ریاض ندیم نیازی کے شعری مجموعے ’’یادوں کے بھنور‘‘ کی تعارفی تقریب

738

ڈاکٹر نثار احمد نثار
گزشتہ دنوں اکادمی ادبیات پاکستان لاہور میں سیوا آرٹس سوسائٹی کے زیراہتمام ممتاز شاعر ریاض ندیم نیازی کے شعری مجموعے ’’یادوں کے بھنور‘‘ کی تعارف تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت معروف شاعر نذیر قیصر نے کی۔ ممتاز شاعر و ماہر تعلیم ڈاکٹر نثار ترابی مہمان خصوصی اور اقبال راہی مہمان اعزازی تھے۔ حافظ محمد ولید آصف نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ ریاض احمد ندیم کی لکھی ہوئی حمد ذیشان قادری نے پیش کی جب کہ ریاض آسی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ سیوا سوسائٹی کے روح رواں اور تقریب کے میزبان عرفان صادق نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری سوسائٹی قلم کارون کی حوصلہ افزائی کے لیے مصروف عمل ہے آج کی تقریب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ریاض احمد نیازی ایک معروف شاعر‘ نعت گو اور صحافی ہیں ان کی شاعرانہ خصوصیات میں یہ شامل ہے کہ ان کا کلام زندگی کے مختلف موضوعات کا محور ہے۔ انہوں نے زندگی کے بہت سے اہم مسائل اٹھائے ہیں جن کے اظہار سے معاشرتی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں یہ ایک کھرے انسان ہیں۔ انہوں نے اصولوں کی تجارت نہیں بلکہ ہمیشہ سچائیاں لکھی ہیں۔ دیگر مقررین میں پروفیسر تسنیم کوثر‘ پروفیسر ڈاکٹر عابدہ‘ پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ بشیر‘ دلشاد نسیم‘ پروفیسر دانش عزیز‘ حکیم سلیم اختر ملک‘ منزہ سحر‘ خالد محمود آشفتہ شامل تھے۔ ڈاکٹر نثار ترابی نے کہا کہ ریاض ندیم نیازی کا شمار ان تازہ فکر شعرا میں ہوتا ہے جو غزل گو کی حیثیت سے بھی ملکی سطح پر جانے اور مانے جاتے ہیں۔ یادوں کے بھنور میں شامل شعری تخلیقات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس شعری مجموعے میں غم جاناں اور غم دوراں کے جملہ معاملات آہ اور واہ اپنی متنوع کیفیات میں ڈھلتے ہیں۔ ریاض ندیم نیازی محبت کے اس فلسفے پر یقین رکھتے ہیں جب تک دل پر چوٹ نہ لگے غزل نہ کہی جائے۔ ان کی شاعری سہل ممتنع اور مشکل بحروں میں بھی نظر آتی ہے ان کے استعارے زندگی سے مستعار ہیں انہیں لفظوں کی نشست و برخواست کا فن آتا ہے۔ صدر تقریب نے کہا کہ ریاض احمد ندیم نیازی کا یہ دوسرا شعری مجموعہ ہے جب کہ ان کا نعتیہ کلام بھی منصۂ شہود پر آچکا ہے ان کی شاعری فنی و ذہنی ارتقا کی مظہر ہے ان کے اشعار دلوں میں اتر جاتے ہیں ان کے کلام میں بہت سے ایسے اشعار موجود ہیں جو حالتِ سفر میں رہیں گے اور ان کی عزت و شہرت کا باعث بنیں گے۔ ان کی شعر گوئی میں شعری محاسن کے علاوہ جدید لفظیات و خوب صورت استعارے نظر آتے ہیں انہوں نے معاشرے کے عروج و زوال دیکھے ہیں یہ سارے تجربات ان کی شاعری کا محور ہیں یہ آپ بیتی بھی لکھ رہے ہیں اور دکھی انسانیت کی نوحہ گری بھی کر رہے ہیں۔ صاحبِ اعزاز ریاض ندیم نیازی نے اپنی غزلیں سنا کر خوب داد وصول کی اس موقع پر انہوں نے اکادمی ادبیات اور منتظمین تقریب کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے ان کی لیے یہ یادگار محفل سجائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ معاشرے کا بغور جائزہ لیتے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ ان کی شاعری میں معاشرتی ناہمواریوں کا ذکر آئے وہ اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو معاشرتی سدھار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ راقم الحروف ان کی غزلوں سے چند منتخب اشعار قارئین کے لیے پیش کر رہا ہے۔

ایک دریا سے اُمڈ آتا ہے آنکھوں میں ندیمؔ
دیکھ لیتا ہوں جو روتے ہوئے بچہ کوئی
٭
رہِ حیات میں جینے کا فن سکھاتے ہیں
غموں کو دل میں محبت سے پال کر رکھنا
غریبِ شہر کا ہر دن مشقت میں گزرتا ہے
جدھر دیکھو ادھر سرداریاں آرام کرتی ہیں
مریضوں کو امیدِ سازگاری ہو بھلا کیسے
دوا خانوں میں جب بیماریاں آرام کرتی ہیں
٭
جو ہے میری پہچان وہ ہے حسنِ صداقت
جو ہے میری فطرت‘ مری عادت‘ وہ وفا ہے
٭
احباب ہی میں ہو گئی تقسیم سب زکوٰۃ
جو مستحق تھے ان کی ضرورت وہی رہی
٭
ہے نظم و غزل سے بھی ندیمؔ اپنا تعلق
لیکن میرا میدان فقط حمد و ثنا ہے

مشتاق احمدیوسفی بلاشبہ ایک عہد ساز ادیب ہیں‘ ان کی رحلت پر اہلِ ادب سوگوار ہے‘ جسارت سنڈے میگزین نے جلدی جلدی میں جو کچھ بن سکا آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ ان شاء اللہ اگلے شمارے میں مشتاق احمد یوسفی کی شخصیت اور فن کے بارے میں ہم بہت کچھ شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

حصہ