مشتاق احمد یوسفی کی رحلت پر اہل ادب کے تاثرات

1806

سیمان کی ڈائری

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1921کو ٹونک (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے کیا اور پھر بنکاری کے شعبے کو ذریعہ معاش بنایا۔ وہ کئی بنکوں کے سربراہ رہے اور پاکستان بینکنگ کونسل کے چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
مشتاق احمد یوسفی کا شمار اردو کے صف اوّل کے مزاح نگاروں میں ہوتاہے ۔ ان کی تصانیف میں ’چراغ تلے‘،’ خاکم بدہن‘،’ زرگزشت‘،’آبِ گم‘ اور’ شام شعر یاراں‘ کے نام شامل ہیں۔بہ حوالہ عقیل عباس جعفری، ظہیر فتح پوری نے ان کی تحریروں کے بارے میں کہا تھا کہ ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔جناب مشتاق احمد یوسفی کو اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے سرفراز کیا گیا تھا جبکہ اکادمی ادبیات پاکستان نے انھیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ عطا کیا تھا۔ مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر 1955 میں مضمون ’’صنف لاغر’’سے شروع ہوتا ہے جو لاہور سے شائع ہونے والے رسالہ ’’سویرا’’کی زینت بنا۔ اس طرح مختلف رسالے میں گاہے گاہے ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ 1961میں مختلف انشائیوں اور مضامین کو یکجا کر کے مشتاق احمد یوسفی کا پہلا مجموعہ ’’چراغ تلے’’کے نام سے منظر عام پر آیا۔ یہ ساری کتابیں اپنی تمام تر مزاحیہ چاشنی کے ساتھ اردو زبان وادب کے قارئین کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کی تخلیقات میں سماج کی بدلتی قدروں اورماضی کی یادوں کا منظرنامہ موجود ہے۔ ان کی نگارشات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کی تحریروں میں جابجا ان کے آبائی وطن کی جھلکیاں کسی نہ کسی صورت میں نظر آتی ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کی ظرافت نگاری کا جائزہ لیا جائے تو ان کے ہاں مزاح نگاری کے ساتھ ساتھ طنزیہ تحریر یں بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔ جس میں انہوں نے سیاست، سماج، مذہب اورادب میں پیدا ہونے والی کج رویوں اورخامیوں کوطنز کا نشانہ بنایاہے۔ ان کی طنزنگاری میں ہمدردی کا جذبہ شامل ہے۔مشتاق احمد یوسفی صاحب کے بیش قیمت سرمایۂ اردو ادب پر جتنا لکھا جائے کم ہے۔یہاں میں نے اپنے کالم میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کی رحلت پر اہل ادب کے تاثرات قلم بند کیے ہیں جو آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

افتخار عارف

مشتاق احمد یوسفی عصرِ حاضر کے عظیم ترین اہلِ قلم میں شامل ہیں۔ مشتاق یوسفی مزاح ہی کے نہیں اردو نثر کے بڑے آدمی تھے۔ ایک ایسے زمانے میں جب پطرس بخاری، شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، ابنِ انشا اور محمد خالد اختر جیسے بڑے مزاحیہ نگار موجود ہوں، اپنا قدو قامت نکالنا بہت مشکل ہے۔ چراغ تلے سے آبِِ گم کا سفر مشتاق یوسفی کے حقیقی جوہر کی آئینہ داری کرتا ہے۔ وہ بلاشبہ اردو کے لیے باعثِ امتیاز تھے۔

