عورت اور سیاست

556

افشاں نوید
دوسرا حصہ
اسلام سے ناواقف اطمینان سے کہہ دیتے ہیںکہ اسلام مسلمان عورت کو قانون سازی کے حقوق ہی نہیں دیتا۔ وہ اس پر تعلیم کے دروازے بھی بند رکھتا ہے اور اس کو گھر کی چہار دیواری میں قید دیکھنا چاہتا ہے وغیرہ!! اسلامی تاریخ سے اتنی واقفیت تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ شریعت کا مزاج سمجھ سکے اور ان الزامات کی حقیقت جان سکے۔
طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ حق مہر کی کوئی حد مقرر کردی جائے۔ ان کے پاس ایسے مسائل آتے تھے کہ نوجوانوں کے لیے نکاح کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ اس مجلس میں ایک خاتون موجود تھیں جہاں انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو خاتون نے سورۂ نساء کی بیسویں آیت پڑھی کہ ’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے ڈھیر سارا مال ہی اسے کیوں نہ دیا ہو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔‘‘ خاتون نے نکتہ اعتراض اٹھایا کہ قرآن تو ڈھیر سارے مال کی بات کررہا ہے تو عمر تم کون ہوتے ہیں مہر کی حد مقرر کرنے والے؟؟؟
حضرت عمرؓ نے فوراً اپنی رائے سے رجوع کرلیا اور فرمایا :’’عمر غلط تھا یہ خاتون درست کہہ رہی ہیں۔ ‘‘
ہم نے حضرت عمرؓ کے جاہ وجلال کے بارے میں بہت سی روایات پڑھی ہیں کہ ازواج مطہرات تک ان کا خوف کرتی تھیں۔ یہاں جب معاملہ آئین میں ترمیم کا آیا تو ایک خاتون نے ببانگ دہل اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی کہ قرآن نے جو مسلمانوں کا آئین ہے جب مہر کی حد مقرر نہیں کی نہ ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تو خلیفہ وقت کو کیسے اس ترمیم کا اختیار دیا جاسکتا ہے؟
اگر ان روایات کو منبر ومحراب سے بیان کیا جائے تو ان پر مقالے لکھے جائیں نئی نسل کو ان تعلیمات اور اسلام کی روشن مثالوں سے روشناس کرایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آج کی مسلمان عورت اپنے حقوق کی دھائی دیتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئے۔ اسلام سے زیادہ کون عورت کے حقوق کے بارے میں حساس ہے ضرورت تو ہے ایسے عادل حکمرانوں کی جو ان حقوق کی حفاظت کا ذمہ لیں۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امور مملکت میں خواتین کے مشوروں کی ہمیشہ قدر فرماتے۔ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب معاہدے کے شقوں پر مسلمانوں کا دل تنگ ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اٹھو قربانی دو اور حلق کرائو۔ اس سال ہمیں واپس جانا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا مگر کوئی عمل درآمد کے لیے آمادہ نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ ؓ سے مشورہ کیا انہوںنے فرمایا اللہ کے نبی آپ خود قربانی دیں اور حجام کو بلاکر حلق کرالیں۔ آپؐ نے ایسا ہی کیا تو صحابہ کرام بھی اٹھ کھڑے ہوئے، جانوروں کی قربانی کی اور ایک دوسرے کا حلق کرنے لگے۔ (بخاری27)
