پکڑ

433

عالیہ زاہد بھٹی
تاریکی، گھور اندھیرا، شر شر رگوں میں بہتے لہو کی روانی، دھڑکنوں کا شور… اک عجیب ہنگامہ بپا تھا اس چھوٹی سی ’’فیکٹری‘‘ میں، جہاں نہ مزدور تھا نہ دیگر ملازم، نہ ساما نِ زیست، نہ آقا و ملازم کی جنگ۔ بس اک ردھم تھا، ایک رات دن کا تغیر و تبدّل تھا جو باہر کے شور سے اندر کے شور میں مدغم ہوکر اس فیکٹری کی واحد پیداوار کو اس کے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔
باہر سے جب خوشیوں بھری چہکار ابھرتی تو یہ ننھی سی پیداوار بھی مارے خوشی کے مچھلی کی مانند اِدھر سے اُدھر چہکنے، لہکنے لگتی۔ مگر جیسے ہی باہر سے غم و الم کی کوئی داستان سنائی دیتی فیکٹری کی یہ پیداوار چپکے سے ایک کونے میں سکڑ سمٹ کر، سہم کر گٹھڑی بن جاتی۔ یہ سب رات و دن کے پیچ و خم تھے، ظاہر و باطن کی جنگ تھی جسے مقررہ وقت تک اندر باہر دونوں مناظر کو برداشت کرنا تھا۔ کبھی نرمی کبھی گرمی، کبھی سختی تو کبھی آسانی سے دن پر دن گزرتے جارہے تھے۔ فیکٹری میں موجود نفس، وہ چھوٹی سی پیداوار، وہ خالقِ کائنات کی صنّاعی منتظر تھی کہ کب وہ خالق ’’کُن‘‘ کہے ’’فیکون‘‘ پس وہ ہوجائے، اس فیکٹری سے نکلنے کی راہ کو پا جائے۔ اس دوران اسے باہر سے اپنے لیے انتظار کی کیفیت کا بھی اندازہ ہورہا تھا، کہ جتنا اسے باہر کی دنیا میں جانے کی جلدی تھی اتنا ہی باہر والوں کو بھی اس کی آمد کا انتظار تھا۔
روز بروز اس کے لیے ہونے والی تیاریوں کا ذکر اس ننھی سی روح کو مسرور رکھتا، اسے اپنی اہمیت پر اپنے رب کا شکر گزار بناتا کہ اے پیارے اللہ تُو نے مجھے کتنی پیاری جگہ پیارے رشتوں اور پیارے ناتوں سے روشناس کرا دیا سب تیرا فضل ہے، یہ جو محبتیں مجھے ملنے والی ہیں اللہ تیرا شکر ہے۔ باہر کی آوازوں کو سن کر یہ ننھی روح خالق کے سامنے سجدہ ریز تھی۔ محویت سے اس نے سنا کہ ’’بے بی کاٹ بھی نیا لے لیں، پرانے والے کا کور خراب ہوگیا ہے، آرام دہ نہیں رہے گا۔‘‘ یہ وہ مانوس پیاری سی آواز تھی جس کے وجود نے اس ننھی سی روح کو اٹھاکر اپنے اندر چھپا رکھا تھا۔
’’ہوں، چلو اگلے مہینے دیکھیں گے، ابھی تو دو ماہ ہیں ناں‘‘۔ یہ دوسری پیاری سی بھاری سی آواز تھی جو ہمیشہ سے اس پہلی آواز والی کو ہر معاملے میں تسلیاں اور ڈھارس دیتی آئی تھی۔ ننھی روح کا بوجھ اٹھانے والی آواز کو کھانا، دوائی، آرام کا خیال رکھنے کا کہنے والے کی آواز تھی۔ یہی دو آوازیں بہت زیادہ تواتر سے سنائی دیتی تھیں، اور ان کے ساتھ اور بہت سی شور و غوغا کرتی، لڑتی جھگڑتی، ہنستی روتی، کبھی کھیلتی کھلکھلاتی آوازیں بھی تھیں جن میں ہر بار یہ سوال بھی اٹھتا ’’ماما آپ کب جائیں گی ڈاکٹر کے پاس ہمارے لیے بھیا لینے؟‘‘
’’بہت جلد بیٹا، بس آپ دعا کرو‘‘۔ وہ میٹھی نرم آواز تسلی دیتی۔ اور یونہی دن گزر جاتے کہ ایک دن اچانک پُرسکون موجوں میں تلاطم بپا ہوگیا۔
