حکمرانوں کی بھوک

877

اوریا مقبول جان
’’سلطان کی بھوک تو ملک و ملت کو کھا جاتی ہے۔‘‘ مثنوی اسرار خودی کے فارسی شعر کے دوسرے مصرعے کا یہ ترجمہ انسانی عروج و زوال کی کہانی کا مرکزی نکتہ خیال ہے۔ پورا شعر یوں ہے

آتش جان گدا جوع گدا است
جوع سطاں ملک و ملت را فنا ست

ایک فقیر کی بھوک کی آگ صرف اس کی جان کھا لیتی ہے لیکن حکمران کی بھوک پوری ملک و ملت کو کھا جاتی ہے۔ اس شعر کی تفسیر بھی اگر دنیا بھر میں کہیں نظر آتی ہے تو اس ملک میں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ یوں تواقبال کی پوری مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ اس حدیث کی تشریح ہے کہ ’’من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ‘‘ (جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا لیکن اس میں اقبال نے اپنے فلسفہ خودی کو بیان کیا ہے اور صرف افراد کی خودی و خودداری نہیں بلکہ قوموں کی خودی کی بات کی ہے۔
ان کے نزدیک خودی اور خودداری کی نفی دراصل مغلوب اور مفتوح قوموں کی ایجاد ہے۔ ان کے نزدیک ایسی قومیں بکریوں کا وہ ریوڑ ہوتی ہیں جو بار بار کے حملوں سے تنگ آ کر اس بات کا پرچار کرنے لگ جاتی ہیں کہ گوشت کھانا حرام ہے۔ کبھی کوئی غالب قوم امن کی پرچارک نہیں ہوتی بلکہ وہ طاقت کے حصول کے لیے مزید لڑتی ہے، جہانگیری اور علاقوں کو ماتحت کرنے کے لیے جنگ کرتی ہے اور اپنی مفتوح قوموں کو یہ احساس دلاتی ہے کہ تم ایک غلام نسل سے تعلق رکھتے ہو جس کا مقدر ہی یہی تھا۔ گزشتہ ایک سو سال سے برپا جنگیں جوپہلی جنگ عظیم سے شروع ہوئیں اور شام کے شہروں پر بمباری کی صورت میں آج بھی جاری ہیں سب کی سب غلبے، اقتدار، جہانگیری اور معاشی بالادستی کے لیے کی گئیں لیکن تاریخ کی کتابوں، نصاب میں درج قصوں اور سیاسی دانش کے خزانوں میں آپ کو ان کا ایک ہی مقصد ملے گا، ’’ہم دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔‘‘ ہٹلر ایک فاشسٹ ہے جو دنیا کی اکثریت کو قتل کرکے جرمن قوم کی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے، سوویت یونین کے کمیونسٹ پوری دنیا پرایک ایسے فلسفے کی حکمرانی کے لیے جنگ کر رہے ہیں جس کے ماتحت تمہارا گھر، کاروبار، زمین، باغات یہاں تک کہ تمہاری بیویاں تک تمہاری ذاتی نہیں رہیں گی بلکہ اجتماعی ملکیت ہو جائیں گے۔
القاعدہ اور ملا عمر کا طرز حکومت اگر عام ہو گیا تو یہ تم سے تمہارا طرز زندگی چھین لیں گے۔ عورتیں غلام بنا لی جائیں گی اور ان کی نمود و نمائش سب ختم ہو جائے گی، یہ رنگا رنگ بازار، مارکیٹیں، ساحل سمندر کی تفریحات، فلم و فیشن، یہاں تک کہ تفریح بھی تم سے چھین لی جائے گی۔ اس لیے اس سے پہلے کہ یہ خوفناک عفریت دنیا پر پابو پائے، طاقتور ہو جائے، اسے جنگ کے ذریعے کچل کر دنیا میں امن قائم کردیا جائے۔ ان سو سالوں کی مسلسل جنگوں سے پوری دنیا دو واضح حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے، غالب و مغلوب اور فاتح و مفتوح۔
فاتح اقوام وہ بھیڑیئے ہیں اور مفتوح قومیں جو بکریوں کا ریوڑ ہیں ان پر وہ یہ کہہ کر چڑھ دوڑتے ہیں کہ ان کے سینگوں سے ہمیں نہیں بلکہ اقوام عالم کو خطرہ ہے جبکہ مفتوح اقوام میں زہر کی طرح احساس کمتری کو درجہ بدرجہ داخل کیا جاتا ہے۔ یہ بہت میٹھا زہر ہے جوان اقوام کو ذہنی طور پر فالج اور غلام بنا دیتا ہے لیکن وہ اپنی غلامی اور ذہنی طور پر فاتج زدگی کو خوبصورت نام دیتے ہیں کہ ہم تو امن کا پرچم بلند کرنے والے ہیں۔گزشتہ پچاس سالوں سے ایسے تمام مفتوح ممالک میں عالمی کانفرنسوں، سیمیناروں، دو طرفہ معاہدوں، نصاب تعلیم اور طاقتور میڈیا کے ذریعے ایک بات پھیلائی جاتی ہے کہ ہم نے اس دنیا کو پرامن بنانا ہے، ہمیں شدت پسندی کے خلاف جنگ کرنا ہے۔