وہ امت پر کتنا سخت وقت تھا ، مسلمانوں کا دل بہت تنگ ہوا تھا، معاہدے کی بعض دفعات پر، لیکن آپؐ کی بصیرت آنے والے وقت میں اس کے اثرات دیکھ رہی تھی کیوں کہ قرآن نے اس کو فتح مبین سے تعبیر کیا تھا۔ ایسے میں ایک بصیرت افروز خاتون کے مشورے سے مسلمان ایک اضطراری کیفیت سے نکل آئے۔
حضرت امیر معاویہؓ جو حاکم وقت تھے انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ حضرت عائشہؓ نے جواب میں تحریر فرمایا: ’’السلام علیکم! امابعد! میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سناہے کہ جو شخص انسانوں کی ناراضگی کی پروا نہ کرے وہ خدا کو راضی کرے گا اور جو خدا کو ناراض کر کے انسانوں کی رضامندی کا طلبگار ہوگا اللہ اس کو انسانوں کے حوالے کردے گا۔ والسلام ‘‘
ہم ان روایات کو صرف ثواب وبرکت کے لیے پڑھتے اور بیان کرتے ہیں یا تاریخی حوالوں کے لیے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس امت کے اکابرین ابھی موجود ہیں جنہوں نے براہِ راست چشمۂ نبوت سے فیض حاصل کیا ہے۔ خلیفہ وقت ان مردوں سے مشورہ کریں۔ ایک عورت بھلا کہاں امورِ مملکت کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔ عورت کا میدان کار تو اس کے گھر کا میدان ہے وہ بھلا سربراہ وقت کو کیا مشورہ دے سکتی ہے۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مسلمان عورت کے مقام ومرتبہ سے آگاہ تھیں۔ مختصر ترین لفظوں میں اتنی بڑی نصیحت کردی کہ اس کے بعد کسی بات کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔
شاہ کلید بادشاہ وقت کے ہاتھ میں تھمادیتی ہیں کہ اللہ کا خوف اور اس کی محبت تمام بھلائیوں کی جڑ ہے۔ رب کی معصیت میں کسی مخلوق کی خوشنودی نہیں ہے۔ صدر مملکت کی رہنمائی ایک واضح مقصد کی طرف کرتی ہیں کہ لوگوں کی اور اس دنیا کی خاطر رضائے الٰہی کا سودا نہ کریں۔
ایک مسلمان عورت اسلام کے احساس برتری سے سرشار ہوتی ہے وہ نہ دبنے والی ہوتی ہے نہ جھکنے والی۔ اگر حق وباطل کا معرکہ ہو تو پورے استقلال کے ساتھ حق کا ساتھ دیتی ہے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر کی روشن مثال آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے جب انہوں نے حاکم وقت حجاج بن ثقفی کے دور میں جب ان کے بیٹے کو شہید کر اکے ان کی نعش تختہ دار پر دیدار عام کے لیے لٹکا دی گئی۔ ان کو بلوایا گیا انہوں نے انکار کردیا۔ دھمکیوں سے بھی مرعوب نہ ہوئیں تو حجاج متکبرانہ انداز میں خود ان کے پاس پہنچا اور کہا دیکھا میںنے کیا سلوک کیا اللہ کے دشمن کے ساتھ۔ حضرت اسماء اس انتہائی رنج والم کے موقع پر اپنے حواس مجتمع رکھے ہوئے ہیں اور اس کو کرختگی کے ساتھ جواب دیتی ہیں کہ تم نے اس کی دنیا تباہ کی اس نے تمہاری عاقبت برباد کردی۔ راوی کہتے ہیں حجاج نے کچھ نہیں کہا اور اٹھا کر چلا گیا۔ (مسلم 31)
اسلام نے امورِ مملکت میں عورتوں پر قدغن نہیں لگائی، ان کو شرکت سے روکا نہ ان کے مشورے کو دوسرے درجے کی اہمیت دی۔ ہاں حساس ترین خانگی ذمہ داریوں کے سبب بڑے بڑے مناصب سے اس کو الگ رکھنا پسند کیا۔ یہ اس کی صلاحیتوں پر شک نہیں بلکہ اس کے ساتھ رعایت ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی امور خانہ داری اور تربیت اولاد کی بھاری ذمہ داریوں میں جکڑی ہوئی ہے۔

