انتخابات اور پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل

850

پروفیسر خورشید احمد
قومی زندگی میں انتخابات ہمیشہ ہی بنیادی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ انتخابات کو جمہوری نظام کے وجود اور ارتقا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس ذریعے سے عوام حکمرانی کے نظام کی صورت گری اور قیادت کی تبدیلی میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں، اور جن حکمرانوں کی کارکردگی سے وہ مطمئن نہیں ہوتے، انھیں نکال کر اپنی زمامِ کار بہتر لوگوں کے سپرد کر سکتے ہیں۔ دی اکانومسٹ نے جمہوریت کی اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑی جامع بات کی ہے کہ:جمہوریت، انتخابی عمل سے بھی برتر چیز کا نام ہے، جس کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہیں: آزاد عدالتیں، گروہی تقسیم سے بالاتر ریاستی افسران کی موجودگی، مضبوط ریاستی ادارے، قانون کی عمل داری کے ساتھ ساتھ شفاف حقِ ملکیت، آزاد ذرائع ابلاغ، آئینی نظم و ضبط اور احتساب کا خودکار نظام کہ جو ہرقسم کے تہذیبی و نسلی تعصبات سے بالاتر ہو، اور جس میں خصوصاً اقلیتوں کے لیے احترام و برداشت کا اہتمام ہو۔ یہ سب بجا، لیکن ووٹروں کا یہ اختیار اور صلاحیت کہ وہ متعین وقفوں کے بعد ایسے افراد کو اْٹھا کر سیاست سے باہر پھینک سکتے ہیں ، جو بددیانت اور بدعنوان ہیں، جمہوریت کی ناگزیر شرط اور وجۂ جواز ہے۔(دی اکانومسٹ، لندن، 24 اکتوبر 2016ء )
25 جولائی2018کے انتخابات پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہی تاریخی موقع فراہم کر رہے ہیں، جسے بھرپور انداز میں استعمال کرنا اہلِ وطن کی قومی اور دینی ذمہ داری ہے۔ حکومت پر تنقید بلکہ اس سے بے زاری، اپنے دْکھوں کے بارے میں اس کی بے حسی پر تڑپنا بجا، لیکن اصلاح اور تبدیلی کا راستہ محض شکایات کی تکرار اور آہ و فغاں میں نہیں ہے۔ اس کے لیے الیکشن کے موقعے پر صحیح اقدام اور مؤثر جدوجہد ضروری ہے۔اگر عام شہری اور ہر ووٹرصحیح وقت پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اس تاریخی موقعے پر ہم قوم کے ہرفرد سے پوری دل سوزی سے اپیل کرتے ہیں کہ سوچ سمجھ کر اور اپنے ضمیر اور ایمان کے مطابق، ہرمفاد، تعصب اور جانب داری سے بلند ہوکر ملک و قوم کے مفاد میں ایسی قیادت کو بروے کار لانے کے لیے بھرپور کوشش کریں، جو ملک و قوم کو اْس تباہی سے نکال سکے کہ جس اندھے گہرے کنویں میں نااہل اور مفاد پرست خاندانی قیادتوں نے انھیں جھونک دیا ہے اور جس کے نتیجے میں ملک اپنے نظریے، اپنی آزادی و خودمختاری، اپنی تہذیب و ثقافت ہی سے دْور ہی نہیں جارہا،بلکہ عوام کی زندگی بھی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔
ابتر معاشی صورتِ حال
ملک کے معاشی حالات بدسے بدتر ہورہے ہیں، عوام کی اکثریت مشکلات سے دوچار ہے اور چند ہزار خاندانوں کی دولت و ثروت میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔ ملک کی دولت ملک سے باہر جارہی ہے۔ عام انسان بدسے بدتر حالت کی طرف جارہا ہے۔ آج پاکستانی برآمدات 20 اور 22 ارب ڈالر سالانہ پر رْکی ہوئی ہیں ، جب کہ ہماری درآمدات 50 ارب ڈالر کی حد کو چھو رہی ہیں، اور تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر کی خبر لارہا ہے۔
ملک میں غربت کی شرح سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30فی صد اور حقائق کی روشنی میں 50 فی صد سے زیادہ ہے۔ 80 فی صد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں،40 فی صد سے زیادہ آبادی خوراک کے باب میں خودکفیل نہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں عوام کے بڑے حصے کو میسر نہیں۔ برآمدات میں مسلسل کمی آرہی ہے اور صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ زراعت کئی سال سے بحران کا شکار ہے اور حکمرانوں کو صرف اپنے اثاثے بڑھانے اور شاہانہ طرزِ حکمرانی کو فروغ دینے میں دل چسپی ہے۔
