روداد قرآن اسٹڈی پروجیکٹ

280

عروبہ امتیاز خان

ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش
دنیا نہیں مردانِ جفاکش کے لیے تنگ
چیتے کا جگر چاہیے، شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ
کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے، طاؤس فقط رنگ

جمعیت ایک انمول اجتماعیت کا نام ہے۔ اس کارواں میں شامل طالبات بھی کیسی طالبات ہیں جو عصرِ حاضر کی نوجوان طالبات کی طرح اپنا وقت اور سرمایہ آج کے لیے صرف نہیں کرتیں، بلکہ آنے والے کل کے لیے محفوظ کرتی ہیں۔ ان کی کوشش اپنی ذات تک محدود نہیں رہتی، بلکہ ان کی کوششوں کا دائرہ اپنے اطراف موجود تمام طالبات تک وسیع ہے۔

صفتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی

بلاشبہ قرآن ہماری زندگی کا مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس کی تعلیمات کو تھام کر ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں تک پہنچانے کی ذمے داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمعیت طالبات ہر سال قرآن اسٹڈی پروجیکٹ منعقد کرتی ہے تاکہ طالبات کو قرآن و سنت کا حقیقی فہم فراہم کیا جا سکے۔ رواں سال بھی اسلامی جمعیت طالبات کراچی نے شہر بھر میں 15 مقامات پر قرآن اسٹڈی پروجیکٹ کا اہتمام کیا۔ اس 6روزہ پروجیکٹ میں تفسیر سیشن، تدبر سیشن اور مختلف ورکشاپس اور سرگرمیوں کے ذریعے طالبات کی مثبت ذہن سازی میں اہم کردار ادا کیا گیا۔

