اصل آزمائش ہی انتخاب ہے

279

افشاں نوید
پیدائش گٹھلی کے ذریعے ہو یا بیج کے ذریعے… دانے کے ذریعے ہو یا انڈے کے ذریعے… یا جانور بچے جنم دیں…
یہ سب مخلوقات اعلیٰ تعلیم وتربیت یافتہ ہوتی ہیں، ان کو ادارتی یا سماجی تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے اس درجے میں ان کو برتری ضرور حاصل ہے۔ مثلاً چڑیا کا تنہا بچہ انڈے سے نکلنے کے بعد پنجرے میں بند کردیں، وہ اسی طرح چہچہائے گا جیسے اس کی نسلیں۔ شیر کی تربیت کوئی کچھار نہیں کرتا، اور مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھاتا ہے!
سورہ النحل بتاتی ہے کہ شہد کی مکھی وحی کے ساتھ پیدا ہوتی ہے کہ اس کا وظیفۂ عمل کیا ہے۔ نہ ہی ان مخلوقات کو تربیتی ورکشاپس کی ضرورت ہے، نہ ریفریشر کورسز کی۔
شجر، حجر سب اپنے کاموں سے واقف ہیں۔
انسان جو اشرف المخلوقات ہے، وہ پیدائشی طور پر سماج کا محتاج ہے۔ اگر انسان کے ایک بچے کو بندروں کے بیچ چھوڑ دیں تو وہ اُن کی حرکات وسکنات کا تابع ہوجائے گا۔ اگر وہ کسی کو نہ سنے تو زبان کا استعمال سوائے غوں غاں کے کچھ بھی نہ کرسکے۔ سائنس کہتی ہے اگر چند سال وہ آوازیں نہ سنے تو اس کی سماعت ختم ہوجائے گی۔
انسان کی پیدائش اور تربیت کمزور مراحل سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا امتحان’’انتخاب‘‘ کی آزادی ہے۔ یہ ’’فریڈم آف چوائس‘‘ ہی اس کو اشرف المخلوقات بناتی ہے… بقیہ کسی بھی مخلوق کو یہ آزادی نہیں دی گئی۔
یہ انتخاب کی آزادی ہی سمتِ سفر اور ہدف متعین کرتی ہے۔ جن کا ہدف جنت کا حصول ہو اُن کا طرزِ زندگی بالکل جدا ہوتا ہے اُن سے، جو دنیا کے بندے ہوتے ہیں۔
آپ نکتہ اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ غیر مسلم ریاستیں ویلفیئر اسٹیٹس ہیں، وہاں ایمان داری اور اعلیٰ اخلاقی قدریں ہیں۔ درست … مگر وہی جو ریاست کے اچھے شہری اور ادارے کے کامیاب باس ہوتے ہیں، انفرادی زندگی میں ہم جنس پرستی کو فیشن اور ضرورت کے طور پر اپناتے ہیں۔ منشیات اور شراب کے بغیر ان کا دن نہیں گزر سکتا… نائٹ تھیٹرز ان کے سماج کی ضرورت ہیں۔
انتخاب کی یہ آزادی ہمارا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ہر وقت ہر جگہ دو راستے… انتخاب کا آپ کو کلی اختیار…
کل میرا بیٹا بولا: میں نے پوچھا ’’انکل ووٹ کس کو دیں گے؟‘‘ تو پڑوسی انکل بولے ’’مہاجر کا ووٹ مہاجر ہی کو جائے گا‘‘۔ میں نے کہا ’’انہوں نے تو ایک دوسرے کے جرائم کی چارج شیٹ خود کھول کر پیش کردی ہے پھر بھی آپ کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں!‘‘ بولے ’’بیٹا مجھ سے فنڈ لے لو، مجھے اپنے جلسے میں لے چلو، مگر ووٹ مت مانگنا، میں جھوٹ نہیں بول سکتا، کیونکہ میرا ووٹ مہاجر ہی کو جائے گا ورنہ مہاجر قوم تنہا ہوجائے گی۔‘‘
یعنی عصبیت کے جن بتوں کو اسلام نے توڑا، ہمارا پڑھا لکھا آدمی بھی اس بیمار سوچ میں مبتلا ہے کہ ملک سے بڑھ کر اپنا تشخص ہے۔
ستّر برس میں جب جب انتخاب کا موقع ملا ہم نے ’’انتخاب‘‘ کے بعد ٹھوکریں ہی کھائیں۔ اب بھی ہم شخصیت پرستی اور قوم پرستی کے بخار میں مبتلا ہیں۔
یہ ’’انتخاب‘‘ کی آزادی ہی تو خسارے میں ڈال دیتی ہے۔
وہ جو دانے،گٹھلی، بیج اور انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں شاید خوش نصیب ٹھیرے کہ انتخاب کی آزادی انہیں رسوا نہیں کرتی، تبھی تو حضرت عمر فاروقؓ نے چہچہاتی چڑیا کو رشک سے دیکھ کر فرمایا تھا کہ’’کاش عمر تیری جگہ ہوتا، حساب سے تو بچ جاتا۔‘‘
پھر 25 جولائی کو ایک ’’انتخاب‘‘ کا امتحان درپیش ہے۔ وقتِ دعا ہے، ہاتھ اٹھاتے ہیں کہ رب اس انتخاب کے مرحلے سے ہمیں سرخرو گزار دے۔ ہماری اسمبلیاں دیانت دار قیادت سے سج جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان ایک خواب کی تعبیر ہے
خوش حال اسلامی پاکستان ہمارا خواب ہے۔ الیکشن جیتنے یا ہارنے سے خوابوں کا کوئی تعلق نہیں… یہ جدوجہد پر یقین رکھنے والوں کا قافلہ ہے۔ خوابوں کی دنیا سجائے پھرتے ہیں یہ، اور ان کی تعبیروں کے لیے اکثر تو رات کی نیند بھی خود پر حرام کرلیتے ہیں۔
