قابل رشک خود اعتمادی

242

درصدف ایمان
ایک دن گھر سے باہر نکلے تو راستے میں بہن نے آئس کریم کی فرمائش کردی۔ بھائی نے بائیک روکی اور اندر چلے گئے، میں باہر کھڑی تھی ایک خاتون نے ہاتھ پھیلا کر کہا بی بی اللہ کے نام پر مدد کردیں۔ اس وقت شدید شرمندگی ہوئی کیونکہ گھر سے موبائل کے علاوہ کچھ نہیں لیا تھا۔ خیر ان محترمہ کو کہہ دیا تھوڑی دیر انتظار کرلیں بھائی آجائیں تو دیتی ہوں۔ انتظار کرنے کی صرف ایک خاص وجہ یہ تھی اس سے ایک دن قبل ہی ابو اور بھائی کا ایکسڈنٹ ہوا تھا اور تب سے صدقہ دینا تھا مگر موجودہ رہائش ہمارے لیے نئے و انجان علاقے میں ہے تو ایسا کوئی ملا نہیں جسے صدقہ دیا جاتا۔
بہرحال بھائی نے جب گلاس وال سے دیکھا کہ ایک محترمہ ہمارے قریب کھڑی ہیں تو خود باہر آگئے اور پیسے دے کر چلے گئے وہ محترمہ بھی چلی گئیں اس کے فوراً بعد ایک بچہ آیا جو 7سال کا ہی ہوگا اور توقع کے عین مطابق ہاتھ پھیلایا میں نے کہا تمہاری امی کو ابھی دیا ہے۔ آگے سے مکمل اعتماد کے ساتھ جواب آیا وہ میری امی نہیں بہن ہے، میں نے کہا اچھا آپ کی بہن کو دے دیے ہیں تو جواب میں کہا گیا اچھا باجی پیسے نہیں دے رہی آئس کریم ہی کھلادیں ۔بس ایک کپ چاکلیٹ فلیور میں۔۔ مجھے اس وقت اس کے اس قدر اعتماد اور پھر اتنے مضبوط لہجے میں فرمائش وہ بھی بمع فلیور کے سن کر حیرت تو نہیں ہوئی البتہ سوچ میں ضرور ڈال گیا، اسی وقت بھائی آگئے میں نے ان سے شاپر لے کر اس میں سے ایک کپ نکال کر اسے دے دیا اور وہ وہاں سے بھاگتا آگے چلا گیا۔
اسی وقت سوچا تھا اس بچے کی اس قدر خود اعتمادی پر ضرور لکھوں گی بلاشبہ اس کا مانگنا ان کے نزدیک ان کا شعبہ (فیلڈ) ہے جس میں وہ کامیاب ہیں۔ ایک ایسے بزنس مین کی طرح جو اپنے کاروبار کے ادوار، نشیب و فراز، موقع و محل، نفع نقصان اور تمام تر احتیاطی تدابیر سے بخوبی واقف ہوتا ہے، اگر دیکھا جائے یا لمحے بھر کو بس سوچا ہی جائے کہ 7سال کا بچہ اپنی عمر سے بڑے لوگو سے اس قدر اعتماد سے بات کرے کہ سامنے والا اس کے اعتماد کو دیکھ کر سوچ میں پڑ جائے کہیں میری کسی کزن کا بیٹا تو نہیں (میری تمام کزنز برا نہیں ماننا بس مثال دی ہے)اور پھر اس خود اعتمادی پر رشک کے ساتھ ساتھ افسوس بھی کیا جاسکتا ہے بلکہ درحقیقت یہ ہے ہی قابل افسوس بات کہ صلاحیت و اعتماد سڑکوں پر بھیک مانگ رہا ہے۔ پیچھے وجہ جو چاہے ہو چاہے ماحول چاہے تربیت چاہے حکمرانوں کی نااہلی چاہے۔ معاشرے کی بے حسی میرے نزدیک وہ ایک چھوٹا سا ذہین بچہ تھا جس نے اپنا مدعا اپنا مطالبہ صاف و واضح الفاظ میں مکمل اعتماد کے ساتھ بنا ڈرے جھجکے پیش کیا۔
وہ آنکھیں جو آنکھوں میں ڈال کر، زبان کے بنا رکے اپنی ضرورت اپنی خواہش پیش کر رہی ہیں کیا یہ صلاحیت ملک کی فلاح کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی؟ یا ان ہاتھوں کے لیے قلم کی جگہ چند سکے اور یہ قابل رشک اعتماد دکھانے کے لیے یہ آئسکریم بار، ریسٹورنٹ، کیفے، سڑکیں رہ گئیں؟؟ اس بچے کا وہ پر اعتماد انداز جو مقابل کو 7 سال کی عمر میں سوچ میں ڈال دے تو اس اعتماد کا وقت شباب کیا عالم ہوگا؟
یہ ایک بچہ ہے اپنے پیشے اپنے شعبے میں ماہر، نہ گرنے کا خوف نہ ٹھوکر کا خوف ایک سے نہیں مراد پوری دوسرے کی طرف چلے جاؤ ہار ماننا سیکھا ہی نہیں، تھک جاؤ بیٹھ جاؤ کچھ دیر پھر کسی سے مانگنے کے لیے تیار نئی ہمت و ولولے کے ساتھ ساتھ ایسی قابل رشک ہمت صلاحیت مہارت اور اعتماد رشک و تاسف کے احساسات ایک ساتھ وارد ہوئے تھے۔ یہ تمام صلاحیتیں اگر جگہ مناسب پر استعمال ہوں اور یہی تمام صلاحیتیں ایک عام انسان اپنے اپنے شعبہ جات میں بھی اپنالیں… شاید ناکامی سے ٹکرا کر کامیاب ہونے کا گر حاصل کرلیں۔

