پردے سے متعلق سائنسی حقائق

534

عائشہ صدیقی
آپ کو نقاب/ عبایہ میں گرمی نہیں لگتی؟ اس میں سانس بند نہیں ہوتا؟ بہت ہی مشکل کام ہے نا پردہ کرنا؟ ایسا کوئی نا کوئی سوال ہمیں اکثر گردش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ تو آئیے آج ان سب سوالوں کا جواب ڈھونڈ لیتے ہیں۔
ہمارے جسم کا مخصوص درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ جس پر ہمارے جسم کے تمام اعضاء درستی سے کام کرتے ہیں۔ جب یہ درجہ حرارت اس مقررہ حد سے بڑھ جاتا ہے تو جسم کے افعال متاثر ہونے لگتے ہیں۔ اس درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کے لیے قدرت نے ہمارے جسم میں کچھ نظام رکھے ہوئے ہیں جس میں سب سے اہم عملِ تَبخیر (Evaporation) ہے۔ دوسرے تمام مائعات کی نسبت پانی میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ زیادہ حرارت جذب کرکے کم تبخیر (evaporate) ہوتا ہے۔ ایک لیٹر پانی میں سے صرف 2 ملی لیٹر پانی بخارات بن کر باقی کے 998 ملی لیٹر پانی کا درجہ حرارت 1 ڈگری کم کر دیتا ہے۔ یعنی پانی زیادہ درجہ حرارت جذب کرکے کم تبخیر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پانی کی حرارت جذب کرنے کی یہی صلاحیت ہمارے جسم کا درجہ حرارت متوازن رکھتی ہے۔ ہمارے جسم میں عمل تبخیر (Evaporation) پسینے کے ذریعے ہوتا ہے اس طرح باقی جسم کا درجہ حرارت کم ہوجاتا ہے اسے لیے عمل تبخیر (یعنی پسینہ آنے) کے فوراً بعد ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے اور اگر آپ تھوڑی سی ہوا لیں تو جسم کا ٹمپریچر مزید کم ہو جاتا ہے۔جب آپ اپنی جلد کو براہ راست سورج کی روشنی میں رکھتے ہیں تو درجہ حرارت تیزی سے بڑھتا ہے اور بہت زیادہ پسینہ آتا ہے جس کی وجہ سے جسم کے پانی اور نمکیات کا لیول (Level) تیزی سے گرنے لگتا ہے۔ ایسے میں اگر ہم جسم کو کپڑے سے ڈھانپ دیں تو جسم اور سورج کی روشنی کے درمیان ایک ڈھال آجاتی ہے جس کی وجہ سے عملِ تبخیر کم ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر آپ کْھلا لباس استعمال کریں تو اس میں مْسَلسَل ہوا کا گزر ہوتا رہتا ہے جو پسینہ آنے کی صورت میں آپ کے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کا کام کرتا ہے۔ اس لیے گرمیوں میں مکمل اور کھلے لباس کا استعمال زیادہ موزوں ہے کیونکہ چست لباس ہوا کا گزر روک دیتے ہیں۔
لہٰذا دیکھا جائے تو اس طرح عبایا اور نقاب کرنے والی خواتین گرمی سے زیادہ محفوظ رہتی ہیں۔ سیاہ اور گہرے رنگ حرارت کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کے لیے آپ پردہ کرنے کے لیے سفید یا نیلے رنگ کا استعمال کرلیں کیونکہ یہ حرارت کو کم جذب کرتے ہیں۔ اسی طرح سردیوں میں عبایا اور نقاب آپ کو سردی سے محفوظ رکھتا ہے۔ مزید برآں مکمل لباس کا استعمال موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی میں آنکھ، ناک، گلہ اور جِلد کے امراض بالخصوص کینسر سے بچاتا ہے۔ اس کے علاوہ نقاب آلودہ ہوا کے لیے فلٹریشن کا کام کرتا ہے۔ گرین ہاؤس ایفیکٹ، گلوبل وارمِنگ اور اوزون ڈِپلیشن کے باعث سورج کی نقصان دہ شعاعوں اور ماحولیاتی اثرات سے بچانے کے لیے چہرے سمیت کا مکمل لباس ناصرف خواتین بلکہ مَردوں کے لیے بھی موثر ہے۔ بلکہ ہمارے گِرد کچھ ذہین مرد حضرات گرمی میں باہر نکلتے وقت مکمل لباس کے ساتھ منہ ڈھانپ کر اور کچھ تو سر پر گیلے تولیے کا استعمال کرکے خود کو گرمی کے اثرات سے محفوظ کرتے ہیں۔ لہٰذا پانی کا زیادہ استعمال، کھلا اور مکمل لباس آپ کو موسمی شدت سے محفوظ رکھتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’تعالیٰ کسی بھی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا (بوجھ نہیں ڈالتا۔)‘‘
سو پردے کا حکم طاقت کے مطابق ہی نہیں بلکہ موزوں بھی ہے بلکہ مجھے اس میں بڑی حکمت نظر آتی ہے کیونکہ فزکس کے لاء آف تھرموڈائنامکس میں ایک لاء آف اینٹراپی ہے جس کے مطابق ہر گزرتے وقت کے ساتھ ماحول بگاڑ کی طرف جارہا ہے۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ زمین کا درجہ حرارت اور ماحول گزرتے وقت کے ساتھ خراب ہوتا چلا جا رہا ہے لہٰذا قیاس کیا جاسکتا ہے کہ حکم پردہ سے پہلے زمین کا ماحول موجودہ آلودگی کے برعکس بہت بہتر اور صاف ستھرا تھا مگر چونکہ اسلام قیامت تک کے لیے ہے اس لیے خالق نے انسانیت کے لیے وہ اَحکام نازل فرمائے جو ماحولیاتی لحاظ سے بھی انسان کے لیے موافق اور بہتر ہوں۔
اس ساری وضاحت کے بعد یہ کہنا کہ پردہ کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ اس میں گرمی لگتی ہے۔ سانس نہیں لیا جائے گا۔۔۔ تو اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ نے آپ پر ایسا حکم نازل فرمایا جس کا بوجھ اٹھانے کی آپ میں صلاحیت نہیں ہے تو (معاذ اللہ) آپ کا کلام مندرجہ بالا آیت کے منافی ہوگا۔ یعنی حکم پردہ کی نافرمانی کے ساتھ آپ انکار آیت کے بھی مرتکب ہوں گے۔
آپ فیشن، لوگوں کے اعتراضات یا باتوں کے خوف سے اپنے آپ کو اس گناہ کا مجرم نا بنائیں۔ بے تْکّے جواز پیش کرکے اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دے کر مطمئن کرنے کی کوشش مت کریں۔ روزِ محشر آپ اللہ کو یہ جواز نہیں دے سکتے کہ تیرا حکم اس وجہ سے ہمارے لیے قابل عمل نہیں تھا۔ خود کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھیں کہ اب آپ کی عقل کے پاس کیا جواز ہے پردے سے انکار کا؟ بلکہ ایک روایت ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ اس بالغ عورت کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ پردہ نا کرے‘‘۔ (سنن ابو داؤد) یہ حکم ظلم ہیں نا ہی زیادتی بلکہ بہت سی معاشرتی برائیوں اور ماحولیاتی اثرات سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔

حصہ