محمد حمید شاہد

” مجھے یاد ہے بیس بائیس سال پہلے مجھے مشتاق احمد یوسفی کے ساتھ اسلام آباد سے کراچی سفر کرنے کا موقع ملا تھا اور پہلی بار اس شخص کو کہ جس کی تحریر کا میں عاشق رہا تھا، ان سے مکالمہ کرتے ہوئے بہت اَور طرح محسوس کر رہا تھا۔ ان کی شخصیت کا ایک رعب سا پڑ گیا تھا مجھ پر۔ میں نے وہ گفتگو ’’’مشتاق احمد یوسفی سے ایک ـہوائی مکالمہ‘‘ کے عنوان سے لکھی اور محمود واجد مرحوم نے اسے اپنے جریدے آئندہ میں چھاپ دیا تھا۔ اس کے بعد مواقع نکلتے رہے،ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان کی ہر کتاب کو ایک سے زاید بار پڑھا۔ ان کی گفتگوئوں کو سنا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ اپنے اسلوب کے بہت بڑے نثر نگرتھے۔ شگفتہ نگاری ان کی ترجیحات میں تھی۔ وہ مزاح لکھتے ہوئے بہت تکلف سے بے تکلفی کشید کر لیا کرتے تھے۔ ماننا ہوگا کہ انہوں نے زبان کو جس قرینے سے لکھا ہے وہ ہمارے عہد کی کلاسیک ہو گئی ہے۔ ایک نئی کلاسیک اور ان کا یہ کارنامہ ان کی شگفتہ نگاری سے بڑھ کر ہے۔ چراغ تلے، خاکم بدہن اور زرگزشت میں انہوں نے شگفتہ نثرنگاری کا جو اعلی معیار مقرر کیا ہے اس کی نظیر بھی دور دور تک نہیں ملتی۔ آبِ گم،تو ناول کی طرح پڑھی گئی اور یوسفی صاحب کی قامت کو بہت بلند کر گئی۔ ””پہلی ملاقات، جس کا میں نے اوپر حوالہ دیا اتفاقی تھی۔میں اپنے بنک کی طرف سے اسٹیٹ بنک میں ہونے والی ایک میٹنگ کے لیے کراچی جا رہا تھا اور وہ کسی کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس ہو رہے تھے۔ اتفاقاً ہماری نشستیں پاس پاس ملیں اور یوسفی صاحب کو جب یہ پتا چلا کہ میں بھی بنکار ہوں تو بہت خوش ہوئے تھے۔ پھر بینک کے حوالے سے وہ اپنی یادیں شیئر کرتے رہے۔ ان سے آخری ملاقات کراچی میں اردو کانفرنس میں ہوئی مگر یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا تاہم اتنی نقاہت کے باوجود جس حوصلے اور صبر سے وہ پروگرام میں شریک رہے، ان کی ہمت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا تھا۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ حوصلہ اور صبر ان کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف ہے اور لکھتے ہوئے، جملہ سازی میں بھی وہ اسی حوصلے اور صبر سے کام لیتے ہیں، لکھتے ہیں اور بار بار ہر جملے کے اوپر کام کرتے رہتے ہیں یوں جیسے ہمارے بزرگ سرکنڈے سے قلم بنانے کے بعد اس کے قط کو چاقو سے چھیلتے اور ہموار کرتے رہتے تھے۔ اب مشتاق احمد یوسفی ایک بھر پور زندگی گزارنے کے بعد اور اردو ادب کا مستقل باب ہو کر رخصت ہوئے ہیں تو ان پر رشک آتا ہے۔

ناصرعباس نیر

مشتاق احمد یوسفی اردو کے چندایک خوش نصیب مصنفین میں سے ایک تھے جنھیں جیتے جی وہ سب عزت، شہرت، توجہ، پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی جس کی آرزو کوئی ادیب کر سکتا ہے۔ ان پر قدرت مہربان اور قارئین، اہل نظر اور اپنے زمانے کے اہم ترین ادیب یکساں طور پر قدردان تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی اور ان کے حرف حرف کو پڑھا، سراہا اور یاد رکھا گیا۔ انھوں نے نثر میں پرانے اور کلاسیکی اسالیب میں انسانی فطرت، سماج انسانوں کی نفسیاتی کجیوں سے متعلق اپنے مخصوص مزاحیہ ادراک کی آمیزش سے جس نئے اسلوب کو متعارف کروایا اسے پسند اور نقل بہ یک وقت کیا گیا۔ انھیں زندگی میں چوں کہ غیر معمولی پذیرائی ملی اور اس میں کسی کمی کا احساس نہیں اس لیے مستقبل میں انھیں کسی نئے زاویے سے پڑھا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ وہ اپنی نثر بلکہ ہر جملے پر خاصی محنت کرتے تھے۔ یہی کام مختار مسعود بھی کرتے تھے۔ دونوں کے جملے اچھے شعروں کی طرح یاد رہ جاتے ہیں اور موقع محل کی مناسبت سے مقتبس بھی ہوتے ہیں مگر اس سے نثر کی روانی پر فرق پڑتا ہے جو خیال کی وضاحت، کردار کی نقش گری اور صورت حال کے بیان کے لیے درکار ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یوسفی کا قاری ان کے جملوں کے سحر میں ایسے گم ہوتا ہے کہ اسے نثر کی روانی سے متعلق شکایت نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر ضیاالحسن

