کائناتی میزان

416

قاضی مظہر الدین طارق
اس دنیا میں رب تعالیٰ نے حیات کا میزان قائم کیا ہوا ہے، جس کو سائنس زمین کا’ اِیکو سسٹم‘ کہتی ہے۔ہر جاندار کو زندہ رہنے کے لئے غذا کی ضرورت پڑتی ہے، نباتات کو بھی غذا کی ضرورت ہے،سب ایک دوسرے کو کھا کر زندہ ہیں،اللہ رب العالمین نے ہی ان کو ایک دوسرے کا رزق بنایا اور کھانے کا حق دیاہے ۔
…………
زمین پر سب سے پہلے غذا بنانے والے’سائینو بیکٹیریا‘ تھے،وہ ایسا وقت تھا جب زمین پر کوئی غذا موجود نہ تھی، فضاء میں بھی آکسیجن نہ تھی،بلکہ’ کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ ،سلفراور زہریلی گیسیں تھیں۔
…………
خالقِ کائنات نے اِن بیکٹیریا کوغذا بنانے کی تعلیم دی، نہ صرف تعلیم دی بلکہ اُس کام کوکرنے کے سارے ذرائع وسائل اور اعضاء بھی فراہم کئے۔
اُس نے اِنہیںسکھایا کہ پانی اور’ کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ کو ملا کر گلوکوس اور دیگر ’کاربوہائیڈریٹس ‘کیسے بنائے،اور کچھ اور نمکیات اور سلفرملا کر پروٹین اور چکنائیاں بنائے،تاکہ وہ خود بھی کھائے اور دوسروں کے لئے بھی بچائے،پھر اُس سائینو بیکٹیریا نے ایسا ہی کیا،لیکن خود بہت تھوڑا کھایا ، دوسروں کے لئے بہت بچایا۔
…………
اسی ’ری اَیکشن ‘کے نتیجہ میںآکسیجن پیدا ہوئی اور زمین کی فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کم ہوئی اور آکسیجن میں اضافہ ہوا،پھر اُس نے آکسیجن اور’ کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ کا بھی میزان قائم کیا،رب نے سلفر اور زہریلی گیسوں کو کم کرنے کے دوسرے طریقے اختیار کئے۔
…………
اِس کے بعد خالق نے اس بنائی گئی غذا کو کھانے والی حیات زمین پر بھیجی، کیونکہ اضافی غذا کو سائینو نے اپنے ہی جسم میں محفوظ کیا ہوا تھا، نئے آنے والے اُن کو ہی کھانے لگے،مگر اُس وقت اللہ نے میزان قائم کی۔
…………
سائینو کو کھانے والوں کی آبادی کو ایک حد میں رکھا،کہ وہ اتنے بھی زیادہ نہ ہو جائیں کہ سب سائینو کو کھا جائیں پھر خود بھی بھوک سے مرجائیں،یہ زمین پر زندگی کی پہلی میزان تھی۔
…………
پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا،خالق نے کچھ اور بنیادی غذا بنانے والی مخلوق زمین پر بھیجی،تو ظاہر ہے کہ اُن کواپنی غذا کے طور پر استعمال کرنے کے حقداروں کو بھی بھیجا۔
…………
رب العالمین نے اور نباتات اور حیوانات کو بڑی تعداد میں بھیجتا گیا، یہاں تک کہ صرف اِن کی قِسموں کی تعداد ہی اربوں تک پہنچ گئی،مگر پھربھی اللہ تعالیٰ نے اس میزان کو اُسی اُصول پرقائم رکھا کہ،’’نہ کھانے والے بھوک مریں ،نہ کھائے جانے والوں کی نسل ختم ہو !‘‘یہ ہے پوری زمین کا’ ایکو سسٹم‘۔
…………
زمین پر انسان کی آمد تک یہ میزان بغیر کسی مداخلت کے بہترین طریقہ سے برقرار رہا۔مگر انسان اس میں خلل ڈالنے لگا،اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمٰن میں حکم دیاکہ’’میرے میزان میں خلل نہ ڈالو!‘‘
…………
زمین پر دو قسم کے میزان ہیں،ایک زمین کامجموعی میزان ، دوسرا علاقائی میزان۔
