اسلامی نظام حکومت

5810

سیدہ عنبرین عالم
اسلامی نظامِ حکومت ایک ایسا سوالیہ نشان ہے، جس کا مکمل جواب آج تک نہیں دیا گیا۔ کیا 1500 سال پہلے والا نظام مکمل طور پر نافذ ہوسکتا ہے؟ یا موجودہ دور کے مطابق تبدیلیاں کرنی پڑیں گی؟ یہ تبدیلیاں کس نوعیت کی ہوںگی؟ اور کس فرقے کے مطابق ہوں گی؟ ایک اسلامی جماعت کو ووٹ دیتے وقت ان تمام باریکیوں سے آگاہ ہونا ووٹر کا حق ہے۔
اسلامی نظام ایک انتظامی ڈھانچہ نہیں ہے کہ اسے جمہوریت، آمریت یا سوشلزم کی طرح نافذ کردیا جائے۔ اسلامی نظام کی بنیاد وہ تربیت ہے جو ہر آدمی کو انسان بناتی ہے۔ صرف قوانین نافذ کردیے جائیں تو اچھے سے اچھے قانون کا بھی کوئی نہ کوئی توڑ ہر مجرم نکال لیتا ہے، اور مجرم نہیں نکال پاتا تو مجرم کا وکیل کوئی نہ کوئی شق پیدا کر ہی لیتا ہے۔ اسی لیے اسلام جہاں مکمل طور پر انتظامی ڈھانچہ، قوانین اور اداروں کا نظام پیش کرتا ہے وہیں انسان کی بنیادی اخلاقی، روحانی اور معاشرتی تربیت کو بھی اوّلین اہمیت دیتا ہے۔ اگر حضرت عمر فاروقؓ کی تربیت میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں برسوں تک نہ ہوتی تو وہ کبھی خلیفۃ المسلمین کے مقام تک نہ پہنچ پاتے۔ لہٰذا اسلام سونے جاگنے کے اوقات سے لے کر بیت الخلاء جانے کے آداب تک اپنے ماننے والے کو پہنچاتا ہے۔ اگر یہ سب قبول ہے تو تم اس نظام کو قائم کر پائو گے، اپنے صبر اور استقامت سے اس کا نفاذ ممکن بنائو گے، اور اپنے اخلاص سے اس کو مستقل قائم رکھ سکو گے۔ اسلام کا کارکن نعرے باز، ہلڑ باز، لالچی اور اقتدار کا بھوکا نہیں ہے، وہ اپنے اندر اللہ کا عشق، رسولؐ کی اطاعت اور قرآن پر عمل جیسی صفات رکھتا ہے۔ اگر یہ سب ایک اسلامی کارکن میں نہیں ہے تو وہ اور دوسرے لوگ برابر ہیں، پھر آپ اسلام کا نام لے کر خود کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں۔
اس بنیادی تربیت کے لیے محلے کی سطح پر درسِِ قرآن کی روایت جماعت اسلامی کا طرۂ امتیاز رہی ہے۔ کراچی اور دیگر علاقوں کے زیادہ تر محلوں میں خواتین اور حضرات کے لیے قرآن پڑھانے کا اہتمام کیا گیا ہے جہاں ترجمہ، تفسیر اور دیگر مسائل پر بھی گفتگو رہتی ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ لوگوں کی دلچسپی دینی معاملات میں نہ ہونے کے برابر ہے اور ’’وقت نہیں ہے‘‘ کا بہانہ زبان کی نوک پر رکھا ہوتا ہے۔ لیکن دین کی ترویج کی جو ذمے داری میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبۂ حجۃ الوداع میں امت کے سپرد کر گئے تھے اس کو مسلسل نبھانے کا بیڑا جماعت نے عرصے سے اٹھا رکھا ہے، اور جس دن یہ تربیت ہر پاکستانی تک پہنچ گئی، ہر ایک قرآن کا تابعدار ہوگیا اور اسے سمجھنے لگا، وہی دن ہوگا کہ اسلامی نظام حکومت قائم کیا جائے، اس سے پیشتر ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ ممکن نہیں بلکہ اختلافات بھی نمودار ہوں گے۔ لہٰذا ہماری کوشش جاری ہے اور ہم مایوس بھی نہیں ہوتے۔ ہر بار نئی امید سے کوشش کرتے ہیں۔ اللہ ہماری مدد فرمائے۔
