عسکری جھولا اور سماجی میڈیا پر الیکشن نتائج

515

میرچاہے جتنے بھی سادہ ہوں، عوام سادہ نہیں ہے ۔ کراچی میں اس عید الفطر پر افتتاح ہونے والے ایک تفریحی پارک میں لگایا گیا ایک بڑا جھولا پچھلے ہفتے گر گیا جس میں ایک بچی جاں بحق ہوئی اور کئی افراد زخمی ہوئے ۔ اس خبر کو جیسے ہی مقامی میڈیا نے ’کیا؟ کس نے ؟ کب ؟کہاں ؟ا ور کیسے ؟ کے فلسفہ سے ذرا ہٹ کرنشر کیا تو عوام ، بلکہ خود کئی صحافی حضرات نے مدعا سماجی میڈیا پر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ’پرانی سبزی منڈی کے پارک ‘‘سے معاملہ اس کے اصل نام یعنی ’عسکری پارک‘ تک جا پہنچا اور کراچی سمیت دُنیا بھر میں اس جھولا گرنے کی ویڈیو اور بے شمار پوسٹیں وائرل ہو گئیں۔زمانہ الیکشن کا ہے اس لیے فوراً ہی عوام نے اس مدعے کو آڑے ہاتھوں لیا ۔خلائی مخلوق تو ویسے ہی زیر بحث تھا اب ذرا بات مزید کھل کر سامنے آ گئی اور طنز و مزاح پر مبنی کچھ ایسی پوسٹوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔نثار احمد لکھتے ہیں،’’ سویلین جھولے اور عسکری جھولے میں فرق بیان کریں؟‘‘۔اسی طرح ایک اور اسٹیٹس بھی خاصا مقبول ہوا۔’’جو لوگ ”عسکری” کے جھولوں میں جھول رہے ہیں محتاط ہو جائیں یہ کسی بھی وقت گر سکتے ہیں۔ ‘‘ ’’سمجھدار کے لیے اشارہ بھی کافی ہے۔جھولا گرنے کے بعد جیسے ہی پارک کا نام عسکری پارک سے سبزی منڈی پارک ہوگیا۔ اسی طرح سیاسی جھولا گرنے کے بعد سارا ملبہ ”جمہوریت” پر ڈالا جائیگا۔‘‘ٹرین کا حادثہ ہو جائے تو استعفٰی سعد رفیق دے، عسکری پارک میں حادثے میں بچی کی جان چلی جائے تو استعفٰی کون دے؟۔’طارق حبیب اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’دِس اِز صحافت ۔جب پارک بنا تھا تب عسکری پارک تھا۔ آج جھولا گر گیا تو پرانی سبزی منڈی والا پارک ہو گیا۔تف ہے۔اُن ڈائریکٹر نیوز پر۔جو عسکری کو سبزی منڈی بنوا بیٹھے ہیں‘‘۔’’کراچی کے عسکری پارک میں جھولا گرگیا۔امیدوار محتاط رہیں، الیکشن میں بھی عسکری جھولا گر سکتا ہے۔‘‘اسی طرح صہیب جمال نے انتہائی افسوس کے ساتھ تفصیلی تحریر میں لکھا کہ ،’’کراچی کے عسکری پارک میں نصب جھولا حادثے کا شکار ہوگیا ۔ایک معصوم بچی کی جان چلی گئی ، متعدد زخمی ہوگئے۔ انسانی جان پر اور بچی کی جان جانے پر بہت افسوس ہے۔ اللہ پاک ان کے خاندان کو صبر عطا فرمائے۔عسکری بینک ، عسکری سیمنٹ ، عسکری ہاؤسنگ ، عسکری یوریا ، عسکری گوشت ، عسکری مِلک ، ڈی ایچ اے ہاؤسنگ ، فوجی کارن فلیکس ، فوجی فرٹیلائزر۔ یہ سب بہت اچھا بزنس کرتے ہیں اور ترقی پا رہے ہیں ، ملک کی معیشت میں ان کا بہت اچھا کردار ہے۔یہ پارک کا جھولا گرنا ایک حادثہ ہے جب کوئی حادثہ ہوتا ہے تو عام انسانی جان جاتی ہیں۔ دراصل عسکری گروپ بہترین صلاحیت رکھتا ہے اس لیے پینتیس سے چالیس سال اس گروپ نے حکومت بھی کی اور بہتر نتائج بھی دیے اس کے بعد آنے والی حکومتوں میں بھی کسی نہ کسی طرح شامل رہے ، مگر ہمیشہ ان حکومتوں کی تعمیر و انہدام میں حادثہ ہی کارفرما رہا ہے۔