برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

475

چوتھا حصہ
قسط نمبر146
مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں کی جانب سے مطالبات و بیانات میں بھی سختی آچکی تھی۔ مشرقی پاکستانیوں کے بیانات بلاوجہ ہی تند و تیز نہ تھے۔ مغربی پاکستان اسٹیبلشمنٹ اور خاص کر ایوب انتظامیہ کی جانب سے بھی مسلسل ایسے اقدامات کیے جارہے تھے جن سے معاملات کو بہتر بنانے میں مشکلات بڑھتی جارہی تھی۔ ہرچند کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں خاص طور پر جماعت اسلامی اور اُس کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کوششوں سے متحدہ اپوزیشن نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ دونوں جانب کی بڑھتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا رکھا جاسکے، مگر جوں جوں وقت گزرتا جاتا تھا اس آگ کی لو بھڑکائی جارہی تھی۔ ایسے حالات میں ایوب خان نے مشرقی پاکستان کے بنگالی سیاست دانوں سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کیا۔
بنگالی سیاست دان شیخ مجیب الرحمن ڈیفنس آف پاکستان ایکٹ کے تحت 6 نکات کی پاداش میں ایک مقدمے میں جیل کی سزا بھگت رہے تھے کہ اگرتلہ سازش کیس میں اُن کا نام بطور ملزم ڈال دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں اگرتلہ سازش کیس کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ ہندوستان کی ریاست تری پورہ کا شہر اگرتلہ ہندوستان اور مشرقی پاکستان کے مشرقی سنگم پر واقع ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اگرتلہ شہر میں دو بنگالی انتہا پسندوں نے ہندوستانی سیکرٹ ایجنٹ سے خفیہ ملاقات کی۔ اس ملاقات میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے حوالے سے منصوبہ تیار کیا گیا۔ اوون جان بینٹ نے پاکستان کے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’پچاس سے زائد بنگالی سول و فوجی افسروں اور سیاست دانوں کو اگرتلہ سازش کیس کا ذمے دار قرار دے کر اُن کا ٹرائل شروع کردیا گیا۔ صدر ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمن کو بھی اس میں ملوث قرار دیا۔ مگر جیسے ہی یہ ٹرائل شروع ہوا اس نے بیک فائر کیا۔ اس سازش کی خبریں جیسے جیسے بنگالی عوام میں پہنچ رہی تھیں، اتنا ہی زیادہ اس میں ملوث افراد قومی ہیرو بنتے جارہے تھے۔
اس مقدمے سے پہلے مشرقی پاکستان میں بہت کم لوگوں کو علیحدگی کا معاملہ زیربحث لانے کی جرأت ہوتی تھی، مگر جیسے جیسے اخبارات میں مقدمے کی کارروائی شائع ہوتی رہی، اتنا ہی زیادہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے متعلق بحث ہوتی رہی۔ اب شیخ مجیب الرحمن سیاسی شہید کا درجہ حاصل کرچکے تھے اور بنگالی عوام میں ان کی مقبولیت کی جڑیں مستحکم ہوگئی تھیں۔‘‘
ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر اپنے مضمون ’’پاکستان کے خلاف سازشوں کی کہانی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’مشرقی پاکستان میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل شمس عالم کو اس سازش کا علم ہوگیا تھا، انھوں نے مغربی پاکستان میں اس خبر کو اعلیٰ حکام تک پہنچایا۔19 جولائی 1968ء کو ایک خصوصی ٹریبونل نے ڈھاکا چھاؤنی میں مقدمے کی سماعت کی۔ 100 پیراگراف پر مشتمل چارج شیٹ پیش کی گئی جس میں 227 گواہ اور 7 سلطانی گواہ شامل تھے۔ یہ ٹریبونل تین ججوں پر مشتمل تھا۔ ایس اے رحمن اس کے سربراہ تھے جو غیر بنگالی تھے، جبکہ ایم آر خان اور مقسوم الحکم بنگالی تھے۔ حکومت کی نمائندگی اٹارنی جنرل ٹی ایچ خان اور سابق وزیر خارجہ منظور قادر نے کی۔ سلطانی گواہ عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ انہوں نے دباؤ کے تحت غلط بیان دیئے ہیں۔ بنگالی عوام میں اس کیس کو قیام بنگلہ دیش کی تحریک کے خلاف پاکستان کی ایک سازش قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ حکومت اس وقت شیخ مجیب الرحمن کو علیحدگی پسند اور انڈین ایجنٹ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے شروع ہوئے۔ اس مقدمے کے مطابق شیخ مجیب الرحمن نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ ایک مسلح انقلاب کے ذریعے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کردیا جائے۔ اس سلسلے میں دو ملزم نیوی اسٹیورڈ مجیب الرحمن اور ایک ماہر تعلیم محمد علی رضا اگرتلہ گئے اور انہوں نے آزاد بنگلہ دیش کے لیے بھارتی خفیہ ادارے سے سازباز کی۔ کیس کو ختم کرنے اور قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ حکومت نے 6 فروری 1969ء کو مقدمے کی آخری تاریخ مقرر کی تھی، مگر عوامی دباؤ پر حکومت نے اسے مؤخر کردیا۔ 15 فروری 1969ء کو جیل میں ایک اہلکار نے سارجنٹ ظہورالحق کو اس کے کمرے میں گولی مار کر ہلاک کردیا، کیونکہ جیل حکام کے مطابق اس نے فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔ یہ خبر جیسے ہی باہر پہنچی ہجوم بے قابو ہوگیا۔ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کو آگ لگا دی گئی جس میں حکومت کے وکیل اور ٹریبونل کے جج مقیم تھے۔ اس آگ کے نتیجے میں مقدمے کی متعدد فائلیں اور ثبوت بھی نذرِ آتش ہوگئے۔ 22 فروری 1969ء کو حکومت نے اگرتلہ سازش کیس واپس لے لیا۔ اگلے دن ملزموں کو رہا کردیا گیا اور ان کا عظیم الشان استقبال ہوا، اور مجیب الرحمن کو بنگلہ بندھو کا خطاب دیا گیا۔‘‘
طرفہ تماشا یہ ہوا کہ ایوب حکومت کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کی وجہ سے اس کیس کی سمیت کھلی عدالت میں کی گئی جس کی وجہ سے دورانِ سماعت مشرقی پاکستان کے نام سے علیحدہ پرچم، الگ مملکت اور قومی ترانے سب کچھ منظرعام پر لائے گئے، جس کی وجہ سے وقت سے بہت پہلے ہی علیحدگی کی تحریک کو دنیا بھر میں مشتہر کروایا گیا۔ اس کے دو بہت خطرناک اثرات پڑے، ایک تو یہ کہ مشرقی پاکستانیوں کے دل میں مغربی پاکستان بالخصوص فوج کے حوالے سے خلیج بڑھتی چلی گئی، دوسرا خطرناک اثر یہ ہوا کہ علیحدگی کا جرثومہ نہایت تیزی کے ساتھ مشرقی پاکستانی بنگالی کے ذہن میں داخل ہونے لگا۔ اب ہر زبان پر مشرقی پاکستان کی الگ بنگلہ شناخت یافتہ مملکت اور بنگالی زبان میں قومی ترانہ آچکا تھا۔ ’بنگلہ بندھو‘ کا خطاب درحقیقت ایوب خان حکومت کا سیاہ کارنامہ تھا، بنگالی عوام کی جانب سے اس خطاب کے ملنے کے بعد شیخ مجیب الرحمن کے سر پر ’’شہرت و قیادت کا بھوت‘‘ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے اور قتل کیے جانے تک سوار رہا۔ اس کا تمام تر کریڈٹ ایوب خان کی ناعاقبت اندیش پالیسی کو جاتا ہے۔
ایوب خان منظر سے غائب ہوچکے تھے۔ یہ بات ایک معماّ بنتی جارہی تھی کہ ایوب خان دل کے دورے کے سبب معزول تھے، محصور تھے یا رخصت پر تھے؟ کسی کو بھی نہیں معلوم تھا۔ یہاں تک کہ اُن کے قریبی رفقا کا بھی اُن سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ جنرل یحییٰ خان اور عسکری اہلکار ایوانِ صدر میں دندناتے پھرتے تھے۔ پورے ایک ہفتے تک ایوانِ صدر میں یہ کیفیت طاری رہی۔ افواہیں بھی پھیل رہی تھیں کہ ایوب خان کو فالج ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ امورِ مملکت انجام نہیں دے سکتے۔ مگر کچھ ہی دنوں کے بعد ایوب خان منظرعام پر آگئے اور امورِ مملکت سنبھال لیے۔ مگر اب اُن کو یہ بات سمجھا دی گئی تھی کہ حکومت کی کرسی تو آپ کے لیے روزانہ چمکائی جاتی رہے گی مگر حکم عسکری کمانڈر انچیف کا ہی چلے گا۔ تاہم آئینِ پاکستان کے تحت صدر کی بیماری یا غیر موجودگی میں معاملات قومی اسمبلی کے اسپیکر کے سپرد کردیے گئے۔ اسپیکر قومی اسمبلی عبدالجبار خاں نے حکومتی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے، وہ بھی اس طرح کہ حکم کمانڈر انچیف کا ہی چلتا رہا۔
کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد ایوب خان ایک مرتبہ پھر منظرعام پر آئے اور جشن صحت یابی منایا گیا۔ اخبارات میں وزارتوں کی جانب سے بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوئے۔