…………
مجموعی میزان یہ ہے کہ،زمین،نظامِ شمسی یاکائنات کے اُس حصے میں جہاںزندگی کے پیدا ہونے ،بسنے اور پنپنے کے لئے اللہ رب تعالیٰ نے بہترین انتظامات اور ،مواقع رکھنے کی غرض سے بے خطا حساب کتاب کے ساتھ ساری دنیا کی اشیاء کا مجموعی میزان قائم کیاہوا ہے۔
…………
مثلاً: زمین کا نظامِ شمسی میں مقام ،نظامِ شمسی کا کہکشاں میںمحلِ وقوع اورکہکشاں کا کائنات میں۔
اس زمین پردرجۂ حرارت کا اَوسط برقرار رکھنے کے لئے بہت سے انتظامات اور ان کے درمیان میزان۔
خاص کر پانی کا نظام،یہ زمین کا عالمی نظام ہے، اپنے ہی اُصول کو پانی کے لئے صرف چارفیصد تبدیل کرکے سمندر کو برف بن جانے سے بچایاتاکہ زندگی قائم ہو اور قائم رہ سکے ۔
…………
اس کے ساتھ میٹھے پانی اور کھارے پانی کا میزان، آکسیجن اور کاربن کا میزان،نائیٹروجن کا میزان ، نباتات اور حیوانات کا میزان،اُوزون کا میزان ۔
…………
علاقائی میزان یہ ہے کہ ہر علاقے کے کچھ مقامی نباتات اور حیوانات ہوتے ہیںجن کا اُسی علاقے میں میزان یعنی’اِیکوسسٹم‘قائم ہے۔
…………
غیر نامیاتی مادّوں سے بنیادی غذا بنانے والے جانداروںکو،غذا نہ بنا سکنے والے کھاتے ہیں،پھر اِس میں بہت سے گوشت خور بھی ہیں جو ایک دوسرے کو کھاتے ہیں،اس میں بھی وہی اصول پرایک میزان قائم ہے،’نہ کھانے والے بھوک مریں نہ کھائے جانے والوں کی نسل معدوم ہو!‘۔
…………
پچھلی صدی میں جب یورپ سے آسٹریلیا آنے والے چند خرگوش اپنے ساتھ آسٹریلیا لے آئے ،توکیوں کہ یہ یہاںکے مقامی نہیں تھے،یہ یہاں کے میزان میں فِٹ نہیں تھے ،اس لئے ان کو کھا کر ان کی نسل کی روک تھام کرنے والے بھی نہیں تھے،نتیجہ یہ ہوا کہ خرگوش اتنی بڑی تعداد میں پھیل گئے کہ مصیبت بن گئے،سبزیوں اور دیگر فصلیں تباہ ہونے لگیںتو بڑی ہی مشکل سے ان کی آبادی کو کنٹرول کرنا پڑا۔
…………
چین کے بابائے قوم اورصدر ماؤزے تنگ نے قوم کو حکم دیا کہ حشرات انسان کو تنگ کرتے ہیں ان کو مارو، جب ساری قوم اس میں جُت گئی اور کیڑے مکوڑے ختم ہونے لگے، نتیجہ میں اجناس اور پھل سبزیوں کی پیداواربھی ختم ہونے لگی،یعنی اللہ رب تعالیٰ کا میزان میںبگاڑ پیدا کر دیا گیا۔
…………
امریکہ کے جنوبی سمندر میں کسی نے ایک مچھلی’شیر مچھلی‘ پہنچادی جو یہاں کی مقامی نہیں تھی،بلکہ یہ جنوبی بحرِ ہند اورجنوبی بحرِ اوقیانوس سے لائی گئی تھی، جہاں اپنے علاقائی میزان میں سموئی ہوئی تھی،مگر جب اِن کو امریکہ لایا گیا تو یہ کیوں کہ یہاں کے میزان سے باہر تھی،اور یہاںان کو کھانے والے نہ تھے،اس لئے یہاںاِن کی نسل کی روک تھام کا اہتمام بھی نہ تھا۔
حالانکہ یہ’ شیر مچھلی‘ صرف ایک فِٹ لمبی ہے مگر بڑی مچھلیاں اس کو اِس لئے نہیں کھا سکتیں کہ اس کے چاروں طرف لمبی لمبی پنکھڑیاں نکلی ہوئی ہیں جن کے آخری سِرے زہریلے ہیں۔
…………
یہ شیر مچھلی ہزاروں کی تعداد میں جیلی جیسے مواد میں اپنے اپنے انڈے دیتی ہیں جو سطح سمندر پر تیرتے رہتے ہیں ، اپنے علاقائی میزان میں اِن اَنڈوں کھانے کے لئے بہت سی مچھیاں اور دیگر حیوان موجود ہیں جن کی وجہ سے ان کی آبادی قابو میں رہتی ہے۔