اردومیں شاعری اور نثر دونوں میں مزاح کی روایت بہت کمزور ہے۔ایسے میں یوسفی صاحب کا دم غنیمت تھا کہ ہمارے ہاں بھی کچھ ذخیرہ اُس مزاج کا جمع ہوگیاجو کسی حد تک عالمی مزاح کے معیارات پر پورا اترتا ہے۔مزاح کو جو گہری فلسفیانہ بصیرت یوسفی ساحب نے عطا کی ہے ‘وہ اردوکے کسی بھی دوسرے مزاح نگار سے ممکن نہیں ہو سکی۔ آبِ گم کی اشاعت پر میں نے ایک تبصرہ ادب لطیف میں شائع کروایا تھا۔اس تبصرے میں فکشن کی روح کے پیش نظر آب گم کو ناول قرار دیاتھا اور میں اس رائے پر اب بھی قائم ہوں بلکہ بعد میں یہ رائے اور بھی مستحکم ہوگئی۔یوسفی صاحب جسمانی طور پر دنیا سے گئے ہیں لیکن اپنے کام کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔تخلیقی طور پرانھوں نے آبِ گم کے بعد کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔اگرچہ شامِ شعریاراں بھی بہت سے مزاح نگاروں کے کام سے افضل کام ہے لیکن یوسفی صاحب اپنے جس اسلوبِ مزاح کے باعث لازوال ہیں‘وہ آبِ گم تک ہی نظر آتا ہے۔یوسفی صاحب ہمارے دل کے مکیں ہیں اوریہاں ہمیشہ متمکن رہیں گے ۔

زیب اذکار

بلاشبہ مشتاق احمد یوسفی کی رحلت اردوادب کے لیے ایک بڑے نقصان کا سبب بنا۔یہ یوسفی مرحوم ہی تھے کہ جن کی بہ دولت عام آدمی ادب میں قاری کی وہی مزاحیہ ادب کی طرف دلچسپیاں بڑھیںپھر ضیا محی الدین نے تحت الفظ میں بھرپوراظہاراور ڈرامائی تیکنک کو مد نظر رکھ کر یوسفی صاحب کی مزاح کو محفل میں پیش کیا اور ریکارڈ ویڈیوز میں بھی اس ادب کی پرموشن میں ایک کردار ادا کیا۔کبھی کبھی یہ بات اتنی اہم نہیں رہتی کہ اس مزاح کو جسے رشید احمد صدیقی ،پطرس بخاری اور پھر بجنگ آمد کے خالق کرنل محمد خان جیسے ادیب ملے اور بعد ازاں کس ڈگر پر چل پڑے۔یوسفی صاحب نے ادب کے قاری میں مزاحیہ ادب سے حظ اٹھانے کا شعور پیدا کیا ۔اس ادب کی شعوری بلندی اور وسعت یا خامیوں ، کامیابیوں کا تعین تو مستقبل کا نقاد ہی کرے گا لیکن اس بات سے تو انکار نہیں کر سکتے کہ مشتاق احمد یوسفی نے مزاحیہ ادب کی جانب لوگوں کی اور ادیبوں کی توجہ کچھ اس طرح سے مبذول کرائی ہے کہ جیسے اس ادب کا پڑھنا وقت کی ضرورت ہو۔اور یہ کام دراصل مزاحیہ ادب کی قدروقیمت کی اثباتی صورت کا تعین کرنے کے مترادف ہے۔یوسفی مرحوم کا یہ تخلیقی کارنامہ بلا شبہ ناقابل فراموش ہے۔

