تبدیلی آرہی ہے

309

ابن عباس
’’ہر طرف ہماری پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے، اِس مرتبہ لوگوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ ’نیا پاکستان‘ بنا کر ہی رہیں گے۔ کرپشن، لوٹ مار، اقرباپروری اور رشوت کا خاتمہ ہوگا۔ بھئی اگر باکردار رہنما ہو تو منزل پر پہنچا دیتا ہے۔ 1992ء کے کرکٹ ورلڈکپ کی ہی مثال لے لو، جونیئر کھلاڑی ہونے کے باوجود عمران خان نے ورلڈ کپ جیت کر لوگوں کو نہ صرف خوشیاں دیں بلکہ ساری قوم کا سر فخر سے بلند کردیا۔ نیت اچھی اور جیت کا عزم ہو تو کامیابی مل ہی جایا کرتی ہے۔ ہم کام کرنے والے لوگ ہیں، ہماری پارٹی کو خیبر پختون خوا میں اقتدار ملا، ہم نے وہاں کا نظام بدل ڈالا، پولیس کو سیاست دانوں کے چنگل سے آزاد کرکے بااختیار بنایا، ایسا چیک اینڈ بیلنس کا نظام نافذ کیا جس سے پولیس گردی ختم ہوکر رہ گئی، ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کروڑوں پودے لگائے، ہسپتال بنائے، اسکول اور کالج بنائے، سڑکوں اور پلوں کا جال بچھا دیا۔ سب سے بڑھ کر صحت وتعلیم پر خصوصی توجہ دی، غریبوں اور بے روزگاروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے۔ ہمارے ترقیاتی منصوبوں کی بدولت آج پہلے والا کے پی کے نہیں، نیا کے پی کے وجود میں آگیا ہے۔ اب پاکستان کو بدلنا ہے۔ بس تھوڑا سا انتظار کرو، ہماری جیت کے ساتھ ہی فرسودہ نظام کا خاتمہ اور خوشحالی کے دور کا آغاز ہونے والا ہے… آئے گا اب عمران خان، بنے گا نیا پاکستان‘‘۔
’’میں نے نفسیات پڑھی ہوئی ہے، دورانِ تعلیم ہمیں بتایا جاتا تھا کہ انسان کے اعصاب اور چہرہ بتلا دیتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے یا کہ سچ۔ بعض جھوٹے افراد کے اعصاب بہت مضبوط ہوتے ہیں، اسی لیے وہ اپنا جھوٹ ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ دیکھا گیا ہے کہ ایک جھوٹا انسان ایک نارمل شخص سے زیادہ بولتا ہے، وہ غیر ضروری تفصیلات بیان کرتا ہے۔ اکثر جھوٹا شخص صاف کہنے کے بجائے اپنی بات کو گھماتا اور الجھانے کی کوشش کرتا ہے، جھوٹے سے اگر کچھ پوچھ لیا جائے تو اس پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے، جسے چھپانے کے لیے کبھی وہ اپنے سر، تو کبھی گردن کو حرکت دیتا ہے،کبھی اپنے چہرے اور کبھی گردن کو کھجاتا ہے۔ انسان اگر اپنے مؤقف میں سچا نہ ہو تو اُس کے چہرے پر تاثرات تاخیر سے ظاہر ہوتے ہیں اور اچانک غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ جبکہ سچے جذبات اظہار سے پہلے ہی چہرے پر آجاتے ہیں،اور دیر تک برقرار رہتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والے اپنی باتوں کا یقین دلانے اور نارمل نظر آنے کے لیے مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہیں، جبکہ حقیقی مسکراہٹ میں چہرے کے سارے اعصاب حصہ لیتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے زمانۂ طالب علمی میں جھوٹوں کے متعلق جو بھی پڑھا وہ آج کام آیا، جو پورے کا پورا تیرے چہرے پر لکھا دکھائی دیتا ہے۔ تحریک انصاف میں بھرتی ہونے کے بعد تُو نے کچھ سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ تُو نے جھوٹ بولنا ضرور سیکھ لیا ہے، ظاہر ہے جس کا لیڈر صبح کچھ اور شام کچھ کہتا ہو اُس کی جماعت میں جانے سے اتنا تو فرق پڑتا ہی ہے، شاید کسی شاعر نے یہ شعر تیرے اور تیرے لیڈر کے لیے ہی کہا ہے ؎