’’ارے ہوا کیا؟ روئے جارہی ہو، کچھ بتائو تو سہی کہ ہوا کیا ہے؟‘‘ وہ بھاری شفیق سی آواز گونجی، مگر اس ننھی سی روح کا وزن اٹھانے والا وجود مسلسل ہچکیوں سے لرز رہا تھا۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے، وہ ننھی سی روح اس رویّے پر بہت بے چین تھی، وہ ان آنسوئوں کو اپنی ننھی ہتھیلیوں سے چُن لینا چاہ رہی تھی، اس کا ننھا سا دل بہت بے قرار تھا، جیسے دل کی دنیا میں زلزلہ آچکا ہو۔ عجیب بے قراری تھی، بس کوشش تھی تو یہی کہ یہ سسکیوں سے لرزتا وجود دوبارہ سے خوشیوں سے لبریز ہوجائے، کچھ ایسا ہوجائے کہ اس وجود کے سارے غم و الم یہ ننھی روح اپنے ننھے سے وجود میں سموکر اس وجود کو شانت کردے۔ مگر یہ کہاں ممکن تھا! یہ ننھا سا وجود اپنی بے بسی پر نادم دوبارہ سے باہر سے آنے والی آوازوں کو کان لگاکر سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’وہ… وہ اِس بار بھی نہیں آرہا‘‘۔ سسکیوں کے درمیان اس وجود کی آواز آئی جسے کچھ پیاری پیاری آوازیں مما کے نام سے پکارتی تھیں۔
’’کون… کون نہیں آرہا؟‘‘ وہ بھاری سی آواز گونجی جسے چند میٹھی میٹھی آوازیں پاپا کہتی تھیں۔ اس اندر پروان چڑھتے وجود کو باہر کی آوازوں سے اتنی شناسائی تو ہوگئی تھی کہ رشتوں کے نام آوازوں سے جوڑنا آسان ہوگیا تھا۔ یہ بھی خالقِ کائنات کا فضل تھا۔
’’آج میں ڈاکٹر کے پاس گئی تھی الٹراسائونڈ کرانے۔ بہت پوچھنے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ…‘‘ مما نے پھر ہچکیوں سے رونا شروع کردیا۔
’’کیا…؟‘‘ پاپا کی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔
’’اِس بار بھی بیٹی ہے… آہ پانچویں بیٹی‘‘۔ ہچکیوں سے لرزتا وجود جیسے زندگی سے بے زار ہوگیا تھا، آج اسے اندر موجود ننھی سی روح کی فکر بھی نہ تھی کہ ’’وہ کیا سوچے گا‘‘۔ ہاں اب تو کوئی پروا نہ تھی کیونکہ پتا چل گیا تھا کہ وہ ’’سوچے گا‘‘ نہیں ’’سوچے گی‘‘ ہے، تو پھر کیا فرق پڑتا ہے! جو چاہے سوچے۔ اندر موجود وجود جیسے سناٹے میں آگیا، ایک لمحے کو اپنا بے قیمت ہوتا وجود جیسے زلزلے کی زد میں آگیا۔ اپنی قسمت پر ناز کرتی، رب کا شکر ادا کرتی سانسیں جیسے رک سی گئیں، تھم سی گئیں۔ اپنی ساری قوت مجتمع کرکے، اس ننھے سے وجود نے بہت ہمت کرکے پاپا کی بات سننے کی کوشش کی۔
’’ہوں… ہوں‘‘۔ اک نااُمید گہری سانس اس ننھے وجود کی ہر امید پر پانی پھیرتی چلی گئی کہ اس آواز کے خوشی و غم کے انداز سے تو وہ بہت اچھی طرح واقف تھی، پھر اب کیسے انجان رہ سکتی تھی!
’’چلو کوئی بات نہیں، اللہ کی رضا میں راضی رہنا چاہیے‘‘۔ الفاظ تو اچھے تھے مگر انداز یوں تھا کہ جیسے اپنے پیارے کے جنازوں کو کندھا دینے والوں کے ہوتے ہیں۔ ننھی سی روح کے ننھے سے سینے پر جیسے گھونسا لگا۔
’’کیسے راضی رہوں، میں راضی ہو بھی گئی تو آپ کے ماں باپ کو کیسے راضی کروں گی؟ رشتے داروں، محلے داروں کو کیسے راضی کروں گی؟ جان پہچان والوں کو، دوست احباب کو کیسے راضی کروں گی کہ جن کی زبانیں کلیجہ چیر دیں گی کہ ہائے پانچویں مرتبہ پھر بیٹی، چلو صبر کرو، اللہ سے امید رکھو وہ بیٹا ضرور دے گا‘‘۔ مما رو رو کر چیخ اٹھیں، پھر بولیں ’’جیسے بیٹا نہ دیا اللہ نے تو گویا ہماری زندگی کا مقصد ہی نہ ہوا۔ جن کے بیٹے نہیں ہوتے گویا وہ زندگی جیا نہیں کرتے۔ بیٹیوں کے ماں باپ قابلِ رحم ہوتے ہیں کیا؟ کیا انہیں ہر بار بیٹے کی آس میں معاشرے سے رحم کی اپیل کرنی پڑتی ہے… کیوں، کیوں ہوتا ہے ایسا! جب یہ نظام اللہ کے ہاتھ میں ہے تو زمانہ کیوں خدائی دعوے کرتا ہے!‘‘ مما کو اک پل بھی قرار نہ آرہا تھا۔