باقر رضا

ادیبوں اور شاعروں میں کچھ وہ ہوتے ہیں جن کو ان کی زندگی میں پذیرائی مل جاتی تاہم مرنے کے بعد شہرت ماند پڑتی جاتی ہے_ بہت کم وہ ہوتے ہیں جن کو لوگ ان کے انتقال کے بعد دریافت کرتے ہیں اور یوں وہ پس از مرگ شہرت پاتے ہیں – معدودے چند ایسے ہوتے ہیں جن کو زندگی میں ہردلعزیزی اور مرنے کے بعد بھی شہرت دوام حاصل ہوتی ہے اور بلا خو ف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ جناب مشتاق احمد یوسفی کا شمار ایسے ہی نادر و نایاب مشاہیر میں ہوتا ہے۔ بالکل جیسے میر و غالب کے اشعار زندگی میں جابجا یاد آتے ہیں اور منہ سے آہ اور واہ نکل جاتی ہے ویسے ہی یوسفی صاحب کے جملے زندگی کی کٹھانیوں سے جوجھتے ہوئے جابجا یاد آتے ہیں اور انتہائی نامساعد حالات میں بھی بے ساختہ مسکرانے پر مجبور کردیتے ہیں۔

دل کے کونے میں ان کی تحریریں
اس تصور سے ہم بسا بیٹھیں
جب زمانہ کرے زلیخائی
گوشۂ یوسفی میں جا بیٹھیں

لیاقت علی عاصم

یوسفی صاحب کے ساتھ شستہ گو اور شگفتہ بیانی کا سنہرا دور اپنے انجام کو پہنچا۔ نثر میں ایسا معیار برسوں قائم رکھنا اُن کا خاصہ ہے۔یوسفی صاحب اپنے انداز کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ آج ادب کا ایک روشن ستارہ نہیں، چاند ڈوب گیاہے ۔خدا اُن کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے! آمین

خالدمعین

مشتاق احمد یوسفی ہمارے عہد کے سب سے بڑے،متفقہ اور پسندیدہ مزاح نگار تھے۔ ان کے مزاح میں طنز کی کاٹ جگہ جگہ لو دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ مشتاق احمدیوسفی اس بزرگ نسل سے تعلق رکھتے تھے، جس نسل نے شعرو ادب کو نئے معیارات سے روشناس کرایا۔ اپنی مستقل محنت، ریاضت اور انہماک سے برسوں کے سفر کے بعد ایک نمایاں، پائیدار اور یادگار مقام حاصل کیا۔ مشتاق احمد یوسفی کی تحریر کی چاشنی اور کاٹ اپنی جگہ، ان کی پڑھت بھی بہت کمال کی تھی۔ وہ اپنی نثر اس طرح پڑھتے تھے جیسے کوئی مشاعرہ پیٹ شاعر اپنی غزل یا نظم پڑھتا ہے۔یوسفی صاحب کی ساری کتابوں میں آب گم کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ایک ایسا مقام جو اردو ادب کی گنتی کی کتابوں کو حاصل ہے۔ مشتاق احمدیوسفی صاحب رخصت ہوگئے لیکن ان کا عہد جاری ہے ۔خدا اُن کی مغفرت فرمائے آمین۔

سعود عثمانی

بہت بڑا نثر نگار چلا گیا۔مزاح ان کی پہلی منزل تھی،آخری نہیں۔وہ اپنی ذات سے مزاح شروع کرتے تھے لیکن سچ یہ ہے کہ مزاح ان کی ذات پر ختم ہوجاتا تھا۔کچی پنسل سے ایسی پکی تحریر کبھی کسی نے نہیں لکھی ہوںگی ۔

ضیا ضمیر

زندگی کے درد کو نچوڑ کر مٹھاس دریافت کرنے کا ہنر ایک صدی کسی ایک ہی شخص کو دیتی ہے۔بیسویں صدی نے اس قطعی مشکل کام کے لئے مشتاق احمد یوسفی صاحب کو چنا۔مشتاق احمد یوسفی صاحب عہد ساز تخلیق کار تھے اور وہ بھی اس صنف میں جسے ابھی بھی بہت ہلکے میں لیا جاتا ہے یعنی طنز و مزاح اور اس میں بھی نثر کا میدان! مگر یہ ان کا ہی کرشمہ تھا کہ ان کے جملوں اورتھیمز کو طنز و مزاح کے شعرا حضرات نے، اسکرپٹ رائٹرز نے، محفل جمانے والوں نے اور ہنسنے ہنسانے والوں نے نہ صرف استعمال کیا بلکہ اس نقالی سے اپنا اعلی مقام بھی بنایا. اگر انیس ویں صدی اکبر الہ آبادی کے سبب مسکرائی تھی تو بلا شبہ بیسویں صدی پر یہ احسان یوسفی صاحب نے کیا۔

