شعر و ادب میں مافیا کا کردار اور ادب کے ڈان

491

خالد معین
ذاتی اغراض کی کارفرمائی، شخصی فرعونیت، کرپشن اور من پسند گروپ مافیا کی پرچھائیاں کہاں نہیں! سیاست، بزنس، سرکاری، نجی اور تعلیمی ادارے غرض سبھی جگہ کرپشن اور مافیا سسٹم چھایا ہوا ہے، یہاں تک کہ شعرو ادب میں بھی کرپشن اور مافیا کے سائے اب صاف طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ شعر و ادب میں طبقاتی نظام کی منفی کارفرمائیاں اپنی جگہ ہیں، اقربا پروری اور پی آر کے ساتھ گروپ بندی کے جلوے الگ ہیں۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد اور دیگر ادبی مراکز میں ادبی ڈان موجود ہیں اور ادب میں مافیا سسٹم نے نہ صرف شہری، ملکی اور بین الاقوامی مشاعروں کی فہرستوں کو من پسند بنایا بلکہ ریڈیو اور ٹی وی چینلزکے ساتھ چھوٹی بڑی ادبی کانفرنسوں، ادبی انعامات، حکومتی اعزازات اور دیگر چھوٹے بڑے فوائد تک ہڑپ کیے۔ اُنہوں نے یہ سارے کام اپنے ہرکاروں اور ذاتی تعلقات کے ذریعے کیے اور بہ ظاہر نیک نامی کی چادریں بھی اوڑھے رہے۔ شعرو ادب میں رابطوں اور اپنی اہمیت منوانے کے لیے ایک من پسند گروپ کی تشکیل، اور اس گروپ کی طرف داری کے لیے ادبی رسائل کا ڈول بھی ڈالا جاتا ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا اب دیگر رابطوں کے ساتھ مختلف ادبی گروپوں اور ادب کے چھوٹے موٹے ڈانوں کے لیے ایک نیا سائبان مہیا کررہے ہیں۔ لیکن کیا صرف یہی ہمارا موضوع ہونا چاہیے؟ جی نہیں! فی الحال تو ایسا کوئی موڈ نہیں، مگر آپ اپنا موڈ آف نہ کریں۔
اب کیا کریں، آپ کی دل چسپی تو شاید اسی بدنام ِ زمانہ موضوع میں ہے، اس لیے اس لمحے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ چلیں انفرادی ناموں کے بجائے اجتماعی منفی کاموں پر نظر ڈالتے ہیں۔ یاد آیا! برسوں پہلے منہ پھٹ اور ڈراما باز ساقی فاروتی نے ایک مضمون اسی ضمن میں لکھ مارا تھا۔ وہ بڑا بولڈ مضمون تھا، اور ساقی فاروتی تو ایسے متنازع مضامین لکھنے میں ویسے بھی ایک خاص طرح کی شہرت رکھتے تھے۔ اس لیے وہ مضمون خوب چلا۔ مذکورہ مضمون میں ساقی فاروقی نے جن تین بڑے ادبی ڈانوں کا پردہ فاش کیا تھا، وہ اُس وقت تک ادب کی دنیا کے انتہائی محترم اور نیک نام بزرگ شمار ہوتے تھے، اور اس مضمون کے بعد اگرچہ بہت سی انگلیاں اُن بزرگوں کی جانب ضرور اٹھیں مگر حد درجہ مضبوط ادبی لابی اور ادب کے ساتھ سماجی سطح پر اونچے درجے کے تعلقات رکھنے والے اُن بزرگوں کی شہرت پر کوئی خاص فرق نہ پڑا۔ الٹا ساقی فاروقی ہی مزید بدنامیاں سمیٹ کے چپ ہورہے، جو اُن کی دیرینہ خواہش بھی رہی۔ آپ لوگ یقینا جانتے ہی ہوں گے،اس لیے اُن بزرگوں کے نام تو رہنے ہی دیں، ویسے بھی اس گفتگو کا مقصد کسی کی ذات پر کیچڑ اُچھالنا نہیں، یہاں تو ادب کی اجتماعی بے راہ روی کا رونا رویا جارہا ہے۔ جب کہ اُس مضمون میں ساقی فاروقی کا شکوہ یہ تھا کہ ادب کی سلطنت میں ان بزرگوں نے اُنہیں جو اختیارات اور تاج پہنانے کا وعدہ کیا تھا، وہ اب تک پورا نہیںکیا گیا اور وہ تینوں بزرگ سارے عیش مل جل کے کررہے ہیں، جو بہ قول ساقی فاروتی، سخت بے انصافی کا مقام تھا۔ اب ساقی فاروقی جب تک زندہ رہے، اُن کی ہوس کسی بھی مرحلے پر نہ صرف پوری نہ ہوئی، بلکہ الٹا عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی رہی۔