کل ادارۂ نورِ حق کے الیکشن کے لیے بنائے گئے اسٹوڈیو میں جانا ہوا، معلوم ہوا نوجوان پوری رات جاگ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا مانیٹرنگ، اپنی کوریج، اپنے نمائندوں کی مہم میں لگے ہوئے ہیں… اس لیے نہیں کہ ان کے نمائندے جیتیں گے تو ان کی روزی روٹی کا بندوبست کریں گے۔ بلکہ اس لیے کہ عدل کا نظام قائم ہوگا، ہر مظلوم کے ساتھ انصاف ہوگا، کسی کو اپنے حق کے لیے کشکول اٹھانا نہیں پڑے گا۔ اس خوش حال پاکستان میں راج حکمران نہیں، خلقِ خدا کرے گی…وہ خلقِ خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔
پھرکیا حرج ہے خواب دیکھنے میں…! ہمارے خواب ہی تو ہماری قدر متعین کرتے ہیں اور سمتِ سفر بھی۔
فراز کہتے ہیں…
خواب مرتے نہیں
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں
خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں، ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے بھی پھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے عَلم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نور ہیں
خواب سقراط ہیں
خواب منصور ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیاس کیوں ہمارا مقدر ہو؟
فون کیا تو جواب موصول ہوا کہ یہ ٹیوشن ٹائم ہے، وہ بچوں کو پڑھانے میں مصروف ہے۔ میں نے کہا فوری نوعیت کا پیغام دینا ہے، فون ماریہ کو دے دیں۔
پس منظر سے بچوں کے پڑھنے کی آواز آئی۔ کوئی بچہ پڑھ رہا تھا:
’’اک کوّا پیاسا تھا، دور دور تک پانی کا نام ونشان نہ تھا‘‘
اچھا… وہ کوّا ابھی تک پیاسا ہے؟ ہم نے چار عشرے قبل اسے اپنی درسی کتاب میں پیاسا دیکھا تھا۔ وہ کئی عشروں سے گھڑے کنارے اپنی قوتِ پرواز کو ناپ رہا ہے۔
ستّر برس کے عرصے میں نہ ڈیم بنے، نہ نہروں کے نظام پر توجہ…
ہمارے تو دریا سوکھ گئے۔ بھارت ڈیم پر ڈیم بنارہا ہے۔ حال ہی میں کشن گنگا ڈیم بنا، ہمارے پانیوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ ہماری تو اگلی نسلوں کی بقا کا سوال ہے… اگلی جنگ ہی پڑوس سے پانی کے مسئلے پر ہوگی، اصحاب الرائے یہی کہتے ہیں۔
آج اخبار کے صفحۂ اوّل پر اشتہار دیکھا کہ ایک ٹیلی فون کال کریں اور بھاشا و مہمند ڈیم بنانے کے لیے دس روپے عطیہ دیں۔ حکمرانوں کی نااہلی کے تابوت میں آخری کیل۔ قوم بلاشبہ قربانی دینے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹی… مگر حکمرانوں کے جو 97 ارب روپے سوئس بینکوں میں پڑے ہیں، یا انتخابی گوشواروں میں سیاست دانوں کے جو اربوں کے اثاثے سامنے آئے ہیں، اچھا ہوتا کہ ان سے لوٹی ہوئی دولت نکلوائی جاتی تو دو کیا دس ڈیم بن جاتے… ہمارے اگلے بیس، پچیس برس کے بجٹ ٹیکس فری ہوتے، بجلی فری ہوجاتی… اور نہ جانے کیا کیا اقدامات ہوجائیں اگر ان کی بیرونِ ملک کھربوں کی دولت واپس لائی جائے۔
اب ہم نوحے نہیں کریں گے…
اب کوئی کوّا پیاسا نہیں رہے گا، اب ایسا نہیں ہوگا کہ دور دور تک بستیوں میں پانی کا نشان نہ ہو۔
ہم سرسبز پاکستان بنائیں گے… ہرا بھرا پاکستان… ہر گھر میں بجلی، پانی ہوگا… تب کوّے کو دور دور سے کنکریاں نہیں ڈھونڈنا پڑیں گی۔
یہ خوددار قوم خوددار و دیانت دار نمائندے ایوانِ اقتدار میں بھیجے گی۔ باربار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانا ہماری مومنانہ شان کے خلاف ہے۔ ہمارے حکمران ڈیم بھی بنائیں گے اور اسکول بھی۔
پچیس جولائی… ہمارے ووٹ کی پرچی… ہمارا اسلامی، خوشحال مستقبل… کتاب کا مستقبل… الکتاب کی حکمرانی۔
منقول

آج کی شب تو کسی طور گْزر جائے گی
آج کے بعد مگر رنگ وفا کیا ہوگا
عشق حیراں ہے سرِ شہرِ سبا کیا ہوگا
میرے قاتل! ترا اندازِ جفا کیا ہوگا
آج کی شب تو بہت کچھ ہے، مگر کل کے لیے
ایک اندیشہ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد
رنگِ اْمید کِھلے گا کہ بکھر جائے گا
وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا
جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا
خواب کا شہر رہے گا کہ اْجڑ جائے گا

حصہ