اب کی بار دیانت دار قیادت

330

سید اقبال چشتی
پاکستان کا ہر وہ شہری جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چا ہتا ہے، وہ اس الیکشن میں زیادہ فکرمند ہے کہ 25 جولائی کے بعد پاکستان کرپشن سے پاک سیاسی قیادت کے ہاتھوں میں جائے گا، یا پھر اُن ہی کرپٹ عناصر کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہوگی جنھوں نے ملک کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا؟
الیکشن میں کچھ ہی دن باقی ہیں اور ہر سیاسی پارٹی عوام سے رابطے کررہی ہے اور اپنے کارنامے بتاکر عوام سے اپنے نمائندوں کو ووٹ دینے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ عوامی نمائندے گلی محلوں اور بازاروں میں جاکر عوام سے رابطے کررہے ہیں جس سے عوام بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان نمائندوں کا احتساب پچھلی کارکردگی کے حوالے سے سوالات کرکے کررہے ہیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کام کیا ہے؟ یہی وہ خوش آئند بات ہے جو عوامی شعور کے بیدار ہونے کی علامت ہے۔
پاکستان کے شہری تعلیم، صحت، پانی، بجلی اور مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں، 70 سال سے نام بدل بدل کر آنے والوں نے عوام کو صرف سبز باغ دکھائے ہیں۔ اقتدار کی مسند پر شیروانی والے رہے ہوں یا وردی والے، سب نے عوام کو مایوس کیا ہے، کیوں کہ عوام نے کبھی اپنی پارٹیوں کا احتساب ہی نہیں کیا کہ ہر بار اس حلقۂ انتخاب سے جیت جاتے ہو مگر عوام کو نہ معیاری تعلیم دیتے ہو اور نہ ہی صحت کے مسائل حل کرنے کے لیے اسپتال… نہ روزگار، نہ امن و امان۔ گزشتہ کئی سال سے لوگ اپنی پارٹی پر اندھا اعتماد کرتے تھے اور مسائل حل نہ ہونے کے باوجود آنکھ بند کرکے ووٹ دے دیتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے حکمرانوں اور بدعنوان قیادت کی وجہ سے مسائل بڑھنے لگے، عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوتا گیا کہ یہ کیا مذاق ہے کہ ہم اپنے لیڈروں کو پیار محبت دیں اور یہ اس کے بدلے میں محرومیوں کے تحفے دیں! گزشتہ تیس پینتیس سال میں کون سا شہر اور صوبہ ہے جسے تعلیم، صحت، روزگار، بجلی، پانی اور امن و امان کے لحاظ سے مثالی اور بہتر کہا جا سکتا ہو؟ یقینا جواب انکار ہی کی صورت میں آئے گا۔ خاص کر سندھ کے گزشتہ ادوار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سب سے زیادہ ناکام حکومت سندھ کی ثابت ہوئی ہے۔ اس صوبے میں رہنے والوں کی اکثریت غربت کی انتہائی نچلی سطح پر زندگی گزار رہی ہے۔ جانور اور انسان ایک ہی جوہڑ سے پانی پی رہے ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے روشنیوں کے شہر کو بھی تباہ و برباد کردیا ہے۔ شاید اس کی وجہ ان پارٹیوں کے ووٹر ہیں جو گندگی کے ڈھیر میں رہنے کے باوجود اپنی پارٹی کے سوا کسی اور کو آزمانے کے لیے تیار نہیں۔ پارٹی کے چاہنے والوں کے ساتھ غلط فیصلہ کرکے بدعنوان لوگوں کو اپنے سروں پر بٹھانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کراچی روشنیوں کے بجائے کچرے کا شہر بن گیا ہے۔ مگر کہا جاتا ہے کہ آخر کب تک؟ کبھی تو عوامی شعور بیدار ہوگا، اور اس الیکشن میں جو پارٹیاں سمجھتی تھیں کہ یہ علاقے ہمارے مضبوط گڑھ ہیں، انہی مضبوط گڑھ سے بغاوت کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ کراچی کے عوام کا آتش فشاں پھٹنے کے لیے تیار ہے۔ اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر بار بار دھوکا دینے والی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو عوامی غیظ وغضب کا سامنا ہے۔ ان پارٹیوں کو اپنے مضبوط گڑھ ہاتھ سے نکلتے محسوس ہورہے ہیں۔ لیاری کے عوام اسلام پسندوں کو پسند کررہے ہیں جنھوں نے اُن کے دکھ درد میں ان کے درمیان رہ کر ان کا ساتھ دیا۔ اس لیے ’’کتاب‘‘ کے نشان پر لیاری کے عوام کا اعتماد اس بات کی علامت ہے کہ نہ صرف لیاری کے عوام کی سوچ بدل رہی ہے بلکہ کراچی سمیت پورے پاکستان سے آوازِ انقلاب پر لبیک کہتے ہوئے آغازِ انقلاب کی طرف عوام نے قدم بڑھانے شروع کردیے ہیں۔