خیر، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ کراچی میں چند عشروں کے دوران ادبی مافیا کے سرگرم ارکان کے خلاف کچھ انتہائی بے ہودہ خطوط کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا، لکھنے والا انتہائی مشاق تھا، اور ادب کے اندر کا پورا حال بھی جانتا تھا، اور اس کے جملوں کی کاٹ اور تحریر کی سجاوٹ اُس کی ذہانت اور ادبی سوجھ بوجھ کی عکاس تھی۔اس لیے ان خطوط میں جن معروف ادبی شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا رہا، اُن کے حوالے سے بڑے پتے کی باتیں اور بعض ایسے حقائق بھی درج کیے جاتے رہے، جن سے انکار کرنا ممکن نہ تھا۔ البتہ ان خطوط کی زبان غیر شائستہ اور اخلاق سے گری ہوئی تھی۔ انہی خطوط میں ایک خط ’ادب کے تین حرام زادے ‘ بھی تھا اور اس میں باقی دو نیک ناموں کے ساتھ عہد ِ حاضر کے ایک بلند پایہ مزاح نگار اور سبھی کے پسندیدہ لکھاری بھی شامل تھے اور اُن کے حوالے سے بڑے بھیانک انکشاف کیے گئے تھے۔ اب جہاں تک میری سمجھ بوجھ ہے، وہ شخصیت نہ صرف عہد ِ حاضر کے نمایاں ترین منصب پر براجمان ہے، بلکہ انہوں نے جو بھی لکھا ہے کمال کا لکھا ہے، اور اپنی ادبی شخصیت کو انتہائی غیر متنازع بھی بنایا ہوا ہے، یہ اور بات کہ اُن کے کردار پر کہیں کہیں کیچیڑ ضرور اچھالی گئی اور کچھ لوگوں نے اس کیچٹر کو حق بہ جانب بھی قرار دیا۔ یہاں تک کہ گزشتہ دنوں رضا علی عابدی جیسی محتاط اور ادب کی غیر متنازع شخصیت نے بھی اخلاقی گراوٹ کے حوالے سے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں قدرے احتیاط کے باوجود لندن میں قیام کے دوران اُن صاحب کی رنگین مزاجی کی ہلکی سی جھلک دکھا کے اُن پر اچھی خاصی چوٹ کی۔
لاہور میں ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ شاعر بھی ادبی ڈان ہونے کے حوالے سے اپنی جداگانہ شہرت رکھتے ہیں۔ وہ جب تک ملازمت میں رہے پنجاب بھر میں اپنی پوسٹنگز کے ساتھ بزرگ اور معروف شعرا کے علاوہ بہ طور ِ خاص نئے شاعروں کو نوازتے رہے، اُنہیں مرید بھی بناتے رہے۔ سنا ہے اُن کے نوازے ہوئے چلت پھرت میں ماہر ایک طرار شاعر نے بعد میں بیوروکریٹ شعرا کا ایک پورا گروپ بنایا اور ریٹائرڈ بیوروکریٹ شاعر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے خود مشاعروں کے ڈان بن گئے۔ اسلام آباد میں بڑی پوسٹوں پر رہنے والے ایک اور معروف شاعر پر بھی اسی نوعیت کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔کچھ ایسے ہی الزامات کراچی کے ایک سینئر شاعر کے بارے میں بھی ہیں، جن کا نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور وہ سارے ہنر آزماکے بھی معصوم صورت بنائے شرفا کی صف ِ اوّل میں بیٹھے ہیں۔ ایک زمانے میں ریڈیو اور پی ٹی وی کے ایسے پروڈیوسر جو ادب کے پروگرام کرتے تھے، اپنا بڑا اثر رسوخ رکھتے تھے مگر اپنی ملازمت کے زمانے والے یہی توپ پروڈیوسرز اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اب شہر میںگم نامی اور تنہائی کے روزو شب گزار رہے ہیں۔ میڈیا کے جدید دور میں کچھ کم اہم لوگ بھی ادب کے پروگراموں کو کیش کراتے ہوئے چھوٹے موٹے ڈان بن کے اُبھرے، مگر جہاں اُن کی چھٹی کسی ایسے چینل سے ہوئی جہاں ادب کے پروگرام ہوتے تھے، وہیں اُن کی بے وقعتی کا درد ناک دور بھی شروع ہوگیا۔ اخبارات کے ادبی صفحات کے انچارجز اور ادبی صحافت کرنے والے لوگ بھی اپنی مار کی حد تک ذاتی مفادات کے کھیل میں کسی سے پیچھے نظر نہیں آتے، تاہم بڑے ادبی مراکز کو کنٹرول کرنے والے بڑے ڈان ایسے تمام چھوٹے موٹے ڈانوں سے کہیں زیادہ اسمارٹ ہیں اور وہ شہر کے شہرت پسند سینئر لکھنے والوں کی مدد سے اپنے اطراف ایک ایسا چمکیلا حصار بناتے ہیں، جس کے ذریعے وہ اپنی بساط کے مطابق حالات و واقعات کو بڑی حد تک اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں، اس کے ساتھ مال کمانے، نام چمکانے اور شہرت بڑھانے کے علاوہ چاپلوسوں کی بڑی تعداد کے سبب یہ لوگ جی حضوری کی لت میں بھی پڑے ہوئے ہیں۔
