برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

569

قسط نمبر 144
(دوسرا حصہ)
ایوب خان کے برے دن آچکے تھے۔ معاہدۂ تاشقند کے بعد ایوب خان کی شخصیت کا سحر بری طرح چکناچور ہوا۔ ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ کے مصداق درباریوں اور معتمدین سب نے آنکھیں پھیرنی شروع کردیں۔ اوائل 1967ء میں ایوب خان کے خلاف تحریک نے جنم لیا اور متحدہ حزب اختلاف وجود میں آئی، جسے PDM (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کا نام دیا گیا۔ اس اتحاد میں جماعت اسلامی، مسلم لیگ کونسل گروپ، عوامی لیگ (نصراللہ گروپ)، نظام اسلام پارٹی، اور این ڈی ایف شامل تھیں۔ یہ تحریک دراصل بحالیٔ جمہوریت کی تحریک تھی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر سیاسی قائدین نے ملک کے دونوں حصوں میں اپنے جوشیلے خطابات اور پُراثر دلائل سے ایوب خان کے خلاف تحریک بحالیٔ جمہوریت کو منظم کیا۔ اور معاہدۂ تاشقند کے بعد ہی ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایوب خان (جن کو وہ فرطِ محبت میں ’’ڈیڈی‘‘ کہتے تھے) سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے لیے علیحدہ شناخت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، اور1967ء میں ایوب خان کی پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی الگ پارٹی ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان کیا۔ حزبِ مخالف کے بعد ایوب خان کو لگنے والا یہ دوسرا بہت بڑا دھچکا تھا۔
بھٹو نے اپنی پارٹی کو منظم کرنے کی غرض سے پورے پاکستان کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا، اور لاہور میں دانش وروں… جن میں اخبار نویس، اساتذہ، وکلا، ادیب اور سرکاری ملازم شامل تھے… کا اجلاس بلایا۔ یہ آزاد خیال دانش ور اور صحافی ڈاکٹر مبشر حسن کی قیام گاہ پر جمع ہوئے، جن میں جے اے رحیم کے علاوہ ڈاکٹر مبشر حسن، رسول بخش تالپور، حنیف رامے، شیخ محمد رشید، حیات محمد خان شیرپاؤ، عبدالوحید کٹپر، معراج محمد خان، حق نواز گنڈاپور، بیگم شاہین رامے، ملک حامد سرفراز، اسلم گورداسپوری، رفیق احمد باجوہ اور امان اللہ خان وغیرہ شامل تھے۔
اس کے ساتھ ہی ایوب خان کے اقتدار کی کہانی اپنے منطقی انجام کی جانب دوڑنے لگی۔ ایوب خان کا سب سے بڑا سہارا امریکا تھا، مگر وہ بھی آنکھیں پھیر چکا تھا۔ ہرچند کہ ایوب خان کا تمام دور امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے میں ہی گزرا۔ 1953ء سے لے کر 1961ء کے درمیانی عرصے میں امریکا پاکستان کو مختلف امدادی پروگراموں کی آڑ میں پانچ سو ملین ڈالر سے زیادہ کی عسکری امداد دے چکا تھا، مگر اس امداد کے پیچھے امریکا کے اپنے مقاصد کا عمل دخل زیادہ کارفرما تھا۔
ہندوستانی وزیراعظم جواہرلال نہرو اس پر امریکا سے سخت ناراض دکھائی دے رہے تھے، مگر جب امریکی صدر آئزن ہاور نے اس بات کا یقین دلایا کہ پاکستان کو دی جانے والی عسکری امداد اور دفاعی مقصد کے لیے دیا جانے والا اسلحہ ہندوستان کے خلاف ہرگز استعمال نہیں ہوگا، تو جواہر لال نہرو کا اضطراب کچھ کم ہوا۔
