نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے

225

موسیٰ غنی
ہمارے ملک خدادپرکیا چند جاگیرداروں،وڈیروں،سرمایہ داروں،وزراء کا حق ہے یا یہ ایک عام پاکستانی کا بھی اتنا ہی ہے؟ یہ سوال ایک عام سوال ہے لیکن اس کا جواب بہت خاص ہے کیوں کہ نوجوانوں میں بڑھتی ناامیدی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے حکمران ہمارے اساتذہ اس کو دونوں یہ بات سمجھانے میں ناکام رہے ہیں کہ یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں‘ کسی کے بیٹے کی ملکیت نہیں بلکہ اس میں خون ہے لاکھوں مسلمانوں کا جنہوں نے اپنے گھر بار چھوڑے جنہوں نے اپنوں کی قربانیاں دیں اپنی جائیداد یں چھوڑ دیں صرف ایک آزاد ملک حاصل کرنے کے حصول کے لیے ہم نے یہ بات اپنے نوجوانوں کو بتانی ہے ان کو سمجھانی ہے کیوںکہ قومیں نوجوانوں سے آگے بڑھتی ہیں ۔
ملک خداداد میں انتخابات کا وقت نزدیک آگیا ہے اور نوجوانوں کی امیدوں کو پھر سے کچلنے کے لیے وزرا نے کمر کس لی ہے جلسوں اور ریلیوں میں ایک دوسرے کو چور کہنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے‘ کل کے بغل گیر آج کے دشمن بن گئے ہیں‘ صرف انتخابات کامیابی کے لیے… کسی نے صحیح ہی کہا ہے کہ سیاست میں کوئی لفظ حرفِ آخر نہیں ہوتا اس کا بھرپور مظاہرہ شروع کیا جا چکا ہے الزامات در الزامات کی سیاست۔ دنیا بھر میں نوجوانوں کو مستقبل کہا جاتا ہے ہمارے یہاں الٹا ہے، وزیر کا بیٹا ہے تو وزیر بنے گا اور کلرک کا بیٹا ہے تو کلرک، ہمارے معاشرے میں عوام کی سوچ کو دیمک لگا دینے والے یہ حاکم نوجوانوں سے نئے نعروں کے ساتھ مذاق کرنے تیار ہیں ۔
جمہوریت کے نام پر عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب رہا ہے اور ہمارے حاکم بتارہے ہیں کہ ملک میں ترقی کی شرح 6 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے۔ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں جناب آپ کے گھروں میں ترقی کی شرح ہی نہیں بلکہ رہن سہن کے انداز اور ملک سے باہر دولت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ،آپ کے بینک بیلنس نے ضرور ترقی کی ہے ؟ ایک عام شہری اس وقت ایک لاکھ 20 ہزار کا قرض دار صرف ان نااہل حکمرانوں اور ان کے عیاشیوں کی وجہ سے ہے۔ مستقبل کے معماروں کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اس قوم کے لوگ چور ہیں اس کی مثال کولر میں زنجیر سے بندھا گلاس کا دیتے ہیں‘ لیکن اس قوم کے معماروں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس کولر کو بھی لگانے والا ایک عام انسان تھا اور اس نے یہ کام محض ثواب کے لیے کیا تھا۔ اس قوم کے بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو لوگ اس کا بٹوا تک چرا لیتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس قوم کے ہی وہ فرد ہوتے ہیں جو اس زخمی کو اسپتال لے پہنچاتے ہیں۔ اس قوم کے نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ مساجد سے ان کی چپلیں چوری ہوجاتی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ مساجد بھی کسی ایسے انسان نے تعمیر کی جو اپنے محدود اور لامحدود وسائل سے اس کے اخراجات اٹھا رہا ہے۔ اس قوم کے سپوتوں کو یہ نہیں بتایا جاتا جب اس ملک میں زلزلہ آتا ہے تو قوم کا ہر فرد چاہے بوڑھا ہو یا بچہ، مرد ہو یا عورت اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کی مددکے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں‘ اپنے بستر‘ کپڑے سب ان کے لیے حاضر کردیتے ہیں۔ وطن عزیز کے کسی بھی شہر میںدھماکا ہوتا ہے تو لوگ جوق در جوق ان کی مدد کے لیے آجاتے ہیں‘ اسپتالوں میں خون کا عطیہ دینے والوں کی لمبی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے نوجوان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہماری قوم سو رہی ہے‘ ہماری قوم مردہ اور بے حس ہے اورشاید یہ ہماری نااہلی ہے کہ نوجوان آج اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح نہیں دیتے ۔
کیوںہم اپنے ہی نوجوانوں کو خود سے بدظن کر رہے ہیں؟ اس کی سب بڑی وجہ فرقہ واریت اور لسانی سیاست ہے۔ اگر نوجوان کو بہلانا ہے تو اس کو نوکری کا جھانسا دو تاکہ وہ صرف اسی کے پیچھے پیچھے دوڑتا رہے اور تھک کر ملک چھوڑ جائے یا پھر جرائم پیشہ بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے۔ ہماری غلط پالیسیاں اور حکومتوں کی عدم توجہ اس وقت ملک کو تاریخ کے بدترین دور سے گزار رہی ہے۔ کسی ملک کا محور اس کے نوجوان ہوتے ہیں لیکن ہماری پالیسیوں میں نوجوانوں کا کوئی محور نہیں‘ دنیا میں قومیں اس لیے ترقی کررہی ہیں کہ انہوں نے اپنی نوجوان نسل کے لیے قربانیاںدیں‘ ان کے لیے ملازمتوں سے لے کر کھیل تک میں مواقع پیدا کیں۔ شاید ہمارے سیاست دان نہیں جانتے کے مستقبل کے معمارکبھی جھکا یا بکا نہیں کرتے بلکہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔

حصہ