سیکولر ازم

338

سیدہ عنبرین عالم
جبران اسماعیل بہت پریشان تھے۔ بیوی منہ پھٹ اور فضول خرچ تھی، ماں باپ ہمیشہ بیمار رہتے تھے جس کی وجہ سے ان کے گھر کا بجٹ ہمیشہ آئوٹ رہتا تھا، بچے ایسے کہ ذرا کچھ کہہ دو تو پورے قد سے کھڑے ہوکر باپ سے لڑنے لگتے اور اپنی آوارہ گردیوں کے لیے مسلسل رقم کا مطالبہ کرتے رہتے۔ جبران ایک عبادت گزار شخص تھے اور اپنے حالات کی درستی کے لیے ہر وقت دعاگو رہتے، مگر ان کی کوئی دعا کبھی قبول نہ ہوتی۔ وہ بڑے پریشان ہوتے کہ میری کوئی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی۔ آخرکار انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ تم جاکر خدا سے ملو اور شکایت کرو۔
جبران اسماعیل اس قدر پریشان تھے کہ سچ مچ خدا سے ملنے چل پڑے۔ دریائوں اور پہاڑوں میں مہینوں چلتے رہے، آخرکار ایک جنگل سے گزر رہے تھے کہ جبریل علیہ السلام بیٹھے ہوئے ملے۔ پوچھنے لگے ’’کدھر کا ارادہ ہے؟‘‘ جبران پہلے تو انہیں دیکھ کر گھبرائے، پھر بتانے لگا ’’اللہ سے ملنے جارہا ہوں، وہ میری دعا قبول نہیں کرتا۔‘‘
’’اچھا، جبران بھائی! مجھے بھی تو بتایئے آپ کی کیا طلب ہے؟‘‘حضرت جبریلؑ نے پوچھا۔ وہ فوراً بتانے لگے ’’میرے بچے فرماں بردار ہوجائیں، میری بیوی کی ہوس ختم ہوجائے، میں اپنا گھر بنا لوں، میری آمدنی میں اضافہ ہوجائے، میری بچی کی اچھی جگہ شادی ہوجائے، میرے والدین صحت مند ہوجائیں اور ہر کام میں ٹانگ اَڑانا بند کردیں، میرے پاس میرے دوستوں سے اچھی گاڑی آجائے اور……‘‘ ابھی جبران اسماعیل صاحب کی خواہشوں کی فہرست جاری تھی کہ حضرت جبریلؑ نے انہیں چپ کرا دیا ’’بس اللہ کے سوا سب کچھ چاہیے ناں، میں کہہ دوں گا اپنے رب سے‘‘ حضرت جبریلؑ بولے۔ جبران اسماعیل چپ ہوکر رہ گئے، واقعی ان کی طلب میں اللہ یا آخرت کہیں نہیں تھی۔
یہ اللہ ہی ہے جو ہمیں عدم سے وجود میں لاتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے بغیر دنیا چل نہیں سکتی۔ چوڑے چکلے سینوں والے، مضبوط ہاتھ پائوں والے سمجھتے ہیں کہ ہمیں دنیا کی کوئی طاقت زیر نہیں کرسکتی، اور اچانک ہی سے کوئی جان لیوا بیماری انہیں زیر کرلیتی ہے اور ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل کردیتی ہے، اُس وقت اسی رب کی شکایتیں لوگوں سے کرتے ہیں جس کے اقتدار اور قدرت کو جھٹلاتے تھے۔ آخر کون ہے جس نے انہیں اچانک بیمار کردیا۔ ورنہ صحت، طاقت اور دولت کے نشے میں اُڑتے چلے جارہے تھے۔ خدا کی خدائی کو نہ ماننا اور ہر قدرتی امر کو اتفاقی حادثہ قرار دینا ’سیکولرازم‘ کہلاتا ہے۔
اب حاضر ہے سیکولرازم کی جدید تعریف۔
مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دینا… ریاستی، معاشرتی، معاشی اور تعلیمی اقدار کو کسی مذہب کے زیر تسلط نہ آنے دینا… ایک دوسرے کے مذہب یا روایات پر بحث یا اعتراض نہ کرنا، اور ہر شخص کو زندگی میں کوئی بھی مذہب اختیار کرنے دینا اور اس پر عمل نہ کرنے کی مکمل اجازت ہونا ’سیکولرازم‘ کہلاتا ہے۔