ایک اسلامی ماڈل میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، جہاں جدوجہد زیادہ نظر آتی ہے، اور ادارے اپنی خام صورت میں ہیں، لیکن بنیادی ماڈل یہی ہے۔ پھر ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت نظر آتا ہے جہاں ادارے ایجاد بھی ہورہے ہیں اور مستحکم بھی ہیں۔ لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ ادارے آج کے دور میں بھی ویسے ہی فائدہ مند ہوں گے؟ آج تقاضے اور رجحانات تبدیل ہوچکے ہیں، بہتر یہ ہے کہ دونوں ماڈلز ساتھ لے کر چلیں اور آج کی ضروریات بھی مدنظر ہوں۔
ایک اسلامی جماعت کو ووٹ اسی صورت میں اس قدر ملیں گے کہ وہ حکومت بنا سکے جب ایک ریاست کے زیادہ تر افراد اسلامی نظام حکومت اپنانے پر راضی ہوں، یعنی اسلامی جماعت کے پاس اسلام کے نفاذ کی مکمل طاقت ہوگی۔ اب آپ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ماڈل دیکھیے کہ ایک اسلامی نظام حکومت کے بنیادی اجزا کیا ہوں گے… ہمیں اس ماڈل میں تمام طاقت کا منبع اور تمام کارروائیوں کا محور و مرکز مسجد نظر آتی ہے جہاں سے بیٹھ کر اسلامی حکمران جنگوں کے قافلے بھی روانہ کررہا ہے، تعلیم و تربیت بھی کررہا ہے، عوام سے ملاقات بھی ہے اور مقدموں کے فیصلے بھی ہورہے ہیں۔ لہٰذا ایک اسلامی مملکت میں مسجد کو طاقتور اور بنیادی انتظامی بلاک بنانا ہوگا۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ نظامت اور بنیادی عہدے غلط لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں جائیں گے۔ ظاہر ہے جو مسجد میں بیٹھ کر کام کرے گا وہ کچھ تو کردار رکھتا ہوگا، اور کچھ نہ کچھ خوفِ الٰہی سے ہی کام کرے گا۔
اسلامی نظام حکومت میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ امانت، امانت داروں کے سپرد کردی جائے۔ یعنی صرف یہ نہ دیکھا جائے کہ یہ شخص پارسا ہے، اسلام کو سمجھتا ہے تو اسے خزانے کا قلم دان دے دیا جائے۔ نہیں، اُس کا اِس کام کا اہل ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ جو شخص جس شعبے کا ماہر ہو، اسے اسی شعبے میں لگایا جائے، یعنی تقویٰ کے ساتھ اہلیت اور قابلیت کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
اسلامی نظام حکومت میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں ہوتا، بلکہ عوام میں سے جو شخص چاہے اٹھ کر حکمران کا گریبان پکڑ سکتا ہے کہ فلاں کام تم نے کیوں کیا؟ لیکن بہرحال چوں کہ ہمارے پاس اپوزیشن، جمہوریت، مقننہ وغیرہ ایجاد کردیے گئے ہیں تو قوانین کی تکمیل میں مخالفت کا اندیشہ بھی موجود ہے۔ نقطہ یہاں پر یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی موجودگی میں نئے قوانین بنانا اور اُن کی مخالفت کرنا کہاں تک درست ہے؟ اگر اسرائیل صرف اپنی مذہبی کتب کی بنیاد پر قانون سازی اور فیصلہ سازی کرسکتا ہے تو یہ روایت ہم کیوں متروک قرار دیں؟ ہمارا دین زیادہ انسان دوست اور جدید ہے، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام حکومت میں ہر قانون کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے باقاعدہ اہتمام ہونا چاہیے۔ اور جب یہ ہوگا تو ایسے قوانین کے خلاف مخالفت کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا، جس کی وجہ سے انتشار اور آپس کی چپقلش سے نجات ملے گی۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماڈل میں ہمیں بیرونی ممالک سے تعلقات کا ایک اہم باب ملتا ہے۔ آپؐ خطوط لکھ رہے ہیں، وفود بھیج رہے ہیں اور جنگیں وغیرہ بھی جاری ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی طریقہ رہا۔ آج کے دور کے لحاظ سے ایک اسلامی حکمران کو اس لائق ہونا چاہیے کہ وہ تجارتی، سفارتی اور معاشی ضروریات کو دوسرے ملکوں کے ساتھ قوم کے فائدے کے مطابق نبھا سکے۔ دوست دشمن کے ساتھ کیسا رویہ رکھنا ہے، دفاعی اقدامات انتہائی پختہ ہوں اور میرے نبیؐ کی طرح تبلیغ بھی جاری رہے۔ ہمارا مقصد جہاں ایک طاقتور ریاست کا قیام ہے، وہیں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح دین کو پھیلانے کا کام بھی جاری رہے گا، یہ وہ سنت ہے جسے ترک نہیں کیا جاسکتا۔
میرے نبیؐ کے دور میں طریقہ تھا کہ مسجد جائو اور آپ کا مسئلہ حل۔ وہاں تمام اہم صحابہؓ بیٹھے ہوتے تھے۔ اسی طرز پر ہمیں سرکاری دفاتر اور اداروں کی کارگزاری کو بہتر بنانا ہوگا۔ ایک چھت کے نیچے ایک عام آدمی کے زیادہ تر مسئلے حل ہوجائیں اور تمام ذمے داران وقت پر کام کریں۔ عدالتی نظام، بجلی، پانی اور دوسرے بنیادی اداروں، اس کے علاوہ میڈیا اور بینکاری کے شعبوں میں صرف وقت کی پابندی اور ایمان داری کو اپنایا جائے اور رشوت ستانی سے پرہیز کو داخل کردیا جائے تو یہ ادارے مشرف بہ اسلام ہوجائیں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ماڈل میں ایک شعبہ منظم فلاحی اداروں کا بھی تھا، یعنی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہاں یتیموں کی کفالت کو اوّل درجے کی نیکی قرار دیتے ہیں اور یتیموں کو مخیر حضرات کے حوالے کرتے ہیں، وہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باقاعدہ یتیم خانہ بناکر سینکڑوں بچوں کی کفالت کا منظم اہتمام کردیتے ہیں، جہاں یہ سب بچے حکومت کی ذمے داری ہیں اور کسی کے رحم و کرم پر نہیں ہیں، اور مخیر حضرات یتیم خانے میں عطیات دے کر اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ اسی طرز پر اسلامی حکومت کو کئی جدید فلاحی ادارے بھی بنانے پڑیں گے جن میں اسپتال، جیل کے بچوں کی تربیت گاہیں، خطرناک اور لمبی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کے لیے ہاسٹلز، تنہا عورتوں کے لیے رہائش گاہیں، معذور لوگوں کی پناہ گاہیں وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی جو ادارے بن چکے وہ بن چکے، اب معاشرے میں مزید فلاح ہو، کوئی بے آسرا نہ رہے… یہ اسلامی حکومت کی بہت بڑی ذمے داری ہے، اس کے بغیر کوئی ریاست کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ پورا ملک ترقی کرجائے لیکن معذور سڑک پر بھیک مانگنے پر مجبور ہو تو یہ کامیاب ریاست کی شکل نہیں ہے۔
معاشی ترقی اسلامی نظام کی ایک اہم شق ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی نظام کی تکمیل کی یہ شکل بیان فرمائی کہ ایک تنہا عورت سونا اچھالتی ہوئی ایک کونے سے دوسرے کونے تک ریاست میں چلے اور اُسے کوئی خطرہ نہ ہو۔ جب تک یہ نکتہ نہ آجائے، اسلامی نظام نامکمل ہے۔ یہ نکتہ تین صورتوں میں آئے گا: ایک امن وامان، دوسرے معاشی استحکام، تیسرے عوام کی اخلاقی تربیت۔
