برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

372

قسط نمبر 147
پانچواں حصہ
ایوب خان نے انتہائی عجلت میں غیر آئینی طریقے سے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کیا۔ اس طرح انھوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے 1962ء کے آئین کی خلاف ورزی کی، جس کے مطابق اقتدار مرکزی اسمبلی کے اسپیکر کو منتقل کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن جس طرح کے حالات کا ایوب خان کو سامنا تھا وہ اس کے سوا کوئی اور قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ درپردہ معاملہ یہ تھا کہ ایوب خان نے دورانِ بیماری ہی یحییٰ خان اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ اپنی جان کے بدلے میں ڈیل کرلی تھی۔
یحییٰ خان کے مارشل لا کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان میں آزادی کے نعرے پوری شدت کے ساتھ گونجنے لگے۔ پاک فوج نے اُن علاقوں میں تو اپنا کنٹرول قائم رکھا جہاں جہاں ان کی چھاؤنیاں تھیں، مگر گاؤں دیہات میں فسادات اور مغربی پاکستان سے نفرت، خاص کر پنجابیوں سے نفرت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ پنجابی کا مطلب ہی پاک فوج بن چکا تھا۔ حالات کو خراب کرنے میں مولانا بھاشانی، شیخ مجیب الرحمن، پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو اور نیشنل عوامی پارٹی کے عبدالولی خان کا بڑا کردار ہے۔ یہ رہنماء انتہائی حد پر جاکر بیانات دے رہے تھے جس کے نتیجے میں خلیج بڑھتی جارہی تھی۔
جنرل یحییٰ خان نے اپنے پیشرو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 1962ء کے آئین کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اصولِ مساوات (PURITY) کے قانون کو ختم کرنے کا بھی اعلان کردیا۔ ون یونٹ توڑنے کا اعلان کرتے ہوئے چار صوبے بنانے کا اعلان کیا گیا۔ یہ سب اقدامات اس قدر جلدی میں کیے جاتے رہے کہ ان پر قوم کو اعتماد میں لینے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ یہ تمام فیصلے مرکز سے ہورہے تھے جہاں پاکستان کی فوج ان فیصلوں کی پشت پر تھی۔ اسی وجہ سے معتدل قوتیں بھی خاصی پریشان تھیں کہ کس طریقے سے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان اعتماد کی فضا کو قائم کیا جائے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے دیگر سیاسی قائدین کو ساتھ ملاکر 1956ء کے آئین کی بحالی اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کا مطالبہ کیا، کیونکہ اس خلفشار اور انارکی کا راستہ روکنے کے لیے اس کے سوا کوئی حل نہیں تھا۔
جنرل یحییٰ خان نے ان تمام تجاویز کو یکسر مسترد کردیا اور متبادل آئین بنانے کا عندیہ دیا۔ جس پر مولانا مودودی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر پاکستانی حکومت جمہوریت کی جانب سفر کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے 8 اکتوبر 1958ء کی پوزیشن پر واپس جانا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر جمہوری دستور کو منسوخ کردے۔ فی الحقیقت یہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ والا اصول ہے، جو قانون کے تصور کے ہی منافی ہے۔‘‘
لیکن یحییٰ خان نے اپنے ساتھیوں کے مشورے پر نئے آئین کے تحت انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ یکم جنوری 1970ء کو سیاسی سرگرمیاں بحال کی گئیں۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے 5 اکتوبر 1970ء کی تاریخ دی گئی۔ لیکن مشرقی پاکستان اُن دنوں شدید بارشوں کے سبب سیلابی کیفیت میں تھا، اس وجہ سے 17 دسمبر کا دن مقرر ہوا۔ یحییٰ خان کی زندگی کے اوراق کھنگالے جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ بلاشبہ یحییٰ خان ایک اہل اور پروفیشنل سپاہی اور فوجی افسر تھے لیکن سیاست اور حکمرانی اُن کے بس کی بات نہیں تھی۔ یحییٰ خان کی زندگی اس تضاد کا افسوس ناک نمونہ ہے۔ ریکارڈ کے مطابق محمد آغا یحییٰ خان1919ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1938ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ کئی محاذوں پر خدمات سرانجام دینے کے بعد دوسری جنگ عظیم میں بھی حصہ لیا۔ قیام پاکستان سے دو سال قبل انہیں اسٹاف کالج کوئٹہ میں کورس کے لیے منتخب کیا گیا جو ان کے اہل اور بہت اچھے پروفیشنل سولجر ہونے کا ثبوت تھا، کیونکہ اسٹاف کالج کورس کے لیے عام طور پر انہی افسران کو چنا جاتا تھا جنہیں ترقی کے قابل سمجھا جاتا تھا۔ پھر وہ اسی اسٹاف کالج میں انسٹرکٹر لگادیے گئے، اور یوں ان کے فوجی جوہر پر مہر تصدیق لگ گئی۔ قیام پاکستان کے وقت وہ اسٹاف کالج میں واحد مسلمان انسٹرکٹر تھے۔ انہیں جنرل ایوب خان کا خاص معتمد سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی سرپرستی میں ترقی کے زینے چڑھتے رہے اور جلد ہی جنرل بن گئے۔ بلکہ شاہد جاوید برکی تو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنرل یحییٰ خان نے 1958ء میں مارشل لا لگانے اور اقتدار سنبھالنے میں جنرل ایوب خان کی بہت مدد کی۔ شاید اسی نے اُن کے دل میں سیاسی جراثیم کو جنم دیا اور حکمرانی کی خواہش پیدا کی۔ عام طور پر کسی کو حکمران بنانے والے اکثر تنہائی کے لمحات میں سوچتے ہیں کہ اگر وہ کسی کو اقتدار کی کرسی پر بٹھا سکتے ہیں تو خود کیوں نہیں بیٹھ سکتے!