سیکولرازم کی مخالف قدر ’مذہب‘ کہلاتی ہے۔ ہر مذہب کا یہ اصول ہے کہ تمام اعمال جو انسان اپنی زندگی میں انجام دے، وہ اللہ کے احکامات کے مطابق ہونے چاہئیں۔ تمام مذاہب کا ایک ہی منبع ہے، وہ ہے خدا کی ذات، جس نے وقتاً فوقتاً مختلف انبیاء علیہم السلام کے ذریعے انسان کے معاشی، معاشرتی، روحانی، اخلاقی، کاروباری اور دیگر معاملات کے لیے مکمل ہدایات بھیجیں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں رسولوں کی تعلیمات میں انسانوں نے اپنی سہولت کے مطابق تبدیلیاں کرلیں، وہیں پرانی تعلیمات کے موقوف ہونے پر نئی تعلیمات، اور نئے رُسل کو بھی سختی سے رد کیا گیا، جس کی وجہ سے مذہبی تعلیمات عملی زندگیوں سے مکمل طور پر غائب ہوگئیں اور صرف چند رسومات، عقائد اور روزمرہ کی عبادات کو مذہب قرار دے دیا گیا۔
اب جو موجودہ طرزِعمل دنیا میں رائج ہے وہ یہ ہے کہ یہودی جس عمل کو دنیا میں ترویج دیں، وہ سیکولرازم کی آڑ میں تمام دنیا پر نافذ ہوجاتا ہے، چاہے زنگر برگر ہو، جینز کلچر ہو، پوپ میوزک ہو، یا کریڈٹ کارڈ سے لوگوں کو قرض میں پھانسنا، کمرشل ازم ہو یا پوری دنیا کو سود کے عمل میں شامل کرنا… اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر ایک جاپانی ہے تو وہ جینز پہنے گا، زنگر برگر کھائے گا، سودی کاروبار کرے گا، یہودیوں سے ہتھیار خریدے گا لیکن عبادات اپنی مرضی سے کرے گا، چاہے تو کسی خدا کو نہ مانے۔ دوسری جانب اگر ایک پاکستانی مسلم ہے تو وہ بھی اطوار میں بالکل جاپانی کی طرح ہے۔ وہ جینز پہنے گا، زنگر برگر کھائے گا، سودی کاروبار کرے گا اور یہودیوں سے ہتھیار خریدے گا، مگر وہ پوری آزادی سے شب برأت میں پٹاخے پھوڑ سکتا ہے، عید میلادالنبیؐ میں چراغاں کرسکتا ہے اور رمضان میں فوڈ فیسٹول منا سکتا ہے… اس نظام کو گلوبلائزیشن بھی کہا جاتا ہے، یعنی تمام دنیا کی معمول کی اقدار، تفریحات، معاملات سب ایک جیسے ہیں، بس عبادت ایک ایسا ’’فضول‘‘ کام ہے جس پر کوئی پابندی نہیں۔ جو چاہے جس خدا کی عبادت کرے، جیسے چاہے کرے اور چاہے تو نہ کرے۔
سیکولرازم کے مطابق مذہب صرف چند رسومات کا نام ہے، اور ان مذہبی رسومات کا عملی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں۔ باقی کے مذہبوں میں تو اخلاقی ہدایات کے لیے بھی مشکل سے جگہ نکلتی ہے، صرف رسومات ہیں… جب کہ اسلام ایک مکمل لائحہ عمل رکھتا ہے، اس میں خلافت قائم کرکے تمام امت کو اکٹھا کرنا اور دین پر گامزن رکھنا بھی شامل ہے۔ تمام املاک میں سے زکوٰۃ نکالنے کی ہدایات بھی ہیں، اور کاروباری اونچ نیچ اور اخلاقیات بھی سکھائی گئی ہیں۔ گویا اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، صرف خدا کو مسجد میں بند کردینے کا نام نہیں ہے۔ لہٰذا صرف یہ واحد مذہب ہے جو سیکولرازم کو قبول نہیں کرتا، یہ مسجد سے باہر نکل کر معاشرے میں ایک نظام اور ایک حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، اس لیے یہ دنیا پر قابض ان یہودیوں کے لیے قابلِ قبول نہیں جو مکمل طور پر مذہب پر چلتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو قائم کیا تھا تو اپنے مذہب کے مطابق، حتیٰ کہ اسرائیل میں جو درخت لگائے وہ بھی مذہب کے مطابق ہیں، جن کے بارے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ یہودی امام مہدیؑ سے بچنے کے لیے انہی درختوں کے پیچھے چھپیں گے۔ انہوں نے عبرانی زبان کو 400 سال بعد زندہ کیا کیونکہ یہ ان کی مذہبی کتب کی زبان ہے جو سب کی سب تبدیل کی جاچکی ہیں۔ یہودی جنگیں بھی کرتے ہیں تو اپنی مذہبی ہدایات کے مطابق گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے۔ وہ خود مکمل اپنے مذہب پر گامزن ہیں، سیکولرازم صرف باقی دنیا کے لیے فرض کیا گیا ہے۔