صرف پچھلے دس برسوں میں ملک پر قرض کا بار ڈھائی گنا ہوگیا ہے۔ 2008ء میں پاکستان 37ارب ڈالر کا مقروض تھا، جو2018ء میں 92ارب ڈالر کی حدوں کو پار کرگیا ہے۔ آج ہرنومولود بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض پیدا ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور12ماہرین کی تازہ ترین رپورٹ کی روشنی میں ہرسال تقریباً 51ارب ڈالر ملک سے سرکاری طور پر باہر بھیجے جارہے ہیں اور تقریباً اتنی ہی رقم سالانہ ہنڈی کے ذریعے باہر جارہی ہے۔ ملک کو لوٹنے اور عوام کو اپنے ہی ملک کے وسائل سے محروم کرنے کے جرم میں ایک جماعت نہیں، گذشتہ 40برس میں حکمران رہنے والی سبھی سول اور فوجی حکومتیں… اور خصوصیت سے گذشتہ دس برس کے دوران حکمرانی کرنے والی حکمران جماعتیں اور ان کی قیادتیں شامل ہیں:

بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے

انتخابات یا فیصلے کی گھڑی!
وقت کی سب سے بڑی ضرورت اس خودپسند، مفادپرست اور کوتاہ اندیش قیادت سے نجات حاصل کرنا ہے، جس نے ملک و قوم کو اس حال میں پہنچا دیا ہے۔ انتخاب کا موقع ہی وہ راستہ فراہم کرتا ہے جس پر قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ اور اپنے وسائل کولٹیروں سے واپس لینے اور خود اپنے تصرف میں لانے کا کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ اس فیصلے کی گھڑی میں ضروری ہے کہ قوم ایک ایسی قیادت کو سامنے لائے، جس کا دامن داغ دار نہ ہو، جو اسلامی نظریے پر یقین رکھتی ہو اور حقیقی، اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کو قائم کرنے کے جذبے اور صلاحیت سے مالا مال ہو۔ اگر قوم اس وقت اپنے اس اختیار کو استعمال نہیں کرتی تو محض روایتی آہ و بکا سے حالات ہرگز تبدیل نہیں ہوسکتے۔ یہ ہمارے اپنے مفاد اور ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کا تقاضا ہے اور یہی ان بے تاب روحوں کی پکار ہے، جنھوں نے تحریک ِ پاکستان کے دوران اپنے جان ومال اور عزت و آبرو کی قربانی دی۔ آج وہ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ پاکستان کو بچانے اور اس کو مقصد ِ وجود کے مطابق بنانے کے لیے بھی اسی طرح جدوجہد کریں، جس طرح اسے قائم کرنے کے لیے کی تھی۔
ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو اس کے صحیح حق داروں کو سونپنے کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے کہ ہم ایک شخص کو پاکستان کے اقتدار کی امانت کے باب میں امین تصور کرتے ہیں اور یہ امانت اس کے سپرد کر رہے ہیں۔ ووٹ کا غلط استعمال جھوٹی گواہی اور شرعی اعتبار سے امانت میں خیانت کے مترادف ہے، جس کے لیے دْنیا میں بھی ہمیں نتائج بھگتنا ہوں گے اور آخرت میں بھی جواب دہی ہوگی:
’’مسلمانو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے، اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (النساء4:58)
مذکورہ بالا معروضات کا حاصل یہ ہے کہ:
-1قومی انتخابات قومی زندگی میں ایک فیصلہ کْن لمحے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ووٹ کے صحیح استعمال کے ذریعے ہم اور آپ ملک میں حقیقی تبدیلی لاسکتے ہیں۔
-2 جمہوریت کے حقیقی فروغ کے لیے بہت سے اقدام ضروری ہیں جن میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق کی ضمانت اور پاس داری، دستوری اداروں کا استحکام اور اس میں طے کردہ حدود (check and balance)کا اہتمام، شخصی حکمرانی سے اجتناب اور اصول و ضوابط کی پابندی اور احترام کے ساتھ ریاستی ذمہ داریوں کی ادایگی اور امانتوں کی حفاظت بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے لیے مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد اور انتخاب کے موقعے پر ووٹر کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔
-3 ضروری ہے کہ ووٹر: (الف) اپنے حق راے دہی کو استعمال کرے۔ (ب) دوسروں کو بھی ترغیب دے کہ وہ نکلیں اور اپنی ذمہ داری ادا کریں، اور(ج) اس ذمہ داری کو اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ امانت داری سے استعمال کریں۔ خاندان، برادری، قومیت، گروہی عصبیت ، مفاد، ہر ایک سے بالاہوکر صرف ایک معیار پر فیصلہ کرے کہ پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کی خدمت کون سا فرد اور جماعت انجام دے سکتی ہے۔ ووٹ صرف اور صرف اس شخص اور جماعت کو دے، جو اپنے نظریے، کردار اور عملی کارکردگی (performance) کی بنیاد پر مطلوبہ معیار پر پورے اترتے ہوں، یا اس سے قریب تر ہوں۔ آزمائے ہوئے کو آزمانا کوئی دانش مندی نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں ووٹ کے استعمال کا تناسب بڑا غیرتسلی بخش ہے اور بدقسمتی سے برابر کم ہورہا ہے1970 کے انتخاب میں64 فی صد ووٹرز نے ووٹ کا حق استعمال کیا تھا۔1977میں یہ62 فی صد ہوگیا۔جو 1990ء کے عشرے میں کم ہوکر40 فی صد پر آگیا، یعنی نصف سے بھی کم، جب کہ اس زمانے میں بھارت میں یہ اوسط 60فی صد رہا ہے اور ترکی کے انتخابات (24جون 2018ء )میں یہ تناسب 87 فی صد رہا ہے۔ آج پاکستان میں نوجوان ووٹرز کا تناسب60 فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ کے لیے نکلیں، دوسروں کو نکالیں، تاکہ ووٹ کی قوت کو تبدیلی کے لیے مؤثرانداز میں استعمال کیا جاسکے۔
انتخابی مہم : مثبت پہلو
2018 کے انتخابات کے ماحول پر نگاہ ڈالی جائے تو ان میں سے کچھ مثبت اور کچھ منفی چیزیں سامنے آئی ہیں، اور دونوں ہی کی روشنی میں ووٹر کو متحرک اور صحیح کردارادا کرنے کے لائق بنانے کی صحیح حکمت عملی اور پروگرام کی ضرورت ہے۔ بمشکل چند ہفتوں پر مشتمل اس وقت میں تحریک ِ اسلامی کے کارکنوں کی ذمہ داری ہے کہ ایک ایک لمحہ اس فیصلہ کن مہم کے لیے وقف کردیں۔
٭ مثبت پہلوئوں میں ہماری نگاہ میں نوجوانوں کی بیداری اور متحرک ہونا سب سے اہم ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران میں نے یہی کیفیت دیکھی تھی۔ طالب علم اور نوجوان اس میں پیش پیش تھے۔ قائداعظم جو ہمیشہ طلبہ کو تعلیم کو اوّلیت دینے کی تلقین کرتے تھے، انھوں نے اس موقعے پر صاف فرمایا کہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا لمحہ ہے، اور اس موقع پر آپ تعلیم کو چھوڑ کر تحریک میں شرکت کریں اور نوجوانوں نے ان کی اپیل پر لبیک کہا۔ تقریباً دوتین مہینے ہم نے دن رات ایک کردیے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے نتائج بھی دکھائے۔ اگلے چند ہفتے بھی اسی طرح اہم ہیں۔
٭ دوسرا مثبت پہلو میڈیا کی نسبتاً آزادی اور سوشل میڈیا کا متحرک ہونا ہے۔ اگرچہ اس کے منفی پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جہاں کچھ پابندیوں اور دخل اندازیوں کے باوجود ماضی کے ہر دور کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور زیادہ آزاد ہیں، وہیں ان میں گروہ بندی اور مخصوص مفادات اور اشتہارات کا کھیل صاف نظر آتا ہے۔ ہمیں اس سے دل گرفتہ ہونے کے بجاے ، جو اور جتنا موقع میسر ہے، اس سے فائدہ اْٹھانا چاہیے۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی ایک بڑا مؤثر ہتھیار اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے نگران و محتسب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے محنت، شوق اور حکمت کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ جعلی، جھوٹی اور گمراہ کن خبروں یا اطلاعات کے طوفان کا مقابلہ بڑے بھرپور انداز میں دیانت اور دلیل سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اشتعال سے بچا جائے، دلیل کو برتا جائے، اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں بلکہ کلمۂ حق، توازن اور شائستگی سے دیا جائے۔ ان شاء اللہ سچ جھوٹ پر غالب ہوکر رہے گا۔
انتخابی مہم: منفی پہلو
