شریکِ مطالعہ

842

نعیم الرحمٰن
پاکستان میں سب سے زیادہ پبلشرز اور ادب کا مرکز تو بلاشبہ لاہور ہی ہے، لیکن کراچی نے ادبی جرائدکے اعتبار سے اختصاص حاصل کرلیا ہے۔ کراچی سے اردو کے بہت سے معیاری رسائل پابندی سے نکل رہے ہیں جن میں اجمل کمال کا ’’آج‘‘ سنچری مکمل کرچکا ہے۔ آصف فرخی کا ’’دنیا زاد‘‘ نصف سنچری کے قریب ہے۔ ترقی پسند ادب کے ترجمان ’’ارتقا‘‘ کے پچاس سے زیادہ شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ زین الدین احمد کا ’’روشنائی‘‘ کچھ عرصے سے نظر نہیں آرہا۔ ’’زیست‘‘ بھی ایک اچھا ادبی جریدہ ہے جس کے دس شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ مبین مرزا کا معیاری ادبی جریدہ ’’مکالمہ‘‘ اب ہر ماہ شائع ہورہا ہے اور ماہ نامہ ہونے کے بعد اس کا پہلا شان دار سال نامہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ ان ادبی جرائد کے ساتھ حجاب عباسی کے ’’ادبِ عالیہ‘‘ کے بھی تین شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ اقبال نظر نے شان دار ادبی مرقع ’’کولاژ‘‘ کے نام سے شروع کیا ہے جس کے اب تک چھ شمارے منظرعام پر آئے ہیں۔ دو مشترک شماروں کے بعد کولاژ 8 حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ شمارہ نمبر چھ اورسات ایک ساتھ شائع کرکے اقبال نظر پرچے کی اشاعت میں باقاعدگی بھی لے آئے ہیں۔
کولاژ ایک بے مثال ادبی پرچہ ہے جس میں مضامین، خاکے، افسانے، ناول، سفرنامہ، تحقیق اور شاعری میں حمد و نعت کے ساتھ نظم وغزل سمیت ہر صنفِ ادب شامل کی جاتی ہے۔ پرچے کا پانچواں شمارہ ’’گلزار نمبر‘‘ تھا جس کے بے مثال ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جہلم بک کارنر نے اسے کتابی شکل میں ’’گلزارنامہ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ یہ نمبر گلزار کے پرستاروں اور ان کے فن، شخصیت، شاعری اور دیگر حوالوں پر کام کرنے والوں کے لیے ہمیشہ مشعل ِ راہ رہے گا۔
کولاژ کے ہر شمارے میں اقبال نظرکی تاثراتی تحریر ’’درویش نامہ‘‘ کے نام سے شائع کی جاتی ہے جسے پرچے کا اختصاص قرار دیا جا سکتا ہے۔ اِس بار درویش نامہ کے بجائے تحریر اداریہ کے طور پر شامل کی گئی ہے، جس میں اقبال نظر نے پاکستان میں موجود تضادات کی نشاندہی کس کمال سے کی ہے اس کی جھلک اس اقتباس میں دیکھی جاسکتی ہے:
’’خردکی قید سے آزاد ہوجاتا ہے جب کوئی، اسے دیوانہ کہتے ہو، وہ دیوانہ نہیں ہوتا… وہ بڑا عجیب ملک تھا کیونکہ اس میں بہت سارے ملک آباد تھے۔ بڑے شہروں سے جب کوئی گاؤں جاتا تو فخریہ کہتا: میں اپنے ملک جارہا ہوں۔ اس ملک کے رہنے والے بھی عجیب تھے، حد درجہ خوددار اور انتہائی بے غیرت۔ متمدن آبادیوں کے افراد سے کہیں زیادہ مہذب اور عقیدے کی طرح جنگل کے قوانین کے پاسدار، محنت کا پسینہ بن کر بہہ جانے والے اور بے کاری سے کبھی فرصت نہ پانے والے۔ طامع اور قانع، شوریدہ مزاج اورسبک سر… بے شمار صرف ایک وقت کی روٹی کھاکر شکر ادا کرنے والے، اور ان گنت گھوڑوں کو گلوکوز پلا کر ناشکری کرنے والے… سجدے سے کبھی سر نہ اٹھانے والے، اور سرکوکبھی خم نہ کرنے والے، بے آب بادلوں کو پیاسی نگاہوں سے تکنے والے اور سرِ شام بلاناغہ پینے والے… لاکھوں کفن باندھے جہاد کے جذبے سے سرشار، اور ہزاروں نمازیوں پر فائرنگ کرنے والے… ہرطرف اتنا تضاد تھا کہ سوچ کر متلی ہونے لگی۔‘‘
یہ ایک چشم کشا تحریر ہے، کاش ہمارے ملک کے لوگ ایسی تحریروں سے کچھ سبق سیکھ پائیں۔ لیکن یہاں پڑھتا ہی کون ہے! پڑھنے والوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیوں پڑھتے ہو، اس سے کیا ملتا ہے؟
سلیم کوثرکا شمار ہمارے دور کے اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی حمد و نعت دونوں ہی بے مثال ہیں جن کا ایک ایک شعر:

پانی بھرے اَبر کے ٹکڑوں میں وہی ہے
بارش کے برستے ہوئے قطروں میں وہی ہے

اور

آپ کا سوچنا عبادت ہے اور لکھنا بڑی سعادت ہے
میں محمد سلیم کوثر ہوں اسمِ سرکار، مُہر نسبت ہے

اس کے بعد مضامین کا حصہ ہے جس میں سلیم اختر کا ’’کلچر کلچر‘‘ اپنی نوعیت کا منفرد مضمون ہے، جس میں سلیم اختر صاحب نے پاکستانی کلچر کا جائزہ لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’ذرا ژرف نگاہی سے جائزہ لیں تو پاکستانی کلچر میں کوئی ایسی چیز بھی نظر آتی ہے جسے پاکستانی قرار دیا جاسکے! دراصل ہم جسے پاکستانی کلچر کہتے ہیں وہ امریکی کلچر کی بھونڈی پیروڈی ہے۔‘‘ مصنف سے اختلاف کے باوجود بھی تحریر دلچسپ ہے جس میں کلچرکے حوالے سے کئی نئے پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔
جمال پانی پتی نے منفرد غزل گو مرحوم اطہر نفیس کی یادیں تازہ کی ہیں جس میں انہوں نے اطہر نفیس کے بہت سے دوستوں کا کیا خوب ذکر کیا ہے۔ ’’ذرا سلیم احمد کے دل سے پوچھو، اُن پر کیا قیامت ٹوٹی ہے۔ قاسمی صاحب کو دیکھو، اُن کا کیا کچھ لُٹ گیا۔ ساقی فاروقی! تُو اب لندن میں کس دیوار سے سر ٹکرائے گا؟‘‘ آخر میں لکھتے ہیں ’’اطہر تم نے مجھے ویران کیا، سو کیا۔ مگر میرے بچوں کا کیا قصور تھا، انہیں تو تم بہت چاہتے تھے۔ اب منیژہ اور رضوان مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھتے ہیں۔ انہیں کیا جواب دوں؟‘‘ یہ یاد نگاری پر مبنی بہت عمدہ مضمون ہے۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے ’’تاریخ نگری کا مسافر، مختار مسعود‘‘ کو موضوع بنایا ہے۔ زیبا علوی نے ’’یادگار شاموں کی ایک شام‘‘ پر دلچسپ مضمون تحریر کیا ہے جس میں چالیس برس قبل بھارت کی ایک ادبی شام کو عمدگی سے قارئین کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ بھارتی افسانہ نگار جتیندر بلو نے ساقی فاروقی کے بارے میں ’’ایک شاعر کا المیہ‘‘ کے نام سے عمدہ مضمون لکھا ہے۔ انہوں نے اس مختصر مضمون میں ساقی کی شاعری، نثر نگاری اور شخصیت کا ذکر کیا ہے جس میں ساقی فاروقی کی تیس، پینتیس برس قبل خودکشی کی کوشش کا بھی ذکر ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے ’’درویشوں کا ڈیرہ‘‘ میں اقبال نظر کو منفرد انداز سے خراجِ تحسین پیش کیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ کینیڈا میں ہمیں اقبال نظر کی موجودگی کا احساس اس کے ادبی رسالے ’’کولاژ‘‘ سے ہوتا ہے۔ اس رسالے میں غزلوں، نظموں، افسانوں، مقالوں اور ادبی محبت ناموں کی ایک قوس ِقزح پھیلی ہوتی ہے۔ عرفان جاوید نے پہلے افسانہ نگاری اور پھر خاکہ نگاری میں خوب نام بنایا۔ انہوں نے امجد اسلام امجد کی شاعری پر ’’چاند کے شہر‘‘ کے نام سے مضمون لکھا ہے۔ عرفان جاوید کا نام اب اچھی تحریر کی ضمانت بن گیا ہے۔ امجد اسلام امجد کی شاعری کا بیان اور وہ بھی عرفان جاوید کے قلم سے دوآتشہ ہوگیا۔
ڈاکٹرصفیہ عباد نے رشید امجدکے نئے افسانوی مجموعے ’’دکھ ایک چڑیا ہے‘‘ کا مطالعہ اور تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس طویل مضمون سے ہم جیسے نوواردان کے لیے بھی رشید امجد کے فن کی تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں مقیم اقبال نظرکے بھائی جاوید نظر نے جنید جمشید مرحوم کی آسٹریلیا سے متعلق یادوں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر مزید لکھنے کا بھی وعدہ کیا ہے جس کا انتظار رہے گا۔
غزلوں کے پہلے حصے میں 9 شعرا کا کلام پیش کیا گیا ہے جس میں مینا کماری کی غزلیں کولاژ کے قارئین کے لیے تحفۂ خاص ہیں۔ کچھ اشعار دل میں اترجاتے ہیں۔ غزلوں کے دوسرے حصے میں 10 شعرا کی غزلیں شامل ہیں جن میں پیرزادہ قاسم اور سلیم کوثر کی غزلیں بہت عمدہ ہیں۔ نظموں میں مجروح سلطان پوری، گلزار، پیرزادہ قاسم اور نصیر احمد ناصر کی نظمیں لاجواب ہیں۔
گلزار کے ناول’’دو لوگ‘‘ کا پہلا باب، اور طاہرہ اقبال کے ’’چوہا پاک‘‘ کا دوسرا حصہ بھی کولاژ کے موجودہ شمارے میں شامل ہیں۔ گلزار صاحبِِ طرز افسانہ نگار اورکہانی نویس ہیں۔ ان کے ناول کا انتظار ہے۔ طاہرہ اقبال نے اپنے افسانوں اور پھر ناول ’’نیلی بار‘‘ سے قاری کے دل میں گھر کرلیا ہے۔ ان کا نیا ناول بھی شان دار ہے۔
افسانوی حصہ تقریباً 80 صفحات پر مشتمل ہے۔ رشید امجد اور سمیع آہوجا تو اپنی مثال آپ ہیں۔ جاوید صدیقی ’’چاہنے والے‘‘ لے کر آئے ہیں، اور فلموں کی کہانیوں اور شخصی خاکوں کے بعد اس میں بھی اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہیں۔ جتیندر بلو کا ’’عشق کی راہ میں‘‘، سید راشد اشرف کا ’’1972‘‘ اور عرفان جاوید کا افسانہ ’’سیلیبریشن‘‘ اچھے افسانے ہیں۔
