تین دن بعد …. عام انتخابات

212

محمد انور
۔25 جولائی ملک میں عام انتخابات کا بڑا اہم دن آنے کو ہے۔انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی خواہشمند پارٹیاں بلا تفریق ہر ووٹرز سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تقریبا 26 سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جب تمام ہی جماعتیں کراچی میں آزادانہ و بلا خوف اپنی انتخابی مہم چلا رہیں ہیں۔ یہ مثبت صورتحال ملک کی فوج اور رینجرز کی جانب سے گزشتہ 3 سالوں کے دوران کراچی میں امن و امان کے لیے کی گئی کوششوں سے پیدا ہوئی ہے۔ مگر اس کے باوجود چند سیاسی جماعتیں انتخابات کے حوالے سے شور برپا کرتے ہوئے نظر آرہی ہیں۔ یہی جماعتیں الیکشن میں قبل از وقت دھاندلی کی باتیں کرکے انتخابی عمل کو متنازع بنانے کی بھی کوشش کررہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو جماعتیں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو اس بار ماضی کے مقابلے میں وہ سیٹیں اور ووٹ ملنے کے امکانات نہیں ہیں جو انہیں ملا کرتے تھے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کے گزشتہ روز ہونے والے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی جانب سے انتخابی عمل میں بعض اطلاعات اور افواہوں کی بازگشت رہی۔ یہی وجہ تھی کہ پاک فوج کے نمائندے میجر جنرل آصف غفور کو ایک بار پھر یہ وضاحت کرنی پڑی کہ ’’ فوج عام انتخابات میں براہ راست مداخلت نہیں کر رہی۔‘‘
اس اجلاس میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کوآرڈینیٹر، وفاقی سیکرٹری داخلہ و دفاع، سیکرٹری الیکشن کمیشن، چاروں صوبوں کے آئی جیز و سیکرٹری داخلہ سمیت اہم اراکین نے شرکت کی۔کمیٹی نے آئی جی پنجاب اور سیکرٹری داخلہ پنجاب کی غیرحاضری پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ آصف غفور نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ فوج الیکشن کمیشن کی ہدایت پر امن و امان کی صورتحال بہتر رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے،الیکشن کے عمل یا نتائج پر براہ راست اثر انداز ہونے کی کوشش کا تاثر درست نہیں ہے۔
یہی نہیں بلکہ آرمی چیف ملک میں شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے بھی فعال ہیں انہوں نے بھی جمعرات کو پاکستان آرمی کے الیکشن سپورٹ سینٹر راولپنڈی کا دورہ کیا۔اس دورے کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہاہے کہ پاک فوج الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے اندر رہتے ہوئے عام انتخابات میں معاونت کرے گی۔ اس موقع پر آرمی چیف کو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو معاونت کے پلان پر بریفنگ دی گئی۔جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ عوام کو جمہوری حق کے آزادانہ استعمال کے لیے محفوظ ماحول یقینی بنانے کی تمام کوششیں بروئے کار لائی جائیں۔
جبکہ نیکٹا کے اجلاس میں آصف غفور نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ فوج الیکشن کمیشن کی ہدایت پر امن و امان کی صورتحال بہتر رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ 3 لاکھ 71 ہزار فوجی جوان ملک بھر کے پولنگ اسٹیشنز پر تعینات ہوں گے،کچھ افواہیں تھیں کہ فوجی جوانوں کو مختلف احکامات جاری کیے گئے ہیں جو سراسر غلط ہے۔فوجی نمائندے کا کہنا تھا کہ سیکورٹی کے حوالے سے ہم نے ہر جگہ کا تجزیہ کیا ہے، پلاننگ کا معاملہ ہم پر چھوڑدیں، ہمیں پتا ہے کہ کس جگہ کتنے افرادتعینات کرنے ہیں،جب تک پولیس کی استعداد نہیں بڑھتی،ہمیں پولیس کی ڈیوٹی بھی دینی ہے۔ آصف غفور کے بقول فوج کسی سیاستدان کی سیکورٹی کی براہ راست ذمے داری نہیں لے رہی، سیاسی امیدواروں کی سیکورٹی حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔
پاک فوج کی طرف آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے حوالے سے کوششیں قوم کے سامنے ہیں۔جو قابل تحسین بھی ہیں۔ عام انتخابات کے نتائج سے یہ بات اور واضح ہوجائے گی کہ یہ الیکشن کس حد تک الیکشن کمیشن کمیشن شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کرا سکا۔ اور فوج کی حقیقی نگرانی میں کس حد تک عوام کو آزادانہ اور اپنی صوابدید پر ووٹ ڈالنے کا موقع ملا۔
اگرچہ تین دن بعد یعنی 25 جولائی کو ہونے والے یہ انتخابات بھی پشاور اور بنوں میں ہونے والے سانحات کے کے بعد مزید اسی طرح کے واقعات کے خدشات کی اطلاعات والے ماحول میں ہوں گے مگر قوی امکان ہے کہ پاک فوج کے سخت انتظامات و اقدامات اور الیکشن کمیشن کے نئے انتظامات کی وجہ سے مثالی ہوں گے۔ مثبت سوچ کے حامل افراد کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ پہلی بار ملک میں بہترین انتخابات ہوں گے اور اس کے نتائج بھی عوام کی دیے گئے’’حق رائے دیہی‘‘ کے مطابق ہی ہوں گے۔ اس لیے ان انتخابات تسلیم کرنا بھی تمام سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہوگا۔

الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کے خدشات۔

اجلاس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے بتایا کہ انتخابات میں واٹر مارک بیلٹ پیپرز دیے جائیں گے اور تمام پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس 85 ہزار پریزائڈنگ افسرہیں جبکہ پاک فوج کے کو بھی ٹریننگ دی جارہی ہے۔ بریفنگ دستاویزات کے ذریعے کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ کراچی کے انتخابات کو ایم کیو ایم کے حوالے سے خطرہ ہے۔سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ لندن کی ایک کال کے تناظر میں یہ الرٹ ہے۔
کیا مسلم لیگ نواز اور ایم کیو ایم انتخابات کا بائیکاٹ کرسکتیں ہیں؟
اس بات کے خدشات بھی ہیں کہ انتخابی عمل کے دوران مذکورہ دونوں جماعتیں الیکشن میں ممکنہ شکست کے حالات کو دیکھ کر انتخابی عمل سے راہ فرار اختیار کرسکتی ہیں۔ بس اس مقصد کے لیے انہیں کوئی ایسا موقف اختیار کرنے پڑے گا جسے قوم قبول کرلے۔ لیکن فی الحال یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔یہ بات 25 جولائی کو ہی سامنے آسکے گی۔

حکومت کون سی پارٹی بناسکے گی ؟

عام انتخابات کے ممکنہ نتائج کے مطابق ملک میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر کوئی سیاسی جماعت بھی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گی اور حکومت کا قیام مخلوط ہوگا۔ چونکہ حکومت بنانے کے لیے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والے پارٹی کو ایک سے زائد جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔اس لیے یہ انتہائی کمزور حکومت ہوگی۔ خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوجائے گی مگر اس کے ساتھ کونسی جماعت مل کر حکومت بنانے میں مدد گار ہوگی یہ بات انتخابات کے نتائج کے نتیجے میں ہی واضح ہوسکے گی ۔

حصہ