پسِ آئینہ

950

ظہیر خان
میرتقی میرؔ نے دھلی کو خیر باد کہا اور لکھنؤ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔ اُس وقت دھلی اور لکھنؤ دونوں ہی علم و ادب کے مراکز تھے۔ لکھنؤ پہنچنے پر کسی سرائے میں قیام کیا۔ معلوم ہوا کہ آج کسی جگہ مشاعرہ ہے۔ بھلا ایک شاعر یہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ کہیں مشاعرہ ہو اور وہ مشاعرے میں شرکت سے محروم رہ جائے۔ میر صاحب خوشی خوشی مشاعرہ گاہ پہنچ گئے۔ بدن پر لباس کچھ اس طرح کا تھا جو لکھنؤ والوں کے مزاج سے ہم آہنگ نہ تھا۔ لہٰذا محفل میں کچھ جوانوں نے مذاقاً اور طنزاً فقرے کسے‘ ہسنی اڑائی اور وطن دریافت کیا۔ میر صاحب پہلے ہی بہت دل برداشتہ تھے اور بھی رنجیدہ ہوگئے۔ خاموشی سے ایک جانب جا بیٹھے۔ میر صاحب کا کلام تو لکھنؤ والوں تک پہنچ چکا تھا مگر شکلاً لوگ انہیں نہ پہچانتے تھے۔ اسی لیے اہلِ محفل سے یہ گستاخی سرزد ہوگئی۔ بہر حال جب شمع میرصاحب کے سامنے آئی تو میر صاحب نے فی البدیہہ قطعہ کہہ کر اپنا تعارف کرایا۔ یہ تاریخی قطعہ اردو ادب میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔

کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

جب اہلِ محفل کو معلوم ہوا کہ یہ میرتقی میر ؔہیں تو سب بہت شرمندہ ہوئے اور ان سے معذرت کی۔
٭٭٭
مرزا غالبؔ کی طبیعت مشکل پسندی کی طرف مائل تھی لہٰذا اکثر مشاعروں میں ان کا کلام احباب کو سمجھنے میں دقّت پیش آتی تھی۔ ایک دفعہ ایک مشاعرے میں‘ جہاں مرزا غالب بھی موجود تھے‘ حکیم آغا جان بخش عیش جو ایک خوش طبع شگفتہ مزاج شخص تھے ایک قطعہ پڑھ گئے اشارہ مرزا غالبؔ کی طرف تھا۔

اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزاؔ سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

٭٭٭
شیخ قلندر بخش جرأتؔ عین جوانی میں آنکھوں سے معذور ہوگئے تھے سید انشااﷲ خاں انشاءؔ سے ان کا خوب یارانہ تھا۔ ایک مرتبہ سید انشاء ان سے ملاقات کی غرض سے ان کے گھر گئے۔ دیکھا کہ جرأت خاموش بیٹھے کسی سوچ میںغرق ہیں۔ سید انشاء کے پوچھنے پر کہ ماجرا کیا ہے۔ جرأت نے کہا کہ ایک مصرعہ ہوا ہے، دوسرے کی فکر ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ مطلع ہوجائے۔ سید انشاء نے کہا ذرا میں بھی تو سنوں کہ مصرعہ کیا ہے۔ جرأت بولے نہیں بتائوں گا ورنہ تم مصرعہ لے اڑو گے اور دوسرا مصرعہ لگا کر اسے اپنا کہو گے۔ سید انشاء کے بہت اصرار پر جرأت نے آخر مصرع کہہ ہی دیا…

’’اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی‘‘

سید انشاء نے کہا … دوسرا مصرع سامنے ہے۔

’’اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی‘‘

جرأت نے اپنی چھڑی اٹھائی انشاء کو مارنے کے لیے اور وہ ٹٹولتے ہی رہ گئے جبکہ انشاء وہاں سے بھاگ گئے۔
٭٭٭
ایک دور تھا جب لکھنؤ میں شاعروں کی تعداد اتنی تھی کہ ہر تیسرا شخص شاعر اور باقی دو سامع ہوا کرتے تھے۔ مشاعرے عوام کے لیے بہترین تفریح کا ذریعہ تھے۔ لکھنؤ نے بڑے نامی گرامی شاعر پیدا کیے۔ مرزا سلامت علی دبیرؔ اور میری ببّر علی انیسؔ کا ایک ہی دور تھا۔ دونوں ہی کا مرثیہ نگاری میں جواب نہ تھا۔ میر انیس غزلیں بھی کہا کرتے تھے۔ ان کی کہی ہوئی غزلیں عوام میں بہت مقبول ہوئیں۔ ہر دور میں شاعروں کے درمیان پارٹی بازی ضرور رہی ہے۔ میر انیسؔ کے دور میں بھی تھی۔ میر انیس جب کوئی اچھا خیال، کوئی نیا مضمون اپنی شاعری میں لاتے تو ان کی مخالف پارٹی کے کچھ شاعر حضرات میر انیس کے مضمون کو اپنے الفاظ میں اپنی شاعری میں کہہ دیا کرتے۔ یعنی مضمون میر انیس کا اور الفاظ ان حضرات کے۔ یہ سلسلہ مستقل چل رہاتھا کہ اچانک میر انیس کچھ عرصہ کے لیے بیمار پڑگئے جب صحت یاب ہوئے تو میر انیس نے اپنے دوستوں سے ان حضرات کے بارے میں دریافت کیا جو ان کے مضامین کاسرقہ کیا کرتے تھے کہ اس درمیان ان لوگوں نے کیا کہا تو معلوم ہوا کہ کچھ نہیں کہا۔ اس وقت میر انیس نے یہ شعر کہہ کر اپنا پیغام ان تک پہنچادیا…

لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

٭٭٭
مرزا غالب نے آم کی تعریف میں کہا تھا…

انگبیں کے بہ حکمِ ربُّ النّاس
بھر کے بھیجے ہیں سر بہ ُمہرِ گلاس

مرزا کی طرح اکبر الٰہ آبادی کو بھی آم بہت پسند تھے… کسے آم پسند نہیں ہیں… پسند تو مجھے بھی بہت ہے مگر افسوس کہ میں شاعر نہیں ہوں ورنہ میں بھی آم کی تعریف میں کوئی شعر کہتا اور آم کے قصیدہ گو شاعروں کی فہرست میں شامل ہوجاتا۔ اور میرے مرنے کے بعد احباب بڑے فخر سے کہتے کہ مرزا غالب کی طرح ظہیر خان کو بھی آم بہت پسند تھے۔ خیر یہ تو فضول سی باتیں تھیں۔ بات ہورہی تھی اکبر الٰہ آبادی کے بارے میں… کہ انہیں آم بہت پسند تھے۔ اپنے ایک بے تکلّف دوست منشی نثار حسین (ایڈیٹر ’’گلدستہ‘‘ لکھنؤ) کو لکھتے ہیں…

نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجیے
اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے
ایسے ضرور ہوں کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ ہوں اگر بیس تو دس خام بھیجیے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الہٰ آباد مرے نام بھیجیے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہو گی پہلے مگر دام بھیجیے

۔1910 میں الہٰ آباد میں ایک عظیم الشان نمائش ہوئی کلکتہ کی مشہور رقاصہ گوہر جان بھی آئی۔ اس کے دیدار کے لیے سارا شہر امنڈ پڑا۔ اکبر کے دوستوں نے اکبر سے اس رقاصہ کے بارے میں کچھ کہنے کی فرمائش کی اکبر نے یہ شعر کہا…

خوش نصیب آج یہاں کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اﷲ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

٭٭٭
داغ دھلوی کے جن شاگردوں کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی ان میں نوح ناروی سرِ فہرست ہیں یہ صحیح معنوں میں جانشینِ داغ تھے۔ موصوف کسی مشاعرے میں غزل خواں تھے۔ قافیہ اور ردیف اس طرح تھا ’’حالات کیا کیا‘‘ ’’آفات کیا کیا‘‘ جب وہ اپنے اس شعر پر پہنچے جس کا مصرع اولیٰ تھا…

’’یہ دل ہے، یہ جگر ہے، یہ کلیجہ‘‘

تو وہاں موجود پنڈت ہری چند اختر بے ساختہ بول اٹھے…

’’قصائی لایا ہے سوغات کیا کیا‘‘

ان کے اس طرح ٹکڑا لگانے پر مشاعرہ گاہ قہقہوں سے گونج اٹھی۔
٭٭٭
مشاعرہ اپنے شباب پر تھا بہزاد لکھنوئی غزل سراتھے۔ غزل کا مطلع تھا…

ترے عشق میں زندگانی لٹا دی
عجب کھیل کھیلا جوانی لٹا دی

غزل ختم ہوئی بہزاد لکھنوی نے ایک بار پھر مطلع دہرایا۔ اور واپس اپنی نشست پر چلے گئے ابھی ناظمِ مشاعرہ کچھ کہنے بھی نہ پائے تھے کہ ایک نوجوان سامع تیزی سے اسٹیج کی جانب بڑھا اور مائک کے سامنے بیٹھ کر بڑے اطمینان سے یہ شعر پڑھا…

محبت میں جاتے ہیں دین اور ایماں
بڑا تیر مارا جوانی لٹا دی

لفظ ’’تیر‘‘ پر زور دیا اور اشارہ بہزاد صاحب کی طرف کیا بہزاد صاحب مسکرا رہے تھے اور سامعین زور دار تالیوں سے اس نوجوان کو داد دے رہے تھے۔ یہی نوجوان آگے چل کر محشربدایونی کے نام سے مشہور ہوئے۔
٭٭٭
جگن ناتھ آزادؔ عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم میانوالی میں حاصل کرنے کے بعد راولپنڈی آگئے اور وہیں سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ زندگی کا بہترین حصّہ راولپنڈی میں گزارا، خوبصورت یادیں، خوبصورت ماضی وہیں سے وابستہ تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد دہلی چلے گئے… چند سالوں کے بعد راولپنڈی میں ایک مشاعرے کا انعقاد ہوا جس میں جگن ناتھ آزاد بطور مہمان شاعر مدعو تھے… ناظمِ مشاعرہ نے بڑے ادب و احترام سے جگن ناتھ آزاد کو دعوتِ سخن دی۔ ایک شاعر ہونے کے ناطے جگن ناتھ آزاد نے اپنے جذبات کا اظہار اپنے اشعار میں کس طرح کیا۔ ملاحظہ کیجیے۔