1959ء میں صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے ملک کا دارالحکومت بدلنا چاہا تو اس مقصد کے لیے یحییٰ خان کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا۔ اسلام آباد کا چنائو اور اسے دارالحکومت بنانے کی بنیاد رکھنا یحییٰ خان کا ہی کام تھا۔ اسی نسبت سے یحییٰ خان سی ڈی اے (کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے پہلے چیئرمین بنے۔ یحییٰ خان نے 1965ء کی جنگ میں بھی خدمات سرانجام دیں اور انہیں عین جنگ کے دوران میجر جنرل اختر حسین ملک کی جگہ چھمب جوڑیاں سیکٹر کی کمان سونپی گئی۔ یحییٰ خان کی کارکردگی اور تقرری، اور اس تبدیلی کے پس پردہ کیا محرکات تھے؟ ان پر شجاع نواز اور شاہد جاوید برکی دونوں نے اپنی اپنی کتابوں میں خاصی روشنی ڈالی ہے۔ ’’ہلال جرات‘‘ پاکر یحییٰ خان1966ء میں موسیٰ خان کی جگہ پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف بن گئے اور جلد ہی اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے سوچنے لگے۔
ایوب حکومت کے دوران ہی لاقانونیت کے سائے تیزی سے پھیل رہے تھے،گھیرائو جلائو کے نعرے لگ رہے تھے اور مولانا بھاشانی جیسے لیڈران اپنے بیانات کے ذریعے لوگوں کو بھڑکا کر جلتی پر تیل ڈال رہے تھے۔ کانفرنس ناکام ہوگئی اور ملک تشدد کی لپیٹ میں آگیا۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس صورتِ حال کے پس پردہ کمانڈر انچیف جنرل محمد یحییٰ خان کا ہاتھ تھا جنہوں نے لاقانونیت پر قابو پانے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی تاکہ بیمار ایوب خان کو اقتدار سے نکال کر صدارت کی کرسی پر قبضہ کیا جاسکے۔ اس موضوع پر الطاف گوہر کے علاوہ میں نے بھی اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ یحییٰ خان کے مولانا بھاشانی جیسے بغاوت پھیلانے والے عناصر سے رابطے تھے۔
انہوں نے بھاشانی کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ بہرحال سازش کامیاب ہوئی، ایوب خان کے اعصاب جواب دے گئے اور انہوں نے یحییٰ خان کی مرضی کے مطابق اقتدار اُن کے حوالے کردیا، حالانکہ ایوب خان کے بنائے ہوئے دستور کے مطابق اقتدار اسپیکر قومی اسمبلی کو منتقل ہونا چاہیے تھا، لیکن یحییٰ خان نے ملکی صورت حال اس نہج پر پہنچادی کہ ایوب خان کے پاس دستور کو ختم(Abrogate) کرنے اور اقتدار فوج کے حوالے کرنے کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ رہا۔
یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر مغربی پاکستان کے چاروں صوبے بحال کردئیے۔ ون مین ون ووٹ کا اصول نافذ کرکے مشرقی پاکستان کو قومی اسمبلی میں 162 سیٹیں جبکہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو 138 نشستیں دے دیں۔
بھاشانی اور مجیب الرحمن کی پارٹیاں مشرقی پاکستان میں، اور بھٹو صاحب کی جماعت مغربی پاکستان میں جلاؤ گھیراؤ اور پُرتشدد کارروائیاں پروان چڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہی تھیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان ڈھاکا کے ناظم عبدالمالک اس پُرتشدد ہنگامے کا پہلا شکار بنے اور ڈھاکا یونیورسٹی میں مشتعل طلبہ جو پاکستان مخالف نعرے لگا رہے تھے، کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس شہادت پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے فرمایا کہ ’’اس موقع پر میں یہ بات بے لاگ طریقے سے بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ پاکستان میں اسلام اور اس کے نظام زندگی کو برپا کرنے اٹھے ہیں وہ اللہ کے سوا کسی پر بھروسا نہیں رکھتے۔ انہیں اس مقصد کے لیے جان و مال کی بازی لگانی ہے اور ہر اُس قوت سے لڑ جانا ہے جو یہاں اسلام کے سوا کوئی اور نظام لانا چاہتی ہے۔ عبدالمالک کی شہادت پہلی شہادت تو ہوسکتی ہے مگر یہ آخری شہادت نہیں ہے۔‘‘
یحییٰ خان کے مارشل لا میں جلاؤ گھیراؤ اور ہنگاموں کے لیے کھلا میدان موجود تھا۔ پاکستان کو توڑنے والی قوتیں آزادی کے ساتھ پورے ملک کا امن و امان برباد کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔ جن حالات میں عام انتخابات ہونے جارہے تھے وہ کسی بھی طرح سازگار نہیں تھے۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان ہماری تاریخ کے سب سے متنازع کردار اور ناپسندیدہ حکمران ہیں جن کے عہدِ حکومت میں پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر نصف رہ گیا۔ مولانا مودودی کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوچکا تھا کہ پاکستان کے حالات کس ڈگر پر جارہے ہیں۔ چنانچہ اس موقع پر آپ نے کہا:
’’اس وقت دو بڑے چیلنج ہمارے سامنے آگئے ہیں، پہلا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام قائم ہو یا کوئی اور نظام؟ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان ایک ملک رہے گا بھی کہ نہیں؟‘‘
جماعت اسلامی نے ان دونوں چیلنجوں کو قبول کرتے ہوئے مشرقی و مغربی پاکستان سے اپنے نمائندے کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا، اس لیے کہ متحدہ پاکستان کی علامت کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں حصوں سے نمائندگی بہت ضروری تھی۔
(جاری ہے )

حصہ