عرفان ستار

مشتاق احمد یوسفی کے انتقال کی خبر پر رنج اپنی جگہ مگر اس بات کی طمانیت اس رنج پر حاوی ہے کہ ایک تخلیق کار نہ صرف ایک طویل اور بھرپور ترین زندگی گزار کر دنیا سے گیا بلکہ اپنے پیچھے ایسا شاہکار ادب چھوڑ گیا جو ان کا نام رہتی دنیا تک زندہ رکھے گا۔ میرے نزدیک یوسفی صاحب کو مزاح نگار کہنا ان کے ادبی قامت کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ وہ اردو کے عظیم ترین نثرنگاروں میں سے ایک ہیں۔ آبِ گُم پڑھیے تو آپ پر میری بات کی صداقت واضح ہوجائے گی۔ انسانی نفسیات کے پیچ، رویوں کی رنگارنگی، فقروں کی کاٹ، زبان کی چاشنی اور کردارنگاری کے جیسے نمونے اس ایک کتاب میں موجود ہیں، مجھے تو اس کی مثال ہی نہیں ملتی۔ یوسفی صاحب میری نظر میں اردو کے وہ واحد ادیب ہیں جن کے کام کی تازگی ایسی ہے کہ جتنی بار بھی پڑھو، لطف ہی دیتا ہے۔ یہ خوبی شاعری میں تو ملتی ہے مگر نثر میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ خدا ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی تخلیقات کو ویسے ہی زندہ رکھے جیسے ان کا حق ہے۔آمین

کاشف رضا

مشتاق احمد یوسفی نے ایک ایسے دور میں مزاح نگاری میں اپنا نام پیدا کیا جب ابن انشاء، کرنل محمد خان اور محمد خالد اختر جیسے صاحب اسلوب مزاح نگاروں کا اثر تازہ تھا۔ مجھے ذاتی طور پر یوسفی صاحب کے ہاں مزاح کی مقدار مذکورہ تینوں ادیبوں سے کم محسوس ہوتی ہے۔ مزاح کے بجائے ان کے ہاں شگفتگی اور مقولہ سازی یا ایپی گرام کا انداز زیادہ تھا۔ ان کی پہلی تین کتابیں بھی کمال کی ہیں مگر آبِ گُم ان کی کام یاب ترین تصنیف تھی۔ اس حیرت انگیز تصنیف میں اردو نثر ایک نئی منزل پر کھڑی نظر آتی ہے۔ یہاں متعدد سنجیدہ ٹکڑے بھی ہیں۔ یہاں یوسفی صاحب کے ہاں فکشن لکھنے کی زبردست صلاحیت کا بھی علم ہوتا ہے اور وہ کردار سازی کے ہُنر سے بھی واقف نکلتے ہیں۔ آبِ گُم اردو نثر کی لازوال کتابوں میں سرفہرست رہے گی۔ یوسفی صاحب کا تتبع ان کی زندگی میں ہی بہت ہوا۔ وہ جس طریقے سے دو تین چیزوں کو اکٹھا کر کے کسی مطلوبہ چیز کا مضحکہ اڑاتے تھے اس طریقے کو نئے اور خام مزاح نگاروں نے بہت استعمال کیا۔ اس کثرتِ استعمال سے یوسفی صاحب کی اوریجنیلٹی کی چمک دمک بھی متاثر ہوئی مگر ایک اعلیٰ ظرف شخص کی حیثیت سے یوسفی صاحب نے بذاتِ خود ایسے خوشہ چینوں پر تنقید نہیں کی۔یوسفی صاحب اور ان کے دور کے عظیم مزاح نگاروں کا خاصہ یہ تھا کہ وہ اپنے آپ پر ہنس سکتے تھے۔ ان کا تنقیدی شعور بھی بلا کا تھا اور وہ اپنے لکھے کو کاٹ سکنے اور تادیر سامنے نہ لانے کا صبر بھی رکھتے تھے جو اب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی ایک کتاب میں ادب و فن پر ایک مکالمہ درج ہے جس میں ایک کردار کہتا ہے کہ ادب میں محض خلوص ہی کافی نہیں۔ بکری بھی بڑے خلوص سے ممیاتی ہے۔ ان کے مداح کی حیثیت سے میں ڈھائی عشروں سے منتظر تھا کہ آبِ گُم جیسی شان دار تخلیق کے بعد اس کا تخلیق کار اپنے تھیلے سے کیا برآمد کرتا ہے مگر یہ انتظار انتظار ہی رہا۔ سنا تو تھا کہ انھوں نے آبِ گُم کے بعد بھی کچھ طویل نثرپارے لکھ کر پال میں رکھ دیے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اب ان نثرپاروں کی دریافت بھی ضروری ہے۔

