پردے کی پیچھے کی عورت

264

شکیلہ رفیق
آج کل صبح و شام، دن اور رات وہ اسے بتا رہا تھا، سمجھا رہا تھا ’’دیکھو عرصے بعد ملک میں الیکشن ہورہے ہیں، ہمارے ہاں جمہوریت آرہی ہے، اور میں اس موقع پر کتنا خوش ہوں تم اندازہ نہیں لگا سکتیں‘‘۔ پھر رک کر پوچھا ’’تم بھی خوش ہو ناں؟ لیکن…‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک جاتا۔
وہ اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتی تو وہ دھیمے لہجے میں کہتا ’’میں خوش ہونے کے ساتھ خوفزدہ بھی ہوں۔ اس لیے کہ… اگر ہم نے یعنی میں نے اور تم نے اُس پارٹی کو ووٹ نہ دیا جس کا انتخابی نشان ہوائی جہاز ہے تو یقین جانو ہمارے لیے بہت برا ہوگا… وہ میرا دوست ہے اور اس کی فتح کے ساتھ ہی میری فتح کی راہیں بھی روشن ہوجائیں گی جو اس کے مخالف نے تاریک کردی تھیں، لہٰذا ہم دونوں کا فرض ہے کہ نہ صرف خود اسے ووٹ دیں بلکہ اپنے تمام متعلقین پر بھی زور دیں کہ وہ غلطی سے بھی اس پارٹی کو ووٹ نہ دیں جس کا انتخابی نشان موٹر سائیکل ہے… سمجھیں۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہیں آپ۔‘‘
’’بس اس بات کو ذہن نشین کرلو کہ تمہیں ہوائی جہاز پر نشان لگانا ہے۔‘‘
’’جی اچھا!‘‘
’’اور کسی انتخابی نشان کی جانب دیکھنا بھی مت۔‘‘
’’بہت بہتر۔‘‘
’‘بس صرف اور صرف ہوائی جہاز۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’تم میری بات اچھی طرح سمجھ گئی ہو ناں؟‘‘
’’جی! بہت اچھی طرح۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘
اس نے کہا، پھر اپنی بیگم کے ہاتھ تھام کر اسے پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔
مقررہ دن آن پہنچا تھا۔ وہ صبح سے وہی الفاظ دہراتے ہوئے ریکارڈ کی مانند بجے جارہا تھا:
’’دیکھو ہوائی جہاز پر نشان لگانا ہے، کسی اور انتخابی نشان کی جانب دیکھنا بھی مت، ہوائی جہاز کو منتخب کرنے میں ہی ہماری عافیت ہے، اور ہاں موٹر سائیکل تمہاری دشمن ہے، خبردار جو تم نے اُس کے یا کسی دوسرے انتخابی نشان کے بارے میں سوچا بھی تو… تم میری بات غور سے سن رہی ہو ناں؟‘‘
’’جی… مجھے اس پارٹی کو ووٹ دینا ہے جس کا انتخابی نشان ہوائی جہاز ہے۔‘‘
اس نے سبق کی مانند دہرایا۔ شوہر نے خوش ہوکر بیگم کو دیکھا اور کہا ’’شاباش! تم بہت اچھی بیوی ہو… مجھے تم پر فخر ہے۔‘‘ پھر جھک کر اس کی ہرن جیسی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا ’’تم بھی مجھ پر فخر کرتی ہو ناں؟‘‘
’’جی ہاں…‘‘
’’بہت اعلیٰ، میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے تم جیسی بیوی ملی… اچھا اب تیار ہوجائو… صبح ہی صبح ووٹ ڈال آئیں تو اچھا ہے، بعد میں ہجوم بڑھ جاتا ہے۔‘‘
’’جی بہتر۔‘‘
’’سنو! وہ آسمانی رنگ کا سادہ سوٹ پہن لینا اور… اپنا کارڈ ضرور رکھ لینا۔‘‘
’’کون سا کارڈ؟‘‘
’’میرا مطلب ہے شناختی کارڈ… ورنہ وہاں شناخت کیسے ہوگی!‘‘
’’میری شناخت تو آپ ہیں۔‘‘
اس نے کہا تو وہ جی بھر کر ہنسا اور پھر اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولا ’’کتنی پیاری بیوی ہو تم… مگر میری جان وہاں تو تمہاری شناخت شناختی کارڈ سے ہی ہوگی، لہٰذا یاد سے رکھ لینا۔‘‘
’’جی اچھا، رکھ لوں گی۔‘‘
اس نے ملائمت سے کہا اور ڈریسنگ روم میں جاکر آسمانی رنگ کا سادہ سا سوٹ پہننے لگی۔ لباس تبدیل کرتے ہوئے وہ دس سال پیچھے چلی گئی تھی۔