مگر جب وہ اپنے علاقائی میزان سے باہر لائے گئے تو اُس نے وہاںکے میزان کو خراب کردیا،شیر مچھلی انڈے سے نکلنے کے بعد پانچ ماہ میں انڈے دینے لگتی ہے۔پھر اِس کا انڈے دینے کا ایک موسم بھی نہیں یہ سارے سال انڈے بچے دیتی رہتی ہے۔
…………
اس لئے اس کی نسل امریکہ کے مغربی ساحل کے قریب بہت زیادہ تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے،اس کو قابو میں رکھنے کے لئے یہاں کا ہر اِدارہ مکمل حرکت میں ہے، ریسرچ کرنے والوں سے لے کر رسٹورنٹ کھولنے والوں تک،کیوں کہ صرف انسان ہی اس کا زہر زائل کرکے کھا سکتا ہے،اس کے لئے خاص رسٹورنٹس ہیں، اورسُنا ہے کہ یہ مچھلی بہت لذیذ ہے۔
تحقیق کرنے والے سنجیدگی سے تحقیق کررہے ہیں کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے ۔
…………
نباتات کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے،’کونوکارپس ‘ ہی کو دیکھیں،یہ کراچی کا مقامی درخت نہیں،اس لئے یہ یہاں کے میزان’ایکو سسٹم‘ کی خرابی کا باعث ہے۔مگر اس کے لئے یہ طریقہ صحیح نہیں کہ بغیرسوچے سمجھے ، بغیر تحقیق کئے، یاتحقیق کرنے والوں کی سُنے بنا، جذباتی طور پر اس کو کاٹنا شروع کر دیا جائے۔
…………
اس وقت کراچی میں صرف سات فیصد ہریالی ہے،جس میں تین فیصدیہی’کونو کارپس‘ ہیں۔چارفیصدمیں تین فیصد گراں قدراضافہ اورخوش آئیند ہے،مگر یہ اجنبی ہو نے کی وجہ سے یہاں کے اِیکوسسٹم کے لئے کسی حد تک نقصان دہ بھی ہے ،مگرسوچیئے! یہ تین فیصد درخت اس سسٹم کو کتنے فیصد نقصان پہنچا سکتے ہیں؟
…………
کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے کراچی میںبارشیں نہیں ہورہی،گرمی کی لہراُس کی شدّت دن بہ دن برھتی ہی جا رہی ہے۔یہ تین فیصد اوران کے ساتھ چار فیصد درخت کے علاوہ کیا۹۳ فیصد نقصان پہنچانے والوں کی خبر لینے کی کوئی ضرورت نہیں؟ان۹۳فیصد عوامل میںکارخانوں اورورک شاپس کوہوا اور سمندر میںزہریلے مادّے پھیلانے سے روکنا،کچراجلانے اوردھواں دینے والی گاڑیوں پر پابندی وغیرہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔
…………
لیکن ’کونوکارپس ‘سے نمٹنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ اس کے پیچھے پڑجایا جائے اور ان کوجَڑسے اُکھاڑ دیا جائے۔
فی الوقت اِس کا علاج یہ ہونا چاہیئے کہ کم از کم اس سے دو گُنازیادہ’ مقامی‘ درخت لگائے جائیں۔
…………
مگر یہ چودہ فیصد درخت بھی بارش زیادہ اور گرمی کم کرنے کے لئے کافی نہیں ہوں گے،اس کے لئے کراچی کی زمین پرکم از کم چالیس فیصد درخت لگانے کی ضرورت ہے نہ کے کاٹنے کی؟
…………
تجویز ہے کہ کراچی کے ہر بالغ فرد کوپابند کیا جائے کہ وہ کم ازکم ایک درخت لگائے۔جو ایک سے زیادہ لگائے اُن کو انعام دیا جائے،جو ایک بھی نہ لگائے اُن پر جرمانہ کیا جائے۔
…………
ٓاس مضمون میںاصل تفکّر کا مقا م یہ ہے کہ اس میزان کا حساب کتاب سوائے ایک زبردست سریع الحساب حساب دان کے کون کر سکتا ہے۔
٭…٭…٭

حصہ