برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

273

قسط نمبر145
(تیسرا حصہ)
ایوب خان کو جن مقتدر حلقوں نے حکمرانی کی مسند پر براجمان فرمایا تھا اب انہوں نے ہی ایوب خان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ چنانچہ ایوب خان کو تاشقند معاہدے کے ذریعے قوم کے سامنے بے آبرو کیا، اور متبادل قیادت کو پاکستان پیپلز پارٹی کے روپ میں سامنے بھی لے آئے۔
پاکستانی قوم کی ایوب خان سے نفرت اور ’’ایوب کتا۔ ہائے ہائے‘‘ کے نعرے… یہ سب ایک دن میں اچانک نہیں ہوگیا تھا، بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے۔
ان میں سرفہرست ایوب خان کی مشرقی پاکستانیوں بالخصوص بنگالیوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی پالیسی اور بنگالی سیاست دانوں کے ساتھ غیر مناسب طرزعمل، قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ قائدِ حزبِ اختلاف محترمہ فاطمہ جناح کو بدترین دھاندلی کے ذریعے عام انتخابات میں شکست سے دوچار کروانا، اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال پر اُن کی وصیت کے مطابق بھائی کے پہلو میں جگہ دینے کے معاملے پر لیت و لعل سے کام لیا۔ انتظامیہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کی تدفین مزارِ قائد میں نہ کی جاسکے۔
ایوب مخالف جذبات جو بہت پہلے سے اپوزیشن اتحاد کی بدولت ملک بھر میں پھیل چکے تھے، ان جذبات کو انتظامیہ نے ہر بار تشدد اور گرفتاریوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی، اور جیسے جیسے حکومت مظاہرین کو روکتی رہی اُن کے جذبات میں شدت آتی چلی گئی۔ صرف جنگ ستمبر 1965ء کے موقع پر متحدہ اپوزیشن نے ملک و ملت کی یک جہتی کی خاطر اپنے احتجاج کو روک کر ایوب خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور پھر دل و جان سے ایوب خان کو ہر ممکن اخلاقی مدد فراہم کی تاکہ دشمن اور عالمی برادری کو اتحاد و یک جہتی کا پیغام پہنچ جائے۔
محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بارے میں بھی عوام میں بے چینی کے جذبات تھے جس کے پیچھے متضاد خبریں تھیں، کہ محترمہ فاطمہ جناح کی موت طبعی نہیں تھی بلکہ انہیں ان کے بستر پر تشدد کرکے جان سے مارا گیا ہے۔
اس ضمن میں پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اور بانیٔ پاکستان محترم قائداعظم کے سیکریٹری جناب شریف الدین پیرزادہ کی اسلام آباد والی پریس کانفرنس کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ ’’محترمہ فاطمہ جناح کی موت طبعی نہیں تھی، بلکہ انہیں ان کے گھریلو نوکر کے ہاتھوں قتل کروا دیا گیا تھا، حالانکہ سرکاری سطح پر ان کی موت کا سبب دل کا دورہ بتلایا گیا۔‘‘
کتاب ’’ایک تاثر دو شخصیات‘‘ (مصنفہ سائرہ ہاشمی) میں بھی فاطمہ جناح کی موت کو قتل ہی قرار دیا گیا۔کتاب میں کہا گیا ہے کہ محترمہ کے گلے پر نشانات تھے اور ان کے بستر پر خون کے چھینٹے بھی تھے۔ اسی طرح کی خبر انتقال والے دن کچھ اخبارات نے بھی لگائی تھی۔
ممتاز صحافی اور محقق اختر بلوچ نے بھی اس حوالے سے تحقیق کی ہے، جس کے مطابق محترمہ کی موت کا سبب قتل یا تشدد تھا۔
شریف الدین پیرزادہ نے مزید یہ انکشاف بھی کیا کہ ’’محترمہ فاطمہ جناح انتقال والی شب ایک شادی میں گئی ہوئی تھیں جہاں سے واپسی میں بہت تاخیر ہوگئی اور گھر واپس پہنچ کر انہوں نے گھرمیں تالا لگایا اور چابی دراز میں رکھ کر حسب عادت سونے کے لیے چلی گئیں۔صبح کوجب وہ معمول کے وقت تک بیدار نہیں ہوئیں تو ان کی پڑوسن بیگم ہدایت اللہ نے پولیس کمشنر آف کراچی اور انسپکٹر کی موجودگی میں دروازہ کھلوایا اور انہیں مُردہ حالت میں پایا۔‘‘
شریف الدین پیرزادہ کہتے ہیں ’’قائداعظم کے بھانجے اکبر پیر بھائی نے ایوب خان سے کہا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا ہے، مگرتحقیقات کے لیے ان کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔‘‘
تدفین کے موقع پر بھی انتظامیہ کی جانب سے ہجوم کو بلا وجہ محترمہ کی میت سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی، جس پر صدمے سے دوچار شہری مشتعل ہوگئے اور ہلڑ بازی شروع ہوگئی۔ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی میں یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں قائداعظم کے پاس دفن کیا جائے۔ بقول مرزا ابوالحسن اصفہانی صاحب: اس وقت کی حکومت محترمہ کو میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی (ایم اے ایچ اصفہانی، انٹرویو 14 جنوری 1976ء، کراچی) جس کی مخالفت کی گئی اور کمشنر کراچی کو متنبہ کیا گیا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح کو قائداعظم کے مزار کے قریب دفن نہ کیا گیا تو بلوہ ہوجائے گا۔
