چوگانِ فکاہت کا یکتا کھلاڑی، مشتاق احمد یوسفی

606

رشید بٹ
ہم نے برِّصغیر کے ایک نابغۂ روزگار شاعر ثاقبؔ لکھنوی کے نایاب کلام کا انتخاب شائع کیا تو تقریبِ پذیرائی میں دورِ حاضر کے ایک نابغۂ روزگار کو ڈرتے ڈرتے مدعو کیا کہ جانے زحمت گوارا کریں، نہ کریں۔ لیکن دعوت نامے والے پلڑے میں چوں کہ ایک بھاری بھرکم سفارش کا ’’باٹ‘‘ رکھا تھا لہٰذا موصوف نہ صرف آئے بلکہ اسٹیج کے بجائے حاضرین و سامعین ِباتمکین میں تشریف فرما ہوئے۔ یوں تو ہم برسوں سے ان کے حلقۂ قارئین و’’ارادت‘‘ میں شامل تھے، تاہم یہ ہمارا ان سے پہلا ’’باضابطہ‘‘ تعارف تھا۔ لیکن ذرا رکیے، اس موضوع کے حوالے سے اپنے سمندِ گفتگو کو لگام دیتے ہوئے ہم کچھ اپنے بارے میں بتادیں۔ ہم اور ہماری بیوی بگڑے صحافی ہیں۔ وہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو بن جاتا ہے۔ سو ہم دونوں بھی جو بگڑے تو صحافی سے پرنٹر اور پبلشر بن گئے۔ کتاب ’’انتخابِ کلام ِثاقب ؔلکھنوی‘‘ بھی ایسا ہی ایک شاخسانہ تھی۔ ہمارے ممدوحِ مذکورہ نے کتاب کو اُلٹ پَلٹ کے دیکھا اور اس کی طباعت خصوصاً جِلدبندی کی خوب داد دی۔ بھاری بھرکم سفارش کے ’’باٹ‘‘ نے کچھ منتخب حاضرین و سامعین کے لیے کھانے کا اہتمام بھی کررکھا تھا، لہٰذا کھانے پر ان سے ’’رج‘‘ کے باتیں ہوئیں اور ہم نے بزعمِ خود اپنا شمار ان کے شناسائوں بلکہ دوستوں میں کرلیا ۔
ہماری بیوی حمیرا اطہر ہم سے زیادہ پڑھی لکھی اور زیادہ مشہور صحافی ہیں۔ ہمارے گھر میں ایک لمبی قطار ایوارڈز اور اسی قماش کی دیگر اشیاء مثلاً تصاویر اورطغروں کی لگی ہوئی ہے۔ کچھ میزوں پہ رکھے ہیں، کچھ شیلفوں پہ، اور کچھ دیواروں پہ آویزاں ہیں۔ ایک بار چند دوست آگئے تو رواں تبصرہ شروع ہوگیا۔ ایک صاحب رہ نہ سکے تو ہم سے گویا ہوئے: ’’ان اشیائے ناخورو نوش میں کچھ تمہارا بھی ہے؟‘‘ تو دوسرے فوراً پھٹ پڑے’’ارے بھئی! جب ایسی چیزیں جہیز میں آنے لگیں تو دہری مشقت کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ ایسے میں ہم کیا کہتے سنتے کہ ہماری ساری پیشہ ورانہ زندگی تو کتابیں ترجمہ کرتے اور خبریں بناتے بیت گئی تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ حکومت ِچین کی دعوت پر کوئی پندرہ برس وہاں گزار آئے۔ ان کی کتابیں اردو میں ترجمہ کرتے رہے اور موصوفہ کالم اور مضمون نگاری کرتی رہیں، جن میں نام بھی تھا اور ایوارڈ بھی۔ تین ایوارڈ تو انہوں نے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (عرفِ عام میں اے پی این ایس) کے سالانہ مقابلوں میں ’’پِیٹ لیے‘‘۔ ایک زمانے میں وہ ’’بابری مسجد‘‘ پر اعلیٰ پائے کی کتاب لکھ کر اور ہم سپریم کورٹ میں بھٹو مرحوم کے آخری بیان ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ کا ترجمہ کتابی صورت میں چھاپ کر دھڑا دھڑ بیچنے کا ’’کھڑکی توڑ ہفتہ‘‘ منا چکے تھے۔ ان ہی دنوں ہم ملک کا معروف ماہنامہ ’’شوٹائم‘‘ نکال کر اور چند برس اس کی ایڈیٹری کرکے بند بھی کرچکے تھے۔ (لوگ آج بھی ہمارے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’یار! تم پھر شو ٹائم کیوں نہیں نکال لیتے؟‘‘ اور ہم ہنس دیتے ہیں، ہم چپ رہتے ہیں۔) ان تمام احوالِ واقعی کے نتیجے میں ہمارا خیال تھا کہ ہم دونوں میاں بیوی، زیادہ نہ سہی، کچھ نہ کچھ تو’’شہرتِ عام اور بقائے دوام‘‘ حاصل کرچکے ہیں۔
مگر مشتاق احمد یوسفی صاحب کو ہماری ’’شہرتِ عام اور بقائے دوام‘‘ ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے اس کا کماحقہٗ انداز میں بھُرکس نکال کے رکھ دیا۔ ارے ارے، آپ ابھی بھی نہیں سمجھے؟ ہم اُوپر ان ہی کا تو ذِکر کررہے تھے!
ہوا یوں کہ حمیرا نے ایک دن بات چھیڑی کہ میں نے اتنے کالم لکھے ہیں، ادبی انٹرویو کیے ہیں، یہ لکھا ہے، وہ لکھا ہے، کیوں ناں انہیں مرتّب کیا جائے اورالگ الگ کتابی صورت میں شائع کیا جائے۔ سب سے پہلے کالم لے لیتے ہیں، اس کے بعد انٹرویوز کی کتاب لے آئیں گے۔ میری مختلف تحریروں کی کم از کم چھ کتابیں بن سکتی ہیں۔ اب ہم نے دھیرے دھیرے کھانسنا شروع کیا تو موصوفہ نے کتابوں کی تعداد میں کمی کا آغاز کردیا۔ آخر میں طے پایا کہ ابھی صرف کالموں کی کتاب ترتیب دی جائے۔ عنوان بھی سوچ لیا گیا’’بات سے بات‘‘کہ ہفت روزہ اخبارِ خواتین میں یہ کالم اسی عنوان کے تحت لکھے گئے تھے۔ ہم نے ابتداً کالم، کمپوزنگ کے بعد، کچھ نظرثانی کے انداز میں دیکھے تو کہیں کہیں دلچسپ لگے۔ ذرا مزید غور اور توجہ سے پڑھا تو اندازہ ہوا کہ اچھے خاصے ہیں۔ اب ہم نے سنجیدگی اختیار کی۔ کالموں کی نوک پلک سنواری، ٹائٹل بنایا اور بالآخر حتمی شکل میں مسّودہ تیار ہوگیا۔ اب جو مرحلہ آیا وہ ہر کتابیے (ذرا شائستہ الفاظ میں کہا جائے تو ہر صاحب ِکتاب) کے لیے بڑا ہی کٹھن اور صبر آزما ہوتا ہے۔ یعنی اپنے جاننے (اور نہ جاننے) والے معروف ادباء اور شعراء کے تحریری تاثّرات اور آراء شامل ِ کتاب کرنے کا مرحلہ، تاکہ کتاب کچھ ’’وزن دار‘‘ ہوجائے، ویسے فی زمانہ ضروری نہیں کہ تاثّرات اور آراء لکھنے والے پڑھے لکھے بھی ہوں، سو ہم دونوں نے ڈول ڈالنے شروع کیے کہ تاثّرات کے لیے کسی ایسے ’’بڑے صاحب‘‘کو پکڑا جائے جو سوا سیر ہوں۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں آ جائے۔ بقول کَسے، زیادہ لوگوں کی ٹُھڈی میں ہاتھ نہ دینے پڑیں۔ پھر کالموں کا تعلق بھی فکاہت اور طنزو مزاح سے ہے اور طنزو مزاح لکھنے والے آج کل یوں بھی گِنے گِنائے ہیں۔ فکاہیہ کالم نگاری تو ناکوں چنے چبوا دیتی ہے۔ یہ ہماری ذاتی رائے ہوسکتی ہے۔ لکھنے والے تو اتنے ہیں کہ اب پڑھنے والے کم پڑنے لگے ہیں۔ ایک روزنامہ ہم نے دیکھا، اس میں روز اتنے کالم ہوتے ہیں کہ لگتا ہے ماسوائے چپراسی کے (سنا ہے اس اخبار میں چپراسی ہی نہیں ہیں) ہر ملازم کالم لکھنے اور چھپوانے میں جُتا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ ان سب کی دیکھا دیکھی اب ’’ایڈیٹر اخبار ہذا‘‘نے بھی کالم نویسی کا آغاز کردیا ہے ۔
ہم نے بات کہاں سے شروع کی تھی اور ’بات سے بات‘ نکلتے نکلتے کہاں پہنچ گئی ۔ سوچتے سوچتے خیال آیا کہ مشتاق احمد یوسفی صاحب سے کیوں ناں کہا جائے، کہ ہاتھی کے پائوں میں عملاً سب کا پائوں آجائے۔گو ہم اس خوش فہمی میں گلے گلے ڈوبے ہوئے تھے کہ یوسفی صاحب سے ہماری اپنی شناسائی ہے، پھر بھی ہم نے ’’سفارشی باٹ‘‘ مسّودے پہ رکھا اور طے شدہ وقت پر ڈیفنس میں ان کے درِ دولت پہ حاضری دے دی۔ اُن کی ’’زر گزشت ‘‘ پڑھ کر (خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہم کم و بیش چھ مرتبہ یہ کتاب، بقول شخصے، چاٹ چکے ہیں) اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مونا بائو، پھرٹنڈوآدم سے کراچی کی پی آئی بی کالونی اور پھر ڈیفنس تک، انگریزی اردو، ہر دو زبانوں والا خاصا ’’سفر‘‘ کیا ہے، لہٰذا ’’غریب غربائوں‘‘کا کچھ خیال کرلیں گے۔ انہوں نے خیال کیا اور خوب کیا۔ وقت کے معاملے میں وہ پکے انگریز ہیں۔ کہنے لگے ’’میں نے حال ہی میں آنکھوں کا آپریشن کرایا ہے۔ پڑھنا لکھنا محال ہے۔ آپ یوںکریں کچھ لکھ لائیں، میں دستخط کردوں گا۔‘‘ اس حوالے سے انہوں نے ماقبل کا ایک واقعہ بھی سنایا جس کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ وہ ایسا ہی ایک (یا کئی؟) دریائے شور عبور کرچکے ہیں۔ ہم پہلے تو’’ہکّا‘‘ ہوئے پھر ’’بکّا‘‘ ہوئے۔ بصد مشکل اپنے حواس قابو میں لاتے ہوئے عرضی گزاری کہ ’’عوالی جاہ‘‘ (یوسفی صاحب نے اپنے ایک محبوب کردار کے کلّے میں گلوری دبواکر عالی جاہ کو بڑے خوب صورت انداز میں’’عوالی جاہ‘‘ کہلوایا ہے)، ہم اپنی تحریر میں کتنے بھی کلی پھندنے ٹانک لیں، اُس میں بلندشہر (بُلن شے اوربوڑھا نِیم کا پیڑ) تو لانے سے رہے۔ کیا یوسفی صاحب کی تحریر اتنی گئی گزری ہوگئی ہے کہ ہم لکھیں اور یوسفی صاحب اس پہ دستخط کردیں ؟ تاڑنے والے تو قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ ڈھول کا پول کھول کے رکھ دیں گے یا پھر یہ کہیں گے کہ ہم نے جعل سازی کی ہے ۔ آپ ماشاء اللہ ازلی تونہیں، ابدی بینکر ضرور ہیں۔ آپ کے دستخطوں کا کیا ہے وہ تو اسکین ((Scanکرکے کہیں بھی چپکائے جا سکتے ہیں۔ ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ایک آدھ کالم کیسٹ پر ریکارڈ کرکے دے دیں۔ آپ بطور مُشتے نمونہ از خروارے، اُسے سن کر اپنے تاثّرات ریکارڈ کردیں۔ ہم وہ ٹرانسکرائب کرلیں گے۔
