مہرالنساء، سچی کہانی

440

فارحہ شبنم (کینیڈا)۔
(دوسری قسط)
باندرا ریلوے اسٹیشن سے غوثیہ مسجد کا محلہ موٹر سائیکل پر بس آدھ گھنٹے کا ہی تھا، مگر آتی خزاں کی وجہ سے ہوا میں خنکی کے باعث تھوڑی ٹھنڈ تھی۔ گھنٹی بجانے کے بعد دروازے پہ کھڑے انتظار کے چند لمحے مجھے صدیوں کے برابر لگ رہے تھے۔ میں ابھیشک کے پیچھے مضبوطی سے اُس کا بازو پکڑے اور آنکھیں بند کیے چھپی کھڑی تھی۔
چھوٹی بہن عبیرہ نے دروازہ کھول کر جھانکا اور مجھے دیکھ کر خوشی بھرے انداز میں چیخی ’’ارے دیدی آپ!! آئیں ناں۔‘‘
پھر ابھیشک سے جھجکتے ہوئے بولی ’’جیجا جی، آپ بھی آئیں ناں‘‘۔
میری گویا جان میں جان آئی اور میں آگے بڑھ کر اس کے گلے لگ گئی۔ ابھیشک مسکراتے ہوئے ہم بہنوں کے اس ملن کو دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر میں جذبات قابو میں آئے تو میں نے اس سے پوچھا ’’پاپا کا غصّہ اب کیسا ہے؟ وہ اندر بلانے پر ناراض تو نہیں ہوں گے؟‘‘
’’پتا نہیں، ابھی تو سودا لینے نکلے ہیں۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے سے پہلے واپس نہیں آنے کے۔‘‘
’’اور ممی…؟‘‘ میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے وہ تو روز ہی تمہیں یاد کرتی ہیں، بس پاپا کے ڈر سے کچھ بول نہیں پاتیں۔ ابھی ان کو بتاتی ہوں، بہت خوش ہوں گی‘‘۔ وہ اندر بھاگی۔ میں نے اطمینان کا گہرا سانس لیا اور عبیرہ کے پیچھے اندر چل دی۔ برآمدہ آدھا ہی طے کیا ہوگا کہ ابھیشک کی نظریں اپنی پشت پر محسوس کیں۔ مڑ کے دیکھا تو وہ بیرونی دروازے کے ساتھ لگے پیپل کے درخت سے ٹیک لگائے اردگرد بکھرے پیلے پتوں کے درمیان کسی فلمی ہیرو کی طرح کھڑا تھا۔ خیر میرے لیے تو وہ واقعی کسی ہیرو سے کم نہ تھا۔ مٹھائی کا ڈبہ ابھی تک اُس کے ہاتھ میں ہی تھا۔ اُس کی آنکھوں کے تاثرات اور دبی دبی مسکراہٹ کو پڑھنا میرے لیے کچھ خاص مشکل نہ تھا ’’بس گھر والے نظر آئے اور مجھے بھول گئیں!‘‘ میںسر جھکائے شرمندگی سے واپس پلٹی اور اُس کا ہاتھ تھام کر دوبارہ اندر کی طرف قدم اٹھانا چاہے، مگر اُس نے مجھ سے ہاتھ چھڑا لیا۔ میں نے گھبرا کر اس کے چہرے کی جانب دیکھا تو اس نے اپنا پورا بازو میرے گرد پھیلا کر مجھے تھاما اور میرے ساتھ قدم اٹھائے۔ ٹھنڈے موسم میں اس کے بازو اور پہلو کی گرماہٹ سے مجھے بیک وقت حفاظت اور آرام کا احساس ہوا۔ میرا دل خدا کے شکر سے بھر گیا۔ دراصل والدین کے خلاف جاکر ایک ہندو لڑکے سے شادی جیسے بڑے فیصلے کے بعد سے میرا دل بہت گھبرانے لگا تھا۔ ہر وقت ڈر لگتا تھا کہ کہیں اللہ پاک مجھے اس کی کوئی سزا نہ دے دیں۔ کہیں مجھے اپنے ہی فیصلے پر پچھتانا نہ پڑ جائے۔ مگر ابھیشک نے ابھی تک ہمیشہ میرے اس خیال کو غلط ثابت کیا۔ میں اپنے انتخاب پر مطمئن تھی۔ اب ابھیشک ہی میرا اعتماد، میرا فخر اور میرا مان تھا۔