کچھ اور کام اسے یاد ہی نہیں شاید
مگر وہ جھوٹ بڑا شاندار بولتا ہے‘‘

کامل عرف برگر کی باتوں پر راشد نے یوں شاعرانہ تبصرہ کر ڈالا۔
یارکامل! مر کر خدا کو جان دینی ہے، کبھی تو سچی بات کرلیا کرواور اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگاخیبر پختونخوا میں کیا خاک تبدیلی آئی ہے ! قوم کو سب یاد ہے لوگ عمران خان کے ان بیانات کو بھلا کیسے بھول سکتی ہے۔ جوسنہری لفظو ں میں لکھنے کے قابل ہیں۔ فرمان عمران خان ہے ۔ افتخار چوہدری اس ملک کی آخری امید ہیں۔ نہیں ‘نہیں‘افتخار چوہدری دھاندلی میں ملوث ہیں۔ پرویز الٰہی پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو ہے۔ یوٹرن لیتے ہوئے فرمایا پرویز الٰہی کے ساتھ مل کر کرپشن کے خلاف لڑیں گے۔ شیخ رشید جیسے آدمی کو میں اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں۔ شیخ رشید اور ہماری سوچ ایک ہے۔ میرے پاس پینتیس پنچروں کی ٹیپ ہے۔ثبوت مانگنے پر کہا یہ سیاسی بیان تھا۔ انتہائی غصے میں کہا آف شور کمپنی رکھنے والے ہیں ۔ اپنی کمپنی یاد آنے پر بولے میںنے آف شور کمپنی اس لیے بنائی تاکہ ٹیکس بچاسکوں۔ کہنے لگے ہمارے پاس پاناما کے ثبوت ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا ثبوت دینا حکومت کا کام ہے۔ بنی گالا میں نے کائونٹی سے خریدا‘رقم کی تفصیل مانگنے پر فرمان جاری کردیا بنی گالہ جمائما نے طلاق کے بعد گفٹ کیا۔ عظیم جوڑی تھی جس کے درمیان طلاق کے بعد بھی تحفوں کا تبادلہ جاری رہا۔ ورنہ فضلو کی بیوی تو طلاق کے بعد گھر کاچولہا بھی ساتھ لے گئی تھی۔ اب ذرا خان صاحب کی زبان سے ادا ہوتے ان بیانات پر نظر بھی ڈال لے ۔ عمران خان صاحب نے فرمایا: ملکی سیاست پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے برادری سسٹم چل رہا ہے، موروثی سیاست کے ذریعے ملک کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے، اور اس کے ذمے دار برادریوں کو ووٹ ڈالنے والے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب پورے ملک میں تحریک انصاف کے نوجوانوں کی حکومت ہوگی۔
یہاں بھی قول و فعل میں تضاد۔ تیرے لیڈر کی جانب سے قومی اسمبلی کے 173 اور صوبائی اسمبلیوں کے 290 امیدواروں کی جو فہرست جاری کی گئی ہے، اُس پر جہاں دیگر سیاسی حریفوں نے تمہاری پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں تمہاری اپنی جماعت میں بھی اختلافات نظر آتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں صوبائی اسمبلی کے81 حلقوں، سندھ اسمبلی کے فی الحال21 حلقوں، بلوچستان اسمبلی کے23 حلقوں، اور پنجاب کے 165 حلقوں کے لیے جن امیدواروں کو انتخابی ٹکٹ جاری کیے گئے، تیری ہی جماعت پی ٹی آئی نے اُن میں سے بیشتر کے خلاف کرپشن اور عوام کا پیسہ لوٹ کر کھانے کا الزام عائد کیا تھا، اب انہی میں سے کئی سیاسی رہنمائوں کو پارٹی میں شامل کرکے ٹکٹ دے دئیے گئے ہیں۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے ان رہنماؤں کی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی حریف مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ نئے بھرتی کیے جانے والوں میں ایک نام ذوالفقار کھوسہ کا ہے۔ موصوف کا شمار سینئر سیاست دانوں میں ہوتا ہے، وہ 2012ء سے سینیٹر رہے اور سابق گورنر پنجاب بھی رہے۔ ذوالفقار محمد کھوسہ مسلم لیگ (ن) سے منسلک تھے اور پارٹی قیادت سے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے یکم جون 2018ء کو پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ جبکہ ان کے بیٹے اور سابق رکن صوبائی اسمبلی دوست محمد کھوسہ بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ شہریار ریاض کا تعلق بھی مسلم لیگ (ن) سے تھا، انہوں نے گزشتہ انتخابات میں پی پی12راولپنڈی سے الیکشن جیتا، لیکن اب پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔ سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو ملک کی محبت پاکستان کھینچ لائی، یہ بھی پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کی اولاد اب بھی لندن کی محبت میں گرفتار ہے، موصوف پہلے مسلم لیگ (ن) میں تھے اور اب پی ٹی آئی کا اہم ستون ہیں۔ گوجرانوالہ سے رانا نذیر احمد خان این اے 99 سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈر تھے لیکن اب نوجوان کھلاڑی بن گئے۔ اسی طرح خسرو بختیار مسلم لیگ (ق) سے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے۔ پارٹی قیادت سے اختلاف کو بنیاد بناکر جنوبی پنجاب کو حق دلوانے کا نعرہ لگاتے ہوئے پی ٹی آئی کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ اب جنوبی پنجاب صوبے کا کیا بنے گا ان کی بلا سے۔ اسی طرح کا ایک بڑا نام میر بلخ شیر مزاری کا ہے جو پہلے مسلم لیگ (ن) کا حصہ رہے، سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں، اسی لیے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کھلاڑیوں میں شامل ہوگئے۔ اب مظفرگڑھ چلتے ہیں جہاں سے ’’جوان‘‘ ہونے والے سردار محمد جتوئی ہیں جو پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈر تھے، لیکن پھر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ اسی طرح کر م داد واہلہ نے عام انتخابات 2013ء میں پی پی 219 خانیوال سے آزاد امیدوار کی حیثیت میں الیکشن لڑا اور مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے، لیکن عام انتخابات سے قبل اب اپریل 2018ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہ ہیں قیصر عباس خان مگسی، جو پی پی 264 لیہ سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے، اور اپریل 2018ء میں پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ راجن پور میں بھی کچھ اسی طرح کی صورت حال ہے، جہاں سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما جعفر خان لغاری مئی 2018ء میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ لالی برادران نے بھی مسلم لیگ (ن) سے کنارہ کشی اختیار کرکے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ ڈیرہ غازی خان سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار اختر جون 2018ء میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ ڈیرہ غازی خان سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار جاوید اختر بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے، سو انہوں نے بھی جون 2018ء میں تیری ہی جماعت پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی۔ سنتا رہ، ابھی تو خاصے نام باقی ہیں جنہوں نے تیری جماعت کے نعرے ’تبدیلی‘ کو خود تبدیل ہوکر عملی جامہ پہنایا۔ چکوال سے تعلق رکھنے والے سردار غلام عباس کا بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق تھا، انہوں نے حال ہی میں پی ٹی آئی جوائن کرلی۔ بہاولنگر سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما طاہر بشیر چیمہ مئی 2018ء میں پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ وہاڑی سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے طاہر اقبال چودھری نے بھی 2017ء میں پی ٹی آئی جوائن کی، اور مظفر گڑھ سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما باسط بخاری نے بھی اپریل 2018ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، اور فیصل فاروق چیمہ بھی مسلم لیگ (ن) سے پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔
فردوس عاشق اعوان نے سیاسی کیریئر کا آغاز مسلم لیگ (ق) سے کیا، 2008ء میں انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی، اور اب مئی2017ء میں انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ پی ٹی آئی نے عام انتخابات 2018ء کے لیے فردوس عاشق اعوان کو این اے 72 سیالکوٹ سے ٹکٹ جاری کر رکھا ہے۔ بابر اعوان جو1997ء سے پیپلز پارٹی سے منسلک تھے، 2017ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی۔ ندیم افضل چن کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا لیکن وہ اپریل 2018ء میں پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ صمصام بخاری نے بھی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔
اس کے علاوہ نذر محمد گوندل، نوریز شکور، غلام سرور خان، شہاب الدین، جمیل شاہ ، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری،اصغر علی شاہ، نور عالم خان اور لیاقت علی جتوئی اور عامر لیاقت حسین اس کے علاوہ عمر ایوب خان، چودھری شجاعت کے بہنوئی میجر طاہر، حامد ناصر چھٹہ، احمد شاہ جیسے رہنمائوں نے بھی تیری ہی جماعت میں شمولیت اختیار کی یہ ساری تبدیلی اور نوجوان امیدوار تجھے مبارک ان کے سہارے اگر نیا پاکستان بنا لو تو تم ہی اس میں رہنا اور ہمارے حوالے پرانا والا ہی کر دینا ہم اس کی ہی خدمت کر لیں گے۔

حصہ