مسعود مفتی کا رپورتاژ ’’پتھر میں پھول‘‘ ایک عمدہ تحریر ہے۔ مسعود مفتی مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے پر شان دار رپورتاژ اور افسانے تحریر کرچکے ہیں۔ ان کی ہر تحریر متاثرکن ہوتی ہے۔
پرچے کے آخری حصے میں تین طویل افسانے ہیں جن میں اسد واحدی کا ’’بندرکا تماشا‘‘، اخلاق احمد کا ’’ایک کہانی کا بوجھ‘‘ اور مشرف عالم ذوقی کا ’’پیرامڈ‘‘ تینوں بہترین افسانے ہیں۔ مجموعی طور پر کولاژ کا تازہ شمارہ بہتری کی جانب رواں دواں ہونے کا تاثر دیتا ہے۔ اس کا ہر شمارہ خوب سے خوب تر ہوتا جا رہا ہے۔ پانچویں شمارے ’’گلزار نامہ‘‘ کا تاثر ابھی تک قائم ہے۔ امید ہے آئندہ بھی کولاژ کے ایسے خاص نمبر ضرور منظرعام پر آئیں گے۔
٭٭٭
اقبال نظر کے افسانوں کا مجموعہ ’’کہانیاں محبت والیاں‘‘ بھی حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ 175 صفحات کے اس مجموعے میں 20 طویل و مختصر افسانے شامل ہیں۔ محبت کے موضوع پر اردو کے مایہ ناز افسانہ نگار اوردانش ور اشفاق احمدکا افسانوی مجموعہ ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ کے نام سے بھرپور داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ اشفاق احمد نے اسی نام سے ٹی وی ڈراما سیریل بھی تحریرکی جو بہت مقبول ہوئی۔ اشفاق احمد نے محبت کے مختلف روپ اور شیڈز پیش کیے، کیونکہ محبت صرف عورت اور مرد کی نہیں ہوتی۔ اولاد، بہن بھائی، ماں باپ، دادا پوتا… غرض محبت کے سو روپ ہیں۔ منفرد افسانہ نگار سید رفیق حسین نے اپنے افسانے ’’کلوا‘‘ اور دیگر افسانوں میں جانوروں کی انوکھی محبت پیش کی ہے۔
اقبال نظر کے افسانوی مجموعہ کا نام ’’کہانیاں محبت والیاں‘‘ ہی اس کے منفرد موضوع کا آئینہ دار ہے جس میں دورِِِ جدیدکی محبتوں کے نئے اور انوکھے انداز کو بیان کیا گیا ہے اور کیا خوب بیان ہے جس کے بارے میں اردو کے مایہ ناز افسانہ نگار، شاعر، کہانی نویس، ہدایت کار، فلم ساز اور دانش ور گلزار کہتے ہیں کہ ’’یہ وہ کہانیاں ہیں جو پتنگوں کی طرح آپ کے اردگرد منڈلاتی رہی ہیں جنہیں ہم ہاتھ جھلا کر اور کبھی ہتھ پنکھی سے اُڑا دیتے ہیں، غور نہیں کرتے کہ وہ کس محبت سے آپ کے پاس آئی ہیں۔ اقبال نظرکے ہاں محبت کئی پہلوؤں سے کٹا ہوا ہیرا ہے۔ ہر پہلو سورج سے الگ الگ روشنی لیتا ہے اور الگ رنگ دکھاتا ہے۔ لفظ محبت سن کرعموماً عاشق معشوق اور محبوبہ ہی کا خیال آتا ہے لیکن اقبال کے ہاں جب یہ لفظ کروٹیں لیتا ہے توکئی زمینیں کھلتی چلی جاتی ہیں، مثلاً کہانی ’’مدرز ڈے‘‘۔
اقبال کے جملوں میں معنی سے زیادہ کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ کلچر کی خوشبو بسی رہتی ہے، ورنہ ایسے جملے روز مرہ کی کہانی میں کم ہی سنائی دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اقبال نظرکو سانس لیتی زندگی کے ہر پہلو سے محبت ہے۔ ذِکر ہو محبت کا اور بیاں…اُس کا!‘‘