عوام کی سادگی

فوزیہ تنویر

جونہی الیکشن قریب آتے ہیں ہمارے سیاسی رہنمائوں کو بھی عوام کی یاد ستانے لگتی ہے اور پھر جلسے‘ جلوسوں کی صورت میں عوامی قوت کے مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان جلسوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا ناچ گانے‘ گالم گلوچ اور ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہوتی ہے۔ ملک کی کسی کو بھی فکر نہیں ہے بس میڈیا پر لاکھوں کا مجمع دکھائی دینا چاہیے۔ کسی ٹی وی چینل کے اینکر پرسن نے جلسے میں شریک ایک خاتون سے سوال کیا کہ آپ کس کے جلسے میں شرکت کرنے آئی ہیں؟ تو وہ بولیں مجھے نہیں معلوم کس کا جلسہ ہے‘ ہمیں تو گائوں سے بسوں میں بھر کر یہاں لا کر بٹھا دیا ہے۔ خدا کی پناہ کیا اس طرح ملک کی تقدیر بدلے گی؟ غریب لوگوں کو بھوک کی عفریت میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ وہ اس سے آگے کا سوچتے ہی نہیں۔ جلسہ گاہ میں بیٹھ کر سارا دن نعرے لگاتے ہیں جس کے عوض دو وقت کھانا اور کچھ رقم مل جاتی ہے اور اس طرح دونوں کا کام بن جاتا ہے ایک کی بھوک مٹ جاتی ہے اور دوسرے کی گنتی پوری ہو جاتی ہے پھر یہی اَن پڑھ لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں کھڑے کر دیے جاتے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے اپنی مرضی سے ٹھپا لگواتے ہیں۔
یہ صرف ایک گائوں یا علاقے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ان تمام پسماندہ علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی کہانی ہے جو علم کی روشنی سے محروم جہالت کے اندھیروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود بھی اپنے حالات بدلنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ وہ اسی طرح خوش ہیں۔ کیا بریانی کی ایک پلیٹ کے بدلے اپنا قیمتی ووٹ بیچنے والے انقلاب لائیں گے؟

حصہ