ایمپائر کا فیصلہ …. آخری اور حتمی

327

ابنِ عباس
’’راجو بھائی آج کی نسبت ماضی میں ہونے والے انتخابات میں خاصی گہما گہمی ہوتی تھی، تقریباً سارے ہی امیدوار گلیوں محلوں، یہاں تک کہ ایک ایک گھر جاکر اپنی اپنی انتخابی مہم چلایا کرتے تھے۔ دورانِ انتخابات ہماری کیفیت بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی سی ہوتی تھی۔ اسی بنا پر ’’زندہ باد زندہ باد‘‘ اور ’’جیتے گا بھئی جیتے گا…‘‘ جیسے نعرے لگا لگا کر ہمارے گلے بیٹھ جاتے تھے۔ یہ بچپن بھی خوب ہوتا ہے،کم عقلی میں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جو کچھ بھی ہم کررہے ہیں اُس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے۔ بس جو بھی من میں آئے، کیے چلے جاتے ہیں۔ شاید اسی کا نام بے وقوفی ہو! جو بھی ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ ہم نے انتخابات میں جس جماعت کی بھی حمایت کی… پڑھے لکھے امیدوار ہونے کے باوجود وہ جماعت ہمیشہ ہی ہاری۔ انتخابات لڑنا اور لڑانا نہ جانے کون سا فلسفہ یا راکٹ سائنس ہے جو ہمارے بھیجے میں آج تک نہیں بیٹھی۔‘‘
’’یار منے اس بات کو یوں سمجھ، ایک زمانہ تھا جب ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ٹیپ بال کرکٹ کو نیا نیا عروج حاصل ہوا… نائٹ میچ ہو یا علاقائی بنیادوں پر ہونے والے ٹورنامنٹ… ہر جگہ کرکٹ ہی دیکھنے کو ملتی۔ دوستوں میں سے جس کے پاس بھی پیسے ہوتے وہی کرکٹ ٹیم کا کپتان ہوتا، یعنی ایک عدد گیند اور بلاّ خریدنے کی سکت رکھنے والا شخص ہی ٹیم کا کپتان بنایا جاتا۔ ظاہر ہے گیند بلّے کے بغیر کرکٹ کھیلنا تو درکنار، اس کا تصور کرنا بھی دیوانگی سے کم نہ تھا۔ لہٰذا ساری ہی ٹیم گیند اور بلے کے مالک کو اپنا لیڈر تسلیم کرلیتی۔ کرکٹ سے ہمیں جنون کی حد تک محبت تھی، یہی وجہ تھی کہ ہم آئے دن کسی نہ کسی حوالے سے کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کراتے رہتے تھے۔ ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی آٹھ ٹیموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جاتا، فائنل جیتنے والی ٹیم کو کیش کی صورت بڑی رقم ملتی، ہر ٹیم کو رجسٹریشن فیس ادا کرنا ہوتی، اسی لیے ٹورنامنٹس کا انعقاد ہمارے لیے نفع کا سودا ہوا کرتا۔ گھر میدان سے قریب ہونے کی وجہ سے ہمیں نہ صرف زیادہ ٹورنامنٹ کرانے کا اعزاز حاصل رہا بلکہ زیادہ تر فاتح بھی ہم ہی رہتے۔ ہماری ٹیم کی کامیابی میں تحریر کردہ اُس ضابطۂ اخلاق کا بڑا اہم کردار ہوتا جس کے ذریعے دوسری ٹیموں کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے، مثلاً ٹورنامنٹ ضابطۂ اخلاق کے مطابق کسی بھی ٹیم کو ٹورنامنٹ آرگنائزنگ کمیٹی سے بحث یا اختلاف کرنے کی اجازت نہ ہوتی، ایمپائر کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوتا، میدان میں پندرہ منٹ دیر سے آنے والی ٹیم کو میچ کھیلنے کی اجازت نہ ہوتی، جبکہ اس کے مدمقابل ٹیم میچ کھیلے بغیر ہی فاتح قرار دے دی جاتی۔ ہماری کامیابی کا دوسرا ہتھیار یہ ہوتا کہ ہم علاقے کے سارے ہی نامور کھلاڑیوں کو پیسے کا لالچ دے کر اپنی ٹیم میں شامل کرلیتے۔ جب ٹورنامنٹ کمیٹی اپنی ہو اور کھیل کا ضابطۂ اخلاق بھی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق بنایا گیا ہو، اس پر ایمپائر بھی کمیٹی کا وفادار ہو، ایسی صورتِ حال میں کس کی جرأت کہ کوئی ہم سے ہمارے ہی میدان میں ٹورنامنٹ تو درکنار ایک میچ بھی جیت سکے! خیر، جوں جوں وقت گزرتا گیا ایک ایک کرکے تمام ہی ٹیمیں گیند اور بلے کے نام پر ہونے والی پری پول رگنگ کو سمجھتی گئیں، آخرکار پھر وہ وقت آگیا جب ہماری ٹیم تو رہی، لیکن ہم سے کھیلنے والا کوئی نہ رہا۔
منے میاں! یہ سارا قصہ تمہیں سنانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ تم انتخابات میں سیاسی گہما گہمی نہ ہونے سے پریشان نہ ہو۔ اسے سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ ملک میں ہونے والے انتخابات کے ماحول کو سمجھنے کے لیے جو کچھ بھی میں نے کرکٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے بتایا ہے اُس کو اسی تناظر میں دیکھ لو، ساری بات سمجھ میں آجائے گی۔ میں اپنی بات کی سچائی میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ تمام ہی سیاسی جماعتیں سوائے ایک جماعت کے، 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات پر اپنے اپنے تحفظات کا برملا اظہار کررہی ہیں،کوئی کہہ رہا ہے کہ دفعہ 144 لگا کر ہمیں ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ دوسری طرف ایک جماعت کو دفعہ 144کے باوجود جلسے کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی، اس خلاف ورزی پر نہ تو انتظامیہ حرکت میں آئی اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو کچھ دکھائی دیا… کارروائی کرنا تو دور کی بات، کاغذی نوٹس تک نہ دیئے گئے۔ کہیں سے آواز آرہی ہے کہ ہمارے امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لیے نہ صرف دباؤ ڈالا جارہا ہے بلکہ پارٹی ٹکٹ واپس کرواکر زبردستی جیپ پر چڑھایا جارہا ہے۔ کوئی خودکش دھماکوں کی وجہ سے سوگوار ہے، تو کوئی غیر آئینی وغیر قانونی طور پر ہراساں کیے جانے کا الزام لگاتا دکھائی دے رہا ہے۔ کسی کو سیکورٹی رسک قرار دے کر میدانِ سیاست سے فارغ کیے جانے کا دکھ ہے، تو کہیں سے کسی ایک مخصوص شخصیت کے لیے غیر معمولی سیکورٹی کے فول پروف انتظامات پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ کسی کے دو لفظ بولنے سے قانون حرکت میں آجائے، کوئی غیر اخلاقی طور پر انسانوں کو جانوروں کے ناموں سے پکار کر بھی اخلاقیات کے دائرے میں ہی رہے۔ کوئی کراچی کو کرانچی کہے تو شور مچوا دیا جائے، کسی کی جانب سے انسانوں کو زندہ لاش کہہ دینا بھی کوئی جرم نہیں۔بقول اجمل سراج:

سب کے سب دھمکیوں کی زد میں ہیں
خوف بن کوئی بھی نہیں رہتا
خان صاحب بچے ہوئے ہیں فقط
کوئی بھی ان کو کچھ نہیں کہتا

منے بھائی! یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ سنا ہے میڈیا ہاؤسز پر بھی ہوا کا خاصا دباؤ ہے، کئی باضمیر اینکر پرسنز نے اپنے پروگرام بند کردیے ہیں۔ اصل میں میڈیا مالکان کے گھر کچے ہوتے ہیں، وہ تیز ہوا کا دباؤ کہاں برداشت کرسکتے ہیں! اسی لیے تو ایک جماعت بلیک آؤٹ کا نعرہ لگاتی پھر رہی ہے۔‘‘
’’راجو بھائی جو کچھ بھی آپ نے کہا سب سمجھ میں آگیا ہے۔ میں آپ کی جانب سے اٹھائے گئے نکات بتاتا ہوں۔ آپ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف، پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ، ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار، اے این پی کے صدر اسفندیار ولی، متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پائو اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اُن بیانات کا ذکر کررہے ہیں جن میں وہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی جانب اشارہ کررہے ہیں، جبکہ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جس کے لیے آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔
راجو بھائی، اگر اس ساری صورت حال کو آپ کی پیش کردہ کرکٹ اصطلاح کی کسوٹی پر رکھا جائے تو پھر عمران خان ہی وزارتِ عظمیٰ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ دھرنے سے لے کر آج تک یہ وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جو ایمپائر کی انگلی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ انتظامیہ پر عمران خان کی مدد کرنے کا الزام تقریباً ساری جماعتوں کی جانب سے لگایا جا رہا ہے، جبکہ ایمپائر سے قربت خان صاحب کی تقریروں سے ظاہر ہوتی ہے، باقی پیچھے کیا رہ جاتا ہے!
پھر ہمیں بھی چاہیے کہ اس بات کو مان لیں کہ تبدیلی آرہی ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں منے میاں، اپنے مطلب کے معنی نہ نکالو۔ تم یہ بھول گئے کہ میں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہماری ٹیم تو باقی رہی مگر ہمارے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہ رہا۔ لہٰذا 25جولائی کا انتظار کرو، سب سامنے آجائے گا۔‘‘

حصہ