ممی نے مجھے دیکھا تو پہلے تو کچھ ناراضی کا اظہار کیا، لیکن جب میں زبردستی اُن کے گلے لگ پڑی تو وہ بھی بالآخر مان گئیں، ابھیشک کے سر پر بھی ہاتھ پھیرا، اور جب ابھیشک نے انہیں خوشخبری کا بتایا تو خوب شوق سے مٹھائی کھائی اور بھرے منہ میں مزے سے بولیں ’’مہرو! اب تو تمھارے پاپا کو بھی راضی ہونا ہی پڑے گا‘‘۔ ان کا انداز دیکھ کر میں ہنس پڑی، لیکن میرا دل جانتا تھا کہ یہ اتنا آسان نہ ہوگا۔ پاپا اپنے اصولوں کے بڑ ے پکے ہیں، جب ایک بار کچھ طے کرلیں تو پھر پیچھے ہٹنا ان کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر وہاں بیٹھ کر ہم دونوں اٹھ گئے کیونکہ ہمیں بازار بھی جانا تھا۔ میں نے عبیرہ کو in touch رہنے کی تاکید کی اور ممی سے گلے مل کر باہر آگئی۔ کینیڈا روانہ ہونے سے پہلے میں ایک دفعہ اور عبیرہ کے بتائے ہوئے ٹائم پر پاپا سے چھپ کر ممی سے ملنے گئی اور ان کی تصویر اپنی نگاہ و دل میں بسا لی کہ پھر پتا نہیں کب ملاقات ہو، اور وہاں شاید یہی میرا سب سے بڑا سرمایہ ہوگا۔
میرا خیال تھا کہ میں اگر ابھیشک کے گھر میں سیٹ ہوسکتی ہوں تو ہر جگہ ہی ہوسکتی ہوں، مگر مسی ساگا پہنچ کر اندازہ ہوا کہ نئی جگہ اور نئے ماحول میں ایڈجسٹ کرنا کیا ہوتا ہے۔ ادھر ممبئی میں تو ہم مزے سے اس کے پتاجی کے گھر میں رہتے تھے اور ابھیشک کی تنخواہ اپنے اوپر استعمال کرتے تھے، یا مستقبل کا سوچ کر بینک میں چھوڑ دیتے تھے۔ اب یہاں پہنچ کر گھر کا کرایہ، گراسری، بجلی، پانی، گیس اور آمد و رفت کا خرچ۔ مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی پیسے ختم ہوجاتے، اور ابھی تک ابھیشک کی کوئی اچھی جاب بھی نہیں لگی تھی۔ وال مارٹ کے کیش کائونٹر کی جاب میں لگے بندھے پیسے ملتے جس سے خرچ پورا نہ ہوپاتا تھا۔ ہم نے گھر بھی کچھ خاص سیٹ نہیں کیا تھا۔ بیڈروم میں صرف میٹرس ڈالا تھا اور لاؤنج میں ایک ڈائننگ ٹیبل۔ کچن کا سامان اور کچھ دیگر ضروری چیزیں تو میں ممبئی سے ہی خرید لائی تھی۔ اتنی بچت کے باوجود بینک میں پڑی سیونگز تیزی سے استعمال ہورہی تھیں۔ ہر ہفتے آنے والے بروشرز میں خوبصورت بیڈروم سیٹ اور دیگر سامان دیکھ صرف خواب ہی بن رہی تھی۔ میں نے جاب کے لیے دو تین دفعہ اپلائی کیا مگر ابھیشک میری کنڈیشن کی وجہ سے کسی جاب کے حق میں نہ تھا۔ ہم نے جلد ہی لو انکم ہائوسنگ کے لیے بھی اپلائی کردیا تھا، مگر وہاں ابھی خاصی لمبی ویٹنگ لسٹ تھی۔ وال مارٹ میں ہی اس کے کچھ دوست بھی بن گئے تھے جن میں سے دو نے ہمیں اپنے گھر بھی بلایا۔ وہ سب ہندو تھے اور مجھے ہندو ہی سمجھتے تھے۔ میں نے بھی کبھی ان کی غلط فہمی دور کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ ابھیشک نے میری شناخت کا فیصلہ میرے اوپر چھوڑ دیا تھا۔ باہر سے میں جتنی بھی بہادر دکھتی مگر اندر سے یہ ہمت نہ تھی کہ خود کو مسلمان بتاکر ان کا بدلہ ہوا رویہ برداشت کرتی۔