’’سنو! گھر کا کام تین بجے تک ختم کرلینا… پھر نہا کر رولرز لگا لینا، میں ٹھیک پانچ بجے آجائوںگا، تم بالکل تیار ملنا۔‘‘
وہ حسبِ معمول ہدایات دے رہا تھا اور وہ بھی حسبِ معمول جی جی کہہ کر اثبات میں سر ہلا رہی تھی۔
’’اچھا اللہ حافظ‘‘۔ وہ گھر سے نکلنے لگا، پھر اچانک ٹھیر کر بولا ’’وہ سبز انڈین ساڑھی ہے ناں، وہ باندھنا۔‘‘
’’جی اچھا…‘‘
’’اور کانوں میں جرمنی والے آویزے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’میک اَپ نہ بہت ہلکا کرنا نہ گہرا، البتہ لپ اسٹک گہری لگانا۔‘‘
’’اچھا!‘‘
’’اس ساڑھی کے ساتھ میچنگ کی سینڈل تو ہے ناں۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’بس تو پھر وہی پہننا… اچھا اللہ حافظ۔‘‘
لیکن وہ خاموش رہی اور مڑ کر ناشتے کے برتن سمیٹنے لگی کہ اس کی آواز آئی ’’اور سنو، بال کھلے رکھنا… وہ اُس دن جیسا اونچا سا جوڑا نہ بنا لینا، مجھے بالکل پسند نہیں آیا تھا، یاد ہے ناں؟‘‘
’’جی یاد ہے، میں بال کھلے رکھوں گی۔‘‘
’’اچھا اللہ حافظ۔‘‘
اب وہ واقعی چلا گیا۔ اس نے ناشتے کے برتن سمیٹے، گھڑی دیکھی اور اس کی ہدایات کے مطابق کام شروع کردیا۔
ٹھیک پانچ بجے وہ سبز ساڑھی میں ملبوس، جرمنی کے آویزے کانوں میں پہنے، کھلے بالوں کے ساتھ مناسب میک اَپ کے بعد گہرے رنگ کی لپ اسٹک ہونٹوں پر جما رہی تھی کہ وہ گھر میں داخل ہوا اور ’’ہوں…‘‘ کہہ کر اس کا جائزہ تنقیدی نگاہوں سے لینے لگا۔
’’ویری گڈ‘‘۔ کچھ دیر بعد اس کی آواز آئی ’’بس میں ذرا کپڑے تبدیل کرلوں پھر چلتے ہیں۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘
گزشتہ دس برس سے ’’جی اچھا‘‘، ’’ٹھیک ہے‘‘ اور ’’بہت بہتر‘‘ جیسے الفاظ کی ادائیگی اس کا معمول تھا۔ وہ کوئی کام بھی اُس کی مرضی کے خلاف نہ کرتی تھی۔
وہ اپنی ’’عورت‘‘ سے بہت خوش تھا اور… ہمارے یہاں خوش گوار ازدواجی زندگی کی علامت یہ ہے کہ مرد اپنی عورت سے مطمئن اور خوش رہے اور… وہ خوش رہتا تھا… ہنستا تھا اور… ہنستا ہی رہتا تھا کہ اس کی زندگی کی نائو اطمینان و مسرت کے دریا کی پُرسکون موجوں میں ہلکورے لیتی تیرتی چلی جارہی تھی… اس صورتِ حال میں اسے کسی دوسری بات پر غور و فکر کی ضرورت بھی کیا تھی!
دس سال میں ان کے یہاں تین بچے ہوئے تھے، سب کے نام اُس نے اپنی پسند سے رکھے تھے۔ بچے کن اسکولوں میں داخل ہوں گے، ان کی تربیت کیسے ہوگی، وہ کس قسم کے کپڑے پہنیں گے، کس کے گھر جائیں گے، کس کے نہیں، کب سوئیں گے، کب جاگیں گے، کب کھیلیںگے، کیا کھیلیں گے، کیسے دوست بنائیں گے، کب کھائیں گے، ٹی وی کتنی دیر دیکھیں گے، ان کے مطالعہ میں کون سی کتب و رسائل آئیں گے… ان تمام باتوں کا فیصلہ بھی وہی کیا کرتا تھا، اور… وہ بہت خوش تھا کہ اس کی عورت سارے کام اُس کی پسند سے کرتی تھی۔
ہر محفل میں وہ اس کا تعارف کرواتے ہوئے بہت فخر سے کہتا ’’جناب ان سے ملیے… یہ ہیں ہماری پیاری، دلاری اور وفادار بیگم صاحبہ۔‘‘
’’اور آج… وہ اس کی ہدایت کے مطابق ہوائی جہاز کو اپنی وفاداریاں سونپنے جارہی تھی۔ آسمانی کپڑوں میں ملبوس وہ پولنگ بوتھ میں داضل ہوئی، ضروری اقدامات سے فارغ ہو کر بیلٹ پیپر ہاتھ میں تھامے پردے کے پیچھے چلی گئی۔
’’پسِ دیوار… اس نے ہاتھ میں تھاما ہوا پرس ایک جانب رکھا اور بیلٹ پیپر کھول لیا۔ پھر خوب غور سے تمام انتخابی نشانات دیکھے، پہلی ہی تصویر ہوائی جہاز کی تھی۔
اور پھر… اس نے بے حد طمانیت کے ساتھ موٹر سائیکل پر مہر لگا دی۔

حصہ