تری بزمِ طرب میں سوزِ پنہاں لے کے آیا ہوں
چمن میں یادِ ایّامِ بہاراں لے کے آیا ہوں
تری محفل سے جو ارمان و حسرت لے کے نکلا تھا
وہ حسرت لے کے آیا ہوں وہ ارماں لے کے آیا ہوں
تمہارے واسطے اے دوستو میں اور کیا لاتا
وطن کی صبح تک شامِ غریباں لے کے آیا ہوں
میں اپنے گھر میں آیا ہوں مگر انداز تو دیکھو
میں اپنے آپ کو مانندِ مہماں لے کے آیا ہوں

٭٭٭
منوّر لکھنوی موم بتّی کی روشنی میں مطالعہ میں مصروف تھے کہ ایک پروانہ موم بتّی سے ٹکرایا اور موم بتّی بجھ گئی۔ اسی وقت ان کی زبان پر یہ شعر آگیا…

الٰہی آگ ہی لگ جائے اس ذوقِ محبت کو
جلے کوئی مرے کوئی اندھیرا میری محفل میں

٭٭٭
دلاور فگار ایک ایسے مشاعرے میں موجود تھے جہاں منتظمین نے تمام شعرائے کرام کو ایک ایک دیوار گھڑی تحفتاً پیش کی۔ دلاور فگار نے فی البدیہہ یہ شعر کہا…

اس گھڑی سے کم از کم اتنا تو ہوگا فائدہ
گھر میں ایک دیوار بنوائوں گا میں باقاعدہ

دلاور فگار کا ایک اور واقعہ … ایک مشاعرے میں نریش کمار شاد نے دلاور فگار کو مخاطب کرکے یہ شعر کہا…

تم دلاور بھی ہو فگار بھی ہو
خوف کھائوں کہ تم پہ رحم کروں

دلاور فگار نے اسی وقت جواب دیا…

خوف بھی کھائو مجھ پہ رحم کے ساتھ
میں دلاور بھی ہوں فگار بھی ہوں

٭٭٭
ضیاء الحق قاسمی ایک زندہ دل انسان تھے۔ دل کا آپریشن ہوا۔ بائی پاس ہوا۔ ڈاکٹر حضرات نے ان کے دل کی تمام رگوں کے ساتھ خوب چھیڑچھاڑ کی مگر ان کی رگِ ظرافت ویسے ہی پھڑکتی رہی اس میں کمی نہ ہوئی۔ بائی پاس کے بعد چچا غالب یاد آئے اور ان کا ایک مصرع لے کر تضمین کہہ ڈالی…

کرا لیا ہے جو میں نے بھی بائی پاس اپنا
بہت ضروری تھا ویسے بھی قلب و جاں کے لیے
نہیں حسینوں کے آنے پہ اب کوئی بندش
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

٭٭٭
کراچی کے ایک مشاعرے میں نقاش کاظمی نظامت فرمارہے تھے ایک شاعر جن کا تخلص ’’انور‘‘ تھا غزل سرا تھے۔ قافیہ اور ردیف اس طرح تھا ’’حیرانی سے مرجاتے، پشیمانی سے مرجاتے‘‘۔ جیسے ہی ان صاحب نے غزل مکمل کی انور مسعود نے نقاش کاظمی کو اشارہ کیا کہ مجھے فوراً بلائو ایک تازہ قطعہ اسی زمین میں ابھی ابھی ہوا ہے۔ نقاش کاظمی نے انور مسعود کو اسی وقت مائیک پر بلالیا۔ قطعہ ملاحظہ کیجیے:

ابھی اپنی غزل پڑھ کر گئے ہیں حضرتِ انور
ردیف و قافیہ یہ تھا پشیمانی سے مر جاتے
انہیں مشکل بڑی درپیش تھی مرنے کے بارے میں
وہ کرتے عقدِ ثانی اور آسانی سے مر جاتے

٭٭٭
پیر صاحب پگاڑہ ایک باذوق انسان تھے بہت سارے شوق انہوں نے پالے ہوئے تھے…پرندوں کا شوق، گھوڑے پالنے کا شوق، لنگور پالنے کا شوق… طبیعت مزاح کی طرف مائل تھی لہٰذا اپنی 76 ویں سالگرہ پر اپنے درِ دولت پر ایک مزاحیہ مشاعرے کا انعقاد کیا۔ سعید آغا نے ان کو مخاطب کرکے یہ قطعہ کہا۔

ایک لنگور رو رہا تھا رات
کوئی آیا نہیں اماں دینے
پیر صاحب کے پاس آیا ہوں
اپنے بابا کی پینشن لینے

حصہ