نومبر سے جب ہم یہاں آئے تھے ہر طرف برف ہی برف چھائی ہوئی تھی۔ اگرچہ موسم کا ہمیں اندازہ تھا مگر حقیقت میں اس کو برتنا بالکل ہی مختلف اور خاصا مشکل تھا۔ دن تیزی سے گزرتے جارہے تھے۔ میری ڈاکٹر کے مطابق سب کچھ نارمل تھا، مگر میری بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ دن بھر اکیلے پن سے پریشان رہتی اور رات میں بھی سوتے سوتے اکثر آنکھ کھل جاتی اور پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوتا۔ میں نے جن سوچوں کو دھکیل کر سختی سے ذہن کے کواڑ بند کردیے تھے وہ اب زور وشور سے باہر نکلنے کی کوشش کرتیں اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کی مانند میرے سامنے ناچنے لگتیں۔ اور میں ان شعلوں میں گھری امید اور ناامیدی کے بھنور میں چکرا کر رہ جاتی۔ کیا میرا ابھیشک سے شادی کا فیصلہ درست تھا؟ کیا میں اسی طرح مسلمانوں سے کٹ کر زندگی گزاروں گی؟ کیا یہ دوغلی زندگی میری چوائس ہے یا مجبوری؟ میری آنے والی اولاد کا کیا مذہب ہوگا؟ میں خود کو طرح طرح کے دلائل دے کر مطمئن کرتی، مگر اگلے دن پھر وہی سوچیں نئے سرے سے میرے ذہن کو الجھا دیتیں۔ پتا نہیں یہ پچھلے کئی ماہ سے باہر ہر طرف دور تک پھیلی سفید برف کی وجہ سے چھایا ڈپریشن تھا، یا میرے اندر کی روح کی بے چینی… میں اکثر کئی گھنٹے چھوٹی چھوٹی باتوں پر یا بعض اوقات بلاوجہ ہی آنسو بہاتی رہتی۔ کبھی کبھی تو closet میں رکھے اُن کپڑوں کو دیکھ کر ہی آنسو نکل پڑتے جو میں نے اتنے شوق سے خریدے تھے اور اب میری بے ہنگم جسامت کے لائق ہی نہ رہے تھے۔ اور کبھی میز پر پڑی ابھیشک کے کھانے کی گندی پلیٹ ہی مجھے غصّہ دلانے کے لیے کافی ہوجاتی۔ یہ باتیں اتنی معمولی ہوتی تھیں کہ میرے آنسو دیکھ کر ابھیشک کے پوچھنے پر بھی میں نہ بتا پاتی تھی اور کہہ دیتی کہ ممی اور گھر والوں کی یاد آرہی ہے۔ میرے ذہن میں مرد اور عورت کی برابری کا ایسا تصور تھا کہ جس سے یہ کیفیت میچ نہ کرتی تھی، اور میں اس کو بتاکر خود کو کمزور ثابت نہیں کرنا چاہتی تھی۔