مگر یہ صحت یابی بھی زیادہ دن قائم نہ رہ سکی اور ملک میں احتجاجی تحریک نے زور پکڑلیا۔ مہنگائی کے خلاف عوامی ردعمل شروع ہوگیا، چینی کا بحران اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا اور ’’ایوب خان چینی چور… کرسی چھوڑ‘‘ کے نعرے لگنے شروع ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی جماعت تو بنا ہی چکے تھے مگر اُن کو کسی بڑے سیاسی حادثے کا انتظار تھا کہ جو اُن کو کسی طرح راتوں رات آسمان کی بلندیوں تک لے جائے۔ وہ موقع بھی جلد ہی مل گیا۔ 21 اپریل 1968ء کو سندھ میں جلسے کا اعلان ہوا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو خطاب کرنا تھا، لیکن اس جلسے کی اجازت نہیں ملی۔ چنانچہ بہت بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکنان نے جمع ہوکر ہلڑ بازی شروع کردی۔ انتظامیہ نے روکنے کی کوشش تو کی مگر بھٹو نے کامیاب جلسہ کیا اور اس میں ایوب خان کو تاشقند کے حوالے سے خوب رگڑا لگایا، ایوب خان کی تمام پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی اور ایوب خان سے کرسی چھوڑدینے کا مطالبہ بھی کردیا۔
اس کے ساتھ ہی ایوب خان کے خلاف ایک فضا بنتی چلی گئی۔ ایوب خان نے حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر گول میز کانفرنس کا اعلان کیا اور 26 فروری 1969ء کو اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی کے اراکین، شیخ مجیب اور ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان شریک ہوئے۔ جبکہ مولانا بھاشانی اور بھٹو نے شرکت سے معذرت کرلی۔ ابتدائی گفتگو کے بعد اجلاس اگلے مہینے یعنی مارچ تک ملتوی کردیا گیا۔
اس دوران یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمن، بھٹو اور بھاشانی سب نے اپنے اپنے پتے کھیلنے شروع کردئیے۔ اندرونِ خانہ ایک کھچڑی تیار ہونے کو تھی۔ ایوب خان شیخ مجیب کے ہر مطالبے کے آگے سرنڈر کرتے جارہے تھے۔ مذاکرات کے اصل محور شیخ مجیب تھے۔ ان کو رام کرنے کے لیے ایوب خان نے ہارون خاندان کے یوسف ہارون کو گورنر بنادیا جو کہ شیخ مجیب کے ساتھ خاندانی مراسم رکھتے تھے۔ مگر بھٹو اور ہارون فیملی کے آپس میں تعلقات بہت خراب تھے۔ یہ بات بھٹو صاحب کو پسند نہیں آئی۔ پارلیمانی نظام، بالغ حق رائے دہی بھی تسلیم کرلیا گیا، ون یونٹ ختم کرکے دفاع، امور خارجہ و دیگر مطالبات ماسوا ئے کرنسی کے مطالبے کے، سب ہی مان لیے گئے تھے۔ شیخ مجیب بھی کسی طور پر اس بات پر خوش تھے۔ اس دوران ایوب مخالف ٹولے نے عسکری ہیڈ کوارٹر میں ایوب خان کا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا اور بھٹو بھاشانی گٹھ جوڑ نے اس معاملے کو خراب کرنے کے لیے تشدد کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ بھاشانی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جو لوگ انتخابات میں حصہ لیں گے ان کے گھروں کو آگ لگا دی جائے گی۔ بھاشانی کے کہنے پر مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کے مکانات کو آگ لگا دی گئی۔ خاص طور پر بتی پور کے علاقے میں غیر بنگالیوں کو دیوار سے لگاکر ان کے ہاتھوں اور جسم پر کیلیں ٹھونک کر انہیں لٹکایا گیا۔ کئی افراد کی کھال ان کے جسم سے علیحدہ کردی گئی۔ سفاکی کا ایسا مظاہرہ اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ اس مشتعل ہجوم نے ڈھاکا ائیرپورٹ کا محاصرہ کرلیا اور وہ کسی جہاز کو نہ ہی اترنے دیتے تھے نہ ہی اڑنے۔ حالات اس قدر خراب ہوئے کہ مشرقی پاکستان کے گورنر منعم خان نے دو ماہ کی رخصت منظور کروائی اور کراچی آگئے۔ مشرقی پاکستان کا نظم و نسق عملاً معطل ہوچکا تھا۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں مولانا عبدالحمید بھاشانی پُرتشدد تحریک کو ہوا دے رہے تھے۔ کراچی کے مزدور بھی مشرقی پاکستان میں بھاشانی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جلاؤ گھیراؤ میں برابر کے شریک تھے۔ ان خراب حالات میں ایوب خان نے 25 مارچ 1969ء کو اقتدار سے الگ ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا اور اقتدار برّی فوج کے کمانڈر انچیف یحییٰ خان کے حوالے کردیا۔
(جاری ہے)

حصہ