اسی طرح جو چیز بڑی پریشان کن ہے، وہ بحث و گفتگو کی سطح، انداز اور سیاسی جوڑ توڑ کا وہ آہنگ ہے، جو گذشتہ چند مہینوں میں تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ انتخابات میں صرف چند ہفتے ہیں، مگر متحدہ مجلس عمل کے علاو ہ کسی ایک جماعت نے بھی ان سطور کے تحریر کیے جانے کے وقت (28 جون 2018ء ) تک اپنا منشور قوم کے سامنے پیش نہیں کیا ہے۔ ایک پارٹی نے منشور کی جگہ پہلے ایک سو دن کے پروگرام کا اعلان کیا۔ حالاں کہ سیاسی جماعتیں انتخابات سے پہلے منشور پیش کرتی ہیں اور کامیابی کے بعد کامیاب جماعت پہلے ۰۰۱ دن کا پروگرام دیتی ہے، لیکن اس مثال میں تو گھوڑا اور گاڑی دونوں گڈمڈ ہوکر رہ گئے ہیں۔
سیاسی قائدین کی تقریریں الزام تراشیوں سے پْر اور نظریے، پالیسی اور پروگرام کے ذکر سے خالی ہیں۔ جس سطحی بلکہ بازاری انداز میں تنقید اور مکالمہ ہو رہا ہے، اسے دیکھ ، سن اور پڑھ کر نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ جس رفتار اور انداز سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کی جارہی ہیں، اور پھر پارٹیوں میں اس کے نتیجے میں جس طرح کے ٹکرائو وجود میں آرہے ہیں، اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اْچھالی جارہی ہیں وہ نہایت تکلیف دہ مشاہدہ ہے۔ بڑے فخر سے کہا جارہا ہے کہ ’نظریاتی سیاست کا دور ختم ہوگیا اور اب سارا کھیل منتخب ہونے والے چہروں (electables )کا ہے‘ اس سوچ کی پذیرائی جمہوریت کے مستقبل کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔
ہم تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتوں سے دل سوزی کے ساتھ اپیل کرتے ہیں کہ قومی سیاست کو اس سطح پر نہ گرائیں کہ یہ طرزِفکروعمل جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرناک ہوگا۔ بحث کا محور ملک کے حالات اور اس کو درپیش چیلنج ہونے چاہییں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پالیسی اور پروگرام توجہ کا مرکز ہونے چاہییں۔ جن چیزوں پر قومی اتفاق راے پایا جاتا ہے ان ایشوز کو متنازع بنانا، یا انھیں محدود سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنا انتشار اور نقصان دہ نتائج کا باعث ہوسکتا ہے۔
ہربات کے کہنے کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے، جس کو نظرانداز کرکے بات کہنا بڑے نقصان کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ پارٹیوں کے اندر مشورے کی محفلوں کی باتوں کو پبلک میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے طشت ازبام کرنا، کسی مہذب معاشرے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے ہمیں نہ صرف تجسس اور بدگمانی سے منع کیا ہے، بلکہ محفل اور مجلس کی بات کو امانت سمجھنے کی تلقین بھی کی ہے اور تحقیق کے بغیر خبر پھیلانے کو افترا اور بدمعاملگی قرار دیا ہے۔ سورۃ الحجرات ان آداب کی تعلیم سے مالا مال ہے۔ یہ آیات اللہ کے احکام اور مسلم معاشرے کے آداب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آج ان ہدایات کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے، اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟
دو ناگزیر قومی تقاضے:
دو مسائل اور بھی ہیں، جن کی طرف ہم توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن ان پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ چندا اْمور کو واضح کردیں، جن کی حیثیت پاکستانی قوم کے لیے مسلمات کی ہے اور ان کو متنازع بنانا ملک وقوم کے لیے تباہ کن ہوگا:
٭ اس سلسلے کی سب سے پہلی چیز پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سیاسی و تہذیبی تشخص ہے۔ ہم دْنیا کے دوسرے تمام ممالک، بشمول اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے دوستی اور خیرسگالی کا رشتہ چاہتے ہیں، لیکن اسے برابری اور ایک دوسرے کے مکمل احترام پر مبنی ہونا چاہیے۔بین الاقوامی تعلقات میں برابری اور ادلے کا بدلہ (reciprocity) ایک مسلّمہ اصول ہے۔ دوسرا ملک بڑا ہو یا چھوٹا، ایک دوسرے کے احترام اور ایک دوسرے کے مفادات کے بارے میں حساسیت، وہ بنیادیں ہیں جن پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا: چاہے وہ امریکا ہو یا بھارت، سعودی عرب ہو یا ایران۔