سالم سلیم

سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ یوسفی صاحب صرف مزاح نگار نہیں ہیں بلکہ وہ انسانی جبلت اور دنیا کی کراہیت کو اظہار دیتے ہیں۔ اظہار کا یہ پیمانہ خالص ان کا اپنا ہے جو تجربے، مشاہدے، عمیق مطالعے سے برآمد ہوتا ہے…. انھوں نے اپنے بیانیہ میں فلسفہ کی آمیزش بھی کی ہے اور معمولی تر چیزوں کا مشاہدہ بھی کیاہے۔اپنے مضامین میں وہ کرداروں کے تئیں کوئی مروت نہیں رکھتے اور ہر ممکنہ عمل سرزد ہوتا ہے جو ایک جیتا جاگتا انسان کر سکتا ہے۔اکثر انشائیوں میں المیہ اپنے شباب پر ہے اور لفظوں کی ”گٹھ جوڑ” سے انھوں نے اردو نثر کا جو آمیزہ تیار کیا ہے وہ ناقابل تقلید ہے۔کسی نے سچ کہا ہے کہ ”بڑے ادیب مرا نہیں کرتے بس لکھنا چھوڑ دیتے ہیں” سو مشتاق احمد یوسفی بھی اپنی چار کتابوں کے ذریعے ہمارے اجتماعی حافظہ میں زندہ رہیں گے۔

اقبال خورشید

یوسفی صاحب کی تخلیقات کی، اپنے ہم عصر مزاح نگاروں کے مقابلے میں اثر پذیری زیادہ ہے اور بے شک رسائی بھی۔اُن کے مزاح کے پس پردہ فکرکارفرمائی ہوتی ہے جو ان کے جملے کو گہرائی عطا کرتی ہے۔ کرافٹنگ ان کے ادھر آرٹ کے درجے پر فائز ہے،یوسفی خوانی یعنی ان کی تخلیقات کی پڑھت کے سلسلے نے ان کی تخلیقات کو فنون لطیفہ کی ایک دل پذیر صنعت بنا دیا ہے۔
……

عقیل عباس جعفری

لفظ ملتے ہی نہیں شایانِ شانِ یوسفی
اِک جہانِ لطف و حیرت ہے جہانِ یوسفی
یوسفی کے عہد میں اب سانس لیتا ہے مزاح
سر پہ ہے اردو ادب کے سائبانِ یوسفی
نہ تھا کوئی ان سے پہلے نہ ہے کوئی ان کے بعد
ثبت ہے اردو زباں پہ اب نشانِ یوسفی
شعر کی معراج گویا غالب و اقبال ہیں
نثر کی معراج ہے گویا زبانِ یوسفی
اِک طرف خندہ بہ لب ہے اِک طرف چشم پر آب
قہقہوں کے درمیاں سنیے فغانِ یوسفی
نہ کوئی اس کے برابر، نہ کوئی اس کی مثال
کیا زبانِ یوسفی ہے کیا بیانِ یوسفی
فخر سا محسوس ہوگا خود ہمیں اس بات پر
جب سنائیں گے کسی کو داستانِ یوسفی
……

اطہر عباسی

کیے ہیں جس نے حقیقت میں شاہکار رقم
وہ عہد ساز ہے مشتاق یوسفی کا قلم
کمالِ حسن سے آراستہ ہے طنز و مزاح
ہنسا رہا ہے زمانے کو تیرا حسنِ کرم
……
علاء الدین ہمدم خانزادہ

یہ دن بہت اداس ہے دل مبتلا سا ہے
قرطاس بد حواس، قلم بے نوا سا ہے
مشتاق یوسفی جو سدھارے ہیں خلد کو
چشمِ ادب کا رنگ مسلسل حنا سا ہے
سارے مزاح نگار ہوئے دل فگار ہیں
ہر ایک سوگوار ہے، لہجہ بجھا سا ہے
اللہ ان کے سارے گناہوں کو بخش دے
بندہ تری جناب میں حاضر گدا سا ہے

حصہ