اس لیے اب ایک نئے تجربہ کی طرف گامزن ہے مگر خیال رہے الیکشن کا جھولا بھی گر سکتا ہے۔ کیونکہ نیب زدہ لوگوں ، روایتی جاگیرداروں ، سرداروں ، سرمایہ داروں کا وزن بہت ہوتا ہے ۔‘‘اس طرح کے تبصروںکے جواب میں لوگوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ ،’’اندازِ تحریر بتا رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے- کرنل چاول اور جنرل اسٹور بھی شامل کر لو۔‘‘اسی طرح کچھ ایسے لوگوں نے جب یہ تبصرے دل پر لیے تو یہ جواب دے کہ تسلی دی کہ ،’’ان عسکریوں کو بھی شامل کر لیں جنہوں نے ملک کے دفاع کے لیے اپنا عسکری خون دیا۔اُن عسکریوں کو بھی شامل کر لیں جن کی جوانی ،خاندان اور بچے سب انھوں نے اس لیے قربان کر دیے کے آپ جیسے لوگ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر اِن عسکریوں کو طنز کا نشانہ بنائیں ،مزاح اور تفریح کا سامان تلاش کریں۔‘‘
ویسے آپ کچھ بھی کہیں سماجی میڈیا کی بدولت سب کا سب باہر آ گیا،ہمارے دوست عاطف حسین نے ایک ٹوئیٹ میں بہت کچھ بتا دیا،’’انکوائری انکوائری کھیلنے والے متوجہ ہوں ۔عمران شیخ ۔کباب جی اور ایرو سوفٹ فٹ ویئر کا مالک ہے اسے “امیوزمنٹ پارک” کے کاروبار میں بے تحاشہ پیسہ دکھا کر ’’عسکری پارک‘‘ٹھیکے پر دے دیا گیا ۔کور فائیو نامی ا دارے کے ماتحت چلنے والے عسکری پارک میں چائنا سے استعمال شدہ جھولے منگوا کر راتوں رات نصب کروانے کی اجازت کس نے دی ۔‘‘یہ ٹھیک ہے کہ ماحول الیکشن کا تھا ، اتفاق سے حادثہ بھی ایسے پارک میں ہوا جس کا نام ایک ایسے ادارے سے وابستہ ہے جس کے بارے میںیہ باتیں گردش کر رہی تھی کہ وہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کو مکمل سپورٹ کر رہی ہے اس لیے سماجی میڈیا کے صارفین نے اپنے نظریاتی تعلق کے اعتبار سے خوب آڑے ہاتھوں لیا۔اسی طرح اس حادثے پر پارک انتظامیہ کو بھی خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ان میں ایک ٹوئیٹ یہ بھی خاصی مقبول ہوئی جس میں کہاگیا کہ ’’پارک انتظامیہ اور اس کے سہولت کاروں کو اسی پارک کے جھولوں میں بٹھا کر تفریح کرائی جائے۔‘‘
اسی طرح سماجی میڈیا پر خصوصاً انٹرنیٹ پر بھی سیاسی جماعتوں کی اشتہار کاری بھی نظر آناشروع ہوئی جس میں متحدہ مجلس عمل اور تحریک انصاف نمایا ں طور پر نظرا ٓئے ۔پاکستان کی تمام مقبول ویب سائٹس پر سراج الحق اپنے انتخابی نشان کے ساتھ نمایاں نظر آئے ، ساتھ ہی متحدہ مجلس عمل کی جانب سے کتاب کے تناظر میں جاری ہونے والا اشتہار بھی خاصا موثر اور پذیرائی کے ساتھ وائرل رہا۔جواب میں تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی نے جو پہلے ہی الیکٹرانک میڈیا پر اپنا بڑا حصہ لیے ہوئے تھے سماجی میڈیا پر بھی پوری کوشش میں نظر آئے ۔تحریک انصاف ، ن لیگ، پیپلزپارٹی کے مالی طور پر مضبوط امیدواران نے اپنے اپنے حلقہ کے الگ پیجز اور الگ الگ اشتہارات بھی بنا کر اسپانسر ایڈ کے طور پر سماجی میڈیا پر پھیلا کر رکھے ۔