کوا اور سمیع اللہ

371

ذکریٰ طاہر
’’ امی جانی میں کیوں اسے چپس دوں یہ چپس میرے ہیں اور میں اکیلے ہی کھاؤں گا۔اسے نہیں دوگا‘‘۔ امی جانی کے بولنے سے پہلے ہی سمیع نے اپنا مئوقف واضح کردیا۔ بیگم جاوید کافی دیر سے ان دونوں کے درمیان ہونے والی تکرار سُن رہی تھیں لیکن نظر اندازکررہی تھیں۔
اُن کا خیال تھا کہ شاید خود ہی دونوں چپ ہوجائیں مگر یہاں پر تو معاملہ تول پکڑتا جارہا تھا۔آخرکار وہ ان دونوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے آئیں تو سمیع اللہ بھاگ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور چپس کے پیکٹ کو اپنے بستر کے سرھانے کے نیچے چھپا دیا۔
بیگم جاویدمومنہ کولے کرباورچی خانے میں چلی گئیں اور اسے نوڈلز بناکردینے لگیں تب کہیں جاکران دونوں کی لڑائی ختم ہوئی۔
سمیع اللہ واپس آکر برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا،جیسے ہی اسنے دیکھاکہ لان میں کواکچھ چُگ رہاہے توفوراََمومنہ کوبلانے دوڑ گیا۔
مومنہ نے بھی کوے کا سُنا تووہ بھی تھوڑی دیر پہلے والی لڑائی بھول کر اس کے ساتھ ہولی اور دونوں آکر سیڑھیوں پر بیٹھ کر کوے کو دیکھنے لگ گئے۔مومنہ بار بار کوے کو پکڑنے کے لیے اس کے پاس جانے کی کوشش کرتی تو سمیع اللہ اُسے منع کردیتااور زبردستی اسے اپنے پاس بٹھا دیتا تاکہ کوا کہیں ان کے ارادے بھانپ کر اڑ نہ جائے۔
تھوڑی دیر تک وہ دونوں بیٹھے تماشا دیکھتے رہے اور پھر سمیع اللہ بھاگ کر گیا اور روٹی کا ٹکرالے آیا۔اس نے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے اور انہیں لان میں بکھیر دیا، کواان ٹکڑوں کے گرنے سے ڈر کر اڑا اور سیب کے درخت کے اوپر جا کر بیٹھ گیا۔
وہاں سے اس نے اپنی تیز نظر سے دیکھا کہ سمیع اللہ نے مزے دار روٹی کے ٹکڑے پھینکے ہیں تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا لیکن جلد ہی اسے خیال آیا کے سمیع اللہ اور چھوٹی مومنہ نے اسے پکڑنے کے لیے یہ روٹی کے ٹکڑے نہ پھینکے ہوں۔وہ دونوں پھر چھپ کر خاموشی سے بیٹھ گئے۔
کوا پہلے تو دیکھتا رہا لیکن جب وہ دونوں اسے نظر نہ آئے تو وہ خاموشی سے لان میں اُترااور ہوشیاری سے دیکھاکہ کہیں دونوں نے جال تو نہیں بچھایاہوا۔جب وہ مطمئن ہو گیا تو اپنی چونچ میں ایک ٹکڑا دبا کر پھر سے سیب کے درخت کے اوپر جا کر بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ ہی ’’کائیں کائیں ‘‘ کا بے تحاشا شور مچانا شروع کر دیا۔
مومنہ نے کوے کو’’کائیں کائیں‘‘ کرتا دیکھا تو سمیع اللہ سے کہنے لگی! بھیا لگتا ہے کوے کو کھانے کے لیے بلی آگئی ہے۔جس کو دیکھ کرکوا شور مچارہا ہے۔سمیع اللہ مومنہ کووہیں بٹھاکر جھٹ سے اپنے کھیلنے والے پستول میں پانی بھر کر لے آیا کہ وہ بلی پرٹھنڈا یخ پانی فائر کرے گا، بلی کو سردی لگے گی تو بھاگ جائے گی۔
لیکن جوں ہی وہ واپس آیا اور دیکھا کہ بلی تو کہیں بھی نہیں ہے لیکن کوؤں سے لان بھرا ہوا ہے،تمام کوے روٹی کے مزیدار ٹکڑے کھانے میں مگن ہیں۔وہ اپنی اپنی چونچ میں روٹی کا ٹکڑا دباتے اور سیب اور آڑو کے درخت پر جا کر بیٹھ جاتے اور جب ٹکڑا ختم ہو تا تو وہ دوبارہ سے آکر لے جاتے۔
دراصل کوے نے بلی کو دیکھ کر’’کائیں کائیں ‘‘ کا شور نہیں مچایاتھا بلکہ بہت ساری خوراک دیکھ کر اپنے ساتھی کوؤں کو بھی کھانے کے لیے بلایا تھا اور اب مزے سے سب مل کھارہے تھے۔
سمیع نے سوچا کہ وہ مزیدار آلو کے چپس اور دوسری ڈھیر ساری چیزیں مومنہ سے چھپ کر اکیلے بیٹھ کر کھا لیتا ہے تاکہ اسے نہ دینی پڑیں اور ایک کوا ہے کہ جو اس جیسا انسان بھی نہیں ہے اور اس سے بہت چھوٹا بھی ہے،اپنے جیسے کوؤں کا برابر خیال رکھتا ہے۔
اس نے توان کوؤں کو بھی روٹی کو ٹکڑے کھانے کے لیے بلایا جو اس کے بہن بھائی بھی نہیں ہوں گے اور ایک وہ ہے جو اپنی چھوٹی بہن کو بھی کچھ نہیں دیتا۔’’کوا کتنا اچھا ہے جو سب کو اپنے ساتھ کھا نے میں شامل کرتا ہے‘‘ اس نے سوچا اور پھر بھاگ کراندر چلا گیا کیونکہ اب اُسے بھی اچھا بننا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں گیا اور چھپایا ہوا چپس کا پیکٹ لے کر دوبارہ سے مومنہ کے پاس آکر بیٹھ گیا اور مومنہ کو بھی کھانے کے لیے کہا۔’’بھیا اب آپ مجھے کھانے کے لیے چیزیں دیا کرو گے نا،میں بھی آپ کو نوڈلزدوں گی جو امی جانی نے میرے لیے بنائے ہیں۔
’’مومنہ نے چپس کھاتے ہوئے اس سے پوچھا۔‘‘ہاں بہنا ! اب ہم ہر چیز دونوں مل کر کھایا کریں گے۔تم دیکھ رہی ہو،نا!کوے کس طرح مل جل کے کھارہے ہیں؟اور ہاں!اب ہم روزانہ ان کوؤں کے لیے لان میں روٹی کے ٹکڑے ڈالا کریں گے۔‘‘اس نے لاڈ سے مومنہ کو کہا تو وہ بھی خوشی سے چہکنے لگی۔
’’ٹھیک ہے بھیا‘‘
بیگم جاوید ان سے کچھ ہی فاصلے پر باورچی خانے کے دروازے میں کھڑی انہیں ہی دیکھ رہی تھیں۔سمیع اللہ اور مومنہ کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی وہ سن چکی تھیں اور ساری گفتگو سننے کے بعد انہوں نے سکون کا سانس لیاکیونکہ وہ دونوں بہن بھائی کی وقت بے وقت کی لڑائی اور بے جا ضد سے بہت نالاں تھیں۔
انہوں نے دل ہی دل میں کوؤں کو ڈھیر ساری دُعائیں دیں اور مسکراتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئیں۔انہوں نے دونوں کے لیے پیالوں میں گرما گرم نوڈلز ڈالے اور چمچ اور پیالے لے کر برآمدے کی سیڑھیوں پر ان کے پاس آبیٹھیں۔’’امی جانی!سمیع بھائی نے مجھے چپس دیئے اب میں بھی سمیع بھیاکو نوڈلز دوں گی۔
‘‘مومنہ نے امی جانی کو دیکھا توفوراََکہا۔’’ جواچھے بچے اپنی ساری چیزوں میں دوسروں کو بھی شامل کرتے ہیں اللہ پاک ان سے خوش ہوجاتے ہیں اور انہیں زیادہ ڈھیرساری چیزیں دیتے ہیں‘‘۔بیگم جاوید نے دونوں بچوں کے ہاتھوں میں پیالے پکڑاتے ہوئے کہا۔
’’ امی جانی!میں تو اب اچھا بچہ بن گیا ہوں اب اللہ پاک مجھ سے خوش ہوجائیں گے نا۔’’سمیع اللہ نے کہا تو مومنہ بھی کہنے لگی’’امی جانی!میں بھی اچھابچہ ہوں نا۔’’ہاں، ہاں آپ دونوں بہت اچھے بچے ہو‘‘وہ کہہ کر مسکراتے ہوئے ان کے پاس سے اٹھ کر واپس باورچی خانے میں آگئیں۔

