میں بھی وزیراعظم بنوں گا

526

ابنِ عباس
گائوں کے ایک بزرگ نے درختوں کی ٹھنڈی چھائوں تلے تاش کھیلتے نوجوانوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا شرم کرو۔ کچھ خدا کا خوف کرو۔ رمضان کے مہینے میں بجائے نماز روزہ کرنے کے تاش کھیل رہے ہو بزرگ کی بات سن کر ایک شخص بولا ’’ای روجہ کے ہووئے، مارے نجدیک تو دن بھر تاش کھیلو سام جمینوں کو پانی دے دو ای روجہ ہووئے، اب تو بتا کہ روجہ کے ہووئے‘‘ ارشد کی بات سنتے ہی کمرہ زور دار قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ خلیل بھائی کا تعلق پانی پت کرنال سے ہے۔ اپنی زبان میں سنائے جانے والے لطیفے پر غصے میں آ گئے، ا یسی بات نہیں نماز اور روزے کے بارے میں سب جانتے ہیں یہ تو اسلام کے بنیادی ارکان ہیں، لطیفہ بنانا ہے تو عمران خان پر بنائو جسے یہ بھی نہیں پتا کہ کس دربار پر سر جھکایا جاتا ہے۔ پیرنی نے جذباتی ہو کر مزار کی چوکھٹ پر سجدہ کیا۔ خان صاحب بھی سجدہ ریز ہو گئے۔ خان صاحب کو یہ بھی نہیںمعلوم کہ پیرنی سجدے سے کب دراز ہوئیں۔ وہ تو اس چوکھٹ سے وزارت عظمیٰ کی اُس گدی جس کے انتظار میں ان کی عمریا بیتی جا رہی ہے کا این ، او ، سی لینے گئے تھے ۔ یہ حکمرانی کا شوق بھی خوب ہوا کرتا ہے انسان کو ایک در پر جھکنے کے بجائے در در جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ہمیں تو لگتا ہے پیرنی صاحبہ مخالف پارٹی سے جا ملی ہیں ورنہ یورپ کی بھاشا بولتے خان صاحب کو کیا خبر کہ سجدہ کسے کہتے ہیں عاملوں کے چکر میں آ کر اس قدر چکرا گئے کہ انہیں اس بات کی بھی خبر نہ رہی کہ اگر وزارت عظمیٰ مزاروں اور خانقاہوں پر سجدہ ریز ہو جانے سے ملا کرتی تو ہر مزار پر مستقل بیٹھنے والے موالی ضرور کسی نہ کسی محکمے کے وزیر ہوتے۔ وزارت عظمیٰ سجادہ نشینوں کی ہی میراث ہوتی تو ملتان سے تعلق رکھنے والے شاہ صاحب کو ووٹ حاصل کرنے کے لیے یوںدر در نہ جانا پڑتا۔ خیر میرا مقصد کسی عقیدے کو چھیڑنا ہر گز نہیں نہ ہی میں اس بارے میں لب کشائی کرنا چاہتا ہوں۔ بزرگان دین نے تو ساری زندگی ایک اللہ اور اس کے رسول ؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی تبلیغ کی۔ دعوت دین کی تبلیغ کرنے کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑے، سختیاں برداشت کیں، ایک اللہ اور ایک رسول ؐ کو ماننے کا درس دیا، ان کی زندگیوں کا مقصد خالصتاً رب کی رضا تھا۔ ذرا برابر بھی دنیاوی عشرت و اقتدار یا دولت کا لالچ نہ تھا ۔
ان ہستیوں نے خود کو مٹا کر توحید کا پرچم بلند کیا ان کی جانب سے تبلیغ دین کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں میرا مقصد ان ہستیوں کی اسلامی خدمات پر بحث کرنا نہیں۔ میرا مسئلہ تو عمران کی جانب سے سجدہ کرنے کے بعد لوگوں کے ذہن میں اُٹھنے والے وہ سوالات ہیں جن کا جواب دینا عمران خان صاحب کی ذمہ داری ہے۔ مثال کے طور پر خان صاحب کے سیاسی کزن مولانا طاہر القادری کے ادارہ منہاج القرآن میں اہم ذمہ داریوں پر فائز علمائے کرام کی جانب سے آنے والے رد عمل کو ہی لیجیے جس میں وہ فرماتے ہیں، عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اہلیہ نے جو کہا انہوں نے کر دیا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پیشانی زمین پر لگائی ہے تو یہ سجدہ ہے لیکن جاہل لوگوں کو دین کی کسوٹی پر پرکھنا بھی سادگی ہے یہ تو اپنی ساری زندگی اللہ اور اس کے رسول ؐ کے دین سے دوری کی بنیاد پر گزارتے ہیں۔ دوسرے علمائے کرام نے کہا کہ غیر اللہ کی چوکھٹ پر سجدہ کرنا کھلا شرک ہے۔ گناہ کبیرہ کرنے والے عمران خان اللہ سے توبہ کریں اور اپنے ایمان کی تجدید کریں۔ پاکستان کے جید علماء کے نزدیک ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ مزار کی چوکھٹ پر سجدہ کرنے سے عمران خان صاحب:
(1) وہ جاہل ہیں جنہیں دین کی کسوٹی پر پرکھنا سادگی ہے ۔
(2) وہ شخص ہیں جن کی ساری زندگی دین سے دوری میں گزری ہے ۔
(3) سجدہ کر کے شرک جیسے گناہ کا مرتکب ہوئے۔
(4) گناہ کبیرہ جیسے گناہ کا مرتکب ہوئے۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو شخص دنیاوی اقتدار کی خاطر کفریہ عمل کر سکتا ہے وہ ملک کو کس طرح چلائے گا۔ یعنی ووٹ حاصل کرنے کے لیے جو چاہے اور جیسے چاہے بن کر حدود اللہ کو پامال کرے چاہے اس سے ایمان ہی کیوں نہ جاتا رہے۔ شکر ہے خان صاحب پاکستان جیسے اسلامی ملک میں سیاست کرتے ہیں خدا نخواستہ اگر بھارت میں ہوتے تو کیا ووٹ کے حصول کے لیے گائو ماتا کے ذبحیے پر پابندی کے حق میں ہو جاتے۔ بات سیدھی سی ہے سیاست کارکردگی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ سیاست دان عوام کے رہنما ہوتے ہیں۔ ان کی جانب سے دیے گئے بیانات یا کیے جانے والے اقدامات کو عوامی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ لوگ اپنے محبوب رہنمائوں کے نقش قدم پر چلنے لگتے ہیں۔ اسی صورت میں ہمارے قائدین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یکجہتی کا درس دیں اور کوئی بھی ایسا عمل نہ کریں جس کی بنیاد پر قوم تقسیم ہو۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کی خاطر اسلامی تعلیمات کو بالاے طاق رکھنا اچھی بات نہیں۔ مومن وہی ہے جس کا ایمان مضبوط ہو۔ اقتدار کے لالچ میں جاہلانا رسومات پر عمل کرنا اللہ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ خان صاحب یہ بات یاد رکھیں اقتدار دینا اللہ کی مرضی ہے۔ عمران خان صاحب کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ایسی حکمرانی کو ٹھوکر مار دیں جس سے ایمان پر ضرب لگتی ہو۔

حصہ