چونکہ ریحام خان کی کتاب کے اقتباسات بھی ساتھ ساتھ اپنی جگہ پا چکے تھے اس لیے تحریک انصاف نے بھر پور زور لگایا ہوا تھا۔اسی مہم کے دوران کراچی میں قومی اسمبلی حلقہ 243میں مقامی چینل کے ایک شو کی ریکارڈنگ کے دوران جس میں مجلس عمل، تحریک انصاف، متحدہ قومی مومنٹ سمیت دیگر جماعتوں کے لوگ موجود تھے ، وہاں نماز مغر ب کی ادائیگی کے لیے مجلس عمل کے اُمیدوار ڈاکٹر اسامہ رضی کو امامت کے لیے آگے کھڑا کیا گیا۔اس منظر کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا اورپھر اس طرح پیش کیا کہ یہ نہ صرف مذہبی، سیاسی ہم آہنگی بلکہ مجلس عمل کی امامت کے تناظر میں پوسٹ کیا گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ منظر نیوز چینل پر خبر کی شکل میں ابھرا، سماجی میڈیا پر وائرل ہوا کئی نیوزویب سائٹس نے اس منظر پر اسٹوری شائع کی۔موقع کوئی خالی نہیںجاتا جہلم ، ایوبیہ ، لاہور میں تحریک انصاف کے تینوں ناکام جلسوںکی ویڈیو بھی بے حد وائرل رہی اور خوب تنقید کی گئی ۔مجبوراً کچھ چینلز نے اس کو اپنی ہیڈ لائن خبر میںجگہ بھی دی اور پھر بڑی ڈھٹائی سے وضاحت بھی ہیڈ لائن میں چلائی ۔اس کے بعد تحریک انصاف کا آج ( اتوار) کو باغ جناح کے جلسے کا حشر بھی رات تک سامنے آ ہی جائے گا، جس کی کامیابی کے لیے خصوصی انتظامات کرتے ہوئے سماجی میڈیا پر کام بھی کیا گیا ہے ۔اسی طرح اس ہفتے پشاور میں بس ریپڈ ٹرانسپورٹ پروجیکٹ (میٹرو)میں بے قاعدگیوں کامعاملہ بھی سامنے آیا، جس میں اربوں روپے کی گڑ بڑ سامنے آئی ۔ایک جانب تحریک انصاف بدلے ہوئے خیبر پختون خواہ کا اشتہار جاری کر رہی تھی دوسری جانب اُن کے وزیر اعلیٰ پر کرپشن کے بڑے الزامات کا گھیرا تنگ ہو تا نظر آیا۔اسی طرح سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کے ایک حلقہ کے اُمیدوار رائے حسن نواز کو صادق امین نہ ہونے پر نا اہل قرار دیا۔جس پر تحریک انصاف کی خوب کلاس لی جاتی رہی۔مہم کا آج آخری دن ہے ،عمران خان خود کراچی کی ایک سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں ، جس کاموثر بیانیہ2002میں اس سیٹ سے کامیابی حاصل کرنے والی متحدہ مجلس عمل کی جانب سے یہ سامنے آیا ہے کہ ’یہاں کے مسائل وہی لوگ حل کر سکتے ہیں جو یہاں رہتے بستے ہیں، باہر سے آنے والے مہمان نہ پہلے کچھ کر سکے نہ آئندہ کچھ کر سکیں گے۔‘اسی طرح الیکشن مہم کے دوران نیب کی ایک اور کارروائی سامنے آئی جسے الیکٹرانک میڈیا نے بھی خوب اچھالا ، ساتھ ہی عوام نے بھی خوب دھویا ،کیونکہ میئر صاحب تو 2015سے کراچی کے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ فنڈز کی کمی کا رونا رو کر بتاتے تھے ،مگر اب کرپشن کی اتنی بڑی رقم کا جواب کہاں سے دیں گے ؟،’’نام نہاد عوامی پارٹیوں کی اصلیت سامنے آگئی۔یہ ہیں وہ عوامی نمائندے جو ایک طرف اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے ہیں دوسری طرف دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں،وسیم اخترپر36 ارب روپے کے فنڈز میں کرپشن کا الزام ، آغا سراج درانی پرآمدن سے زائد اثاثوں کا الزام۔