لوٹ پیچھے کی طرف

اسلام جدید ترین مذہب ہے اس سے ماقبل جہالت تھی اور آج بھی اسلام کے علاوہ جتنے مذاہب کے پیروکار ہیں وہ اپنی شرعی تعلیمات کو گم کرچکے ہیں لہٰذا جاہلیت کے پیروکار ہیں۔
اب یہودیت ہی کو لیں وہ عورتوں کو سیاسی حقوق کیا دیں گے ان کے ہاں تو عورت مال ومتاع کی طرح خریدی اور بیچی جاتی ہے۔
اسی طرح مسیحی دین عورت کو چرچ میں بولنے تک کی اجازت نہیں دیتا۔ چرچ کی یہ ستم آزمائی چھٹی صدی ہجری تک رہی ہے۔ 1882ء کے بعد عورت کو ملکیت اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی اجازت ملی۔
اب ان مغربی معاشروں پر ایک نظر ڈال لیں جہاں مسلمان عورت کو کمزور اور بے اختیار سمجھا جاتا ہے۔
٭امریکہ میں 1920 میں خواتین کو ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں امیدوار بننے کی اجازت دی گئی۔
٭آسٹریلیا میں 1902 میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی آزادی دی گئی۔
٭فرانس میں 1944 میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔
٭برطانیہ نے 1915 میں تیس سال کی عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا پھر 1928 میں اس قانون میں ترمیم کرکے خاتون ووٹر کی عمر 21 برس کردی گئی۔
یہ ہے ترقی یافتہ دنیا کا حال۔ جب کہ مسلمان عورت تو چھٹی صدی عیسوی سے نہ صرف اپنے رائے کے اظہار کی آزادی کا حق رکھتی ہے بلکہ امور مملکت میں بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق حصہ لینے کے لیے آزاد ہے۔ البتہ اسلامی حدود کی پاسداری لازم ہے۔

پاکستان کا آئین

آرٹیکل 28-8 میں بنیادی حقوق تمام شہریوں کو حاصل ہیں جس میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔
آرٹیکل 4 کے تحت بنیادی حقوق چاہے عورتوں کے ہوں یا مردوں کے ان کی قانونی حفاظت کی جائیگی اس میں حق ملکیت، حق زندگی، حق آزادی واظہار رائے وغیرہ شامل ہے۔
آرٹیکل 7 میں لوکل گورنمنٹ میں عورتوں کو خصوصی نمائندگی دی جائیگی۔
آرٹیکل 34 کے تحت ایسے اقدامات کیے جائیں گے کہ خواتین اپنی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کے پیش نظر ہر میدان میں حصہ لے سکیں۔
پاکستان میں خواتین کو آئین کے تحت تمام سیاسی حقوق حاصل ہیں مگر حقوق نسواں کی تنظیمیں ان حقوق سے مطمئن نہیں ہیں وہ ’’کچھ اور‘‘ کی خواہش مند ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ’’مساوات‘‘، ’’ترقی اور امن‘‘ ’’عورت کی خود مختاری‘‘ کے نام پر عورتیں اپنے حقوق کے لیے دھائی دے رہی ہیں۔
٭ 1980 میں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن
٭ 1985 میں کینیا کے شہر نیروبی
٭ 1990 میں قاہرہ
٭ 1995 میں بیجنگ میں عالمی کانفرنس منعقد کی گئیں جن کا مقصد عورتوں کے لیے مادرپدر آزادی، صنفی مساوات اور پالیسی ساز اداروں میں ان کی پچاس فیصد شمولیت کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ ایک قدم آگے بڑھ کر ملکی اہم مناصب مثلاً صدر مملکت، سربراہِ عدالت یا مسجدوں میں عورتوں کی امامت اور عورتوں کا نکاح خواں بننے کے تقاضے بھی شامل ہوتے جارہے ہیں۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ دنیا کے جن مغربی ملکوں سے حقوق نسواں کی تحریکیں اٹھتی ہیں خود ان ملکوں کی تاریخ دیکھ لیں کہ کتنی خواتین حکومت کے کلیدی عہدوں تک پہنچی ہیں۔ پچھلے پچاس برس کے اعداد وشمار اٹھاکر دیکھ لیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے جو رپورٹس شائع کرتے ہیں ان کے مطابق دنیا بھر میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعینات خواتین کی تعداد مردوں کا صرف سات فیصد ہے جو انہی عہدوں پر فائز ہیں جب کہ بیشتر ممالک میں تو یہ تناسب صفر ہے۔ یعنی سیاسی عہدوں پر خواتین موجود ہی نہیں ہیں۔ ان ممالک میں مسلمان ممالک کم اور مغربی ممالک کی کثیر تعداد شامل ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’عورت کی سربراہی‘‘ کا مسئلہ پاکستان میں اتنے شدومد کے ساتھ کیوں اٹھایا جاتا ہے؟ کیا واقعی عورت کی سربراہی عورتوں کے مسائل کا حقیقی حل ہے؟ ایسا ہے تو تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں۔