سیکولر اور لادین سیاسی قیادت نے اب تک اس ملک کو کیا دیا ہے؟ 70سال سے جو طبقہ برسر اقتدار ہے وہی کبھی چہرے بدل کر اور کبھی پارٹی بدل کر اقتدار کی مسند پر بیٹھتا رہا۔ اس دین بیزار ٹولے نے ملک کو لوٹنے کے سوا کوئی اور کام نہیں کیا۔ اس لیے جب دونوں بڑی پارٹیاں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئیں تو بڑے بڑے نام جن کی وجۂ شہرت کرپشن ہے، اور جو اپنی ذات برادری کی بنیاد پر الیکشن جیت جاتے ہیں، جن کو عرفِ عام میں اب ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کہا جاتا ہے، تحریک انصاف میں شامل کراکر اسٹیبلشمنٹ نے اسلام پسندوں کا راستہ روکنے کے لیے گیم کھیلا ہے۔ مگر عوام ان کو لوٹے کہہ کر مخاطب کررہے ہیں جن کی وجہ سے اُن کی پارٹیوں کی حکومتیں ناکام ہوئیں۔ اور جن کو خود عمران خان اپنی پارٹی میں آنے سے پہلے چور اور کرپٹ کہتے تھے، اُن کے ذریعے ملک کا نظام تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اب تو ان لیڈروں نے اپنی شکست سامنے دیکھ کر پاکستانیوں کو گدھے کہنا شروع کردیا ہے۔ ان رہنمائوں کی زبان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملک اور قوم کی کتنی ’’عزت‘‘ کرتے ہیں۔ اس لیے عوام کی بڑی اکثریت اسلام پسندوں کو ایک مو قع دینے کے لیے تیار ہے، کیوں کہ دنیا میں جہاں بھی کرپٹ حکمرانوں کی حکومت رہی انھوں نے ملک اور قوم کو مہنگائی اور بدامنی کے ساتھ غیروں کی غلامی کے تحفے دیے ہیں۔
مصر، جہاں ایک فوجی آمر کی حکومت ہے، جس نے اسلام پسند حکومت پر شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا، اپنے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ مگر مصر کے مقابلے میں ترکی، جہاں اسلام پسندوں کی حکومت ہے، انھوں نے ترکی کو دنیا کے نقشے پر ایک نیا مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ ترکی کے عوام نے کئی تجربات کیے۔ سیکولر حکمرانوں نے ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا تھا، مگر جب ترک عوام نے اسلام کی طرف رجوع کیا اور کرپشن سے پاک اسلام پسند سیاسی قیادت کا انتخاب کیا تو دنیا نے دیکھا کہ اسلام پسندوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل پر ملک اور قوم کو چند برسوں میں ہی ترقی کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا۔ یہ ترقی صرف ایمان دار اور دیانت دار قیادت ہی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اس لیے بدعنوان ٹولے کی عوامی مقبولیت کھونے کے بعد اپنے نظامِ حکومت کو سہارا دینے کے لیے سیکولر عناصر نام نہاد تبدیلی کے نام پر اپنا ہی کرپٹ نظام لانا چاہتے ہیں تاکہ کرپشن کی گاڑی چلتی رہے۔
’’اب کی بار دیانت دار قیادت‘‘ کا نعرہ ملک کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریات کا بھی تحفظ کرتا ہے۔ اور دیانت دار لوگوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہی پاکستان کی کشتی کو بھنور سے نکال سکتے ہیں، جن کو سینیٹ میں ایک ووٹ کے بدلے دس کروڑ کی آفر ہوئی لیکن ان پاک باز لوگوں نے ا پنے ایمان کے ساتھ ملک اور ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ کیا ایسے لوگ پاکستان اور آپ کو نہیں چاہئیں؟ یقینا پاکستان کی ترقی اور عوام کی بقا اسی میں ہے کہ اسلام پسندوں کو حکومت میں لایا جائے۔ اس کے سوا اب کوئی آپشن موجود نہیں ہے، کیوں کہ تجربات بہت ہوچکے، اگر پاکستان کے عوام ملک کو کرپشن کی دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے ووٹ دینا ہوگا۔ جو لوگ پاکستان کو بچانے کے لیے گھروں سے نکلیں گے یقینا وہ ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ کے قیام میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ مگر جو لوگ گھروں میں بیٹھ کر سہانے سپنے دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی آئے ملک کی بہتری کے لیے کام کرے، مگر ووٹ نہیں ڈالتے اُن سے گزارش ہے کہ آپ کے ووٹ نہ ڈالنے سے بدعنوان لوگ ہی اقتدار کی مسند پر پہنچتے ہیں جس کے بعد بدعنوان حکمران ٹولہ کرپشن کے سابقہ ریکارڈ بھی توڑ دیتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں 38 سے 40 فیصد ٹرن آؤٹ رہا تھا، یعنی 60 فیصد پاکستانیوں نے ووٹ نہ ڈال کر اس ملک کی تباہی میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ جس طرح اگر کسی کا بچہ سخت بخار میں مبتلا ہوجائے تو کوئی ماں جاء نماز بچھاکر بچے کو سامنے لٹا کر دعائیں نہیں کرتی، بلکہ دُعا اور دوا دونوں کے لیے بھاگ دوڑ کی جاتی ہے، ایک اسپتال سے اچھا علاج نہ ہو تو دوسرے اسپتال مریض کو لے جاتے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین جو ماں کا درجہ رکھتی ہے، 70 سال سے بیمار ہے اور اس کا علاج عوام کرپٹ عناصر سے کرا رہے ہیں۔ اس لیے اب اس الیکشن میں اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کو اسلام پسندوں کے حوالے کریں تاکہ اللہ کی کتاب اور رسولؐ کی سنت کو نافذ کیا جا سکے، اس لیے ’’اس بار دیانت دار…‘‘

خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

حصہ