٭ دوسری چیز پاکستان کی نظریاتی اساس اور شناخت ہے۔ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور اسی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے اور ان شاء اللہ رہے گا۔ اسلام جہاں توحید اور سنت نبویؐ کی بنیاد پر انفرادی زندگی کی تشکیل اور اجتماعی نظام کا قیام چاہتا ہے، وہیں انسانی حقوق کی پاس داری اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بھی مکمل ضمانت دیتا ہے۔ پاکستان کی اجتماعی زندگی کی بنیاد اسلام ہے اور تحریک ِ پاکستان میں ان مقاصد کو دو اور دو چار کی طرح بیان کردیا گیا تھا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ اور پاکستان کے ہر دستور نے، خصوصیت سے1973ء کے دستور اور خصوصیت سے 18ویں دستوری ترمیم‘ (8اپریل2010ء ) نے ان مقاصد اورحدود کو بڑی قوت سے واضح کر دیا ہے۔ غیرمسلموں کو ملک کے شہری کی حیثیت سے تمام بنیادی حقو ق حاصل ہیں، اور دستور کی بنیادوں اور اصول و ضوابط پر مبنی فریم ورک وہی ہے، جن پر مملکت قائم ہے۔ اس کے تمام شہری اس سے وفاداری اور اس کی اطاعت کے عہد کی بنیاد پر اس ملک کے شہری قرار پاتے ہیں۔ علمی گفتگو اور اختلاف زندگی کا حصہ ہیں، لیکن آزادی کے نام پر اجتماعی زندگی کی بنیاد پر تیشہ چلانے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ جو بھی اپنے کو پاکستان کا شہری کہتا ہے، اس کا فرض ہے کہ دستور کا پابند اور وفادار ہو۔ دستور یہ صاف اعلان کرتا ہے کہ ’’پاکستان عدل کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہوگی‘‘ اور ’’اسلام مملکت کا مذہب ہوگا اور قراردادِ مقاصد احکام کا مستقل حصہ ہوگی۔‘‘
اس کی روشنی میں دستور کی دفعہ۴ ہر شہری کو قانون کا تحفظ اور قانون کے مطابق سلوک کی ضمانت دیتی ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد دفعہ۵ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ: ’’مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے‘‘ اور یہ کہ ’’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری، خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہروہ شخص جو فی الوقت پاکستان میں ہو (واجب التعمیل) ذمہ داری ہے۔‘‘
ایک طبقہ بڑے سوچے سمجھے انداز میں پاکستان کی اساس کو مشتبہ بنانے، اور اس کے بارے میں متنازع سوالات اْٹھانے کی مذموم کوشش کر رہا ہے اور خصوصیت سے انگریزی پریس کا ایک حصہ یہ کام بڑے تسلسل کے ساتھ کر رہا ہے۔ اس ضمن میں یہ شوشا بھی چھوڑا جارہا ہے کہ ’اب نظریاتی دور ختم ہوگیا ہے اور مادی ترقی، زندگی کا اصل ہدف ہے‘۔ آزادیِ اظہار سر آنکھوں پر اور علمی بحث و مباحثہ کا دروازہ بھی ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے، لیکن ریاست کی بنیادوں پر تیشہ زنی اور انھیں پامال کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی۔
تحریکِ اسلامی کا فریضہ:
ان حالات میں دینی جماعتوں اور خصوصیت سے تحریک ِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ ایک صالح معاشرے کے قیام اور ایک صالح قیادت کو بروے کار لانے کے لیے مؤثر قومی اور کلیدی کردار ادا کرے۔ الحمدللہ، جماعت اسلامی کا دامن اس جدوجہد میں آج تک پاک رہا ہے۔ اس میں شخصیت پرستی اور موروثی سیاست کا کوئی وجود نہیں۔ جماعت کے اندر جمہوریت ہرسطح پر موجود اور مشاورت کا نظام قائم ہے۔ قیادت کا انتخاب ارکان کے آزادانہ انتخاب سے ہوتا ہے۔ غیر جانب دار محققین کے جائزے، اندرونی طور پر جماعت میں جمہوری اور شورائی نظام کی کارفرمائی کے معترف ہیں۔ حکومت یا حکومت سے باہر جہاں بھی جس حد تک بھی ذمہ داری اس پر آئی ہے، اس کے کارکنوں نے دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، صوبائی اسمبلی، صوبائی وزارتیں جہاں بھی ان کو ذمہ داری دی گئی ہے، ان کا ریکارڈ نمایاں اور بے داغ رہا ہے۔ جس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور مزید کی توفیق طلب کرتے۔
اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق گورنر اور مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر عشرت حسین کی تازہ ترین کتاب: Governing the Ungovernable: Institutional Reforms for Democratic Governmentابھی حال ہی میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔ اس سے دو اقتباس ہدیۂ ناظرین ہیں:
دو بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں، جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام مختلف اطراف (sideline) سے آکر سیاسی منظر پر غالب آجاتی رہی ہیں، لیکن یہ دونوں قومی سطح پر کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں۔ بہترین نتائج انھوں نے اس وقت حاصل کیے جب تمام کی تمام چھے مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے2002میں متحدہ مجلس عمل (MMA) بنائی اور صوبہ سرحد میں انتخابات جیت کر حکومت بنالی، اور بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت میں شامل ہوگئی۔
فی الوقت جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی حکومت کا حصہ ہے، جب کہ جمعیت علماے اسلام وفاقی حکومت میں چند وزرا شامل کرانے میں کامیاب رہی ہے۔ جماعت اسلامی سب سے زیادہ منظم اور ضابطے کے تحت چلنے والی جماعت رہی ہے۔
افتخار ملک کے مطابق، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا امتیازی وصف ان کی ’موقع پرستی کی سیاست‘ رہی ہے، جہاں ذاتی مفاد کو باہم شادیوں اور کاروباری مہم جوئی کے ذریعے مستحکم کرلیا گیا اور نظریہ پچھلی نشستوں پر دھکیل دیا گیا، سواے جماعت اسلامی کے، جو کہ ریاست کو اسلامی بنانے کے نصب العین سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔
پاکستانی سیاسی جماعتیں اتحاد اور جوابی اتحاد بناتے ہوئے ان اخلاقی تقاضوں کا خیال نہیں رکھتیں۔ نسل در نسل حکومت کرتے، 50 کے قریب خاندانوں کے ذاتی مفادات نے، جنھیں باہمی شادیوں اور کاروبار نے استحکام بخشا ہوا ہے، ہمیشہ موقع پرستی کی سیاست کو مسلط کیا ہے۔ یہ نظریاتی اختلافات، مسائل کا جائزہ اور اس کے حوالے سے رویے کا تعین، اور نظریات کا مقابلہ سیاسی جماعتوں سے پہلو بچاکر گزر جاتے ہیں، سواے جماعت اسلامی کے، جو ریاست کو اسلامی بنانے کا واضح نصب العین سینے سے لگائے ہوئے ہے۔
کراچی کے سابق امیر جماعت اور کراچی کے سابق میئر نعمت اللہ خاں کے بارے میں ڈاکٹر عشرت حسین لکھتے ہیں:
جماعت اسلامی کے81سے89 سال کے بوڑھے میئر نعمت اللہ خاں، ایک ایسے ایمان دار فرد تھے جو زیرتکمیل کاموں کی مستعدی اور باقاعدگی سے نگرانی کرتے تھے، ان پر نظر رکھنے کے ساتھ لوگوں کی شکایات اور تکالیف کا ازالہ کرنے، اْن کی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، دانش مندی اور انصاف سے معاملہ کرتے تھے۔
اچھے لوگ بلاشبہ ہر جماعت اور ہرطبقے میں موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعتی اور گروہی عصبیت سے بلند ہوکر اصول، صلاحیت،کردار اور میرٹ کی بنیاد پر اچھی قیادت کو برسرِاقتدار لایا جائے، تاکہ زندگی کا نقشہ بدل سکے اور پاکستان کو صحیح معنوں میںایک جدید اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس سمت میں ایک مؤثر قدم اپنے ووٹ کے ذریعے25جولائی کو اْٹھایا جاسکتا ہے۔ آج پاکستان کو اْسی جذبے اور اسی نوعیت کی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے جیسی قائداعظم کی قیادت میں 1940-47ء میں مسلمانانِ پاک و ہند نے کی تھی۔ کیا پاکستانی قوم اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تیار ہے؟ مستقبل کا انحصار آپ کے اور ہمارے آج کے فیصلے پر ہے:

یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

اور:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

حصہ