شبِ برأت میں پٹاخے پھوڑنے پر کسی کو اعتراض نہیں، لیکن آپ اگر سارا سال اپنے گناہ کم کرنے کے لیے کم سے کم کرپشن کریں تو یہ یہودیوں کو قابلِ قبول نہیں، کیونکہ وہ ہم میں سے میر جعفر، میر صادق خریدتے ہیں اور انہی کے ذریعے ہمیں تباہ کرتے ہیں، وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ تمام مسلم لالچ و ہوس چھوڑ کر حلال کی روزی کمائیں، اور شب برأت پر اتنے گناہ ہی نہ ہوں کہ سب سے معافی مانگنی پڑے۔ کوئی نہیں چاہے گا کہ مسلمان عید میلادالنبی پر چراغاں کرنے کے بجائے ان کی سنتوں پر عمل کریں۔ خیر مسلمان بھی بڑے پکے ہیں، کھجور کھانے اور داڑھی رکھنے سے آگے کی کسی سنت کو پہچانتے بھی نہیں، حالانکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی اسلامی حکومت قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ اور یہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی سنت ہے، یعنی جہاں تک یہودیوں کے مفادات پر اثر نہ پڑے وہاں تک کا اسلام انہیں قبول ہے، جہاں سے ان کے ایجنڈے پر زک پڑے تو وہ نقاب پہننے پر بھی پابندی لگا دیتے ہیں کیونکہ وہ بے حیائی کا فروغ چاہتے ہیں، اور مسلمانوں پر پردہ نہ کرنے کی پابندی کا سیکولرازم کے عقیدے پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کو دوسرے کے دین میں دخل اندازی تصور نہیں کیا جائے گا۔
سیکولرازم کی تعریف پڑھی جائے تو یہ بے حد دلفریب اور امن و آشتی کا گہوارہ لگتی ہے کہ کوئی کسی کے معاملے میں دخل نہ دے۔ لیکن درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کو دنیا کے ہر معاملے سے گیٹ آئوٹ (نعوذباللہ) کرنے کی کوشش ہے۔ یعنی سب یہودیوں کے سکھائے ہوئے طور طریقے اپنا لیں، اللہ کے احکامات سے دور رہیں۔ اگر چرچ نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا جینا دوبھر کیا تو اس کا نتیجہ تمام دنیا پر سیکولرازم لادنا نہیں ہے۔ مذہب کو کیوں غیر فعال کیا جائے؟ یا عیسائی کرلیں اپنے مذہب سے لاتعلقی… کیا ضروری ہے کہ یہی اصول اسلام پر بھی لاگو کیا جائے؟ ہماری مساجد کیسے سیاسی معاملات سے علیحدہ ہوسکتی ہیں جب کہ مسجد نبویؐ ہی اسلام کا وہ پہلا ہیڈ کوارٹر تھی جہاں سے ریاستی، حکومتی، معاشی اور اصلاحی معاملات چلائے جاتے تھے۔ اگر آپ مسجد کو تمام معاملات سے علیحدہ کرکے صرف نماز پڑھنے کی جگہ بنادیتے ہیں تو آپ سنتِ نبویؐ سے منحرف ہوں گے۔ جب امام حاکم نہیں ہوگا تو پھر جو شرطیں امام کی پاکیزگی کے لیے ہیں وہ حاکم کے لیے نہیں ہوں گی۔ پھر تو آپ کو زرداری، عمران خان اور نوازشریف جیسے لوگ ہی ملیں گے جو آئین کے آرٹیکل 62۔63 کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ مسجد تعلیماتِ نبویؐ کے مطابق وہ جگہ ہے جہاں خلیفہ یا علاقے کا ناظم متمکن ہوگا، پانچ وقت لوگوں سے ملے گا، اُن کے مسائل جانے گا اور حل کرے گا، ورنہ اگلی نماز پر لوگ اسے پکڑ کر ماریں گے۔ اب تو حاکم محلوں میں رہتے ہیں، نہ عوام سے کوئی رابطہ نہ پوچھ گچھ۔ جلسوں میں جاتے ہیں تو ہزاروں کی تعداد میں پولیس فورس ان کی حفاظت کرتی ہے۔ یہ تو اسلامی طریقہ نہیں ہے، یہ سنت نہیں ہے۔
