علم کے موتی

555

سارہ، عمارہ عبدالرؤف
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب جبریل علیہ السلام پہلی دفعہ غارِ حرا میں اللہ کا پیغام ’’اقراء‘‘ کے الفاظ کی صورت لے کر آئے، پھر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ آپؐ نے علم کو مومن کی گم شدہ میراث قرار دیا۔ مسلمانوں کو علم کی سب سے بڑی کتاب قرآن مجید کا تحفہ دیا جس میں دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کا علم ہے۔ کتاب اور علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مشہور فلسفی ابنِ عربی کہتے ہیں:
’’کتاب پھلوں کا ایسا باغ ہے کہ آپ اس میں ہر طرح کا پھل کھا سکتے ہیں‘‘۔ جس کے گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ ایسے جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔ کتابوں کے بغیر درس گاہ ایسے ہی ہے جیسے طالب علموں کے بغیر۔ اور ایک شہر کتب خانے کے بغیر ویران ہے۔ سقراط کہتا ہے ’’جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ زندہ مُردوں کا قبرستان ہے۔‘‘
افسوس کہ آج کا معاشرہ کتابوں سے کوسوں دور ہے اور یہ فاصلہ روز بہ روز بڑھ رہاہے۔ خلیفہ مامون الرشید کے دور میں وزرا اور امرا کی حیثیت کا اندازہ اُن کے ذخیرۂ کتب سے لگایا جاتا تھا، جس کے پاس جتنا بڑا ذخیرۂ کتب ہوتا اُس کو زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ جب کہ ملکِ عزیز کے سابق صدر پرویزمشرف نے ایک غیر ملکی دورے کے دوران ایک پاکستانی سفارت کار کے پاس وافر مقدار میں کتابیں دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور تعجب سے پوچھا ’’آپ اتنی زیادہ کتابیں پڑھتے ہیں، وقت کہاں سے نکال لیتے ہیں؟‘‘ یعنی وہ کتب بینی کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔ (بحوالہ: اردو ڈائجسٹ)

پرسکون ماحول بچوں کو ذہنی امراض سے دور رکھتا ہے

بچوں کے رویوں میں منفی تبدیلیاں والدین کے لیے یقینا تشویش کا باعث ہوتی ہیں، تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کا علاج صرف ماہرینِ نفسیات کے پاس ہی ہو۔ اگرچہ تھراپی کا طریقہ نفسیاتی طریقہ علاج میں نہایت اہم اور معروف ہے، تاہم اس کے لیے معالج اور مریض کے درمیان مکمل ذہنی ہم آہنگی کا ہونا لازمی ہے۔ ذہنی ہم آہنگی جتنی مضبوط ہوگی اتنی ہی جلدی نفسیاتی معالج اپنے علاج میں کامیاب ہوجائے گا، بصورتِ دیگر علاج میں دیر ہوتی جائے گی، اور یہ معالج اور مریض دونوں کے لیے ناپسندیدہ ہوتی ہے۔ بڑوں کی نسبت بچے چونکہ معالج کے ساتھ تھوڑے سے وقت میں گہری ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں کرسکتے، لہٰذا ان کے علاج میں بھی اتنی ہی دیر ہوسکتی ہے۔ اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اگر وہ نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوں، تو خود انہیں اس کیفیت سے باہر لانے کی کوشش کریں۔ ان کے مسائل کو سمجھیں، ان کو احساس دلائیں کہ اگر وہ اپنی باتوں میں والدین کو بھی شریک کریں تو اس سے ان کا مزاج شگفتہ ہوگا اور جنہیں یہ بچے مسائل سمجھتے ہیں وہ خودبخود حل ہوجائیں گے۔ معالج کی نسبت بچہ ماں، باپ کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اگر ماں بچے کو یہ باور کروا دے کہ جنہیں وہ مسائل سمجھتا ہے دراصل وہ مسائل نہیں بلکہ اس کی غلط سوچ ہے، اس کی ناسمجھی ہے تو وہ پھر درست رہنمائی کے لیے اپنے والدین سے اپنی مشکلات اور وہ باتیں جنہیں بچہ مسائل سمجھتا ہے، کا تذکرہ کرے گا۔ یوں والدین کے مثبت رویّے کی یہ تبدیلی بچے کے لیے خوش گوار ہوگی اور وہ دماغی تنائو سے بھی باہر نکل سکے گا۔

حصہ