’’بس اب میں کچھ بھی نیا نہیں لوں گی، اچھا ہوا ہم نے خرچا نہیں کیا، پرانی چیزیں موجود ہیں وہی چلیں گی۔‘‘ مما نے روتے روتے یکدم سے فیصلہ دے دیا۔
ننھی سی روح جو اپنے استقبال پر بہت شاداں و فرحاں تھی اسے ایسا لگا جیسے ابھی ابھی روح پھونکنے والے فرشتے نے دوبارہ آکر اس کی روح جسم سے نکال لی ہے۔ وہ ننھا سا وجود اپنی اس بے توقیری پر ماتم کناں تھا، مگر اس کے ماتم کو سننے و الا تھا کون؟ باہر موجود وہ وجود تو اپنے غم کو آنسوئوں سے ہلکا کررہا تھا، اسے تسلی بھی دی جارہی تھی، مگر اندر اس ننھی سی روح کی چیخیں صرف اس کا پیدا کرنے والا رب، اس کا خالق سن رہا تھا، اور یہ فریاد سننے والا سب سے کریم تھا، رحیم تھا۔ اس کی شانِ کریمی نے جنت کے اس پھول کو بہت چن کر اس جوڑے کے گھر میں بھیجنے کے لیے تیار کیا تھا، مگر اس قدر بے توقیری پر اس ننھی روح کی فریاد پر اس خالقِ کائنات کو بھی جلال آگیا، حالانکہ وہ تو بڑا رحیم و کریم ہے، ایسی لغزشیں تو معاف کردیتا ہے۔ مگر ننھی روح نے اپنی بے توقیری پر کچھ اس طرح احتجاج کیا کہ خالقِ کائنات کے جلال کو آواز دے دی۔ سو اس ربِ کائنات نے جنت کے اس پھول کو دنیا کے اس گھر کے گلشن میں کھلنے سے پہلے ہی فرشتوں کو بھیج کر واپس جنت میں بلوا لیا۔
٭٭٭
’’ارے… ارے… کیا ہوا، طبیعت زیادہ خراب ہورہی ہے، ٹینشن لی ہے کیا؟‘‘ ڈاکٹرز ہائی الرٹ ہوگئے۔ ایمرجنسی کی طرف اسٹریچر پر جاتا وجود ایک خاتون کا تھا۔ اس کا شوہر اور چار چھوٹی چھوٹی بچیاں امید و ناامیدی کی کفیت میں اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر دعائوں میں مصروف تھے کہ یکایک ایمرجنسی روم کے دروازے سے نرس آئی اور بولی ’’سوری سر! آپ کی مسز کی حالت تو خطرے سے باہر ہے مگر ہم آپ کے بیٹے کو نہیں بچا سکے۔ آپ کی مسز نے معلوم نہیں کس بات کی اتنی ٹینشن لے لی تھی کہ ان کا بی پی کنٹرول سے باہر ہوگیا تھا۔ سوری، ہم کچھ دیر میں انہیں کمرے میں شفٹ کردیں گے۔‘‘ نرس کی بات پر جیسے خاتون کے شوہر کو ایک جھٹکا سا لگا… ’’بیٹا…!‘‘
’’جی سر! بیٹا تھا، مگر جو خدا کی مرضی، حوصلہ کریں۔‘‘
نرس پیشہ ورانہ انداز سے تسلی دیتے ہوئے چلی گئی اور شوہر گم سم کھڑا رہ گیا۔ تقدیر نے عجیب مذاق کردیا تھا۔ اس کے ذہن میں ایک درس کے دوران سنا جانے والا بیان گونج رہا تھا:
’’آج اس دجالی دور میں ہم نے مشینوں کو خدا سمجھ لیا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کو قرآن و سنت پر ترجیح دے دی ہے۔ جب کہ ہمارے دلوں کو الٹ پلٹ کرنے والا خالق تو ہمارے راہِ ہدایت پر آنے کا منتظر ہے، ہم ہدایت کی طرف تو آئیں، وہ ایک ’’کن‘‘ کہے گا ’’فیکون‘‘ پس ہوجائے گی ہماری تقدیر ہمارے اعمال کے موافق۔ ہمارے اعمال، افعال اور نیتیں ہماری تقدیر بناتی ہیں۔ اللہ کے دیے پر راضی ہوجایئے، نہ جانے کب کس گھڑی وہ رب آپ سے راضی ہوکر آپ کی تقدیر بنا دے۔ وہ تو شہنشاہ ہے، اس کی رضا کو اپنی رضا بنا لیں، وہ آپ سے خود پوچھے گا ہاں میرے بندے تجھے کیا چاہیے۔ اور جب ہم اور آپ اُس کے دیے پر قانع نہ ہوئے، راضی نہ ہوئے تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوگی اور ہم بہت کمزور۔‘‘

حصہ