‘‘لوگو ں نے ایم کیو ایم کی ظاہر کی جانیو الی غربت کا بھرپور جواب دیا کہ ’’ہمارے پاس پیسہ نہیں جو میڈیا پر اشتہارات چلا سکیں اسی وجہ سے چوراہوں اور فٹ پاتھ پر الیکشن مہم چلارہے ہیں،ڈاکٹر غیر مقبول صدیقی کا بیان دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے جب فیصل سبزی والے کولینڈ کروزر اور ساڑھے چار کروڑ کے بنگلے میںدیکھتا ہوں۔رؤف صدیقی کی 8کروڑ والی شادی کا اسکینڈل دیکھتا ہوں،کنور نوید کے ایک شکارپر80 لاکھ خرچ کی تفصیل پڑھتا ہوں اور نیب کی رپورٹ دیکھتا ہوں کہ کس طرح پیسوں کا رونا رونے والا وسیم اختر 3 ارب روپے ڈکار گیا۔‘‘ اسی طرح پیپلز پارٹی کی نثار کھوڑو کو الیکشن کمیشن پھر اپیل پر عدالت جانے کے باوجود اثاثے چھپانے ، تیسری شادی پر سابقہ بیویوں سے اجازت نامہ نہ دکھانے پر نا اہلی کی سزا کو برقرار رکھ کر بڑا اپ سیٹ کیا۔
اس سوشل میڈیا نے ایک اور زبردست کام کیاکہ جہاندیدہ قسم کے تجزیہ نگار پیدا کیے ۔ امسال کے الیکشن کے بارے میں جہاں سب کا یہی کہنا ہے کہ کوئی چیز بہت واضح نہیں ، خلائی مخلوق کے اشارے اپنی جگہ ،لیکن اس کے باوجود لوگ نتائج پربھرپور تجزیے پیش کرتے رہے ۔ڈان اخبار کی ویب سائٹ نے ایک بڑا نان سائنٹفک سروے کرایا جس میں کوئی 18ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا۔نتائج دیکھ کر یہ بات محسوس ہوئی کہ شاید اس سروے کو صرف پی ٹی آئی کے کارکنان نے ہی بھرا ہے ۔ایک اور اہم سوال کے جواب میں اکثریت نے آرمی کوالیکشن پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا ادارہ اور سماجی میڈیا کو سب سے موثر ابلاغی ٹول قرار دیا۔مبشر لقمان نے بھی اپنے پروگرام میں پی ٹی آئی کی سو سیٹوں کے ساتھ برتری پر مبنی ایک نتائج کاخاکہ پیش کیا۔اس کے بعدبہت سارے آزاد تجزیے بھی جاری رہے جن میں سے کچھ کے مطابق٭ ’اگلی حکومت نہایت کمزور اور مخلوط ہوگی،‘‘٭ دیکھ لینا کہیں سے کوئی سنجرانی آئے گا،وزارت عظمیٰ کے لیے ،باقی سب منہ دیکھتے رہ جائیں گے‘‘٭’’ خان صاب ،چاہے الٹا لٹک جاؤ، پنڈ دا چودھری توانوں وی نہیںبننا،‘‘٭ ’’میاں صاب نے جو ہمت دکھائی ہے ، قوم نے اب کی بار بھی ن لیگ کو ہی لانا ہے ۔‘‘٭پارٹی پوزیشن یہ ہوگی،پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، مجلس عمل، پیپلز پارٹی، جیپ، اے این پی، تحریک لبیک، ایم کیو ایم، پی ایس پی۔٭اس بار پی ٹی آئی کو الیکشن میںاتنی ہی سیٹیں ملیں گی جتنے لیز کے پیکٹ میں چپس نکلتے ہیں۔‘٭ اسی طرح ایک اور صاحب نے جو پارٹی پوزیشن کا تجزیہ کیا ’’ن لیگ، مجلس عمل، پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی،جیپ،اور حکومت بنانے کے لیے مجلس عمل ، جیپ اور پی ٹی آئی کے درمیان معاملات ہونگے۔‘‘بہر حال یہ تو اندازے ہی تھے ، اصل بات تو جو ہے وہ چار دن بعد واضح ہو جائے گی ۔بہر حال ہماری دعا ہے کہ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے بہترین ہاتھوں میں دے جو یہاں پر کتاب و سنت کے مطابق نظام برپا کر سکیں۔

حصہ