سنت یہ ہے کہ خلیفہ کے لیے الگ سے محلات تعمیر نہیں کیے جاتے، وہ مسجد میں میں بیٹھتا ہے، وہیں سے معاملاتِ سلطنت چلاتا ہے، نماز بھی پڑھاتا ہے، جمعہ کا خطبہ بھی دیتا ہے، یعنی مسجد کا امام طاقتور ترین فرد اور علم کا منبع ہوتا ہے۔ محلے کی مسجد کا بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ علاقے کے سب سے نیک اور باعلم آدمی کو امام بنائیں اور اس کی سربراہی میں محلے کے مسئلے سب مل جل کر حل کریں۔ یہ سب سے پہلا نظام تھا گراس روٹ لیول پر قیادت کو سامنے لانے کا۔ یہ ہے سنت۔ صرف پائنچے چڑھانا سنت نہیں ہے۔ ذرا بھاری کاموں میں بھی نبیؐ کی سنتوں کو عمل میں لانے میں ہی ہماری بہتری ہے۔
اگر ہم اللہ کو Non Entity تصور کرلیں تو پھر آپ موت کو کیسے بیان کریں گے؟ اگر اللہ کا انسان کے کسی معاملے میں عمل دخل نہیں ہے تو پھر موت کیا ہے؟ کس چیز کا حساب کتاب؟ پھر تو انسان کو مرنا ہی نہیں چاہیے۔ مہلت کا ختم ہونا، اس بات کی نشانی ہے کہ کوئی امتحان چل رہا ہے، جب جانچ کا وقت آیا تو امتحان کی مہلت ختم ہوگئی اور حساب کتاب شروع ہوگیا۔ اور اگر یہ واقعی ایک امتحان ہے تو کیا اللہ نے بغیر کچھ ہدایات دیے ہم کو امتحان میں دھکا دے دیا؟ اور اگر اللہ نے اس امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے کچھ ہدایات دی تھیں تو سیکولرازم کے نام پر اُن کو پسِ پشت ڈال دینے سے آپ امتحان میں کیسے کامیاب ہوں گے! ایسی زندگی تو پھر جانوروں کی زندگی ہے… نہ کوئی مقصد نہ جواب دہی… بس تفریح، لوٹ کھسوٹ، بے حسی… یہی ہیں اس نظریے کے لازمی نتیجے جو آپ کو دنیا بھر میں بکھرے نظر آتے ہیں۔
ہم اگر اللہ کو اپنی دنیا کے کسی معاملے میں بولنے کا حق نہیں دیں گے تو کیا وہ واقعی بے اختیار ہوجائے گا؟ اگر ہم اللہ کے اختیارات کو قابلِ اعتنا نہ سمجھیں تو کیا واقعی ہمیں اللہ کی قدرت سے ٹکرانے کے اثرات سے پالا نہیں پڑے گا؟ کیا اللہ کو زیرو کرنے کی کوشش میں ہم خود زیرو نہیں ہوجائیں گے؟ کیا اب تک اس نظریے سے انسان کو کوئی فائدہ پہنچا ہے؟ کیا اب مسلم کُش فسادات دنیا میں نہیں ہوتے؟ اور مسلمانوں کی نسلیں مٹانے والے وہی لوگ ہیں جو سیکولرازم کے بانی ہیں۔
بحیثیت مسلمان ہم کو زندگی کی ہر سانس میں اللہ کے احکامات کی پاسداری کرنی ہے۔ ہاں اگر آپ مسلمان نہیں رہنا چاہتے اور ایک نیا مذہب اختیار کرنا چاہتے ہیں جسے آج کل لبرل ازم کہا جاتا ہے، تو آپ کی مرضی۔ ورنہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مذہب دیا اُس کا نام تو صرف ’’اسلام‘‘ ہے۔ کسی ’’لبرل ازم‘‘ یا ’’فنڈامنٹل ازم‘‘ کی تعریف قرآن و حدیث میں موجود نہیں۔ مسلمان صرف مسلمان ہوتا ہے، اس کے سوا جو کچھ وہ خود کو نام دے وہ مسلمان نہیں ہوگا، صرف سیکولر ہوگا۔

حصہ