جیسے جیسے دن گزرتے جارہے تھے، میری ذہنی حالت ابتر ہوتی جارہی تھی۔ آنے والے خرچوں کی تیاری کے لیے ابھیشک نے شام میں دوسری جاب بھی شروع کردی تھی۔ وہ تقریباً روزانہ رات کے دو بجے تک گھر لوٹتا تو اس کے پاس اتنا وقت اور توانائی نہ بچتی تھی کہ اسے میری اس اندرونی کیفیت اور حالت کا اندازہ ہوتا۔ ویک اینڈ پر بھی وہ تھکن اتارنے کے بعد جب دیر سے سوکر اٹھتا تو ٹیکسی ڈرائیونگ کی تیاری کے لیے کلاس لینے چلا جاتا تھا۔ اتنی مصروفیات کے باوجود وہ اپنے تئیں ہر طرح سے میرا خیال رکھنے کی کو شش کرتا تھا اور میں یہ سب اس سے شیئر کرکے اسے پریشان نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔
شروع اپریل کی اس شام موسم کچھ بہتر تھا۔ برف تقریباً پگھل چکی تھی۔ آسمان صاف ہونے کی وجہ سے سورج کی دھوپ خوب چمکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی، مگر یہاں کا موسم بڑا ہی ناقابلِِ اعتبار ہے۔ کسی بھی وقت بادل آسمان کو گھیر لیتے اور پھر ایسی بارش شروع ہوتی کہ لگتا گویا اب تھمے گی نہیں۔ میں نے قریبی پارک میں واک کے خیال سے جیکٹ پہنی اور موبائل، چھتری اور چابی اٹھاکر دروازہ لاک کرکے باہر نکل پڑی۔ وہاں چھوٹے بچے اور ان کی مائیں تھیں۔ کچہ ضعیف لوگ بھی بینچوں پر بیٹھے تھے اور کچھ واکنگ ٹریک پر واک بھی کررہے تھے۔ پارک میں رونق نظر آرہی تھی۔ تازہ ہوا مجھے ہمیشہ ہی بھاتی تھی مگر اتنے عرصے بعد اس طرح باہر نکلنا زیادہ ہی خوشگوار لگ رہا تھا۔ ابھی تک گھاس اتنے لمبے عرصے کی برف کے اثرات اور ٹھنڈ کی وجہ سے جھلسی ہوئی سفیدی مائل گندمی رنگ کی تھی۔ میں اکثر بیڈروم کی کھڑکی سے باہر جھانک جھانک کر دیکھتی تھی۔ سبزے اور ہریالی کے انتظار میں میری آنکھیں تھک چکی تھیں مگر اس میں ابھی کچھ دن مزید باقی تھے۔ البتہ اتنے طویل عرصے سے چھائی سفید برف کے غائب ہوجانے سے ہی ایک عجیب سی آزادی محسوس ہورہی تھی۔ ہر طرف پرندوں کی چہچہاہٹ اور بچوں کے کھلکھلانے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ میں نے تھوڑی ہی دیر واک کی ہوگی کہ تھک گئی۔ عادت ہی ختم ہوگئی تھی واک کرنے کی۔ دو تین دفعہ ابھیشک سے ٹریڈ مل خریدنے کو کہا مگر وہ ٹال گیا، کہتا تھا کہ گھر کے اندر ہی واک کرلیا کرو۔ پچھلے دنوں ایک فیس بک گروپ جوائن کیا تھا، اس میں ایک پوسٹ سے اندازہ ہوا کہ یہاں kijiji کے نام سے ویب سائٹ ہے جہاں پر لوگ سستے داموں اپنی چیزیں خرید و فروخت کرلیتے ہیں اور اچھی چیزیں مل جاتی ہیں۔ سوچ رہی تھی کہ ابھیشک کے ساتھ مل کر ویک اینڈ پر دیکھوں گی، مگر اب اتنا خوبصورت موسم دیکھ کر ارادہ بدل گیا۔ چلتے چلتے بالآخر میں ایک خالی بینچ دیکھ کر اس پر بیٹھ گئی۔ ابھی سورج غروب ہونے میں خاصی دیر تھی۔ جیسے جیسے سردی میں کمی آرہی تھی دن خوب لمبے ہوتے جارہے تھے۔ ممبئی میں اِس وقت سویرے کا وقت ہوگا، یہ سوچ کر میں نے عبیرہ کو فون کرنے کے خیال سے موبائل نکالا ہی تھا کہ میرے کانوں میں آواز آئی ’’السلام علیکم‘‘۔ میں نے چونک کر سر اٹھایا تو سامنے ایک مسلم خاتون کھڑی تھیں۔