ہمیں اپنے اندر موجود امن کے دشمن دہشت گردوں کا صفایا کرنا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کی مفتوح اقوام جن میں اکثریت بلکہ تمام کی تمام مسلمان ہیں اور ان اقوام میں نفی خودی کا یہ درس عام کیا گیا ہے جبکہ اسی عرصے میں روس، افغانستان پر چڑھ دوڑتا ہے، امریکہ اس کے مقابلے کے لیے اسے میدان جنگ بناتا ہے، ویت نام ہے، نکاراگوا ہے، انگولا، چلی، کولمبیا، برازیل، ملاعمر کا افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور شام، سب جگہ آباد بکریوں کے ریوڑ نما عوام کا خون کیا جاتا ہے۔
لیکن یہ نفی ٔ خودی اتنی آسانی سے پیدا نہیں ہوتی، اس کے لیے سب سے پہلے اس قوم کو معاشی طور پر کنگال اور بدحال کرنا پڑتا ہے، فاقہ زدہ قومیں اپنی روزمرہ کی زندگی کا تارپود اکٹھا کرنے میں مصروف ہو جاتی ہیں، ان کے نزدیک غیرت، حمیت، عزت، حرمت اور خودی جیسے لفظ بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ معاشی غلامی قوموں کے زوال کا آغاز بھی ہے اور انجام بھی۔ دنیا کی جدید تاریخ میں کوئی قوم اس وقت تک معاشی غلامی کا شکار نہیں ہوتی جب تک اس کا حکمران، بددیانت، چور اور کرپٹ نہ ہو۔ دنیا کا نقشہ اپنی میز پر پھیلائیے اور ترقی یافتہ اور مفلوک الحال پسماندہ قوموں پر نشان لگاتے جائیے۔ آپ کو خوشحالی اور بدحالی کے درمیان صرف اور صرف بددیانت چور اور کرپٹ حکمران کا فرق نظر آئے گا۔
وہ خطے جہاں آمریت ہے جیسے تمام عرب ممالک وہاں خوشحالی اور امن و امان نظر آئے گا لیکن افریقہ، لاطینی امریکہ اور مشرق بعید کے ممالک جہاں جمہوریت ہے لیکن چور اور بددیانت حکمران ہیں وہاں غربت و افلاس اور بھوک، بیماری اور بیروزگاری نظر آئے گی۔ کسی ملک کی ترقی و خوشحالی اور غیرت و حمیت کا تعلق اگر جمہوریت سے ہوتا تو چین کبھی اتنی ترقی نہ کرتا اور سنگاپور خوشحالی کی علامت نہ ہوتا۔ حکمران اگر بددیانت ہوتے تو قطر، عرب امارات، کویت، بحرین اور لیبیا جیسے ممالک خوشحال نہ ہوتے۔ سعودی عرب اور نائیجیریا دو ایسے ممالک ہیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں بلکہ نائیجیریا کے تیل کے ذخائر سعودی عرب سے ڈیڑھ گنا ہیں۔ ایک جانب سنی آباچا جیسے بددیانت ڈکٹیٹروں کی حکمرانی تھی اور دوسری جانب شاہ فیصل کے طویل اقتدار نے سعودی عرب کو دنیا کے نقشے پر ایسا ملک بنایا جس نے 1974 میں تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور پورے یورپ میں راشن بندی کروا دی۔ نائیجیریا کی غربت او رسعودی عرب کی خوشحالی۔
میرے ملک کی تقدیر بھی حکمرانوں کی بھوک سے عبارت ہے، وہ بھوک جو اس ملک کو بقول اقبال تباہ و برباد کر چکی ہے۔ آخری دس سالوں میں برسراقتدار آنے والے زرداری اور نوازشریف کی بھوک اس قدر تھی کہ یہ ملک مختصر مدت میں 40.3 ارب ڈالر کا مقروض ہوا اور ان دس سالوں میں زرداری نے 20.6 ارب ڈالر اور نوازشریف نے 34.1 ارب ڈالر کا مقروض کیا۔ اس لوٹ مار کے باوجود بھی اگر اس قوم کو ہوش آ جاتی تو ماتم نہ ہوتا۔ پاکستان جدید و قدیم تاریخ کا وہ واحد ملک ہے جس میں بظاہر بددیانت، چور اور کرپشن میں ملوث حکمران ڈھٹائی کے ساتھ کہتے پھرتے ہیں کہ ہم نظریاتی سیاست کرتے ہیں، ہم انقلاب لانے والے ہیں، ہم تقدیر بدل دیں گے، بدقسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جن کے سامنے یہ دعویٰ کیا جائے کہ ایون فیلڈ کے فلیٹوں، عزیزیہ سٹیل مل، سوئٹزرلینڈ کے اکائونٹس، سرے محل اور شوگر ملوں کے لوٹ مار کے پہاڑوں کی چوٹیوں سے امام خمینی، ماوزئے تنگ، لینن اور نپولین پیدا ہوں گے۔ گدھے شیر کی کھال پہن لیں تو شیر نہیں بن سکتے اور جن قوموں پر ایسے رہنما مسلط رہیں، ان پر ہر کوئی سواری کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔

حصہ