مسکرائیے

٭ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ بچی نے ریسیور اٹھایا۔ کسی نے پوچھا
’’بے بی، آپ کے والد گھر پر ہیں…؟‘‘
بچی نے کہا ’’نہیں‘‘
’’اور کوئی ہے، جس سے میں بات کر سکوں؟‘‘
’’ہاں، میری ایک بہن ہے‘‘ بچی نے جواب دیا۔
’’اچھا تو اسے ہی بلا لائو‘‘۔
’’معاف کیجیے‘‘ بچی بولی میں اسے جھولے میں سے نہیں اٹھا سکتی۔ وہ بہت چھوٹی ہے‘‘
٭٭٭
٭ میزبان (مہمان سے): جناب، آپ کو کھانا کھاتے ہوئے تین گھنٹے ہو گئے ہیں، مگر آپ ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں۔
مہمان: جناب دعوتی کارڈ میں لکھا تھا، کھانے کا وقت، ایک سے تین بجے ہے۔
٭٭٭
٭ ایک سائنس دان نے اپنی بیوی سے کہا ’’اس مرتبہ میں تمہاری سالگرہ پر ایک نایاب تحفہ دے رہا ہوں‘‘۔ بیوی خوش ہو کر بولی ’’کیا تحفہ دیں گے آپ مجھے؟‘‘
سائنس دان بولا ’’میں نے ایک نیا جرثومہ دریافت کیا ہے۔ اس کا نام تمہارے نام پر رکھ رہا ہوں‘‘
٭٭٭
٭ نوکر: حضور پانچ بج چکے ہیں۔
مالک: ابے کم بخت میری شکل کیا دیکھ رہا ہے۔
اب جگا بھی دے۔
٭٭٭
٭ منیجر نے ملازمت کے امیدوار سے پوچھا آپ کا تجربہ کتنا ہے؟
امید وار: جناب پانچ سال
منیجر: خوب پہلے کہاں کام کرتے تھے؟
امیدوار: کہیں بھی نہیں۔
منیجر: تو پھر یہ پانچ سالہ تجربہ کس چیز کا ہے؟
امیدوار: درخواستیں اور انٹرویو دینے کا۔
٭٭٭
٭ ایک صاحب ڈاکیے سے پوچھنے لگے: میرا کوئی خط آیا ہے؟
ڈاکیا: کیا نام ہے آپ کا؟
دیکھ لیجیے لفافے کے اوپر لکھا ہوگا۔

حصہ