سری لنکا

۔1960میں پہلی بار ایک خاتون کو سری لنکا میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ حاصل ہوا۔ آج پانچ دھائیاں گزرنے کے باوجود کیا وہاں پارلیمنٹ اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر تعنات خواتین کی تعداد مردوں کے برابر ہے؟ 1991 میں لوکل باڈیز کے انتخابات میں 4382 سیٹوں پر 55 خواتین اور باقی مرد تھے۔
1997 میں 3490 نشستوں میں صرف 39 پر خواتین تھیں۔ سری لنکا میں عورت کے ریاست کے اعلیٰ ترین عہدہ تک پہنچنے کے بعد کیا عورتوں کی سماجی حالت میں کوئی بہتری واقع ہوئی۔ عورتیں جو وہاں کل آبادی کا 51% ہیں وہاں عورتوں پر گھریلو تشدد 60 فیصد سے زیادہ رپورٹ ہوا ہے جب کہ امریکہ کے بعد سب سے زیادہ خواتین سری لنکا میں مردوں کے ہاتھوں تشدد اور ریپ کا شکار ہوتی ہیں۔

بھارت

اندرا گاندھی کو دنیا میں کون نہیں جانتا۔ وہ عورت کی خود مختاری کا استعارہ سمجھی جاتی ہیں۔ وہ بھارت میں طویل عرصہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ انڈیا میں عورت کل بھی تشدد کا شکار تھی اور آج بھی ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔
انڈین انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق شہروں میں آگ لگنے سے 68 ہزار جب کہ گائوں میں 95ہزار عورتیں ہلاک ہوئیں۔ جب کہ 15 سے 35 سال کے درمیانی عمر کی 65% سے زائد خواتین تشدد کا شکار ہیں۔ عورتوں کی بے حرمتی اور جنسی ہراسگی میں یہاں کے اعداد وشمار مغربی ملکوں کو شرماتے ہیں۔ حتیٰ کہ انڈین پارلیمنٹ 33% عورتوں کی نمائندگی کا بل تک منظور نہ کراسکی۔

بنگلہ دیش

یہاں تو گذشتہ بیس برس سے خواتین ہی برسراقتدار ہیں۔ یہاں کی خواتین کی بڑی تعداد معاشی پریشانی کے سبب تلاش روزگار کے لیے بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ کیا یہاں تیزاب پھینکنے، جلا کر مارنے، تشدد کرنے اور ریپ کے واقعات میں کوئی کمی واقع ہوئی کہ ہم مثال پیش کرسکیں کہ عورت برسراقتدار ہوتی ہے تو عورتوں کے حقوق کو تحفظ حاصل ہوتا ہے…!! گذشتہ دو دھائیوں کے اعداد وشمار پر مبنی رپورٹس گوگل پر سرچ کرلیں ہر سال حاملہ خواتین پر تشدد، تیزاب سے جھلسنے والی عورتیں اور جسمانی تشدد اور ریپ کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہی ہوا ہے۔

حصہ