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

قرآن اسٹڈی پروجیکٹ کے لیے جولائی کے اوائل کی تاریخیں طے کی گئیں۔ ہم بھی پانچویں مرتبہ قرآن اسٹڈی پروجیکٹ میں شرکت کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ رمضان کے دوران ہی بالائی نظم کی جانب سے دعوت نامے جاری کردیے گئے تھے۔ اب مرحلہ تھا دعوتوں کو عام طالبات تک پہنچانے کا، اور اس کے لیے بھی پلان ترتیب دے دیا گیا۔ پروجیکٹ سے ایک دن پہلے گاڑی کا روٹ بھی طے کرلیا گیا۔ صبح جلد اٹھنے کی عادت جو چھٹیوں نے خراب کردی تھی اسے ازسرنو درست کرتے ہوئے ہم الارم کی بدولت جلد ہی اٹھ گئے۔ گاڑی بھی خوش قسمتی سے وقت پر آن پہنچی اور خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتے تمام افراد کو فون کرکے جگا دیا گیا۔ ایک ایک کرکے افراد آتے گئے اور سیٹوں پر براجمان ہوتے گئے، اور پھر سیٹوں سے نوبت گود تک آئی، یہاں تک کہ تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ جب تک دل میں جگہ ہوتی ہے تو سیٹوں اور گودوں میں جگہ خود ہی بن جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا۔ ہماری ایک پیاری باجی جو کاغذ کے پرزے کی طرح ایک کونے میں دبی بیٹھی تھیں، راستے بھر لوگوں کو صبر اور دعا کی ہدایت کرتی رہیں۔ آخر ہم سب جا بھی تو ایک نیک مقصد کے لیے رہے تھے۔ بالآخر گلشن اقبال میں موجود وی ٹرسٹ کے خنکی زدہ ہال میں پہنچ کر دم لیا۔ ویسے تو قرآن اسٹڈی پروجیکٹ میں ہم سیکھنے کی تمنا لیے جاتے تھے لیکن شرکت کے مقاصد میں ایک پلس پوائنٹ بچھڑی ہوئی سہیلیوں سے ملاقات بھی تھا۔ ہال میں پہنچ کر سہیلیوں سے ملے، پرانی یادیں تازہ کیں اور پھر کرسیوں پر بیٹھ کر دل جمعی سے پروگرام سننے کی تیاری کرنے لگے۔ مقررہ وقت پر پروگرام قرآن پاک کی تلاوت سے شروع ہوا، اور اس کے بعد تفسیر سیشن کی باری آئی۔ اس سیشن کی خاص بات یہ رہی کہ پروجیکٹ کے پہلے حصے میں ہی تمام شرکائے محفل کو محفلِ قرآن کا حصہ بننے کی فضیلت نہایت اچھے انداز میں بیان کی گئی، جس نے تمام شرکاء کا لہو گرما دیا۔ اب ہم پروگرام سننے میں مگن تھے کہ ناظمہ نے ہمیں بک اسٹال اور حجاب اسٹال کو ترتیب دینے کا حکم دے دیا۔ ہم نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر دلچسپ اور دیدہ زیب کتابیں ترتیب سے رکھ کر میز کی زینت میں اضافہ کیا۔ مختلف اقسام کے اسکارف اور ہیڈ کیپس کو بھی قرینے سے سجاکر اپنے سگھڑ ہونے کا عملی ثبوت پیش کیا۔ ہم اسٹال کو سجا کر فارغ ہوئے تو تدبر سیشن کا آغاز ہوگیا جس میں سورۃ الضحیٰ پر غور و فکر کرکے اصول نکالے گئے۔ بعد ازاں ایمانیات پر ورکشاپ پیش کی گئی۔
پروجیکٹ کے دوسرے روز کی دلچسپ بات یہ تھی کہ آج کے مسلمان نوجوان کی رہنمائی کے لیے ’’مسلم یوتھ ایٹ کراس روڈ‘‘ کے عنوان سے ورکشاپ منعقد کی گئی جس کو ایمن ناصر صاحبہ نے بہت خوبی سے کنڈکٹ کروایا۔ اس ورکشاپ میں اس جانب توجہ دلائی گئی کہ آج طاغوت ہمارے معاشرے میں سرایت کرگیا ہے اور مختلف طریقوں سے ہمارا ایمان متزلزل کرنے کے لیے تیار ہے، ایسے میں ہم نوجوان طالبات پر کیا ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ پروجیکٹ کے دوسرے دن ایک اور انتہائی اہم اور دلچسپ سرگرمی منعقد کی گئی۔ سرگرمی کچھ یوں تھی کہ شرکاء کو مختلف گروپس میں تقسیم کردیا گیا، اور ہر گروپ کا ایک لیڈر مقرر کیا گیا۔ اب تمام گروپس کو ملک کے اہم شعبہ جات میں سے ایک ایک شعبہ دے دیا گیا۔ ان شعبہ جات پر گروپ کے ارکان نے تبادلہ خیال کرکے اپنے نکات پیش کیے کہ اس شعبے میں ترقی کیسے ممکن ہے۔
تیسرے روز کیریئر کاؤنسلنگ کے موضوع پر بہترین ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس کو سن کر تمام شرکاء کے اندر کچھ کردکھانے کا جذبہ دوڑ گیا۔ پروجیکٹ کے چوتھے روز سورہ فاطر کی آیت پر تدبر کے ذریعے رہنما نکات پیش کیے گئے۔ اگلے روز حیا کے موضوع پر ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں زندگی کے مختلف پہلوؤں میں حیا کے کردار پر جامع گفتگو کی گئی۔ پانچویں روز نماز کی فضیلت سے متعلق دلنشین ورکشاپ پیش کی گئی۔ مقابلہ برائے عکس کشی اور مہندی کے مقابلے کا اعلان کیا گیا۔ چھٹا اور آخری روز ہمیشہ کی طرح یادگار رہا۔ جہاں اس محفل سے بہت کچھ سمیٹ لینے کی خوشی تھی وہیں اس محفل سے اور دوستوں سے بچھڑنے کا دکھ بھی تھا۔ اچھی اچھی باتیں جو ہم نے یہاں اپنی سماعتوں کی نذر کی تھیں ان کا سلسلہ ختم ہونے کو تھا۔ انتظامیہ نے آخری روز بڑی محنت سے دونوں مقابلہ جات کے نتائج مرتب کیے اور کامیاب ہونے والی طالبات میں انعامات تقسیم کیے گئے۔ آخر میں تمام شرکاء کو پروجیکٹ کا حصہ بننے کے اعزاز میں اسناد بھی دی گئیں۔ یوں قرآن محفل مختلف اصول، نکات اور خوبصورت باتیں ہمارے دل و دماغ کی نذر کرکے اختتام پذیر ہوئی۔ اب ہم اگلے سال کا بے تابی سے انتظار کررہے ہیں تاکہ دوبارہ اس خوبصورت محفل کا حصہ بن سکیں۔ آخر ایسی پیاری قرآن محفل کا حصہ بننے کے لیے کون بے تاب نہیں ہوتا؟

مانندِ سحر صحنِ گلستاں میں قدم رکھ
آئے تہِ پا گوہرِ شبنم تو نہ ٹوٹے
ہو کوہ و بیاباں سے ہم آغوش لیکن
ہاتھوں سے ترے دامنِ افلاک نہ چھوٹے

حصہ