وِس پہ وِن نے تبسّم فرمایا اور کہا’’اچھا آپ لوگ مسّودہ چھوڑ جائیں۔ آنکھیں جوں ہی ذرا پڑھنے کے لائق ہوں گی، میں دیکھ کر اپنی رائے لکھ دوں گا مگر مہینہ بھر لگ جائے گا۔‘‘ہم نے اسی کو غنیمت جانا اور مسّودہ ان کے سپرد کرکے آگئے۔ لگ بھگ ایک ماہ بعد ہم نے ایک ’’روزِ محشر‘‘ انہیں فون کردیا کہ سزا و جزا کا پتا چلے۔ کہنے لگے’’پشاور سے ایک خاتون آئی تھیں، میں نے مسّودہ انہیں دیا ہے کہ پڑھ کر رائے لکھ دیں۔‘‘ ہمارا دم مسافر ہونے میں بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہوگی۔ مجنوں نظر آنے لگی، لیلیٰ نظر آنے لگا۔ یوسفی صاحب نے تو مارواڑی اہل ِزبان ہونے کے باوصف، اردو اہل ِزبان حضرات سے اپنی تحریروں پر اصلاح لے لی تھی مگر ہم پشتو اہلِ زبان کے ہاتھوں اردو کی اصلاح کس طور ہضم کر پائیں گے؟ یوسفی صاحب کے ہی ایک کردار خان سیف الملوک خان بھی رہ رہ کے ہمارے اعصاب پر ہتھوڑے برساتے رہے اور ہم یہ سوچا کیے کہ پشتو اہل ِزبان کے ’’تاثّرات ‘‘ہمارے اعمال کے خانۂ سزا میں جائیں گے یا جزا میں؟ اسی عالمِ خستگی میں ہمیں غالبِ خستہ کے بارے میں ایک پرانا لطیفہ بھی یاد آیا۔ موصوف جب تک زندہ رہے، اللہ تعالیٰ کے بارے میں شاعرانہ تعلّی ہی سے کام لیتے رہے۔ بیوی انہیں ماشاء اللہ ’’حجن نمجن‘‘ ملی تھیں، اس کے حوالے سے بھی اللہ میاں سے شکوے شکایتوں کا دفتر عموماً کھُلا رکھتے۔ اس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سدھارے تو قرض خواہوں نے بھلے سے جاں بخشی کردی ہو، فرشتوں نے پکڑ، فوراً اللہ میاں کے حضور لاکھڑا کیا اور خود کھاتے کھول کے بیٹھ گئے۔ اللہ میاں فردِ ’’جرائم‘‘سنتے گئے اور اُن کا جلال دو آتشہ بلکہ چہار آتشہ ہوتا گیا۔ فردِ جرائم تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ فرشتے بھی ہانپنے لگے تھے۔ ان کے گلے خشک ہورہے تھے۔ بارے خدا خدا کرکے فرد ختم ہوئی تو اللہ میاں گویا ہوئے: غالب میں نے تو تمہیں ایسا شاعر بنا کے دنیا میں بھیجا تھا کہ شروع شروع میں دوسرے بڑے شاعر، کہیں باتوں کے کچوکے لگا کے تو کبھی کہنیاں مار کر تمہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کریں گے لیکن پھر ایسا وقت بھی آئے گا کہ تمہارے آگے کسی کا چراغ نہ جل پائے گا اور تم ہر دَور کے شاعر جانے جائو گے۔ مگر تم نے تو دنیا میں میرے ہی لتّے لینے شروع کردیئے ۔ تمہیں مَیں نے نماز روزے کی پابند بیوی دی تو تم اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اب مَیں تمہیں سزا بھی ایسی دوں گا کہ دنیا دیکھے گی۔ آج سے کوئی سو سال بعد ہندوستان میں تمہارے نام سے ایک فلم بنے گی جس میں اس وقت کا ایک پھٹیچر ایکٹر بھرت بھوشن تمہارا کردار ادا کرے گا۔ اتنا سننا تھا کہ غالب نے ہاہا کار مچا دی۔ اللہ میاں کو اللہ میاں ہی کی دہائی دینے لگے کہ اتنی کڑی سزا نہ دی جائے۔ اس پہ اللہ میاں بولے: سنو، ابھی تو میری بات بھی پوری نہیں ہوئی، اور کس نے تمہیں کہہ دیا کہ بس اتنی ہی سزا ہوگی؟ اس کے چند سال بعد پاکستان میں بھی تم پر ایک فلم بنے گی جس میں ایک پاکستانی ایکٹر سدھیر، مرزا غالب بنے گا۔ اور غالب شاید پوری بات سنے بغیر ہی بے ہوش ہوگئے۔
یوسفی صاحب کو دریائے شور عبور کرنے سے ہم روک ہی چکے تھے۔ ہمارے بے ہوش ہونے کی نوبت بہرحال نہ آئی۔ گمان غالب یہ ہے کہ اُس پشتو اہلِزبان خاتون نے بھی یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا۔ ایک دن ٹی سی ایس کے ذریعے ہمیں ایک پیکٹ موصول ہوا۔ بھیجنے والے یوسفی صاحب تھے۔ لفافے میں وہ مسّودہ رکھا تھا جو ہم اُن کے سپرد کر آئے تھے… اور کچھ نہ تھا۔
عرصۂ واردات تین چار ماہ تو رہا ہوگا۔اب ہمیں اچھی طرح یاد نہیں۔ چند روز ہوئے روزنامہ نوائے وقت کے ایک سنڈے میگزین میں کتابوں پر تبصروں والا حِصّہ نظر سے گزرا۔ ایک خاتون نے اپنے اخباری اور غیراخباری کالموں کا ایک ضخیم و جسیم ’’انتخاب‘‘ شائع کیا ہے۔ پانچ سو سے زائد صفحات ہیں۔ تبصرے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ جناب مشتاق احمد یوسفی نے اِن خاتون کو’’خواتین کی پطرس بخاری‘‘ قرار دیا ہے۔ اب یہ ہم بالکل نہیں جانتے کہ یوسفی صاحب نے خاتون کو یہ اعزاز اُن کے کالم ’’پڑھ‘‘ کر دیا ہے یا صرف ’’دستخط‘‘ کیے ہیں!
ہم جانے کتنی ’’صدیوں‘‘ سے یوسفی صاحب کے مداح ہیں اور رہیں گے، کہ اُن کا لکھا، پڑھ کر ہم نے جانے کب کب ذہنی آسودگی پائی۔ جانے کتنے دکھوں اور اعصابی کھچائو کے عالم میں ان کے الفاظ ہمارے لیے مسکراہٹیں بن کے آئے۔ مایوسیوں کی کڑی دھوپ کو حوصلوں کی خوش گوار بوندا باندی کا رنگ دیا۔ ہم جیسے جانے کتنے مداحوں کی مسکراہٹیں اُن کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اُن کے گرد محبتوں کا ہالہ بنائے رکھتی ہیں۔
لیکن کتاب پر تبصرے، رائے یا تاثّرات والی بات اپنی جگہ…

پس نوشت:

مضمون کے آخری پیرے میں ہم نے اپنا دل و جگر کھولا… مگر یہ کیا؟ وہ تو اب ہم میں رہے ہی نہیں۔ اُن کی زندگی میں وہ شام آگئی جہاں واقعتابقول بدر بشیر، ’’شام‘‘ ہو گئی۔ اور ہم اب اپنی زندگی کی شام کے منتظر ہیں۔ کب تک منتظر رہیں گے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو جو مشتاق احمد یوسفی جیسی ’’شام‘‘ ہمیں بھی نصیب ہو۔ اُن کا ’’عہد‘‘ تو ختم ہوا، ہمیں اپنے عہد کے ’’اختتام‘‘ کا انتظار ہے!!

حصہ