ایسا نہیں کہ دیگر مافیا کے سربراہوں کی طرح ادبی ڈان اچھے کام نہیں کرتے، بالکل کرتے ہیں اور دیکھا جائے تو اُن کی زندگی ہی اس کام سے جڑی ہوتی ہے، تاہم ضروری نہیں کہ ادب کا ہر ڈان سمجھ دار، باشعور اور پڑھا لکھا بھی ہو، یہی وہ مقام ہے جب ادب کے معاملات جہلا کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں اور ادب کی روایتی تہذیب، شائستگی، اخلاقیات اور توازن کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ ادبی ڈان اپنی جہالت، ذاتی مقاصد، خودپسندی، ہٹ دھرمی اور کسی حد تک بے شرمی کے ساتھ وہ وقتی احمقانہ فیصلے کرتے ہیں، جو پورے ادبی منظرنامے پر اثرانداز ہوتے ہیں اور دیگر ہٹ دھرموں کے لیے بری مثال کی صورت ادب میں نافذ ہونے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ من چلوں نے کراچی میں ایک ایسے صاحب ِ ثروت بزرگ کو صدارتیں دینی شروع کردیں، جو اس منصب کے اہل نہیں۔ اب من چلوں نے تو ایسا اس لیے کیا کہ مشاعروں کا خرچ نکل آئے، تاہم دوسری جانب دس پندرہ ہزار میں ایک نااہل لکھنے والے بزرگ مشاعرے کی صدارتیں کرتے کرتے اب مشاعروں کے باقاعدہ صدر ہوگئے ہیں۔ایسا نہیں کہ اختیارات اور اہمیت کی خواہش بیش تر لکھنے والوں میں نہ ہوتی ہو، بالکل ہوتی ہے لیکن آئینہ دیکھنا بھی تو ایک چیز ہے، دوسرا انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ قیادت سے انصاف اور منصفانہ فیصلوں کے جراثیم سب لوگوں میںنہیں ہوتے۔ ادبی قیادت بھی ایک نوع کی کانٹوں بھری سیج ہے، اس لیے ذاتی سطح پر ادب میں کام کرنے والی مافیائوں کے سرکردہ ڈانوں سے اتنی گزارش ضرور ہے کہ شعرو ادب کے نام پر نام کمائیں، پیسا اڑائیں اور دھونس بھی جمائیں، مگر شعرو ادب کے بنیادی تقدس کو مجروح نہ ہونے دیں۔ بزرگ شعرا کو اُن کا مقام ضرور دیں، نوجوان شعرا کے ساتھ بھی خصوصی اخلاص برتیں کہ یہ ہمارا مستقبل ہیں۔ خواتین کو اُن کا جائز مقام دیں مگر متشاعرات اور متشاعروں کی حوصلہ افزائی مت کریں، شعر و ادب کو زندگی کا ترجمان بنائیں اور زندگی کے مسائل سے اس کا رشتہ جوڑنے میں اپنا تاریخی کردار ادا کریں۔ ویسے تو نعروں کی حد تک یہ سب نکات آپ کے منشور میں ہمیشہ شامل رہتے ہیں، مگر کاش اس منشور کا اسّی فی صد حصہ ہی سہی، پایہ ٔ تکمیل تک پہنچ جائے تو ادب کا بھلا ممکن ہے۔ وقت بڑا ظالم ہے، جو مسند آپ کو اختیارات سمیت مل گئی ہے، اُس سے انصاف برتیں اور شعروادب کی خدمت کے نعرے میں حقیقت کا وہ رنگ بھریں جو عہد ِ حاضر میں آپ کی سچی تکریم کا باعث بن سکے، ورنہ یاد رکھیں سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں کسی بھی دن کوئی بھی جانا اَن جانا فرد یہ سوال سب کے سامنے اٹھا سکتا ہے کہ ادبی مافیا کے ڈانوں کی حقیقت کیا ہے، اُن کے نام کیا کیا ہیں اور اُن کے کردار کیا ہیں؟ پھر یہ معاملہ ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘ تک نہیں رکے گا، بات چل نکلی تو ادب میں احتساب کی روایت بھی جنم لے گی اور ہاتھ گریبانوں تک بھی پہنچیں گے۔

حصہ