اسلام جہاں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں معاشی استحکام پیدا کرنے میں کامیاب رہا، وہیں موجودہ دور میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب طالبان نے تھوڑا بہت اسلام افغانستان میں نافذ کرنے کی کوشش کی، تو فوراً ہی معاشی خوش حالی آگئی۔ جو قوم افیون کی کاشت کے بغیر چل نہیں سکتی تھی، اُس نے افیون کی کاشت کے مکمل خاتمے کے بعد ایسی خوش حالی دیکھی کہ قوم کی کوئی بیوہ عورت کام نہیں کرتی تھی بلکہ تمام بیوائوں کو بلا شرط وظیفے جاری کیے جاتے تھے، روزگار تمام لوگوں کو میسر ہوگیا تھا اور جرائم کی شرح اس قدر گر گئی تھی کہ پورا پورا سال پورے افغانستان میں ایک چوری بھی نہ ہوتی۔ یہ ہے اسلامی نظام حکومت اور اس کی رحمتیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ نظام کے ایک ایک نکتے کو لے کر پوری کتاب تحریر کی جاسکتی ہے، مگر ہم یہاں بات کو مختصر کرتے ہیں اور پہلا قدم اٹھاتے ہیں، یعنی اپنے آس پاس کے لوگوں کو اسلامی نظام حکومت کے فوائد بتانا، تاکہ زیادہ سے زیادہ رائے عامہ ہموار ہو اور یہ نظام نافذ ہوسکے۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ بیرونی سازشوں اور اندرونی دشمنوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ اسلامی جماعتیں الیکشن میں کامیاب ہوں اور اسلامی نظام قائم کیا جاسکے۔ ہمیں آپ کی بات سے اختلاف نہیں، واقعی صورتِ حال خراب ہے، لیکن ہمارا کام ہے کوشش کرنا۔ آپ اپنا ووٹ صحیح لوگوں کو دیں، آگے جو ہوگا اللہ مالک ہے۔ ہماری حیثیت اُس چڑیا کی سی ہے جو نمرود کی لگائی ہوئی آگ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچانے کے لیے اپنی چونچ میں پانی بھر بھر کر الائو پر ڈالتی رہی، کسی نے اُس سے پوچھا کہ تمہارے اتنے سے پانی سے کیا ہوگا؟ تو اُس نے کہا کہ اللہ لکھ لے گا کہ میں آگ بجھانے والوں میں تھی، آگ لگانے والوں میں نہیں تھی۔
میرے ساتھیو! الیکشن کا زمانہ ہے۔ ہر طور طریقے اور تہذیب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الیکشن جیتنے کی کوششیں جاری ہیں، ایسے میں ایک شخص جو اسلام کا نام لیوا ہے، اُس کا کردار اور عمل الگ سے نظر آنا چاہیے۔ ہم ہڑبونگ اور اُدھم نہیں کریں گے، ہم لڑائی جھگڑے اور نازیبا زبان کا استعمال نہیں کریں گے، ہم اپنی ذمے داریوں سے غافل نہیں ہوں گے، نہ گھر والوں کو کوئی شکایت ہوگی نہ محلے والوں کو، نہ کسی اور کو۔ نظر آنا چاہیے کہ ہم اسلام کے نام لیوا ہیں، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر چلنے والے ہیں، اور ہمارا مقصد واقعی نظام کی تبدیلی ہے، اقتدار کا حصول نہیں۔ ہمارے کندھوں پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمے داری رکھ دی ہے کہ پیغام کو آگے پہنچانا ہے۔
مایوسی کفر ہے، اسلامی نظام حکومت ایک نہ ایک دن آنا ہی ہے، آپ کے ہاتھ سے نہ سہی کسی اور کے ہاتھ سے سہی، لیکن یہ بات احادیث میں مرقوم ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا، میرے نبیؐ رحمت للعالمین تھے، اور ابھی اسلام پوری دنیا میں نہیں پھیلا، یعنی تکمیل باقی ہے۔ تکمیل ہوگی، کفر کی تمام چالیں ناکام ہوجائیں گی، قیامت سے پہلے تمام دنیا میں اسلام نافذ ضرور ہوگا۔ جب یہ یقین موجود ہے تو مایوسی کس بات کی! بس کوشش جاری رکھیں، ہم کو اپنی ہر کوشش کا اجر ضرور ملے گا۔ کامیابی شرط نہیں ہے، کوشش شرط ہے، اور الحمدللہ ہم کوشش کررہے ہیں۔

حصہ