’’کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟‘‘ وہ میرے جواب پر مسکراتے ہوئے مجھ سے وہاں بیٹھنے کے لیے اجازت مانگ رہی تھیں۔ بیٹھنے کے بعد انہوں نے مجھ سے حال چال پوچھا، تو میں نے فون کرنے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے اُن سے بات چیت شروع کردی۔ وہ پاکستانی تھیں۔ ان کا نام ثمرین تھا۔ وہ اپنی تین چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ آئی تھیں اور مجھ سے دو بلاک آگے پارک کے دوسری طرف رہتی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں اُن سے مانوسیت سی محسوس ہونے لگی۔ ہم نے آپس میں فون نمبرز کا تبادلہ کیا۔ گفتگو کے دوران وہ وقتاً فوقتاً اپنی جھولا جھولتی اور بھاگتی دوڑتی بیٹیوں کو بھی دیکھتی جارہی تھیں۔ انہوں نے مجھے اپنے گھر آنے کی بھی دعوت دی۔ کچھ دیر بعد اُن کے شوہر کی جاب سے واپسی کا وقت ہوا تو بچیوں کو پکار کر بلایا، مجھ سے ملوایا اور باقی باتیں فون پر کرنے کا کہہ کر چلی گئیں۔ تھوڑی دیر گزری تو میں بھی اندھیرا ہونے سے پہلے گھر واپسی کے لیے اٹھ گئی۔
ویسے تو اس سے پہلے بھی کلینک اور مال میں کچھ دیسی مسلمان خواتین سے ہیلو ہائے ہوئی تھی، اور کچھ نے نیا جان کر مجھے اپنا نمبر بھی دیا تھا، مگر میں نے کبھی کسی کو پلٹ کر فون نہ کیا تھا۔ شاید ثمرین کا معاملہ بھی یہی رہتا اگر دو دن کے بعد خود اُن کا فون نہ آگیا ہوتا۔ جب فون کی گھنٹی بجی اور ان کا نام اسکرین پر نظر آیا تو مجھے خوشگوار سی حیرت ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ہم دونوں ایسے باتیں کررہے تھے جیسے پرانی سہیلیاں ہوں۔ اپنے اپنے گھر والوں کے بارے میں بہت دیر بات ہوتی رہی۔ وہ مجھے میری طبیعت کے لحاظ سے بھی مشورے دے رہی تھیں۔ دیسی مسالے اور تازہ سبزیاں کہاں ملیں گی یہ بھی انہیں خوب پتا تھا۔ جب ان کو اندازہ ہواکہ یہاں میری ابھی تک کوئی سہیلی نہیں بنی تو بہت حیران ہوئیں اور مجھے اپنے ذاتی تجربات بتاتے ہوئے کہنے لگیں: ’’مہرالنساء! نئی جگہ اور اجنبی ماحول میں رہتے ہوئے سہیلیاں بنانا اور دوسروں سے ملنا جلنا نفسیاتی لحاظ سے انتہائی ضروری ہے۔ ہم اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے اتنا دور ہوتے ہیں تو پھر کوئی دوست تو ہونا چاہیے جس سے انسان اپنا دکھ درد شیئر کرسکے۔ اور یہاں تو خاصی بڑی مسلم کمیونٹی ہے۔ مسجد جاؤ تو وہاں بھی بہت اچھی اچھی دوستیں بن سکتی ہیں‘‘۔ اُن کی باتیں سنتے سنتے بالآخر میرا ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور میں رو ہی پڑی۔ وہ بالکل بھی اس کی توقع نہیں کررہی تھیں اس لیے ایک دم گھبرا گئیں۔ (جاری ہے)

حصہ