اللہ کی رحمت کے حقدار

1038

سید مہرالدین افضل
سورۃ الاعراف کے مضامین کا خلاصہ
اَز تفہیم القرآن۔۔۔
49 واں حصہ
(تفصیلات کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر 112، 114، 115 سورۃ ط حاشیہ نمبر: 116 سورۃ الشعراء حاشیہ نمبر :122)
آیت نمبر 157 میں ارشاد ہوا :۔(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حِصہ ہے) جو اس پیغمبرنبیؐ اُمّی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔
لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
سورۃالاعراف میں آیت 103 سے 153 اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کی فرعون کے خلاف جد وجہد میں اپنی نصرت اور بنی اسرائیل پر اپنے احسانات یا د دلائے ہیں۔۔۔ اور پھر ان کے طرز عمل کا ذکر کیا ہے۔ آیت نمبر 155 اور 156 میں حضرت موسیٰؑ کی دعا اور اس کا جواب نقل کیا گیا ہے: (حضرت موسیٰؑ نے دعا کی) ہمارے سر پرست تو آپ ہی ہیں۔ پس ہمیں معاف کر دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ سب سے بڑھ کر معاف فر مانے والے ہیں۔ اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیے اور آخرت کی بھی، ہم نے آپ کی طرف رجوع کر لیا۔‘‘جواب میں ارشاد ہوا ’’سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں، مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ اور اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے۔۔۔ زکوٰۃ دیں گے۔۔۔ اور میری آیات پر ایمان لائیں گے۔ اس کے بعد موقع کی مناسبت سے بنی اسرائیل کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی دعوت دی گئی ہے۔ مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ تم پر خدا کی رحمت نازل ہونے کے لیے جو شرائط موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں عائد کی گئی تھیں وہی آج تک قائم ہیں۔ (اور اسے اس طرح دیکھیں کہ جو شرائط رحمت خداوندی کے لیے بنی اسرائیل پر عائد کی گئی تھیں وہ ہی آج ہمارے لیے بھی ہیں)۔ ان ہی شرائط کا تقاضا ہے کہ بنی اسرائیل محمدؐ پر ایمان لائیں اِن سے کہا گیا تھا کہ خدا کی رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے جو نافرمانی سے پر ہیز کریں۔ تو آج سب سے بڑی بنیادی نا فرمانی یہ ہے کہ جس پیغمبرؐ کو خدا نے مامور کیا ہے۔ اس کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے۔ لہٰذا جب تک اِس نافرمانی سے پرہیز نہ کریں گے تقویٰ کی جڑ ہی سرے سے قائم نہ ہوگی۔ خواہ جزئیات و فروعات میں یہ کتنا ہی تقویٰ بگھارتے رہیں۔ ان سے کہا گیا تھا کہ رحمتِ الہٰی سے حِصہ پانے کے لیے زکوٰۃ بھی ایک شرط ہے۔ تو آج کسی انفاقِ مال پر اس وقت تک زکوٰۃ کی تعریف صادق نہیں آسکتی جب تک اقامتِ دینِ حق کی اس جدوجہد کا ساتھ نہ دیا جائے جو اِس پیغمبرؐ کی قیادت میں ہو رہی ہے۔ لہٰذا جب تک اِس راہ میں مال صرف نہ کرو گے زکوٰۃ کی بنیاد ہی استوار نہ ہو گی چاہے تم کتنی ہی خیرات اور نذرونیاز کرتے ہو۔ (آج اقامت دین کی جد وجہد نبیؐ کے طریقے کے مطابق نہ ہو رہی اور اور اس پر مال نہ خرچ ہو رہا ہو تو کسی انفاق کی کوئی حیثیت نہیں وہ بے برکت ہو گا جیسا کہ ہے) ان سے کہاگیا تھا کہ اللہ نے اپنی رحمت صرف ان لوگوں کے لیے لکھی ہے جو اللہ کی آیات پر ایمان لائیں۔ تو آج جو آیات اس پیغمبرؐ پر نازل ہو رہی ہیں ان کا انکار کرکے یہ کسی طرح بھی آیات ِ الہٰی کے ماننے والے قرار نہیں پا سکتے۔ لہٰذا جب تک اِن پر ایمان نہ لائیں گے یہ آخری شرط بھی پوری نہ ہو گی۔ خواہ توراۃ پر ایمان رکھنے کا تم کتنا ہی دعوٰی کرتے رہو۔ (اگر تم قرآن مجید کو چھوڑ کر روایات اور بزرگوں کے اقوال اور ارشادات ہی میں گم رہو اور قرآن مجید کے احکام کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو تو تم قرآن پر ایمان کا کتنا ہی دعویٰ کرتے رہو آیات ِ الہٰی کے ماننے والے قرار نہیں پا سکتے)۔
یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے’’اُمّی‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بہت معنی خیز ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل اپنے سوا دوسری قوموں کو اُمّی (Gentiles) کہتے تھے اور اپنے قومی فخر و غرور کی وجہ سے کسی اُمّی کی قیادت کو تسلیم کرنا تو دو رکی بات، اِس پر بھی تیار نہ تھے کہ اُمّیوں کے لیے اپنے برابر انسانی حقوق ہی تسلیم کر لیں۔ سورۃ آل عمران آیت 75 میں آتا ہے کہ وہ کہتے تھے:۔ اُمّیوں کے مال مار کھانے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان ہی کی اِصطلاح استعمال فرمائی ہے کہ اب تو اِسی اُمّی کے ساتھ تمہاری قسمت وابستہ ہے۔ اس کی پیروی قبول کر وگے تو میری رحمت سے حصہ پاؤ گے ورنہ وہی غضب تمہارے لیے مقدر ہے جس میں صدیوں سے گرفتار چلے آرہے ہو۔ اور یہ محمدؐ کا تم پر احسان عظیم ہے کہ تمہارے فقیہوں نے شرعی قوانین بناتے وقت جو بال کی کھال نکالی ہے۔۔۔ اور تمہیں اپنے بنائے ہوئے قانون کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔۔۔ ان زنجیروں سے تمہیں آزاد کراتے ہیں اور تمہارے پیروں اور ولیوں اور خود ساختہ روحانی شخصیتوں نے ترک دنیا میں مبالغے اور جاہل عوام کو اپنے کشف و الہام اور کرامات کے بیانات سے مسحور کر کے وہمی بنا دیا ہے اور اللہ سے قربت کو اپنے لیے خاص کر لیا ہے۔۔۔ محمدؐ تم پر سے وہ سارے بوجھ اتار دیتے ہیں اور وہ تمام بندشیں توڑ کر تمہاری زندگی کو آزاد کرتے ہیں اور جن پاک چیزوں کو انہوں نے حرام کر رکھا ہے، وہ انہیں حلال قرار دیتے ہیں اور جن ناپاک چیزوں کو یہ لوگ حلال کیے بیٹھے ہیں انہیں وہ حرام قرار دیتے ہیں۔
اِصر اس بوجھ کو کہتے ہیں جو حرکت کرنے سے روک دے اور والاغلٰل کا مطلب ہے وزنی بوجھ نبیؐ کی تعلیمات یہ سب بوجھ اتارتی ہے اور اللہ کی قربت کی راہ آسان کرتی ہے۔۔۔ نبیؐ کی مدد کے لیے عزَّروہ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے قوت پنہچا کر ان کی عملی تعظیم کی جائے اور وِ نَصَروہْ کا مطلب ہے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کی جائے۔۔۔ اور اَلنّور سے مراد قرآن مجید ہے مَطلب یہ ہے کہ نبوت کے ساتھ جو قرآن بھیجا گیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔ قرآن کو نور کہا گیا ہے۔۔۔ نور اس چیز کو کہتے ہیں جو خود بالکل ظاہر اور دوسری چیزوں کو بھی ظاہر کر دینے والی ہو قران حقائق کے چہرے سے پردہ اٹھا دینے والا ہے اس لیے اسے نور کہا گیا ہے۔ مطلب واضح ہے کہ قرآن و سنت دونوں کا اتباع کرو۔۔۔ ابدی فلاح پاو گے اور لا زوال دائمی رحمت سے سرفراز ہو گے۔ یہ جو ارشاد ہوا:۔ جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔یہ بنی اسرائیل کے لیے بہت غور طلب بات ہے اور ایمان لانے کے لیے کافی ہے اور کوئی کم معجزہ نہیں ہے کہ انہی میں سے ایک اُمّی شخص نے وہ کتاب پیش کی ہے۔ جس میں شروع سے اب تک کی تمام کتب آسمانی کے مضامین اور تعلیمات کا عطر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ان کتابوں میں جو کچھ تھا، وہ سب نہ صرف یہ کہ اس میں جمع کر دیا گیا، بلکہ اس کو ایسا کھول کر واضح بھی کر دیا گیا کہ صحرا نشین بدّو تک اس کو سمجھ کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سورۃ الشعراء آیت 196:۔ اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے۔ یعنی یہ ذکر اور یہی تنزیل اور یہی الہٰی تعلیم سابق کتب آسمانی میں بھی موجود ہے۔ یہی خدائے واحد کی بندگی کا بلاوا، یہی آخرت کی زندگی کا عقیدہ، یہی اَنبیاء کی پیروی کا طریقہ ان سب میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ سب کتابیں جو خدا کی طرف سے آئی ہیں شرک کی مذمت ہی کرتی ہیں۔ مادہ پرستانہ نظریہ حیات کو چھوڑ کر اسی بر حق نظریہ حیات کی طرف دعوت دیتی ہیں جس کی بنیاد خدا کے حضور انسان کی جواب دہی کے تصور پر ہے اور انسان سے یہی مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو کر ان الہٰی احکام کی پیروی اختیار کرے جو انبیاء علیہم السلام لائے ہیں۔ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نرالی نہیں جو دنیا میں پہلی مرتبہ قرآن ہی پیش کر رہا ہو اور کوئی شخص یہ کہہ سکے تم وہ بات کر رہے ہو جو اگلوں پچھلوں میں سے کسی نے کبھی نہیں کی۔ تقابل ادیان کے طالب علم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ صرف اپنے حسد اور تکبر کی وجہ سے محمدؐ کا انکار کرتے ہیں۔ اور اہل اسلام محمدؐ کی سیرت اور سنت سے ناواقف اور قرآن سے دور ہیں۔ اس لیے اللہ کی رحمت سے بھی دور ہیں اللہ کی رحمت کے حق دار تو وہی ہیں جو محمدؐ پر ایمان لائیں۔ ان کی پیروی اختیار کریں اور ان کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو ان کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اللہ سبحانہٗ و تعالٰی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