بالآخر عوام کے مشتعل جذبات کو دیکھتے ہوئے رات دیر سے کمشنر کراچی نے اعلان کیا کہ تدفین وصیت کے مطابق اُسی جگہ پر ہوگی جہاں کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ چھ لاکھ سے زیادہ عورتوں، بچوں اور مردوں کا ایک سیلاب تھا جو قائداعظم کے مزار کی جانب بڑھ رہا تھا۔ راستے میں میت پر پھول کی پتیاں نچھاور کی جاتی رہیں۔ لوگ کلمۂ طیبہ، کلمۂ شہادت اور آیاتِ قرآنی کی تلاوت کررہے تھے۔ جنازے کا جلوس مزارِ قائد کے احاطے میں داخل ہوا۔ جیسے ہی میت کو بھائی کی قبر کے قریب رکھا جانے لگا، اچانک کچھ لوگوں نے جنازے کے قریب آنے کی کوشش کی۔ پولیس نے پُرامن طریقے سے انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا، آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ جوابی کارروائی میں پولیس پر پتھراؤ ہوا۔ پولیس کے کئی سپاہی زخمی ہوئے۔ ایک پیٹرول پمپ اور ڈبل ڈیکر بس کو آگ لگا دی گئی۔ ایک شخص اس حادثے کا شکار ہوا اور کئی بچے، عورتیں اور مرد زخمی ہوئے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی تجہیز و تکفین کے وقت عوام کو جنازے کے قریب نہیں جانے دیا گیا، یہاں تک کہ انہیں سپردِ خاک کرنے تک ان کے آخری دیدار کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ اس دوران جو آخری دیدار کرنا چاہتے تھے اُن پر لاٹھی چارج کیا گیا اور آنسو گیس پھینکی گئی۔
اخبارات میں یہ خبریں بھی آتی رہیں کہ محترمہ کو راستے سے ہٹانے کے لیے تشدد کے ذریعے قتل کروایا گیا ہے۔ یہ معاملہ اخبارات میں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا اور اداریے بھی لکھے گئے۔
(حوالہ: ’’قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا‘‘۔ مصنف،محقق اختر بلوچ)
محترمہ کے انتقال کے اصل سبب کو تو حکومتِ وقت نے دبا لیا تھا، مگر عوام اس معاملے پر ایوب کے خلاف ہوچکے تھے۔ ایک دو سال کے اندر اندر جذبات کا لاوا پھٹنے کو تیار تھا۔ پاکستان میں قیادت کی تبدیلی کا اشارہ مل چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی بناکر اپنے آپ کو ایوب کے مقابلے پر عوامی چوائس کے طور پر پیش کردیا تھا۔
ایسے میں امریکی سفیر اور امریکی اہلکار متواتر پاکستان کے دوروں پر آتے جاتے رہے۔ دارالحکومت میں بیٹھا ہر سرکاری افسر اور ہر غیر ملکی اتاشی اس بات کو سمجھ رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ طلبہ کی دائیں اور بائیں بازو کی تنظیمیں بھی ایوب کتا ہائے ہائے کہتے ہوئے میدان میں نکل چکی تھیں۔ بظاہر تو طلبہ نے تعلیمی فیس اور کرایوں میں اضافے کے مسئلے کو اجاگر کیا تھا، مگر عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی کو بہانہ بناکر ایوب کے خلاف اپنے جذبات نکال رہے تھے۔
29 جنوری 1968ء کی رات اردن کے شاہ حسین جو کراچی کے نجی دورے پر تھے، شام کو راولپنڈی پہنچے جہاں ان کے اعزاز میں صدر نے پرل کانٹی نینٹل میں ضیافت رکھی تھی۔ ضیافت پر جانے سے پہلے خلافِ معمول صدر ایوب نے خوب شراب پی۔ عام طور پر وہ وہسکی سوڈا ملا کر چند گھونٹ انڈیل لیتے تھے، مگر اس بار ایک ہی سانس میں پورا گلاس چڑھا گئے، اور یہی عمل دو تین بار کیا۔
اس کے بعد جب تقریر کا وقت آیا تو ان سے الفاظ کی ادائیگی نہیں ہورہی تھی۔ تقریب کے بعد وہ ایوانِ صدر پہنچے، اسی رات ان پر دل کا دورہ پڑا۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔
اسی رات کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان اور وزیر دفاع ایڈمرل اے۔آر۔ خان نے پریذیڈنٹ ہائوس کا مرکزی دروازہ بند کرواکر گارڈز کو حکم جاری کیا کہ چند مخصوص فوجیوں کے سوا کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس طرح ایوب خان کو ’’انتہائی نگہداشت‘‘ میں رکھ دیا گیا۔ عملاً کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان پاکستان کے اقتدار پر قابض ہوچکے تھے، تاہم سرکاری اعلان کے لیے کچھ مناسب ماحول درکار تھا۔
(جاری ہے)

حصہ