے بھی واحد سیاستدان ہیں جو ملک کی خواتین میں مردوں سے زیادہ مقبول ہیں ۔ خیال ہے کہ ان کی کامیابی کی ایک وجہ خواتین کی طرف سے انہیں زیادہ ووٹ ملنا ہے۔

کراچی کے ووٹرز کی بڑے سیاسی رہنمائوں سے معذرت:

عام انتخابات میں کراچی کی نشستوں سے جہاں مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کو شکست ہوئی وہیں پر کراچی سے تعلق رکھنے والی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار ، مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق احمد ، پاک سر زمین پارٹی کے مصطفی کمال ،سنی تحریک کے ثروت اعجاز قادری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا البتہ یہاں سے پی ٹی آئی کے چیئرمین حلقہ 243 سے عمران خان کامیاب ہوگئے ۔

حصہ