امریکا نے اس امداد کے پردے میں چھپا اپنا پہلا مقصد حاصل کیا اور پاکستان نے امریکا کے ساتھ ساؤتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) معاہدے میں شمولیت اختیار کی، اور پھر 1955ء میں بغداد پیکٹ’’سینٹو‘‘ میں شامل ہوگیا۔
پاکستان پر ان عنایات کی وجہ سے ہی امریکی قیادت 1958ء میں ایوب خان کے مارشل لا کی مخالفت نہیں کرسکی۔ امریکا ایوب خان سے مزید کچھ اور کام لینا چاہتا تھا۔ امریکا کا پاکستان میں تجارتی اور معاشی مفادات کے ساتھ ساتھ جو اہم ترین مقصد تھا وہ یہ تھا کہ وہ کسی بھی طرح روس کے مقابلے پر پاکستان میں اپنے جنگی اڈے کھول سکے تاکہ روس پر نگاہ رکھنا آسان تر ہوجائے۔
مزید یہ کہ امریکا کی ارضیاتی ماہرین پر مشتمل ٹیم نے خاموشی کے ساتھ پاکستان کے ساحلی علاقوں خاص طور پر بلوچستان، مکران، یہاں تک کہ گوادر کا بھی خفیہ دورہ کیا اور ماہرین کی مدد سے حساس مقامات کے نقشے تیار کیے۔ (اس کی گواہی اور تفصیلات ’’شہاب نامہ‘‘ میں موجودہیں)
ان خفیہ کارروائیوں کی اجازت لینے کے مقصد سے 1959ء میں امریکی صدر ڈی وائٹ آئزن ہاور دو روزہ غیر سرکاری دورے پر پاکستان کے اُس وقت کے دارالحکومت کراچی تشریف لائے اور جنرل ایوب خان سے ملاقات کی، جس کے بعد امریکی صدر کراچی سے ہی افغانستان روانہ ہوگئے۔
امریکی صدر کے دورے کے جواب میں ایوب خان صدر کینیڈی سے ملنے ان کی دعوت پر امریکا کے دورے پر گئے اور بارہ ایف ایک سو چار لڑاکا طیاروں کی امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس دورے میں ایوب خان نے امریکا سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ امریکا ہندوستان کو کشمیر کے دیرینہ مسئلے کا کوئی حل نکالنے پر مجبور کرے۔
امریکا اور پاکستان کی یہ دوستی معمول کے مطابق چل رہی تھی کہ اچانک پاکستان ہندوستان کی جنگ شروع ہوگئی اور امریکا اس جنگ کی وجہ سے پاکستان سے سخت ناراض ہوگیا۔ اور یوں پاکستان اور ہندوستان دونوں کی امداد بند کردی گئی۔
اس سردمہری کی وجہ سے ایوب خان کو سخت دھچکا پہنچا، اور ایوب خان کے قریبی ساتھ اُن سے دور ہوتے چلے گئے۔ امریکی قیادت پاکستان میں ایوب خان کے مقابلے پر دوسرے مہرے کو تلاش کررہی تھی جو بااعتماد طریقے سے امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کا کام کرسکے۔ جیسے ہی امریکا نے ایوب خان کی پشت پر سے اپنا ہاتھ اٹھایا، ویسے ہی پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتِ حال بھی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی چلی گئی۔
ادھر پاکستان کے اندر تحریک بحالیٔ جمہوریت نے اپنے اثرات دکھانے شروع کیے اور جگہ جگہ ایوب خان کے خلاف مظاہروں میں شدت آتی چلی گئی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں حصوں میں ایوب خان کے خلاف ایک بھرپور عوامی مخالفت شروع ہوچکی تھی۔ ایوب خان نے ان مظاہروں اور عوامی احتجاج کو طاقت کے ذریعے دبانے کی ہر ممکن کوشش کی، اور خاص طور پر جماعت اسلامی کے قائدین پر مقدمات بناکر ان کو گرفتار کرنا شروع کیا۔ ایوب خان کے مشیران سمجھتے تھے کہ متحدہ اپوزیشن میں جماعت اسلامی تگڑی پارٹی ہے۔ ان کے خیال میں جماعت اسلامی کے قائدین کو گرفتار کرکے ایوب مخالف تحریک کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ بڑے پیمانے پر جماعت اسلامی کے کارکنوں اور قائدین کو جھوٹے مقدمات بنا کر گرفتار کیا جانے لگا۔ سال بھر کی اس صبر آزما جدوجہد میں جماعت اسلامی کے قائدین اور کارکنان عزم اور حوصلے کی چٹان ثابت ہوئے۔ ان کی استقامت دیکھتے ہوئے دیگر جماعتیں بھی اس اتحاد کا حصہ بننے پر آمادہ ہوگئیں، جن میں جمعیت علمائے اسلام، عوامی لیگ (شیخ مجیب گروپ) اور نیشنل عوامی پارٹی شامل تھیں۔
اس متحدہ اپوزیشن کی بڑھتی ہوئی قوت اور احتجاج کو دیکھتے ہوئے ایوب خان مجبور ہوگئے کہ ان سے مذاکرات کیے جائیں اور حزب مخالف کو رام کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ فروری 1969ء میں ’’گول میز کانفرنس‘‘ بلائی گئی جس میں متحدہ اپوزیشن کے تمام رہنما شریک ہوئے، ماسوائے شیخ مجیب الرحمن کے، جو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار ہونے کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے۔ جبکہ میاں ممتاز دولتانہ (مسلم لیگ کے سربراہ) نے شرکت سے انکار کردیا تھا۔ کانفرنس کا پہلا دور کسی نتیجے پر نہیں پہنچا، اور اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ شیخ مجیب کو رہا کرکے اس کانفرنس میں شریک کروایا جائے تب ہی کوئی بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ مارچ کے مہینے میں شیخ مجیب کو رہائی ملی اور کانفرنس کا دوسرا دور شروع ہوا، جس میں متحدہ اپوزیشن کے بالغ رائے دہی اور پارلیمانی نظام کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے۔
عجیب بات تھی کہ اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو اور عبدالحمید بھاشانی دونوں ہی کسی اور ایجنڈے پر کام کررہے تھے۔ اپوزیشن اور ایوب خان مذاکرات مناسب حل کی جانب جارہے تھے کہ بھٹو نے ایک جلسے میں ایوب خان سے استعفے کا مطالبہ کرڈالا۔ اس مطالبے کے ساتھ ہی بھاشانی نے مشرقی پاکستان میں جلاؤ گھیراؤ کا آغاز کردیا۔ ایسا لگتا تھا کہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھٹو، بھاشانی گٹھ جوڑ کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔ ایوب خان اپوزیشن کے مطالبات مان چکے تھے۔ مگر شیخ مجیب، بھٹو اور بھاشانی کسی اور ہی چکر میں تھے… انھوں نے اس متحدہ اپوزیشن کے مقابلے پر سیکولر قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی دعوت دے ڈالی۔ سیکولر بھاشانی نے لبیک کہا اور بھٹو کے ساتھ شامل ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے جلسے میں بھاشانی کو مغربی پاکستان بلایا اور پھر بھاشانی کے حامیوں نے پُرتشدد کارروائیاں کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے دفتر پر دھاوا بول دیا، اور دفتر کے سامان کو باہر نکال کر نذرِ آتش کرڈالا۔ اس سامان میں قرآن کریم کے نسخے اور دیگر اسلامی کتابیں بھی شامل تھیں۔ قرآن کی اس بے حرمتی پر اہلِ لاہور دم بخود رہ گئے۔ بھاشانی اس سے پہلے دھمکی بھی دے چکا تھا کہ ’’جب ہم عبدالصبور خان کے گھر کو جلا سکتے ہیں تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔‘‘
(جاری ہے)

حصہ