مجموعے کا پہلا افسانہ ’’تینوں‘‘ نسبتاً زیادہ طویل ہے۔ افسانہ ’’آبیاری‘‘ میں منفرد موضوع اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس میں بہت سی کہی اَن کہی ہی چھوڑ دی۔ افسانے میں ایک لڑکی کے جذبات کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ شادی کے بعد کسی لڑکی پر شوہر کی عدم توجہ سے کیا گزرتی ہے، اسے بہت خوبی سے پیش کیا گیا ہے۔
مجموعے کا سب سے خوب صورت افسانہ ’’مدرز ڈے‘‘ ہے جس کے بارے میں گلزار نے کیاخوب کہا ہے کہ’’ نوعمری میں ہمیشہ سناکرتے تھے۔محبت کی نہیں جاتی،محبت ہوجاتی ہے لیکن یہ محبت ماں کی نہ ہوجاتی ہے نہ کی جاتی ہے۔ بس ہو جاتی ہے۔‘‘ بیٹے کے تعلق کو کمال خوب صورتی سے افسانے میں بیان کیا گیا ہے، خصوصاً آخری پیرا ’’لے میرے ہاتھ سے کھا‘‘ ماں نے میٹھے کا مامتا بھرا چمچہ میرے منہ میں ڈال دیا اور عمر کے ساتھ ساتھ بڑھنے والی اندرکی ساری کڑواہٹ مٹھاس میں بدل گئی۔ میں نے غور سے ماں کی طرف دیکھا اور دستر خوان پر رکھا ہوا میٹھے کا باؤل اٹھاکر جلدی جلدی یوں پینے لگا جیسے کوئی شیر خوار بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے۔ ماں کی مامتا اپنے بچے کے لیے ہمیشہ شیرخوار جیسی ہی رہتی ہے چاہے بچہ بوڑھا ہوجائے۔
’’کوچۂ کارِ دل‘‘ میں نئے زمانے کی محبت اور اس میں شوہر اور بیوی کے ایک دوسرے سے فریب کو بین السطور پیش کیا گیا ہے۔ افسانہ ’’بلیو بیری‘‘ بھی آج کی انسٹنٹ محبت پر مبنی ہے۔ دیگر افسانوں میں ’’کمینہ‘‘،’’بے حیا‘‘، ’’نروس بریک ڈاؤن‘‘ اور ’’کتا‘‘ بھی موضوع، اسلوب اور طرزِ بیان کے اعتبار سے بہترین افسانوں میں شمارکیے جائیں گے۔ بقول گلزار: مصنف کے جملوں میں معنی سے زیادہ کیفیت محسوس ہوتی ہے، کلچر کی خوشبو بسی رہتی ہے، ورنہ ایسے جملے روزمرہ کی کہانی میں کم ہی سنائی دیتے ہیں:
’’اب بہن بھائیوں کی عمریں بڑھ رہی تھیں اور ماں کی عمرکم ہورہی تھی، اس پرآٹھ بچوں والے بڑے گھرکی ذمے داری!‘‘
’’ہم غروب ِ آفتاب کھاکر اورآئس کریم دیکھ کر ٹھنڈے ٹھنڈے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے۔‘‘
’’وہ یک لخت مجھ سے یوں کٹ جاتی جیسے اُڑانے والے کے ہاتھ سے ست رنگی پتنگ۔‘‘
’’وہ شام غروبِ آفتاب کے ساتھ ساتھ میرے اندر نشیلی رات کا پورا چاند طلوع کررہی تھی۔‘‘
’’وہ اب، زندگی سے مر مٹنے والی محبت میں گرفتار ہوچکا تھا۔ لوگ عمر پوچھتے تو مسکرا کر جواب دیتا ’’سولہ سال!‘‘ سوال کرنے والا حیران ہوتا تو برجستگی سے کہتا ’’باقی تجربہ ہے!‘‘
ایسے بہت سے جملے ’’کہانیاں محبت والیاں‘‘ میں ہر صفحے پر بکھرے ہوئے ہیں۔ اقبال نظرکے بارے میں آخر میں یہی کہہ سکتا ہوں
’’اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘

حصہ